اوس و خزرج
اوسْ وَ خَزْرَج، یمنی اعراب کے دو اہم قبیلے تھے جو ظہور اسلام سے قبل شہر یثرب (مدینہ) میں ساکن تھے اور ہجرت کے بعد انہیں انصار کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ تاریخ اسلام خاص کر پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت اور آپ کی زندگی میں لڑی گئی مختلف جنگوں میں ان دو قبیلوں کا اہم کردار رہا ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ قرآن کی بعض آیتیں انصار کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
نسب
اوس و خزرج کا نسب یمن کے قبیلہ ازد تک پہنچتا ہے اور ہجرت کے ابتدائی صدیوں کے مورخین اور نسب شناسوں نے ان دو قبیلوں کے نسب کو بنومازن بن ازد تک منتسب کئے ہیں۔[1]
ان دو قبیلوں کا سردار عمروبن عامر تھا جو مُزَیقی کے نام سے مشہور تھا اور حارثہ بن ثعلبہ بن عمروبن عامر کے نسل سے تھا۔ ماں کی طرف سے ان دو قبیلوں کا نسب قیلہ بنت کاہل تک پہنچتا ہے جن کا تعلق قبیلہ بنی قضاعہ سے تھا۔[2] اسی لئے اوس و خرزج اپنے آپ کو بنی قیلہ کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔[3]
اوس و خزرج حارثہ بن ثعلبہ کے دو بیٹوں کا نام تھا، بعد میں ان دو قبیلوں کو بھی اسی نام سے یاد کئے جانے لگا۔[4] اوس اصل میں "اوس مناہ" کا مخفف ہے جو زمانہ جاہلیت کے ایک مشہور بت کے ساتھ ان کی نسبت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[5] خزرج لغت میں تیز ہوا یا نسیم جنوب کے معنی میں ہے۔[6]
اوس و خزرج کا یثرب میں قیام
اوس و خزرج یثرب میں اس وقت سے قیام پذیر تھے جس وقت قوم ازد جزیرہ نمائے عرب کے مختلف مناطق اور آس پاس کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ پرانے منابع میں مشہور قول کے مطابق یمن کے ازدیوں میں سے ایک گروہ نے سیلاب کی وجہ سے "مأرب" نامی ڈیم کے متاثر ہونے کے بعد یثرب کی طرف ہجرت کی[7] لیکن اس مہاجرت کے اصلی اسباب کیا تھے اور یہ مہاجرت کب واقع ہوئی؟ اس حوالے سے معاصر محققین میں اتفاق رائ نہیں پایا جاتا۔[8] بعض احادیث سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ اوس و خزرج مذکورہ ڈیم کے متأثر ہونے سے پہلے یثرب کی طرف مہاجرت کئے تھے۔[9]
محققین کہتے ہیں کہ یمن سے ازدیوں کی ہجرت ایک دفعہ واقع نہیں ہوئی تھی۔[10] بلکہ اس کے بعد بھی مختلف گروہوں نے جزیرہ نمائے العرب اور اس کے قرب و جوار کی طرف ہجرت کی یہاں تک کہ شام کے نزدیک غسانی اور موجودہ عراق کے بعض علاقوں میں آل منذر یا لخمیان کے نام سے حکومتیں تشکیل دی جو اس وقت کی دو سپر پاور یعنی ایران اور روم کے ماتحت تھے۔
زادہ تر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ مذکورہ حکومتوں کے قیام کے بعد ازدی اقوام من جملہ اوس و خزرج کی دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت میں شدت آگئی تھی۔ بعض محققین کے مطابق شاید اوس و خزرج نے دوسرے قبیلوں کی نسبت آخر میں اور تقریبا چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں ہجرت کی تھیں۔[11] ان دو قبیلوں نے یثرب کو اپنی اقامتگاہ کے طور پر انتخاب کئے جو کھیتی باڑی کے لحاظ سے زیادہ موزوں تصور کیا جاتا تھا۔
جس زمانے میں اوس و خزرج یثرب پہنچنے اور وہیں پر مستقر ہوئے وہاں پہلے سے کچھ یہودی آباد تھے اور سیاسی اور اقتصادی حوالے سے شہر کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں تھا۔[12]
یہودیوں کے ساتھ روابط
اوس و خزرج اور یہودیوں کے مابین ابتداء میں باہمی مفاہمت خاص کر کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مبنی روابط برقرار تھے لیکن رفتہ رفتہ مہاجرین کی کثرت کی وجہ سے شہر کا کنٹرول یہودیوں کے ہاتھ سے جانے لگے۔ ممکن ہے اسی دور سے ان کے درمیان مختلف گروہیں ایجاد ہو گئے ہوں جو آخر کار ان دو قبیلوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کی نوبت آگئی ہو۔
یثرب پر اوس و خزرج کے مسلط ہونے کے بعد رفتہ رفتہ یہ شہر بھی غسانی اور لخمی حکومتوں کے ماتحت آگیا۔ جب کہ اس سے پہلے یہودی ساسانی حکومت کے ماتحت تھے اور ان کو خراج اور مالیات دیا کرتے تھے اور درواقع یہودیوں کو یثرب کی حکمرانی ساسانیوں کے مرہون منت ملی تھی۔[13]
ایک اور حدیث کے مطابق اوس و خزرج جب یہودی گورنر کے ظلم و زیادتیوں سے تنگ آگئے تو انہوں نے غسانیوں سے مدد طلب کئے۔ اس پر بنی غسان سے مالک بن عجلان ان کی مدد کیلئے آئے اس کے بعد سے یثرب پر اوس و خزرج کی حکمرانی شروع ہو گئی۔[14]
بہر حال بنا بر دلائلی اوس و خزرج نے اپنے آپ کو غسانیوں - جو ان کے مانند قبیلہ ازد سے تھے - کے نزدیک کیا۔[15] اگر اس بات کو قبول کر لیں کہ چھٹی صدی عیسوی کے اواسط تک - چنانچہ بعض محققین نے یہ گمان کئے ہیں[16] - ساسانی حکومت کے کارندے یہودیوں کے توسط سے یثرب پر مسلط تھے، تو یہ بات بعید نہیں ہے کہ اوس و خزرج کے یثرب آنے کے بعد غسانیوں کیلئے وہاں تسلط پیدا کرنے کے امکانات فراہم ہو گئے ہو اور اس بات کی بعض احادیث بھی تائید کرتی ہیں۔[17]
اوس و خزرج کے باہمی تعلقات
جس وقت یثرب پر اوس و خزرج کا تسلط تھا وہاں کے انتظامی امور کو کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں جس کی بنیادی دلیل بھی شاید یہ ہو کہ ان دو قبیلوں کے آپس میں ایسی اختلاف اور جنگ و خون ریزی شروع ہو گئی جو سالوں سال جاری رہی اور اس بات میں کوئی شیک نہیں کہ اختلاف کے اس آگ کو بڑکانے میں یہودیوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔[18]
چونکہ ان دو قبیلوں کی قدرت تقریباً مساوی تھی اسی بنا پر ان میں سے ہر ایک مختلف قبائل کے ساتھ مختلف قراردادوں کے ذریعے ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ اس حوالے سے قبیلہ اوس نے بنی قریظہ جبکہ خزرجیوں نے بنی نضیر[19] کے ساتھ عہد و پیمان باندھے تھے۔
اوس و خزرج کے درمیان پیدا ہونے والے اس کشمکش کی وجہ سے ان دو قبیلوں کے مختلف گروہوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ اور خون ریزی شروع ہو گئی جس کا تذکرہ ایام العرب زمانہ جاہلیت، میں ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے مخصوص نام کا ذکر ملتا ہے لیکن ان واقعات سے مربوط روایات مختلف افسانوں سے مخلوط ہیں۔[20]
اوس و خزرج کے درمیان لڑی گئی پہلی جنگ "حرب سُمیر"، میں کامیابی اوس کو ملی لیکن بعد کے جنگوں میں سے اکثر میں خزرجیوں کو برتری حاصل رہی ہے۔[21]
اسی سلسلے کی آخری جنگ "حرب بُعاث" جو پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت سے کچھ مدت پہلے واقع ہوئی تھی، قبیلہ اوس اپنے رقیب پر برتری حاصل کرنے کیلئے مکہ آئے اور قریش کے ساتھ عہد و پیمان باندھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن قریش کی جانب سے انہیں کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا تھا۔ انہی ایام میں ان کے بعض افراد کا پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔[22]
ظاہری طور پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ خزرج عبداللہ بن اُبَی ابن سلول - جو بعد میں منافقین میں سے شمار ہوا[23] - کے سر فرمانروائی کا سہرا رکھنا چاہتے تھے۔[24]
اسلام قبول کرنے کے بعد
پیغمبر اکرمؐ کی یثرب ہجرت کے بعد اوس و خزرج نے اسلام قبول کر لیا یوں اسے کے بعد انہیں "انصار" کے لقب سے یاد کیا جانے لگا اور اسی پر وہ فخر بھی کرتے تھے۔[25] لیکن اس کے باوجود بھی بعض مواقع پر ان دو قبیلوں کی پرانی دشمنی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل لے آتے چنانچہ بیعت عقبہ میں پبغمبر اکرمؐ کی بیعت میں پہل کرنے کیلئے ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور اسی پر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنے بیٹھ گئے۔
ان کے درمیان اس طرح کی اختلافات اسلام لانے کے بعد بھی مختلف مواقع پر نمایاں ہوئی ہیں۔[26] البتہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی اکثریت خزرجیوں کی تھی چنانچہ صدر اسلام میں پیغمبر اکرمؐ جن 12 نقیبوں کو انتخاب کیا تھا ان میں صرف 3 افراد قبیلہ اوس کے تھے باقی سب کے سب قبیلہ خزرج کے تھے۔[27] اسی طرح جنگ بدر میں بھی خزرجیوں کی تعداد اوس سے زیادہ تھی۔[28]
جنگ مریسیع اور بنی قریظہ نیز افک کے معاملے میں بھی ان کے آپس میں اختلاف پیدا ہوگئے لیکن پیغمبر اکرمؐ نے اختلاف کے اس آگ کو بھڑکنے سے روکا۔[29] آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد سقیفہ میں ابوبکر اور ان کے حامیوں نے اوس و خزرج کے باہمی رقابت اور اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابوبکر کو بعنوان خلیفہ انتخاب کیا۔[30]
اوس و خزرج میں سے ہر ایک کے 5 بطن تھے۔[31] ہر بطن کئی خاندانوں اور گروہوں پر مشتمل تھا یہاں تک کہ اعراب کے دوسرے قبائل کے علاوہ خود یہ لوگ 60 سے زیادہ مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔[32]
اعزاز
اوس و خزرج جنگ اور دلیری میں شہرت[33] رکھنے کے علاوہ شعر و شاعری میں بھی یہ لوگ کسی سے کم نہیں تھے اسی بنا پر ان کے اندر بڑے بڑے شعراء بھی موجود تھے۔ قبیلہ اوس سے قیس بن خَطیم، جو "اوس کی زبان" سے مشہور تھے اور ابوقیس ابن اسلت مشہور شعراء گزرے ہیں۔[34] اور خزرجیوں میں سے حسان بن ثابت - جو پیغمبر اکرمؐ کی شان میں مدح و سرائی میں مشہور تھے - اور کعب بن مالک قابل ذکر ہیں۔[35] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کے بعض نامی گرامی اصحاب بھی انہی دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے جس کی بنا پر ان دو قبیلوں کے لوگ بعد میں انہی اعزازات پر ایک دوسرے سے فخر و مباحات کرتے تھے۔ اوس کے اندر حنظلہ غسیل الملائکہ، عاصم بن ثابت، سعد بن معاذ اور خزرج کے سعد بن عبادہ، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، اُبَیّ بن کعب[36] کو آپ کے اصحاب میں نمایاں مقام حاصل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتیں خاص کر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 جو مؤمنین کو وحدت کی دعوت اور اختلاف سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اوس و خزرج کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔[37]
پرانے زمانے کے مؤلفین اور مورخین میں ابوعبیدہ معمر بن مثنی، واقدی (207ھ) اور علاّن شعوبی (اواخر 2ھ) نے اوس و خزرج ان کے انساب، جنگوں اور ضرب الامثال وغیرہ کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔[38]
حوالہ جات
- ↑ مثلاً نک: کلبی، جمہرہ...، ص۶۲۱؛ خلیفہ، الطبقات، ج۱، ص۱۷۵؛ یعقوبی، تاریخ، ج۱، ص۲۰۲.
- ↑ نک: کلبی، ہمانجا، نسب...، ج۱، صص۳۶۳-۳۶۴؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۰۹؛ ابن حزم، جمہرہ انساب العرب، ص۳۳۱
- ↑ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۴، ص۱۳۳.
- ↑ ابنحزم، انساب العرب، ۱۴۰۳، ص۳۳۲.
- ↑ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۴، ص۱۳۵؛ دربارہ اعتقاد خاص اوس و خزرج بہ این بُت، نک: کلبی، الاصنام، صص۱۳-۱۴، ۲۷
- ↑ ابن منظور،لسان، ذیل خزرج
- ↑ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ج۷، صص۶۲ -۶۳؛ یعقوبی، تاریخ، ج۱، ص۲۰۳.
- ↑ مثلاً نک: مہران، تاریخ العرب القدیم، صص۴۵۵- ۴۵۸؛ شریف، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، صص۳۱۳-۳۱۶؛ ولفنسون، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، ص۶۳
- ↑ ولفنسون، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، ص۵۲
- ↑ شریف، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، ص۳۱۵
- ↑ شریف، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، ص۳۱۴-۳۱۶
- ↑ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ج۷، ص۶۲؛ نیز نک: بلاذری، فتوح البلدان، ص۱۷
- ↑ ابن رستہ، الاعلاق النفیسہ، ج۷، ص۶۴.
- ↑ نک: سمہودی، وفاء الوفاء، ج۱، صص۱۷۸ بب؛ قس: مہران، تاریخ العرب القدیم، صص۴۶۲-۴۶۴
- ↑ برای تفصیل، نک: علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۳، ص۳۹۱.
- ↑ نک: کستر، ۱۱-۱۴؛ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۴، صص۱۲۹-۱۳۰.
- ↑ نک: ابن حبیب، «اسماء المغتالین»، صص۱۳۶- ۱۳۷؛ نیز نک: علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۲، ص۵۷۸، ج۴، ص۱۳۴؛ ولفنسون، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، صص۵۹ -۶۱
- ↑ مہران، تاریخ العرب القدیم، ص۴۸۱؛ وکیل، ص۷۵
- ↑ مہران، تاریخ العرب القدیم، ص۴۸۱؛ وکیل، ص۷۵
- ↑ نک: ہ د، ایامالعرب؛ نیز مہران، تاریخ العرب القدیم، ص۴۸۰
- ↑ ابن اثیر، ج۱، صص۶۵۸ - ۶۵۹، نیز برای جنگہای دیگر، نک: ج۱، صص۶۶۰ بب.
- ↑ ابن حبیب، المنمق، ۲۶۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۳۸؛ ابن اثیر، ج۱، صص۶۸۰ -۶۸۱؛ نیز نک: ولفنسون، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، ص۶۸.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۷۴.
- ↑ ابن سعید، نشوہ الطرب، ج۱، ص۱۹۰؛ نیز نک: ولفنسون، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، ص۷۰
- ↑ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۴، صص۱۴۰-۱۴۱؛ برای تفصیل، نک: ہ د، انصار
- ↑ نک: ابن سعد، الطبقات الکبری، ۴ (۱) /۴؛ ابن قدامہ، التبیین فی انساب القرشیین، ص۴۹۹.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۵۲؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۶۳.
- ↑ ابن اسحاق، سیرہ، ص۲۸۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۹۰.
- ↑ واقدی، المغازی، ج۲، صص۴۱۵، ۴۳۱، ۵۱۵؛ نیز نک: ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱ (۲) /۴۶؛ طبری، ہمان، ج۲، ص۶۱۴؛ احمد بن حنبل، ج۶، صص۵۹، ۱۹۶
- ↑ طبری، ہمان، ج۳، صص۲۲۱-۲۲۲؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۳۰۴.
- ↑ نک: شریف، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، صص۳۱۰- ۳۱۱ ببعد.
- ↑ شریف، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، ص۳۰۹.
- ↑ ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج۲، صص۱۹۲-۱۹۳؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص۱۷.
- ↑ علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۱، ص۴۷۵؛ ابوالفرج، الاغانی، ج۲، صص۱۵۹ بب، ج۱۵، صص۱۶۰ بب.
- ↑ ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج۲، ص۵۱۲ بب، ج۲، صص۵۲۳ بب؛ نیز نک: علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۹، ص۶۵۴.
- ↑ ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج۳، ص۳۳۱؛ نیز نک: علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۴، ص۱۳۷.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، ج۲، صص۵۴۵ -۵۴۶؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج۴، ص۱۵۵؛ نیز نک: طبری، تفسیر، ج۴، ص۱۷.
- ↑ نک: ابن ندیم،الفہرست، صص۶۰، ۱۱۱، ۱۱۸.
مآخذ
- ابن اثیر، الکامل.
- ابن اسحاق، محمد، سیرہ، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قونیہ، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- ابن حبیب، محمد، «اسماء المغتالین»، ضمن نوادر المخطوطات، بہ کوشش محمد عبدالسلام ہارون، قاہرہ، ۱۳۷۳ق/۱۹۵۴م.
- ہمو، المنمق، بہ کوشش خورشید احمد فارق، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
- ابن حزم، علی، جمہرہ انساب العرب، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
- ابن درید، محمد، الاشتقاق، بہ کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۷۸ق/۱۹۵۸م.
- ابن رستہ، احمد، الاعلاق النفیسہ، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۹۱م.
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، لیدن، ۱۳۲۲ق.
- ابن سعید مغربی، علی، نشوہ الطرب، بہ کوشش نصرت عبدالرحمان، عمان، ۱۹۸۲م.
- ابن عبدربہ، احمد، العقد الفرید، بہ کوشش احمد امین و دیگران، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۳م.
- ابن قتیبہ، عبداللہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
- ابن قدامہ، عبداللہ، التبیین فی انساب القرشیین، بہ کوشش محمد نایف دلیمی، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
- ابن منظور، لسان.
- ابن ندیم، الفہرست.
- ابن ہشام، عبدالملک، التیجان فی ملوک حمیر، حیدرآباد دکن، ۱۳۴۷ق.
- ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، بیروت، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۰م؛ احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
- بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م.
- ہمو، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۶۵م.
- خلیفہ بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶م.
- ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
- سمہودی، علی، وفاء الوفاء، بہ کوشش محمد محییالدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۷۴ق/ ۱۹۵۵م.
- شریف، احمد ابراہیم، مکہ و المدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، قاہرہ، دارالفکر العربی.
- شیخ طوسی، حسن، التبیان، بہ کوشش احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، دارالتراث العربی.
- طبری، تاریخ.
- ہمو، تفسیر.
- علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، ۱۹۷۶م.
- قرطبی، محمد، الجامع لاحکام القرآن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ.
- کستر، م. ج.، الحیرہ و مکہ، ترجمہ یحیی جبوری، بغداد، ۱۹۷۶م.
- کلبی، محمد، الاصنام، بہ کوشش احمد زکی پاشا، قاہرہ، ۱۹۲۴م.
- کلبی، محمد، جمہرہ النسب، بہ کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م.
- ہمو، نسب معدوالیمن الکبیر، بہ کوشش ناجی حسن، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
- مسعودی، علی، مروج الذہب، بہ کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
- مہران، محمد بیومی، تاریخ العرب القدیم، اسکندریہ، ۱۹۸۹م.
- واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
- وکیل، محمد سید، یثرب قبلالاسلام، حجاز، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
- ولفنسون، اسرائیل، تاریخ الیہود فی بلاد العرب، قاہرہ، ۱۳۴۵ق/ ۱۹۲۷م.
- یعقوبی، تاریخ، بیروت، دارصادر.
بیرونی روابط
- منبع مقالہ:دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی