غزوہ دومۃ الجندل

ویکی شیعہ سے
غزوہ دومۃ الجندل
رسول خداؑ کے غزوات
تاریخربیع الاول سنہ 5 ہجری
مقاممدینہ سے تقریبا 855.9 کلومیٹر دور شام اور عراق کے راستے میں اور مشرقی روم کی سرحدوں کے قریب۔
علل و اسبابدومۃ الجندل میں بادیہ نشینوں کا اجتماع اور گھات لگا کر اس علاقے سے گذرنے والے تاجروں کو اذیت و آزار پہنچانا۔
قلمروحجاز
نتیجہجندلی بھاگ گئے، جنگ نہیں ہوئی؛ مسلمین نے فتح حاصل کی اور مال غنیمت لے کر مدینہ پلٹ آئے۔
فریق 1مسلمان
فریق 2جندلی قبائل
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
فوج 11000 سوار اور پیادے


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ دومۃ الجندل رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو مدینہ سے 855.9 کلومیٹر دور دومۃ الجندل کے علاقے میں انجام پایا۔ دومۃ الجندل تاجروں کی گذرگاہ سمجھا جاتا تھا اور اس علاقے میں کچھ ڈاکؤوں نے گھر کر رکھا تھا چنانچہ رسول اللہؐ نے ایک ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر اس علاقے کی طرف عزیمت کی لیکن وہاں آپؐ کو مال مویشیوں اور کچھ گڈریوں کے سوا کچھ نہ ملا اور جندلی بھاگ گئے چنانچہ مسلمان جنگ کے بغیر مدینہ پلٹ آئے۔

دومۃ الجندل

دوماءالجندل (= دومۃ الجندل) ایک شہر ہے جو تبوک کے قریب واقع ہے اور موجودہ زمانے میں اس کو جوف کہا جاتا ہے۔ عمرو بن عاص اور ابو موسی اشعری کے درمیان حکمیت کا واقعہ اسی مقام پر رونما ہوا؛[1] یہ ایک موضع یا شہر ہے تبوک کے قریب جس میں ایک مستحکم قلعہ ہے۔[2]

جغرافیہ اور تاریخ

یاقوت حموی لکھتا ہے: جب تہامہ میں اسمعیل بن ابراہیمؑ کی اولاد کثیر ہوئی تو ان کے فرزند دوماء وہاں سے نکل کر دومہ کے مقام پر اترے اور وہاں ایک قلعہ بنایا۔ یہ قلعہ دمشق سے 1165 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[3]

یاقوت حموی سمیت مسلم مؤرخین اور جغرافیہ دانوں نے نقل کیا ہے کہ اس شہر کا سابقہ (= دومۃ) لفظ "دوماء" سے ماخوذ ہے اور دوماء در حقیقت اسمعیل ذبیح اللہؑ کے فرزند اور ابراہیم خلیل اللہؑ کے پوتے کا نام ہے جنہوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں ڈھیلوں اور پتھروں کا مضبوط قلعہ تعمیر کیا تھا۔ حموی کے بقول: لفظ "جندل" جندلہ (= ڈھیلا؛ پتھر) کی جمع ہے جس کے معنی قلعے کے ہیں اور یہ قلعہ دوماء بن اسمعیل نے پتھروں سے بھرے علاقے میں تعمیر کیا ہے۔[4]

یہ علاقہ زمانۂ قدیم میں شام کی حدود میں واقع تھا اور چونکہ حجاز، عراق اور شام کے درمیان واقع تھا لہذا اس کو تجارتی اور عسکری حوالوں سے اہمیت حاصل تھی۔

اس علاقے میں "غزوہ دومۃ الجندل" سمیت کئی تاریخی واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے اسلامی منابع و تواریخ میں اس مقام کا نام متعدد بار دہرایا گیا۔ اس علاقے کا دوسرا نام جوف السرحان تھا اور جنگ صفین کے بعد حکمیت کا واقعہ بھی ہیں رونما ہوا تھا۔

آثار قدیمہ کے ماہرین نے جوف کے علاقے میں ایسے آثار دریافت کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں برسوں سے بنی نوع انسان کا مسکن اور انسانی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔[5]

اسلام کے بعد

دومۃ الجندل اور اس کے نواحی علاقے ـ ظہور اسلام کے وقت ـ قبیلۂ بنو کلب کی شاخ بنو کنانہ کا مسکن سمجھے جاتے تھے اور اس کے زیادہ تر باشندے عیسائی مذہب کے پیروکار تھے۔ اس علاقے کا حاکم "اکیدر بن عبدالمالک الکندی"،[6] بھی عیسائی مذہب پر کا پیروکار اور روم کے بادشاہ کا اطاعت گذار تھا۔[7]

تاریخی مآخذ کے مطابق مسلمانوں نے کئی بار اس علاقے پر لشکر کشی کی ہے اور یہ لشکر کشیاں آخر کار اکیدر اور علاقے کے عوام کے قبول اسلام پر منتج ہوئے ہیں۔

دومۃ الجندل موجودہ حجاز کے صوبۂ جوف میں واقع ہے۔ یہ علاقہ زمانۂ قدیم میں شام کی حدود میں واقع تھا اور چونکہ حجاز، عراق اور شام کے درمیان واقع تھا لہذا اس کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس علاقے میں "غزوہ دومۃ الجندل" سمیت کئی تاریخی واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے اسلامی منابع و تواریخ میں اس مقام کا نام متعدد بار دہرایا گیا۔ اس علاقے کا دوسرا نام جوف السرحان تھا اور جنگ صفین کے بعد حکمیت کا واقعہ بھی ہیں رونما ہوا تھا۔

آج یہ علاقہ شمال کی جانب اردن کے ساتھ، جنوب کی جانب سے تبوک کے ساتھ اور شمال مشرق کی جانب سے صوبہ "حدود" کے ساتھ متصل ہے۔ یہ علاقہ شہر "سکاکا" کے جنوب میں واقع ہے اور خشک صحرائی اور صوبے کا گرم ترین علاقہ ہے۔ دومۃ الجندل سے دارالحکومت ریاض کا فاصلہ 1045 کلومیٹر[8]، مکہ مکرمہ تک کا فاصلہ 1334 کلومیٹر[9] اور مدینہ تک 855.9 کلومیٹر[10] ہے۔ سنہ 2010 عیسوی کی مردم شماری کے مطابق دومۃ الجندل کی کل آبادی 440,009 تک پہنچتی ہے۔[11]

رسول اللہؐ نے سنہ 5 ہجری میں اس علاقے میں ایک غزوہ انجام دیا اور آپؐ کے حکم پر سنہ 6 اور سنہ 9 ہجری میں عبدالرحمن بن عوف اور خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سرایا بھی اسی مقام پر انجام پائے۔

تاریخ غزوہ

جعفر مرتضی العاملی لکھتے ہیں: "یہ رسول اللہؐ کی پہلی عسکری مہم ہے جس کا رخ سلطنت روم کی جانب تھا اور یہ کہ غزوہ دومۃ الجندل کی تاریخ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں جن میں سے بعض اقوال حسب ذیل ہیں:

  1. یہ غزوہ سنہ 4 ہجری کے اواخر میں؛ ۔[12]
  2. غزوہ ذات الرقاع کے 2 مہینے اور 4 دن بعد انجام پایا؛[13]
  3. غزوہ خندق سنہ 4 ہجری میں اور غزوہ دومۃ الجندل اگلے سال یعنی سنہ 5 ہجری میں انجام پایا؛[14]
  4. واقدی سے نقل کیا ہے کہ یہ غزوہ ربیع الثانی میں انجام پایا۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag
  5. بہر حال ابن کثیر[15] سمیت اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے یہ غزوہ ربیع الاول سنہ 5 ہجری میں انجام پایا۔ رسول اللہؐ دومہ میں چند روز تک قیام کرنے کے بعد 20 ربیع الثانی کو مدینہ واپس آئے۔[16]

غزوۂ

دومۃ الجندل حجاز، شام اور عراق کے درمیان واقع ہے جہاں بعض مشرکین نے اجتماع کیا اور مسلم اور غیر مسلم تاجروں کو لوٹنا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ راہزنوں اور مشرکوں کا یہ اجتماع اسلامی حکومت کے لئے بھی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ رسول خداؐ ان کی سازش سے مطلع ہوئے اور ان کے جارحانہ منصوبوں کو ناکام بنانے، ظالموں اور انسانوں کو اذیت پہنچانے والوں کی ریشہ دوانیاں روکنے نیز علاقۂ عرب میں سلطنت روم سے وابستہ عناصر کے تسلط کا سدباب کرنے کی غرض سے ایک جہادی مہم کا فیصلہ کیا۔

ربیع الاول سنہ 5 ہجری کے آخری 5 دن باقی تھے کہ آپؐ نے "سباع بن عرفطہ غفاری" کو مدینہ میں جانشین مقرر کیا اور ایک ہزار مسلم مجاہدین کا لشکر لے کر مدینہ سے خارج ہوکر دومۃ الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ نے حکم دیا کہ مسلمان راتوں کو سفر کریں اور دنوں کو چھپ کر رہیں تا کہ دشمن کو ان کے آنے کی خبر نہ پہنچے۔

رسول خداؐ نے اس جہادی مہم میں قبیلۂ "بنى عُذرہ" کی راہنمائی سے استفادہ کیا ـ جو اپنے کام میں بہت باصلاحیت اور ماہر تھے۔ کئی راتوں تک سفر کرنے کے بعد آپؐ دومۃ الجندل کے علاقے میں پہنچے اور وہاں موجود اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کو بطور غنیمت، ضبط کیا۔ علاقے کے باشندوں میں سے جو بھی مسلمانوں کو دیکھتا، بھاگ کر دومۃ الجندل والوں کو مسلمانوں کے حملے کی خبر دے دیتا تھا۔

علاقے کے لوگ مسلمانوں کے حملے کی خبر سن کر شہر سے نکل کر نواح و اطراف کی طرف بھاگ کر منتشر ہو‏ئے۔ مسلمانوں نے ان کے مسکن کے مرکز تک پیشقدمی کی تو انہیں پورا علاقہ باشندوں سے خالی نظر آیا۔ رسول خداؐ چند روز تک وہیں قیام فرمایا اور علاقے کے لوگوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مجاہدین کے کئی دستے اطراف کی طرف روانہ کئے تاہم انہیں کوئی بھی نظر نہ آیا سوا اس ایک شخص کے جو ان کے ساتھ نہ بھاگ سکا تھا۔ مسلمانوں نے اس شخص سے پوچھا کہ دومۃ الجندل کے عوام کہاں چلے گئے؟ اس شخص نے کہا: "وہ سب مل کر یہاں سے فرار ہوئے تا کہ تمہاری طرف سے کسی بھی قسم کے نقصان سے امان میں رہیں۔

رسول اللہؐ نے اس شخص کو اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوگیا۔ یوں یہ غزوہ بغیر کسی مسلحانہ جنگ کے، اختتام کو پہنچا۔ سپاہ اسلام 20 ربیع الثانی کو مدینہ واپس آئی۔[17]۔[18]۔[19]

واقدی لکھتے ہیں: رسول اللہؐ نے ارادہ فرمایا تھا کہ شام کے قریبی علاقوں کے قریب چلے جائیں اور آپؐ سے کہا گیا کہ ایک علاقہ ہے جو شام کے دہانوں میں سے ایک ہے اور یہ وہی مقام ہے کہ اگر آپ اس کے قریب جائیں تو قیصر روم بےچین ہوجائے گا۔ اور آپؐ کے لئے بیان کیا گیا کہ دومۃ الجندل میں ایک بڑی جماعت موجود ہے جو وہاں سے گذرنے والوں پر ظلم روا رکھتے ہیں اور وہاں ایک بڑا بازار ہے اور بہت سے تاجر ہیں اور اور بہت سے بادیہ نشین اس علاقے میں اکٹھے ہوچکے ہیں اور وہاں مدینہ کی طرف آنے چاہتے ہیں پس رسول اللہؐ ایک ہزار افراد کے ساتھ روانہ ہوئے وہ راتوں کو سفر کرتے تھے اور دنوں کو چھپ جاتے تھے۔ ان کے ساتھ بنو عذرہ کا ایک ماہر راہنما بھی تھا۔ رسول خداؐ اور معمول کے راستوں سے ہٹ کر تیز رفتاری سے سفر کررہے تھے۔ تے تھے۔ ابھی ایک تیز رفتار سوار کے ایک دن کا سفر باقی تھا کہ راہنما نے عرض کیا: ریوڑ یہاں چرنے میں مصروف ہیں، آپ یہیں آرام کریں تاکہ میں کچھ معلومات حاصل کروں۔ راہنما ہراول سپاہی کے عنوان سے بعض نشانیوں کا سراغ لگاکر واپس آیا۔ چنانچہ آپؐ نے ان کے ریوڑوں کو ضبط کیا، بعض گڈریئے فرار ہوگئے اور بعض گرفتار ہوئے۔ خبر دومۃ الجندل میں اجتماع کرنے والے اعراب کو ملی تو وہ بھی منتشر ہوئے۔ رسول خداؐ ان کی خیمہ گاہ میں پہنچے تو وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ آپؐ کئی دن تک وہیں قیام پذیر رہے اور مجاہدین نے صرف چند اونٹوں کو بطور غنیمت پکڑ لیا۔ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جس نے قبائل کے فرار کی خبر دی اور مسلمان ہوا۔ آپؐ وہیں سے مدینہ واپس آئے۔[20]

دومۃ الجندل مشرقی روم کا اطاعت گذار اور عیسائی مذہب کا پیروکار تھا چنانچہ کہا جاتا ہے کہ رسول خداؐ نے یہ سلطنت روم کے ساتھ مسلمانوں کا پہلا آمنا سامنا تھا۔[21]

رسولی محلاتی لکھتے ہیں: "دومۃ الجندل" عراق اور شام کے راستے میں اور مشرقی روم کی حدود کے نزدیک واقع ہے اور اس علاقے میں بعض بادیہ نشین عرب سکوت پذیر تھے۔ یہ علاقہ مدینہ سے 15 دن کے فاصلے پر واقع ہے۔ رسول خداؐ کو خبر ملی کہ اس علاقے کے لوگ ایک لشکر تشکیل دے کر مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ چنانچہ آپؐ مسلمانوں کا ایک لشکر لے کر ان کی سرکوبی کے لئے نکلے؛ مشرکین کو خبر ملی تو خوف و ہراس نے ان کے دل میں گھر کرلیا اور اپنا سارا مال و اسباب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اور مسلمانوں کی عملداری مشرقی روم کی سرحدوں تک پھیل گئی۔ رسول خداؐ مال غنیمت لے کر فاتحانہ انداز سے مدینہ واپس آئے۔[22]


حوالہ جات

  1. مؤلف رسولی محلاتی کی یادداشت۔
  2. صفی پوری، منتهی الارب فی لغة العرب۔
  3. حموی، معجم البلدان، ج‏2، ص487۔
  4. حموی، وہی ماخذ۔
  5. Archeological Sites in Al Jouf Province۔
  6. ابن اثیر، الکامل في التاریخ، ج1، ص135۔
  7. مقدسی، البدء و التاریخ، ج‏4، ص214۔
  8. الجوف سے ریاض کا فاصلہ۔
  9. الجوف سے مکہ کا فاصلہ۔
  10. الجوف سے مدینہ کا فاصلہ۔
  11. الجوف کی آبادی۔
  12. الحلبی، السیرة الحلبیة، ج2، ص277۔
  13. الدیار بکری، تاریخ الخمیس، ج1، ص469۔
  14. ابن العبری، تاریخ مختصر الدول، ص161۔
  15. ابن کثیر، السیرة النبویة، ج3، ص177-178۔
  16. العاملی، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ؐ، ج8، ص388-390۔
  17. الماوردی، الحاوى الكبير، ج 14، ص39۔
  18. ابن الجوزی، المنتظم فى تاريخ الامم والملوك، ج 3، ص215۔
  19. طبری، تاريخ الطبرى، ج2، ص 564۔
  20. واقدی، المغازی، ج1، ص402 تا 404۔
  21. مقدسی، البدء و التاریخ، ج‏4، ص214۔
  22. رسولی محلاتی، زندگانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، ص402۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، تحقیق:ابی الفداء عبدالله القاضی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1407هجری قمری۔
  • ابن الجوزى ، ابوالفرج عبدالرحمن بن على ، المنتظم فى تاريخ الا مم و الملوک، محمد ومصطفی قادر عطاء، دارالکتب العلميہ ، بيروت ، 1415ہجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • ابن عبری، أبو الفرج غريغوريوس ابن أهرون بن توما الملطي (Gregory Bar Hebraeus)، تاريخ مختصر الدول، المحقق: أنطون صالحاني اليسوعي، دار الشرق، بيروت الطبعہ: الثالثہ، 1992 م
  • ابن كثير، ابو الفداء اسماعيل الدمشقي، السيرۃ النبويۃ، تحقيق: مصطفی عبد الواحد، دار المعرفہ للطباعہ والنشر والتوزيع، بيروت ـ لبنان 1396 ہجری قمری / 1976 عیسوی۔
  • ابن كثير، البدايہ والنہايہ، تحقيق: علي شيري، دار إحياء التراث العربي، طبعہ جديدۃ محققہ الطبعہ الاولى 1408 ہجری قمری/ 1988 عیسوی۔
  • الحلبي، ابو الفرج نور الدین علی بن ابراهیم بن احمد الشافعی، السیرة الحلبیة (انسان العیون فی سیره الامین المامون)، تصحیح: عبدالله محمد الخلیلی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، الطبعہ: الثانيہ – 1427 هجری قمری۔
  • الحموي، ابو عبد الله ياقوت بن عبد الله، معجم البلدان، دار إحياء الثراث العربي بيروت - لبنان ـ 1399 ه‍ - 1979 م
  • الدِّيار بَکري، حسين بن محمد بن الحسن، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس، دار صادر - بيروت 2010 عیسوی۔
  • رسولى محلاتى، سيد هاشم، زندگانی حضرت محمد، موسسه تحقيقات و نشر معارف اہل البيت ؑ
  • صفی پوری، عبدالرحیم بن عبدالکریم، کتاب منتہی الارب فی لغہ العرب(جلد اول)، تصحیح و تعلیق: محمد حسن فوادیان و علیرضا حاجیان نژاد، دانشگاه تہران 2009
  • الطبري، محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوك (تاریخ الطبري)، مطبعہ " بريل بمدينہ ليدن، 1879 عیسوی۔
  • الماوردي البصري، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب، الحاوي الكبير في فقہ مذہب الإمام الشافعي، دار الكتب العلميہ، 1414 – 1994
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینیہ، بی‌جا، بی‌تا.
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونس، لندن 1966 عیسوی۔
  • الیعقوبی، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وہب ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بيت ؑ - قم - دار صادر بيروت۔
پچھلا غزوہ:
بدر الموعد
رسول اللہؐ کے غزوات
دومۃ الجندل
اگلا غزوہ:
بنی مصطلق