اجتماعی قرآن خوانی سے مراد چند لوگوں کی اجتماعی طور پر قرآن مجید کی تلاوت ہے جس میں عام طور پر ایک ہی نشست میں قرآن کے ایک پورے پارے کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اجتماعی قرآن خوانی ماہ رمضان اور مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے منعقدہ فاتحہ خوانی کی مجالس میں سرانجام پاتی ہے۔ قرآن کی 30 پاروں میں تقسیم کا آغاز پہلی یا دوسری صدی ہجری میں ہوا۔

اجتماعی قرآن خوانی
اجتماعی ختم قرآن
ایران کے خرمشہر میں اجتماعی ختم قرآن کا روح پرور منظر
ایران کے خرمشہر میں اجتماعی ختم قرآن کا روح پرور منظر
معلومات
زمان‌رمضان، ختم قرآن، اموات کی بخشش کے لیے اجتماعی دعا
مکانمسجد، گھر، امام بارگاہ، عمومی مقامات
منشاء تاریخیپہلی یا دوسری صدی ہجری، انس با قرآن، تلاوت قرآن کی ترویج
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات

اجتماعی قرآن خوانی کی رسم

اجتماعی قرآن خوانی کی نشستوں میں قاری ایک یا چند پاروں کی تلاوت کرتا ہے اور باقی حاضرین قاری کی تلاوت کی سماعت کرتے ہوئے خود بھی آہستہ آہستہ تلاوت کرتے ہیں۔ [1] اجتماعی قرآنی کی یہ رسم ماہ رمضان [2] اور گھروں میں رکھی جانے والی اجتماعی قرآن خوانی کی نشستوں میں رائج ہے۔ اسی طرح مرحومین کے ایصال ثواب کی مجلسوں میں لوگ اجتماعی طور پر شرکت کرتے ہیں اور ہر شخص ایک پارہ یا ایک پارے کے کچھ حصوں کی تلاوت کرتا ہے اس طرح ایک پورے قرآن کی ایک یا چند بار تلاوت سرانجام پاتی ہے۔[3]

آج کل انٹرینٹ کے ذریعے فاصلاتی طور پر بھی قرآن مجید کی اجتماعی تلاوت ممکن ہوچکی ہے۔[4]

ختم قرآن

 
حرم امام حسینؑ میں اجتماعی قرآن خوانی کا منظر(رمضان 1443ھ)[5]

ختم قرآن کی ایک صورت ایک پارے کی تلاوت ہے۔ بعض قرآنی محافل یا مرحومین کے ایصال ثواب کی مجالس جو گھروں، مساجد یا عمومی مقامات پر منعقد ہوتی ہیں، ہر شخص ایک یا چند پاروں کی تلاوت کرتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان میں ہر دن ایک پارے کی تلاوت کے ساتھ اختتام ماہ رمضان تک پورے ایک قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔[6] اس طریقہ کار کو ایران کے جنوبی شہروں (اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان) میں "مقابلہ" یا "مقابلہ خوانی" کہتے ہیں[7] ماہ رمضان میں قرآن مجید کی اجتماعی تلاوت مختلف ممالک میں منعقد ہوتی ہے۔ قرآن کی اس طرح کی محفلیں مذہبی مقامات مثلا حرم امام رضاؑ اور حرم حضرت معصومہ(س) سے ایران کے مختلف ٹی وی چینلز براہ راست نشر ہوتی ہیں۔[8]

قرآنی پاروں کی تقسیم کا تاریخی پس منظر

پہلی یا دوسری صدی ہجری میں قرآن مجید کی تلاوت، اس کے حفظ کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں سہولت اور آسانی کو مد نظر رکھ کر قرآن کو 30 پاروں میں تقسیم کیا گیا۔[9] قرآن مجید کی 30 پاروں میں تقسیم کے عمل کو حجاج بن یوسف ثقفی[10] اور مأمون عباسی[11] کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ 8ویں صدی ہجری کے مفسر قرآن زَرکَشی کے مطابق قرآن مجید کی 30 پاروں میں تقسیم کے عمل کو دینی مدارس نے انجام دیا ہے۔[12]

بعض اسلامی ممالک جیسے ایران وغیرہ میں قرآن کے پارے الگ الگ بھی شائع ہوتے ہیں۔ قرآن کے ان 30 پاروں کو سیپارے کہتے ہیں اور مرحومین کے ایصال ثواب کی مجالس میں قرآن کی تلاوت کے لیے ان سیپاروں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔[13]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. «بہترین شیوہ قرائت قرآن کریم در ماہ رمضان»، باشگاہ خبرنگاران جوان.
  2. معینی، «جزء»، ص836.
  3. ملاحظہ کریں: موسوی آملی، «شناخت قرآن؛ قرآن در مراسم ختم». پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ.
  4. «ختم قرآن»، مجلہ نسیم وحی، 1386ہجری شمسی، ش7.
  5. «تصاویر/ مراسم جزءخوانی قرآن کریم در حرم امام حسین(ع)»، خبرگزاری حوزہ.
  6. «ختم قرآن»، مجلہ نسیم وحی، 1386ہجری شمسی، ش7.
  7. ««مقابلہ آیین سنتی قرآن خوانی مردم بوشہر در ماہ مبارک رمضان»، خبرگزاری شبستان.
  8. «زمان پخش ترتیل جزءخوانی قرآن کریم شبکہ‌ہای سیما»
  9. فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ہجری شمسی، ص482-481.
  10. فیض کاشانی، محجةالبیضاء، 1428ھ، ص224.
  11. معرفت، التمہید، 1412ھ، ج 1، ص364.
  12. زرکشی، البرہان، 1408ھ، ج1، ص250
  13. دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ذیل واژہ سی‌پارہ.

مآخذ