فِطرہ یا فطرانہ مالی [[واجب|واجبات]] میں سے ایک ہے جسے عید فطر کے دن ادا کیا جاتا ہے۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے تین کلو ہے جسے گندم، جو، خرما، چاول اور کشمش جیسے روزمرہ غذا سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ ان چیزوں کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔

فقہا کے فتوؤں کے مطابق فطرہ اس شخص پر واجب ہوتا ہے جو عید کی رات غروب کے دوران بالغ اور عاقل ہو، نیز بے ہوش، فقیر اور غلام نہ ہو۔ ایسے شخص پر اپنا فطرہ اور ہر اس شخص کا فطرہ واجب ہے جو اس کے زیر کفالت شمار ہوتا ہے۔

بعض فقہا کے فتوے کے مطابق زکوٰۃِ فطرہ کے مَصرَف «مالی زکوٰۃ» کے وہی آٹھ مصرف ہیں؛ جبکہ بعض دیگر فقہا کا کہنا ہے کہ احتیاط واجب کے طور پر فطرہ کو صرف شیعہ فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔

فطرہ کے معانی اور اس کی اہمیت

فطرہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو عید فطر کے دن فقیروں کو دینا یا دیگر امور میں خرچ کرنا واجب ہے۔[1] اسلامی احادیث میں فطرہ کی بے حد اہمیت بیان ہوئی ہے۔ احادیث کی روشنی میں فطرہ ررزہ کامل ہونے کا باعث بنتا ہے[2] اور اس کی عدم ادائیگی موت کا باعث بن سکتی ہے۔[3]

زکوٰۃ فطرہ کو فطریہ[4] اور فطرہ[5] بھی کہا جاتا ہے۔

فطرہ کی مقدار، اجناس اور واجب ہونے کے شرائط

فقہا کے فتوے کے مطابق فطرہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو بالغ، عاقل اور ہوش میں ہو، نیز فقیر یا غلام نہ ہو۔[6] العروۃ الوثقی کے مؤلف اور شیعہ فقیہ سید محمد کاظم یزدی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں مسلمان علماء کا اجماع ہے۔[7]

ایسا شخص اپنا اور ہر اس شخص کا جو اس کی کفالت میں آتا ہے، ایک «صاع» (تقریباً تین کلو) گندم، جو، خرما، كشمش، چاول، مکئی یا ان جیسے دیگر غلات یا ان کی قیمت کسی مستحق کو ادا کرے۔[8]

مذکورہ غلات میں سے کونسا فطرہ کے طور پر دیا جائے؟ اس میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ "فرہنگ فقہ" نامی کتاب میں معاصر فقہا کا مشہور فتوا یہ ہے کہ اس غلہ کو یا اس کی قیمت کو فطرہ کے طور پر دیا جائے جو سال بھر میں اس شہر کی اکثریتی خوراک («قُوت غالب») شمار ہوتا ہو؛ یعنی جہاں یہ شخص رہ رہا ہے وہاں کی رائج خوراک ہو۔[9] فقہا میں سے سیستانی اور صافی گلپایگانی کی یہی رائے ہے؛ لیکن خامنہ ای، مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی کا کہنا ہے کہ مذکورہ غلات میں سے کسی ایک کو فطرہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔[10]

فطرہ ادا کرنے کا وقت

مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق فطرہ کی ادائیگی کا وقت عید فطر کے دن ظہر تک ہے؛[11] لیکن شبیری زنجانی کے فتوے کے مطابق عید کے پورے دن میں کسی بھی وقت فطرہ دیا جاسکتا ہے۔[12] البتہ جو شخص عید کی نماز پڑھتا ہے وہ عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے یا بعض فقہا کے فتوے کے مطابق نماز سے پہلے فطرہ کو الگ کر دے۔[13]

صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ مشہور فقہا کے کلمات کے مطابق فطرہ رمضان کے آخری دن غروب کے وقت واجب ہوتا ہے،[14] جبکہ بعض فقہا کے مطابق فطرہ عید کے دن طلوعِ فجر کے بعد واجب ہوتا ہے۔[15] صاجب جواہر کا کہنا ہے کہ شاید ان لوگوں کی مراد فطرہ کا وجوب نہ ہو بلکہ فطرہ الگ کرنے کا وقت مراد ہو۔[16] مجتہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ فطرہ کو رمضان المبارک سے پہلے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ امام خمینی اور مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ احتیاط واجب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں بھی نہیں دے سکتے ہیں؛ لیکن سیستانی، خوئی، تبریزی اور شبیری زنجانی اسے جائز سمجھتے ہیں؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں نہ دیا جائے۔[17]

مصرف کے موارد

امام خمینی، بہجت اور شبیری زنجانی جیسے بعض فقہا نے فطرہ کے مَصرَف کے موارد کو زکوٰۃ کے وہی آٹھ موارد ذکر کیا ہے[18] جو مندرجہ ذیل ہیں:

1. فقیر، 2. مسكين، 3. زکوٰۃ جمع كرنے والے عاملین، 4. وہ کافر جسے زکوٰۃ دینے سے اسلام قبول کرتا ہے یا جنگ میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے، 5. غلاموں کو خریدنا اور انہیں آزاد کرنا، 6. وہ مقروض شخص جو قرض ادا نہیں کرسکتا ہے، 7. ان دینی کاموں کے لئے جو عام المنفعت ہیں؛ جیسے مسجد اور پل وغیرہ، 8. وہ مسافر جو سفر میں محتاج ہوگیا ہو۔[19]

حسینی سیستانی، سید محمدرضا گلپایگانی، لطف‌اللہ صافی گلپایگانی اور مکارم شیرازی جیسے بعض فقہا احتیاط واجب کی بنا پر فقیر کا شیعہ ہونا شرط سمجھتے ہیں۔[20] البتہ فقہا کا پہلا گروہ بھی اسی کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔[21]

مہمان کا فطرہ

فقہا کے فتوا کے مطابق ایسا مہمان جو شب عید فطر کے غروب سے پہلے میزبان کے گھر آجائے اور وہ میزبان کے زیر کفالت (نان خور) شمار ہوتا ہو تو اس کا فطرہ میزبان پر واجب ہے۔[22] لیکن مکلف کے زیر کفالت شخص کون شمار ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں فتوئے مختلف ہیں:

بہجت ایک رات کے مہمان کو بھی زیر کفالت شخص سمجھتے ہیں۔[23] جبکہ حسینی سیستانی،[24] شبیری زنجانی، فاضل لنکرانی و مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ صرف ایک افطاری سے کوئی شخص میزبان کا عیال اور نان خور(کفالت) شمار نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ میزبان کے ہاں کچھ عرصہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔[25]

بعض دیگر احکام

فطرہ کے بعض دیگر احکام جو توضیح‌المسائل میں ذکر ہوئے ہیں، درج ذیل ہیں:

  • جس شخص کا فطرہ دینا کسی اور پر واجب ہو تو خود اس شخص پر فطرہ دینا واجب نہیں ہے۔
  • اگر کسی کا فطرہ دوسرے شخص پر واجب ہو اور وہ فطرہ نہ دے تو خود اس شخص پر فطرہ دینا واجب نہیں ہے۔ البتہ بعض مراجع تقلید کا کہنا ہے کہ احتیاط واجب کی بنا پر خود اس شخص کو اپنا فطرہ ادا کرنا چاہئے۔
  • اگر انسان کا فطرہ کسی اور پر واجب ہو لیکن وہ خود ادا کرے تو اس شخص سے فطرہ ساقط نہیں ہوتا ہے جس پر واجب ہوا ہے۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ اگر اس کی اجازت سے ادا کیا ہو تو وہی کافی ہے۔
  • غیر سید اپنا فطرہ کسی سید کو نہیں دے سکتا ہے۔
  • اگر کوئی شخص فطرہ واجب ہونے پر اسے ادا نہ کرے اور الگ بھی نہ کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر بعد میں ادا یا قضا کی نیت کئے بغیر فطرہ دیدے۔
  • فطرہ الگ کرنے کے بعد اسے اپنے استعمال میں لاکر کوئی اور مال اس کی جگہ نہیں دے سکتے ہیں۔[26]

حوالہ جات

  1. مروج، اصطلاحات فقہی، 1379شمسی، ص257.
  2. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص183.
  3. کلینی، الکافی، 1429ھ، ج7، ص668.
  4. ملاحظہ کریں: مؤسسہ دایرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج4، ص259؛ جعفرپیشہ فرد، درآمدی بر فقہ مقارن، 1388شمسی، ص443.
  5. مرعی، القاموس الفقہی، 1413ھ، ص159؛ سرور، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیہ و الدینیہ، 1429ھ، ج1، ص206؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص414؛ سیستانی، توضیح‌المسائل، 1393ھ، ص369.
  6. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص158؛ یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص353-354.
  7. یزدی، العروة الوثقی، 1409ھ، ج2، ص353.
  8. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص169.
  9. مؤسسہ دایرةالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج6، ص689.
  10. وبگاہ حوزہ‌نت، «عید فطر و احکام فطریہ».
  11. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.
  12. شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص418.
  13. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.
  15. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.
  16. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج15، ص527.
  17. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص180.
  18. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص176-177.
  19. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص140.
  20. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص177.
  21. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص176-177.
  22. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص171.
  23. سیستانی، توضیح‌المسائل، 1393ھ، ص369؛ بہجت، رسالہ توضیح‌المسائل، 1386شمسی، ص305.
  24. سوال نمبر 6. سوال و جواب فطرہ
  25. شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1388شمسی، ص413؛ فاضل لنکرانی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1426ھ، ص331؛مکارم شیرازی، رسالہ توضیح‌المسائل، 1384شمسی، ص314.
  26. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، 1381، ج2، ص174-183

مآخذ

  • بنی‌ہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح‌المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1381ہجری شمسی۔
  • بہجت، محمدتقی، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، دفتر آیت‌اللہ العظمی محمدتقی بہجت، 1386ہجری شمسی۔
  • جعفرپیشہ فرد، مصطفی، درآمدی بر فقہ مقارن، تہران، بعثہ مقام معظم رہبری، 1388ہجری شمسی۔
  • سرور، ابراہیم حسین، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیہ و الدینیہ، بیروت، دارالہادی، 1429ھ۔
  • سیستانی، سیدعلی، توضیح‌المسائل، قم، بی‌نا، 1393ھ۔
  • شبیری زنجانی، موسی، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، سلسبیل، 1388ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • «عید فطر و احکام فطریہ»، وبگاہ حوزہ‌نت، تاریخ درج مطلب: 14 خرداد 1398، تاریخ بازدید: 25 دی 1401ہجری شمسی۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، امیرالعلم، 1426ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مرعی، حسین، القاموس الفقہی، بیروت دارالمجتبی، 1413ھ۔
  • مروج، حسین، اصطلاحات فقہی، قم، بخشایش، 1379ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح‌المسائل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، 1384ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل‌بیت علیہم‌السلام، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔