یوم شک

ویکی شیعہ سے

یوم شک ایک فقہی اصطلاح ہے۔ ہجری کیلنڈر کے مطابق چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے جس دن کے بارے میں پچھلے مہینے کی آخری تاریخ ہونے یا اگلے مہینے کی پہلی تاریخ ہونے کے بارے میں شک ہو تو اسے یوم الشک کہا جاتا ہے۔ یوم الشک کی اصطلاح شعبان کی آخری تاریخ اور رمضان کی پہلی تاریخ کے بارے میں مشہور ہے۔ فقہی حوالے سے اس دن کے کچھ مخصوص احکام ہیں جو فقہی کتابوں میں مذکور ہیں۔

تعریف

قمری مہینے عموما 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں، اگر کسی مہینے کی 29 تاریخ کو موسم کی خرابی یا دوسری وجوہات کی بنا پر چاند نظر آنے یا نہ آنے میں اختلاف پیدا ہو تو اس دن کو یوم‌ الشک کہا جاتا ہے۔[1]

احکام

یوم الشک کے مخصوص احکام ہیں جنہیں فقہاء نے اپنی فقہی کتابوں میں ذکر کئے ہیں من جملہ وہ احکام یہ ہیں:

شعبان کی آخری تاریخ کا یوم الشک

قاعدہ استصحاب کی بنا پر یوم الشک شعبان کی آخری تاریخ شمار کیا جائے گا اس صورت میں اس دن روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔[2] البتہ مکلف اس دن مستحب یا قضا روزے کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے[3] لیکن رمضان کی پہلی تاریخ کی نیت سے روزہ رکھنا حرام ہے۔[4]

اگر کوئی شخص یوم شک کو مستحب یا قضا روزے کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں معلوم ہو جائے کہ اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی تو یہی روزہ رمضان کا روزہ شمار ہو گا، لیکن اگر بعد میں معلوم ہو جائے کہ شعبان کی آخری تاریخ تھی تو مستحب یا قضا میں سے جس کی نیت کی ہو اسی کے مطابق مستحب یا قضا روزه شمار ہوگا۔ [5] اگر کوئی شخص چاند نظر آئے بغیر اس دن رمضان کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں ثابت بھی ہو جائے کہ اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی تو بھی اس دن کے روزے کی قضا کرنا ضروری ہے۔[6]

اگر مکلف یوم الشک کو روزہ نہ رکھے اور ظہر سے پہلے رمضان کی پہلی تاریخ ثابت ہو جائے تو اگر صبح کی اذان سے اب تک مبطلات روزہ میں سے کسی کا ارتکاب نہ کیا ہے تو رمضان کے روزے کی نیت کرے گا اور اس دن کا روزہ صحیح ہے، لیکن اگر ظہر کے بعد پتہ چلے کہ رمضان کی پہلی تاریخ تھی یا ظہر سے پہلے معلوم ہوا تھا لیکن مبطلات روزے کا مرتکب ہوا ہو تو اس دن کا روزہ صحیح نہیں ہو گا لیکن اذان مغرب تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور رمضان کے بعد اس دن کے روزے کی قضا بھی رکھنا واجب ہے۔[7]

کلینی نے کتاب الکافی میں امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ: بنی عباس کے حکمران سفاح کے زمانے میں ایک دن میں حیرہ نامی مقام پر اس کے پاس پہنچا۔ وہ دن یوم‌ الشک تھا اور لوگ شک کی حالت میں تھے۔ سفاح نے کہا: یا ابا عبد اللہ، کیا آپ نے آج روزہ رکھا ہوا ہے؟ میں نے کہا: یہ چیزامام سے متعلق ہے[یادداشت 1]اگر تم روزہ رکھے تو ہم بھی روزہ رکھیں گے لیکن اگر تم نے روزہ نہیں رکھا تو ہم بھی نہیں رکھیں گے»۔ سفاح نے اپنے غلام سے کہا: «دسترخوان بچھاؤ» اور میں نے بھی اس کے ساتھ کھانا کھایا، جبکہ خدا کی قسم مجھے معلوم تھا اس دن رمضان کی پہلی تاریخ تھی؛ لیکن ایک دن روزہ نہ رکھنا اور اس کی قضا انجام دینا میرے لئے آسان ہے اس بات سے کہ میری گردن اڑا دی جائے اور میں خدا کی عبادت سے محروم ہو جاؤں۔[8]

رمضان کی آخری تاریخ کا یوم الشک

ماہ رمضان کی آخری تاریخ اور ماہ شوال کی پہلی تاریخ میں شک کی صورت میں قاعدہ استصحاب کے تحت رمضان کی آخری تاریخ کے عنوان سے روزہ رکھنا واجب ہے۔ لیکن اگر دن میں مغرب سے پہلے کسی بھی وقت ثابت ہو جائے کہ آج شوال کی پہلی تاریخ ہے تو اس صورت میں مکلف پر افطار کرنا واجب ہے کیونکہ عید فطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ [9]

حوالہ جات

  1. بحرانی، الحدائق الناضرة، 1405ھ، ج‌13، ص42.
  2. خوئی، موسوعۃ الامام الخوئی، ج 21، ص 74.
  3. لنکرانی، تفصیل الشریعة، 1426ھ، ص334.
  4. لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، ص 334.
  5. علامہ حلی، تحریر الاحکام، ج 1، ص 459.
  6. شیخ طوسی، تہذیب الاحكام، ج‌ 4، ص 162.
  7. محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج‌2، ص652.
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص82-83.
  9. خوئی، منہاج الصالحین، ج‌ 1، ص 288.

نوٹ

  1. ذَاكَ إِلَى الْإِمَامِ ، إِنْ صُمْتَ صُمْنَا، وَإِنْ أَفْطَرْتَ أَفْطَرْنَا امام صادق ؑ کا یہ‌کہنا کہ یوم الشک کا وظیفہ امام تعیین کرے گا، یہ‌ بات یا تقیہ اور اپنی جان کی حفاظت کی بنا پر تھی چنانچہ ایک دوسری روایت میں آپ فرماتے‌ ہیں کہ ایک دن روزہ نہ رکھنا بہتر ہے اس بات سے کہ میری گردن اڑا دی جائے( إِي وَاللهِ، أَنْ أُفْطِرَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُضْرَبَ عُنُقِي کافی ج7ص427) ‌یا امام نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ اس قسم کے امور کا فیصلہ حکومت کے ذمہ ہوا کرتا ہے اور اس وقت حکومت کی باگ ڈور منصور کے ہاتھ میں ہے۔

مآخذ

  • بحرانی، یوسف بن احمد بن ابراہیم، الحدائق الناضرہ فی احکام العترہ الطاہرہ، قم، محقق و مصحح: محمد تقی ایروانی و سید عبد الرزاق مقرم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‌، 1405ھ.
  • خوئی، ابوالقاسم، موسوعہ الامام الخویی، قم، محقق و مصحح: پژوہشگران مؤسسہ إحیاء آثار آیۃاللہ العظمی خویی‌، موسسہ احیاء آثار الامام الخوئی، 1418ھ.
  • سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، قم، محقق و مصحح: گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی‌، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1415ھ.
  • علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ (ط - الحدیثۃ)، قم،محقق و مصحح: ابراہیم بہادری‌، موسسہ امام صادھ، 1420ھ.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ.
  • فاضل لنکرانی، محمد فاضل موحدی، تفصیل الشریعہ فی شرح تحریر الوسیلہ، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1426ھ.
  • محقق حلی، المعتبر فی شرح المختصر، قم، محقق و مصحح: محمد علی حیدری- سید مہدی شمس الدین- سید ابو محمد مرتضوی- سید علی موسوی‌ موسسہ سیدالشہداء، 1407ھ.