غزوہ سویق

ویکی شیعہ سے
غزوہ سویق
غزوہ سویق کا محل وقوع
غزوہ سویق کا محل وقوع
تاریخذوالحجہ سنہ 2 ہجری
مقاممدینہ کے قریبی علاقے، منطقۂ "عریض" سے "قرقرۃ الکدر" تک
علل و اسبابابو سفیان کی قسم، کہ جب تک جنگ بدر میں اپنے مقتولین کا بدلہ نہیں لے گا چین سے نہیں بیٹھے گا
قلمروحجاز
نتیجہابو سفیان ڈاکہ زنی کی سی کاروائی کرکے فرار ہوکر مکہ کی طرف پلٹا۔
فریق 1مسلمان
فریق 2قریش
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
سپہ سالار 2ابو سفیان
فوج 1200 سوار اور پیادے
فوج 2200 یا 40 سوار
نقصان 12 شہید اور کچھ نخلستانوں اور دو خالی گھروں کو نذر آتش کیا گیا


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ سویق، رسول خدا(ص) کے غزوات میں سے ہے جو مدینہ کے بعض نخلستانوں اور بعض گھروں کو آگ لگا کر بھاگنے والے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب کی صورت میں انجام پایا۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی بھاگتے ہوئے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے سویق پر مشتمل مال و اسباب پھینکتے رہے جس کی وجہ سے اس مہم کو غزوہ سویق کا نام دیا گیا۔

سویق لغت میں

سویق کے لغوی معنی "آٹا" کے ہیں لیکن اصطلاح میں اس کے معنی اس بھونے ہوئے گندم اور جو کے ہیں جس کو کوٹ دیا جائے اور دودھ اور گھی یا شہد میں ملا دیا گیا ہو۔ [سویق کو اردو میں "ستو" کہا جاتا ہے]۔ یہ مسافروں کی غذا تھی۔

وجۂ تسمیہ

ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے مدینہ میں کچھ نخلستانوں اور خالی گھروں کو آگ لگانے کے بعد جو فرار کی راہ اختیار کی تو مسلمانوں کے خوف سے اپنی رفتار میں اس قدر اضافہ کیا کہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنا مال و اسباب ـ جو سویق پر مشتمل تھا ـ کو پھینکتے رہے اور بھاگتے رہے اور سویق میں سے کچھ حصہ مسلمانوں کے ہاتھ بھی لگا چنانچہ اس جنگ کو سویق کا نام کیا گیا۔[1]

علامہ طباطبائی سیوطی کی کتاب تفسیر الدر المنثور اور دیگر مآخذ سے جبکہ فضل بن حسن طبرسی اپنی کتاب تفسیر مجمع البیان میں امام باقر(ع) سے تفصیلی روایت کے ضمن میں، نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابو سفیان قریش کے لشکر اور ستو کے بوجھوں کے ساتھ مکہ سے خارج ہوئے اور مکہ سے باہر نکل کر اسی ستو کو اپنی خوراک قرار دیا اور جب مسلمانوں کا سامنا کرنے سے خوف و وحشت کا شکار ہوکر مکہ کی طرف بھاگ کر پلٹا چنانچہ مسلمانوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اس کے لشکر کو "لشکر سویق" کا لقب دیا۔[2]

جنگ کا سبب

جنگ کا سبب ابو سفیان کی مانی ہوئی نذر تھی۔ جنگ بدر میں مکیوں کی شکست نے قریش کو صدمے اور مصیبت سے دوچار کیا تھا۔ اس جنگ میں ابو سفیان کا ایک بیٹا ہلاک اور ایک گرفتار ہو چکا تھا جبکہ اس کے قبیلے کے کئی افراد مارے گئے تھے یا پھر قید کئے گئے تھے؛ اور چونکہ وہ اپنے آپ کو قریش کے زعماء کے زمرے میں گردانتا تھا لہذا یہ شکست اس کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ اس نے جنگ بدر کے بعد قسم اٹھائی کہ جب تک پیغمبر اسلام(ص) سے بدلہ نہیں لے گا اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستر نہ ہوگا اور اپنا بدن نہیں دھوئے گا[3] اور اپنے بدن کو تیل اور عطر نہیں لگائے گا۔ یہ قسم اس نے لوگوں کے سامنے اٹھائی لیکن بہت جلد نادم ہوئے اور چونکہ وہ ایک عیش پرست اور عورتوں کا رسیا شخص تھا چنانچہ شدید بے چینی اور دشواری سے دوچار ہوا لیکن دوسری طرف سے اس کی بیویاں ـ یعنی ہند اور ام حنظلہ وغیرہ ـ اس کو اپنی خوابگاہوں سے گذرنے تک کی اجازت نہیں دے رہی تھیں اور وہ سب اس بات سے بہت زیادہ غضب ناک تھیں کہ ان کے خیال میں وہ بہت زیادہ بھڑکیں مارنے والا شخص تھا کیونکہ ان کے خیال اور اس نے جنگ بدر میں بھی شرکت نہیں کی تھی اور صرف میدان جنگ سے دور بیٹھ کر لاف و گزاف کا سلسلہ رچائے ہوئے تھا۔

کچھ عرصہ گذرا اور حالات ابو سفیان کے لئے افسوسناک حد تک خراب ہوئے چنانچہ اس نے اپنی قسم پر عملدرآمد اور مسلمانوں پر حملے کا فیصلہ کیا۔

جنگ کے لئے روانگی اور یہودیوں سے تعاون کی درخواست

ابو سفیان نے تقریبا 200 افراد کا لشکر جنگ کے لئے تیار کیا اور ماہ ذوالحجہ سنہ 2 ہجری میں مدینہ کے مقصد سے مکہ سے باہر نکلا اور مدینہ کے قریب ثیب کے علاقے میں پہنچا تا ہم اس نے اپنے سواروں کو وہاں سے آگے نہیں بڑھایا اور وہیں پڑاؤ ڈالا۔ رات کے وقت بنو نضیر کے قلعے میں حیی بن اخطب سے ملاقات اور مدینہ پر حملے کے سلسلے میں اس کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کی غرض سے اس کے گھر پہنچا؛ تاہم چونکہ حیی بن اخطب کو پہلے ہی اس کے سواروں کی خبر مل چکی تھی چنانچہ اس نے ڈر کے مارے دروازہ نہیں کھولا کیونکہ اس نے قبل ازاں رسول خدا(ص) اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کا معاہدہ کیا تھا</ref>الواقدی، المغازی، ج1، ص181۔</ref> جس کے تحت یہودیوں کے اس گروہ کو دشمنان اسلام کے ساتھ تعاون اور گٹھ جوڑ کا حق حاصل نہیں تھا اور اس معاہدے کے تحت وہ مدینہ پر یلغار کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرسکتا تھا۔

ابو سفیان حیی بن اخطب سے ناامید ہوکر یہودیوں کے ایک زعیم اور ان کے خزانہ دار سلام بن مشکم کے گھر پہنچا اور داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ ابن مشکم نے دروازہ کھولا اور ابو سفیان کی خوب پذیرائی کی اور ضروری معلومات فراہم کرکے اس کو حملے کی ترغیب دلائی۔[4] ابو سفیان سحر سے سے پہلے ابن مشکم کے گھر سے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ وہ مدینہ پر شبخون مارنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن مسلمانوں کا خوف رکاوٹ بنا۔ چنانچہ اس نے مجبور ہر اپنے لشکر سے کہا کہ مدینہ کے اطراف میں لوٹ مار کریں تاکہ اس شہر کے باشندے خوفزدہ ہوجائیں۔ سفیانی لشکر نے مدینہ کے نواح میں عریض[5] نامی مقام کچھ نخلستانوں کو نذر آتش کیا اور کھیتوں میں موجود انصار کے دو نہتے کاشتکاروں کو قتل اور ایک گاؤں کے دو خالی گھروں کو نذر آتش کیا[6] اور اس کی طرف پلٹا۔ ابو سفیان نے اپنی نذر یا قسم پوری کرنے کے لئے در حقیقت ایک علامتی مگر بہت ہی احمقانہ اور مضحکہ خیز حملہ کیا تھا۔ ابو سفیان طلوع آفتاب اور مسلمانوں کو حملے کی خبر ملنے سے قبل ہی بھاگ گیا۔

رسول خدا(ص) کا رد عمل

ابو سفیان کے حملے کی خبر رسول خدا(ص) کو ملی تو آپ(ص) بغیر تاخیر کے ”ابولبابہ“ کو اپنا جانشین بنا کر مدینہ میں چھوڑا[7] اور مسلمانوں کو حکم عزیمت دیا اور خود ان کی قیادت سنبھالی۔ دشمن کا حملہ آور ٹولہ ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا لیکن نہایت تیز رفتاری سے بھاگ رہا تھا اور اس کے سویق کے تھیلے پھینک رہے تھے جو سویق سے بھرے ہوئے تھے۔

رسول خدا(ص) نے قرقرۃ الکدر کے علاقے تک ـ جو مدینہ سے چار منزلوں {88 کیلومیٹر} کے فاصلے پر واقع تھا ـ تک دشمن کا تعاقب کیا لیکن انہیں اپنی گرفت میں نہ لا سکے اور 5 روزہ مہم کے بعد مدینہ واپس آئے۔[8] اس بار بھی اب سفیان جان بچا کر نکل چکا تھا اور اس کی چالاکی اس کے کام آئی تھی؛ اور وہ جنگ بدر کی طرح اس بار مسلم مجاہدین کا سامنا کئے بغیر بھاگ چکا تھا۔[9]

غزوہ سویق کے اہم نکات

  1. مشرکین مکہ میں ـ جنگ بدر کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی ـ بحرانی کیفیت کی تلافی کرنا چاہتے تھے اور مدینہ کو بھی بحرانی کیفیت سے دوچار کرنا چاہتے تھے۔
  2. رسول اللہ(ص) نے غزوہ بدر کے صرف چھ ہفتے بعد اس غزوے کی قیادت فرما‏ئی؛ دشمن کے حملے کا بلا تاخیر جواب دیا اور ثابت کیا کہ آپ(ص) دشمن کی نقل و حرکت کا سامنا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
  3. ایک راہزن اور ڈاکو کا تعاقب کرنے کے لئے بھی ـ پہلے کی طرح ـ شہر میں اپنا جانشین مقرر کیا حالانکہ یہ سوال ہمیشہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ یہ یہ دعوی کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنے وصال سے قبل مسلمانوں کے درمیان اپنا جانشین معین نہ کیا ہو؟!

مزید معلومات

  • پیامبری و جہاد فارسی، تالیف: جلال الدین؛
  • محمد راز آفرینش، تالیف: سید جواد ہاشمی ؛
  • عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، أبو الفتح محمد بن محمد بن محمد ابن سید الناس الیعمری ـ ج1؛
  • * السیرة النبویة (سیرہ ابن ہشام)، تالیف: أبو محمد عبد الملک بن ہشام ـ ج3؛
  • موسوعة التاریخ الاسلامی، الشیخ محمد ہادی الیوسفی ـ ج2؛
  • حیاة المحرر الاعظم الرسول الاکرم محمد، تالیف: شیخ باقر شریف قرشی ـ ج3؛
  • الفتح المبین فی غزوات سید المرسلین، تالیف: سعد محسن الطائی۔
  • الصحیح من سیرة النبی الاعظم، تالیف: سید جعفرمرتضی عاملی - ج6۔
  • چکیدہ تاریخ پیامبر اسلام، محمد ابراہیم آیتی-
  • (ڈاؤن لوڈ لنک) پیامبر 12، كیمیای معنا، میثاق امیر فجر؛
  • سبل الہدی والرشاد فی سیرة خیر العباد، تالیف: محمد بن یوسف شمس شامی - ج4؛
  • زندگانى حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، ہاشم رسولى محلاتى، ص 326؛
  • دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، تالیف: أحمد بن الحسين؛
  • برگزیدہ تاریخ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ، تالیف: محمدابراہیم آیتی۔

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الكبری، ج2، ص22۔
  2. طباطبائی، المیزان (فارسی ترجمہ: موسوی)، ج‏4، ص113۔
  3. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج2، ص431۔
  4. ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج2، ص44۔
  5. عریض، شہر مدینہ کے نواحی نخسلستانوں کا ایک حصہ ہے۔
  6. بیہقی، دلائل النبوہ، ج3، ص166۔
  7. بیہقی، دلائل النبوہ، ج3، ص166
  8. ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج2، ص44۔
  9. واقدی، المغازی، ج2، ص181۔

مآخذ

  • ابن خلدون حَضرَمی، ابو زید عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دار الفكر، چاپ دوم، 1408 ہجری قمری۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان في تفسير الميزان، ترجمہ: موسوی ہمدانی، سید محمد باقر، دفتر انتشارات اسلامی وابسته بہ دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔ قم، 1374 ہجری شمسی۔
  • الواقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ سوم، 1409 ہجری قمری،
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرة النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، بی‌ تا.
  • البیہقی، أحمد بن الحسين، المحقق: عبد المعطي قلعجي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعہ، بیروت، دار الكتب العلمیہ، چاپ اول، 1405 ہجری قمری۔
  • الواقدی، محمد بن عمر، المغازی؛ بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ سوم، 1409 ہجری قمری۔
  • ابن سعد، الطبقات الكبری، بیروت، دار الكتب العلمیہ ، چاپ اول، 1410 ہجری قمری۔
پچھلا غزوہ:
بنی قینقاع
رسول اللہ(ص) کے غزوات
غزوہ سویق
اگلا غزوہ:
غطفان