براء بن عازب

ویکی شیعہ سے
بَراءِ بن عازِب
کوائف
مکمل نامبَراءِ بن عازِب انصاری
کنیتابوعمارہ
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسببنی‌ حارثہ قبیلہ اوس
وفات/شہادتسنہ 71 یا 72 ھ
مدفنمدینہ
دینی خدمات
اسلام لاناہجرت سے پہلے
جنگجنگ خندق
دیگر کارنامےراوی حدیث غدیر، ابوبکر کی بیعت سے انکار

بَراءِ بن عازِب (متوفی 71 یا 72 ھ)، پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے غزوات میں شرکت کی اور حدیث غدیر کے راویوں میں سے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ابوبکر کی بیعت کیلئے سقیفہ بنی ساعدہ میں لوگوں کے جمع ہونے کی خبر بنی‌ ہاشم تک پہنچائی اور خود نے بھی ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔ وہ واقعہ کربلا میں بھی حاضر تھے۔

حسب و نسب اور کنیت

براء مدینہ میں موجود انصار اور قبیلہ اوس کے طائفہ بنی‌ حارثہ سے تعلق رکھتے تھے۔[1] ان کی کئی کنیت ذکر ہوئی ہیں، جن میں سب سے زیادہ مشہور ابو عمارہ ہے۔[2]

براء بن عازب شہر کوفہ میں زندگی گزارتے تھے[3] اور عمر کے آخری حصے میں نابینا ہو گئے تھے[4] اور انہوں نے عراق پر مصعب بن زبیر کی حکومت کے دوران کوفہ یا مدینہ میں وفات پائی۔[5]

اسلام

براء نے پیغمبر اکرم (ص) کی مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا جب کہ اس وقت وہ نوجوانی کے عالم میں تھے۔ [6] احتمال دیا جاتا ہے کہ ان کے والد ان سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔[7]

غزوات میں شرکت

براء اور کئی دوسرے افراد جیسے عبداللہ بن عمر اور اسامۃ بن زید کو کمسنی کی وجہ سے جنگ بدر میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ملی۔[8]اسی طرح قوی احتمال ہے کہ غزوہ احد میں بھی پیغمبر اکرم (ص) نے براء اور بعض دوسرے نوجوانوں کو شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی۔[9]

پہلی جنگ جس میں انہوں نے براہ راست شرکت کی وہ غزوہ خندق تھا۔ اس وقت بھی ان کی عمر 15 سال سے زیادہ نہیں تھی۔[10] اگرچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 14 سے 18 غزوات میں شرکت کی[11] لیکن ان جنگوں میں ان کا کوئی خاص کردار نقل نہیں ہوا ہے۔[12]

خود براء سے منقول ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے خالد بن ولید کو اسلام کی تبلیغ کیلئے یمن بھیجا تو اس گروہ میں براء بھی خالد کے ساتھ تھے لیکن جب یہ کام حضرت علی(ع) کے ذمہ لگایا گیا تو براء بھی حضرت کے ساتھ شامل ہو گئے۔[13]

ابوبکر کی بیعت سے انکار

یعقوبی کی روایت کی مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد براء نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کی بیعت کی خبر بنی ہاشم تک پہنچائی اور وہ خود بھی ابوبکر کی بیعت سے انکار کرنے والوں میں شامل تھے۔[14]

فتوحات میں شرکت

بعض احادیث کے مطابق براء بن عازب نے عمر کے دور خلافت کے اواخر اور عثمان کی خلافت کے اوائل میں ایران کے بعض علاقوں جیسے ری، قومس، زنجان، ابہر اور قزوین وغیرہ کے فتوحات میں شرکت کی یا خود سپہ سالار رہے۔ چنانچہ ان فتوحات میں سے ایک ان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔[15] انہوں نے اہالی ابہر سے صلح کیا اور قزوین والوں سے بھی مشکل سے صلح ہوئی اور وہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔[16] لیکن زنجان کو انہوں نے جنگ کے ذریعے فتح کیا۔[17] یہ ساری چیزیں اپنی جگہ لیکن فتوحات سے متعلق منقول روایات میں سے ایک روایت میں ان کے اور براء بن مالک کے درمیان شک و تردید پائی جاتی ہے۔[18]

امام علی(ع) کی بیعت

کہا جاتا ہے کہ براء بن عازب ان اشخاص میں سے تھے جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین علی(ع) کی بیعت کی۔[19] اگرچہ امام علی (ع) کے دور خلافت میں لڑی گئی جنگوں سے متعلق احادیث میں ان سے متعلق کوئی خاص کردار نقل نہیں ہوا ہے لیکن انہی روایات میں سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جمل، صفین اور نہروان میں شرکت کے علاوہ مذکورہ آخری جنگ میں انہیں امام علی(ع) کی طرف سے خوارج کو دوبارہ امام علی(ع) کی طرف واپس آنے کی دعوت دینے کا فریضہ ان کے سپرد کیا گیا۔[20]

نقل حدیث

براء کے توسط سے پیغمبر اکرم (ص) سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں۔[21] ان روایات میں سے بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سیرت نبوی (ص) سے متعلق احادیث سے ان کو دلچسپی تھی۔[22]

ان کا شمار حدیث غدیر کے راویوں میں بھی ہوتا تھا[23]

براء نے بعض صحابہ سے بھی روایت نقل کی ہے۔[24] شعبی، عدی بن ثابت، ابو اسحاق سبیعی اور ان کے اپنے دو بیٹوں نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[25]

واقعہ کربلا

شیخ مفید کتاب ارشاد میں نقل کرتے ہیں؛ اسماعیل بن زیاد کہتے ہیں ایک دن حضرت علی (ع) نے براء بن عازب سے فرمایا: اے براء میرا بیٹا شہادت کے مقام پر فائز ہو گا اس وقت تم زندہ رہے تو اس کی مدد کرنا۔

جب واقعہ کربلا رونما ہوا تو براء نے کہا؛ بیشک حضرت علی (ع) کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی کیوں کہ ان کا بیٹا شہید ہوا لیکن میں نے ان کی مدد نہیں کی یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کام سے پشیمان ہوتے تھے۔[26]

حوالہ جات

  1. الطبقات، ج۱، ص۱۸۶؛ التاریخ الکبیر، ج۱ (۲)، ص۱۱۷؛ برای سلسلہ نسب او، نک: تہذیب الکمال، ج۴، ص۳۴-۳۵.
  2. الطبقات، ج۱، ص۳۰۳؛ الکنی و الاسماء، ص۷۷؛ معرفة الصحابة، ج۳، ص۷۱.
  3. التاریخ، ج۱، ص۱۸۶؛ التاریخ الکبیر، ج۱ (۲)، ص۱۱۷.
  4. المحبر، ص۲۹۸؛ المعارف، ص۵۸۷.
  5. التاریخ، ج۱، ص۳۴۱؛ الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۸.
  6. الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۷- ۳۶.
  7. الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۵.
  8. المغازی، ج۱، ص۲۱؛ الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۷، ۳۶۸.
  9. المغازی، ج۱، ص۲۱۶؛ انساب الاشراف، ج۱، ص۳۱۶؛ قس: المعجم الکبیر، ج۲، ص۸؛ معرفۃ الصحابۃ، ج۳، ص۷۳، نے خود براء سے نقل کیا ہے کہ وہ جنگ احد میں حاضر تھے۔
  10. المغازی، ج۲، ص۴۵۳؛ السیرۃ النبویۃ، ج۳، ص۷۰؛ انساب الاشراف، ج۱، ص۳۴۴.
  11. التاریخ الکبیر، ج۱ (۲)، ص۱۱۷؛ الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۸؛ معرفۃ الصحابۃ، ج۳، ص۷۱.
  12. الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۵.
  13. تاریخ طبری، ج۳، ص۱۳۱-۱۳۲؛ الارشاد، ج۱، ص۶۲.
  14. تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۴.
  15. التاریخ، ج۱، ص۱۶۰-۱۶۱؛ فتوح البلدان، ص۳۱۷- ۳۱۸.
  16. فتوح البلدان، ص۳۲۱-۳۲۲.
  17. التاریخ، ص۳۲۲.
  18. الطبقات، ج۱، ص۴۴۹؛ قس: التاریخ، ص۳۸.
  19. الجمل، ص۱۰۲، ۱۰۴.
  20. خطیب، ج۱، ص۱۷۷؛ نیزنک: ابن عبدالبر، ج۱، ص۱۵۷؛ رافعی، ج۱، ص۶۱؛ ابن حجر، ج۱، ص۱۴۷.
  21. المسند، ج۴، ص۲۸۰، ۳۰۴؛ المعجم الکبیر، ج۲، ص۹-۱۰؛ تحفۃ الاشراف، ج۲، ص۱۳ بہ بعد؛ برای احادیث او در صحاح، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۱۹۶.
  22. الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۶۵-۳۶۶؛ انساب الاشراف، ج۱، ص۲۵۷؛ تاریخ طبری، ج۲، ص۴۹۳، ۵۲۶، ۶۳۶.
  23. المسند، ج۴، ص۲۸۱؛ مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)، ج۲، ص۳۶۸-۳۷۰؛ قس: معرفۃ الرجال، ص۴۵، کے مطابق انہوں نے اس حدیث کو چھپانا چاہا اسی وجہ سے وہ امام علی (ع) کی نفرین کی وجہ سے نابینا ہو گئے؛ رجال ابن داوود حلی، ۶۴؛ قس: معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۲۷۷-۲۷۹؛ قاموس الرجال، ج۲، ص۲۶۰.
  24. نک: تہذیب الکمال، ج۴، ص۳۵-۳۶.
  25. الجرح و التعدیل، ج۱، ص(۱) ۳۹۹؛ برای فہرستی از راویان او، نک: تہذیب الکمال، ج۴، ص۳۶-۳۷.
  26. مفید، الإرشاد، ج‌۱، ص۳۳۲.

مآخذ

  • ابن ابی حاتم رازی، عبدالرحمان، الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، ۱۳۷۱ق.
  • ابن حبان، محمد، الثقات، حیدرآباددکن، ۱۳۹۷ق.
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد، الاصابۃ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق.
  • ابن حزم، علی، جمہرۃ انساب العرب، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • ابن داوود حلی، حسن، الرجال، بہ کوشش جلال الدین محدث، ارموی، تہران، ۱۳۴۲ش.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق.
  • ابن فقیہ، احمد، مختصر کتاب البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۵۵م.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
  • ابن قیسرانی، محمد، الجمع بین کتابی ابن نصر الکلاباذی و ابی بکرالاصبہانی، حیدرآباددکن، ۱۳۲۳ق.
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، ۱۳۵۵ق.
  • ابونعیم اصفہانی، احمد، معرفۃ الصحابۃ، بہ کوشش محمدراضی ابن حاج عثمان، مدینہ، ۱۴۰۸ق.
  • احمدبن حنبل، المسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
  • بخاری، محمد، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، ۱۳۸۲ق.
  • بلاذری، احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م.
  • ہمو، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۶۵م.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، ۱۴۱۰ق.
  • خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد، قاہرہ، ۱۳۴۹ق.
  • خلیفۃ بن خیاط، التاریخ، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۳۸۷ق.
  • ہمو، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶م.
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • ذہبی، محمد، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، مؤسسہ الرسالۃ.
  • رافعی قزوینی، عبدالکریم، التدوین فی اخبار قزوین، حیدرآباد دکن، ۱۹۸۴م.
  • “الرجال”، منسوب بہ احمد برقی، ہمراہ الرجال (نک: ہم، ابن داوود).
  • شیخ طوسی، محمد، الرجال، نجف، ۱۳۸۰ق.
  • شیخ مفید، محمد، الارشاد، قم، ۱۴۱۳ق.
  • ہمو، الجمل، بہ کوشش علی میرشریفی، قم، ۱۴۱۳ق.
  • طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر، بغداد، ۱۳۹۸ق.
  • طبری، تاریخ.
  • کشی، محمد، معرفۃ الرجال، اختیار شیخ طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • محمد بن سلیمان کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)، بہ کوشش محمد باقر محمودی، قم، مجمع الثقافۃ الاسلامیۃ.
  • مزی، یوسف، تحفۃ الاشراف، بمبئی، ۱۳۸۶ق.
  • ہمو، تہذیب الکمال، بہ کوشش بشار عواد معروف، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ.
  • مسلم بن حجاج، الکنی و الاسماء، دمشق، ۱۴۰۴ق.
  • واقدی، محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
  • ونسینک، آ.ی.
  • المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی، استانبول، ۱۹۸۸م.
  • یعقوبی، احمد، التاریخ، بیروت، دارصادر.