سلیمان بن صرد خزاعی

ویکی شیعہ سے
سلیمان بن صرد خزاعی
زندگی نامہ
نامسلیمان بن صرد خزاعی
کنیتابو مُطَرّف‌
لقبخزاعی
تاریخ/محل ولادت...مکہ
محل زندگیکوفہ
وفات/شہادت۶۵ق عین الوردہ
اہم کارنامے
وجہ شہرتاصحاب امام علیؑ، امام حسنؑ و امام حسینؑ
سیاسی-اجتماعی فعالیتیں
سیاسیقیام توابین کی قیادت

سلیمان بن صُرَد بن جون خُزاعی، کوفہ کے شیعہ زعماء میں سے تھے۔ آپ حضرت محمدؐ، امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ نے متعدد جنگوں میں امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے رکاب میں شرکت کی اور امام کی شہادت کے بعد امام حسنؑ پھر امام حسینؑ کا ساتھ دیا یہاں تک کہ کربلا کے واقعے کے بعد امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سنہ 65 ہجری میں قیام توابین کے نام سے چلائی جانے والی تحریک کی قیادت کی جو ان کی شہادت پر اختتام کو پہنچی۔ آپ واقعہ کربلاء میں موجود نہیں تھے جس کی مختلف دلائل ذکر کئے جاتے ہیں۔

ولادت، نسب، نام اور کنیت

سلیمان بن صرد خزاعی مکہ میں پیدا ہوئے۔ تاریخی منابع میں ان کی ولادت کے حوالے سے کوئی معلومات موجود نہیں ہے لیکن آپ کی تاریخ شہادت کو سنہ65 ہجری قمری ذکر کیا گیا ہے جس وقت آپ 90 سال کے تھے۔[1] آپ کے والد کا نام "جون‌" تھا اور قبیلہ خزاعہ کے ساتھ ان کی تعلق رکھنے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔[2]

ان کا نام زمان جاہلیت میں "یسار‌" تھا اور پیغمبر اکرم(ص) نے مسلمان ہونے کے بعد آپ کا نام "سلیمان‌" رکھا۔ ان کی کنیت "ابو مُطَرّف‌" کہا گیا ہے۔[3]

ذاتی خصوصیات

جو کچھ شیعہ اور اہل سنت نے "سلیمان بن صرد خزاعی" کے بارے میں کہا ہے وہ سب ان کی مدح میں ہے۔ مورخین کے نقل کے مطابق آپ عابد، فاضل اور اپنی قوم میں خاص مقام و منزلت کے حامل نیک افراد میں سے تھے اور قبیلہ خزاعہ ان کی اطاعت کرتے تھے۔[4]

پیامبر(ص) کے شانہ بشانہ

سلیمان بن صرد خزاعی نے رسول خدا(ص) کو درک کیا اور آپ کے صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔[5] سید ابوالقاسم خویی فرماتے ہیں: شیخ طوسی نے اس بات کو اہل سنت کتابوں سے لیا ہے وگرنہ فضل بن شاذان کے مطابق آپ تابعین میں سے تھے۔ [6]

حضرت علیؑ کے ساتھ

سلیمان بن صرد خزاعی کوفہ محلہ بنی خزاعہ میں مقیم ہونے والے پہلے اشخاص میں سے تھے۔[7] سلیمان نے دیگر شیعہ بزرگان کے ساتھ امام علیؑ کی خلافت پر سب سے پہلے بیعت کی۔[8] امیرالمؤمنینؑ نے ایک خط کے ذریعے آپ کو منطقہ جبل میں اپنا نمائندہ بنایا۔[9] آپ نے امام علیؑ کے دور خلافت میں تمام جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں امامؑ کی فوج کے دائیں طرف کی کمانڈ آپ کے ہاتھ میں تھی۔[10] جنگ "حوشَب‌" معاویہ کی فوج کا یمنی سپہ سالار آپ کے تلوار سے ہلاک ہوئے۔[11]

بعض کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں انہوں نے شرکت نہیں کی جس پر حضرت علیؑ نے ان کی سرزنش فرمائی[12] البتہ اس مطلب کو تاریخ کتابوں میں شک و تردید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ [13] لیکن آیت اللہ خویی اس جنگ میں ان کی عدم شرکت کو غذر موجہ کی وجہ سے قرار دیتے ہیں۔[14] اور شیخ طوسی نے اس واقعے کی نفی کی ہے اور ان کے اس جنگ میں شرکت نہ کرنے کو جھوٹ قرار دیا ہے۔[15]

امام حسنؑ کے ساتھ ملاقات

مورخین لکھتے ہیں کہ سلیمان بن صرد خزاعی نے امام حسنؑ کی معاویہ کے ساتھ صلح انجام پانے کے بعد آپ سے ملاقات کی ارو اس بارے میں بیعت سے انکار کرتے ہوئے امامؑ پر اعتراض کیا۔ امام حسنؑ جواب میں فرماتے ہیں: آپ ہمارے شیعہ اور محب ہیں ہیں خدا کی قسم جو کچھ میں نے انجام دیا وہ صرف اور صرف ہمارے خون کو بچانے کی خاطر تھا پس خدا کی قضا پر راضی رہو۔[16] انہوں نے امام حسینؑ کے ساتھ ملاقات میں بھی اس مسئلے پر اعتراض کیا لیکن امام حسینؑ نے معاویہ کی موت تک اس صلح نامے پر مقید رہنے کی تاکید فرمائی۔[17]

امام حسینؑ کی امامت کے دوران

امام حسینؑ کو خط

معاویہ کی موت اور امام حسینؑ کی یزید کی بیعت سے انکار کے بعد شیعیان سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوگئے اور امام حسینؑ کی بعیت کرتے ہوئے آپ کے نام دو خطوط ارسال کئے۔[18] سلیمان نے اس مجلس میں کہا: معاویہ ہلاک ہوا ہے اور حسین ابن علیؑ نے مکہ کا رخ کیا ہے ہم آپ اور آپ کے والد ماجد حضرت علیؑ کے شیعہ ہیں پس ان کی مدد کریں اور ان کے دشمنوں سے جنگ کریں۔[19]

واقعہ کربلا میں حاضر نہ ہونا

تفصیلی مضمون: واقعہ عاشورا

سلیمان بیعت کی بعد اپنے عہد و پیمان میں ثابت قدم نہ رہے اور حسین ابن علیؑ کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیا۔[20] ابن سعد سلیمان کی شک و تردید کو اس کی ہمراہی نہ کرنے کی دلیل قرار دیتے ہیں۔[21] لیکن محمد رضا مظفر فرماتے ہیں: حادثہ عاشورا کے وقت بہت سارے شیعہ بزرگان جیسے مختار، سلیمان بن صرد خزاعی اور ابراہیم بن مالک اشتر عبیداللہ بن زیاد کے قید میں بند تھے۔[22]

توابین کی قیادت

تفصیلی مضمون: قیام توابین

حادثہ عاشورا کے بعد انہوس نے توابین کے نام سے ایک گروہ تشکیل دیا اور سنہ۶۵ ہجری قمری میں عمر بن سعد کی خلاف اور سیدالشہداؑ کی خون کا بدلہ لینے کی خاطر قیام کیا.[23] ابن نما حلی کہتے ہیں: کوفہ میں قیام کرنے والا پہلا شخص سلیمان بن صرد خزاعی تھا۔[24]

شہادت

انہوں نے "عین الوَرده‌" علاقے میں سپاہ شام کے ساتھ جنگ جو قیام توابین کے نام سے معروف ہے اور جسکی قیادت وہ خود کر رہے تھے میں "یزید بن حصین" کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت انہوں نے کہا: خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ [25] ابن سعد کہتے ہیں: انہوں نے 90 سال کی عمر میں شہادت پائی۔[26] امام علیؑ جنگ صفین میں ان سے فرمایا: تم وہ شخص ہو جو شہادت کی انتظار کرتے رہتے ہو اور اپنے عہد و پیمان میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں لاتے ہو۔[27]

نقل ہوا ہے کہ انہوں نے عالم رؤیا میں حضرت خدیجہ کبری، فاطمہ زہرا(س)، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو دیکھا اس وقت حضرت خدیجہ نے ان سے فرمایا اے سلیمان! خدا تمہارا اور تمہارے دوستوں کا قدردان ہے اور تم لوگ قیامت کے دن ہمارے ساتھ محشور ہونگے۔[28]



حوالہ جات

  1. طبقات کبری، ج۶، ص۲۶.
  2. الاستیعاب، ج۲، ص۶۴۹.
  3. اسد الغابه، ج۲، ص۳۵۱. طبقات ابن سعد، ج۴، ص۲۹۲.
  4. مستدرک، ج۳، ص۵۳۰. تاریخ بغداد، ج۱، ص۲۱۵. استیعاب، ج۲، ص۶۵۰.
  5. رجال طوسی، ص۹۴.
  6. معجم رجال حدیث، ج۹، ص۲۸۴.
  7. طبقات ابن سعد، ج۶، ص۲۵. اسد الغابہ، ج۲، ص۳۵۱.
  8. الجمل، ص۵۲.
  9. انساب الاشراف، ص۱۶۶.
  10. واقعہ صفین، ص۲۰۵.
  11. واقعہ صفین، ص۴۰۰ و ۴۰۱. کتاب الفتوح، ج۳، ص۱۲۱ و ۱۲۲.
  12. المصنف، ج۸، ص۷۲۱. انساب الاشراف، ص۲۷۱ و ۲۷۲. وقعة صفین، ص۶.
  13. المنتخب، ص۷۳.
  14. معجم رجال حدیث، ج۹، ص۲۸۳.
  15. رجال طوسی، ص۶۶.
  16. الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۱۴۱.
  17. الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۱۴۲.
  18. کتاب الفتوح، ج۵، ص۲۷ – ۳۰.
  19. بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۳۲.
  20. طبقات ابن سعد، ج۶، ص۲۵. الاصابہ، ج۳، ص۱۴۴.
  21. طبقات کبری، ج۴، ص۲۹۲.
  22. تاریخ شیعہ، ص۱۷.
  23. الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶۰.
  24. ذوب النضار، ص۷۲.
  25. البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۷۹.
  26. طبقات ابن سعد، ج۶، ص۲۶.
  27. واقعہ صفین، ص۵۱۹.
  28. مستدرکات علم رجال، ج۴، ص۱۳۸.

منابع

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا.
  • ابن اعثم، احمد، کتاب الفتوح، دارالاضواء، ۱۴۱۱ ہ‍.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • ابن عبدالبر، احمد بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ ہ‍.
  • ابن نما حلی، جعفر بن محمد، ذوب النضار فی شرح الثار، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ ہ‍.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۳۹۴ ہ‍.
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ہ‍.
  • دینوری، ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق طہ محمد الزینی، مؤسسۃ الحلبی، بی‌تا.
  • طبری، محمد بن جریر، المنتخب من کتاب المذیل، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، بی‌تا.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ ہ‍.
  • عسقلانی، ابن حجر احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ ہ‍.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ ہ‍.
  • مفید، محمد بن نعمان، الجمل، مکتبۃ الداوری، بی‌تا.
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، قاہرہ، المؤسسۃ الغربیۃ، ۱۳۸۲ ہ‍.
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، ۱۴۱۲ ہ‍.