سعد بن حرث انصاری

ویکی شیعہ سے
سعد بن حرث انصاری
کوائف
نام:سعد بن حرث (حارث)
نسبقبیلہ خزرج بنی عجل طائفہ
شہادت37ھ
اصحابامام علی‌‌ؑ
سماجی خدماتجنگ صفین میں شرکت


سَعْد بن حَرْث (حارِث) بن سَلَمَۃ انصاری عَجْلانی کوفی، ایک ضعیف روایت کے مطابق 61 ہجری کے واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ سعد واقعہ کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر میں تھا لیکن امام حسینؑ کے استغاثے کی آواز سن کر امامؑ کی نصرت کے لئے کوفہ کے لشکر سے جنگ کرنے گئے اور جام شہادت نوش کیا۔ لیکن بعض قدیم منابع میں ان کو امام علیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے جو جنگ صفین میں شہید ہوئے۔

شہادت کا وقت

سعد بن حرث(حارث) کی شناخت اور شہادت کے بارے میں دو مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں؛ بعض نے تسمیۃ من قتل سے استناد کرتے ہوئے ان کے نام کو شہدائے کربلا میں شامل کیا ہے؛[1] لیکن بعض قدیمی مآخذ میں ان کا نام جنگ صفین کے شہدا میں شامل کیا گیا ہے۔[2]

کربلا میں شہادت

فضیل‌ بن زبیر نے پہلی بار سعد اور ان کے بھائی ابوالحتوف کا نام شہدائے کربلا میں ذکر کیا ہے:«انصار میں سے ... سعد بن حارث اور ان کے بھائی الحتوف بن حارث جو کہ جنگ صفین میں حکَمیت کے طرفدار تھے، نے جب کربلاء میں آل محمدؐ کے بچوں اور خواتین کی آہ و فغاں کی آواز سنی تو امام حسینؑ کی حمایت میں لڑے اور شہید ہوئے۔»[3] بہت ساروں نے اسی کتابچے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے نام کو شہدائے کربلا میں شامل کیا ہے اور ان کی شہادت کی کیفیت کو بھی بیان کیا ہے؛ عاشورا کے دن ظہر کے بعد جب امام حسینؑ کے تمام اصحاب شہید ہوئے اور کوفہ کی سپاہ نے امام کا محاصرہ کیا تو امام حسینؑ نے «اَلا مِنْ ناصِرٍ فَیَنْصُرنا، اَلا مِنْ ذابٍّ یَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسولِ اللہِؐ» کی ندا بلند کی۔ حسینی خیمگاہ میں خواتین اور بچوں نے یہ آواز سنی اور رونا شروع کیا۔ اسوقت سعد اور اس کا بھائی ابوحتوف بن حارث نے خواتین اور بچوں کی آواز سنی تو خوارج کا نعرہ لگانا شروع کیا «لا حکم الا للہ و لاطاعۃ لمن عصاہ»،[4] اس کے بعد اعلان کیا کہ حسینؑ پیغمبر اکرمؑ کی بیٹی فاطمہ زہراء(س) کا بیٹا ہے ہمیں قیامت میں ان کے نانا کی شفاعت کی امید ہے ایسے میں ان کے ساتھ کیسے لڑ سکتے ہیں جبکہ وہ بےیار و مددگار رہ گئے ہیں اور کربلا کے صحرا میں مدد کے لئے پکار رہے ہیں، اس کے بعد اپنی تلواروں کو نیام سے نکالا اور دونوں بنی امیہ اور عمر بن سعد کی فوج پر ٹوٹ پڑے، کئی لوگوں کو قتل اور زخمی کیا اور دونوں ایک ہی جگہ شہید ہوئے۔[5] ایک اور بیان کے مطابق امام حسینؑ کی شہادت کے بعد جب سعد نے اہل حرم کی آہ و فغاں سنی تو عمر سعد کی فوج پر حملہ آور ہوئے اور شہید ہوئے۔[6]

لیکن کربلا میں ان کے شہید ہونے پر کچھ خدشات ہیں، محمد تقی شوشتری اور بعض دیگر نے سعد کا امام حسینؑ کی فوج میں شامل ہونا نیز سعد اور اس کے بھائی کا خوارج میں سے ہونے کو نقل کرنے والے مآخذ کو مشکوک قرار دیا ہے۔ تستری کا کہنا ہے کہ خوارج کے عقیدے کے مطابق وہ کسی بھی حکومت کی مدد نہیں کرتے تھے اور خوارج کا شعار اور نعرہ «لا حُکْمَ الَّا لِلَّہِ»- کے مطابق امام حسینؑ کی مدد کے لئے آنا کچھ بعید لگتا ہے۔[7] دوسری بات جس مآخذ میں سب سے پہلے اس بات کا تذکرہ ہوا ہے وہ تسمیۃمن قتل کے نام کا ایک چھوٹا کتابچہ ہے۔ اور اس میں عمر بن سعد کے لشکر کے بعض افراد کو بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔[8] اس کے علاوہ یہ شخص امام علیؑ کا صحابی تھا اور جنگ صفین میں شہادت پاگئے ہیں۔[9]

جنگ صفین میں شہادت

مندرجہ بالا بیان کے برخلاف ابن سعد(230ھ)، طبری(310ھ)، ابن عبدالبر(463ھ)، ابن اثیر(630ھ) جیسے بعض دیگر مورخین نے سعد کے بارے میں واضح لکھا ہے کہ: سعدبن حارث انصاری جنگ صفین میں علی‌بن ابی طالبؑ کی رکاب میں شہید ہوئے ہیں۔[10]

حوالہ جات

  1. الأمالی الخمیسیۃ(تسمیۃمن قتل)، جزء اول، ص172. ر. ک: الحدائق الوردیۃ، ص122.
  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج5، ص82. طبری، المنتخب من ذیل المذیل،1358ھ، ص146. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1413ھ، ج2، ص583. ابن اثیر، اسدالغابۃ، دار الکتاب العربی، ج2، ص272.
  3. الأمالی الخمیسیۃ(تسمیۃمن قتل)، جزء اول، ص172. ملاحظہ کریں: الحدائق الوردیۃ، ص122.
  4. حسینی حائری شیرازی، ذخیرۃ الدارین، زمزم ہدایت، ص456؛ رکـ: تستری، قاموس الرجال، 1414ھ، ج5، ص28؛ امین، اعیان الشیعہ، 1421ھ، ج2، ص319؛ محلی، الحدائق الوردیۃ، صنعا، ج1، ص211؛ مامقانی، تنقیح المقال، مطبعۃ المرتضویۃ، ج2، ص12.
  5. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ص159 و 222؛ حسینی حائری شیرازی، ذخیرۃ الدارین، زمزم ہدایت، ص456؛ رکـ: تستری، قاموس الرجال، 1414ھ، ج5، ص28؛ امین، اعیان الشیعہ، 1421ھ، ج2، ص319؛ محلی، الحدائق الوردیۃ، صنعا، ج1، ص211؛ مامقانی، تنقیح المقال، مطبعۃ المرتضویۃ، ج2، ص12.
  6. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ص159؛ امین، اعیان الشیعہ، 1421ھ، ج2، ص319.
  7. تستری، قاموس الرجال، 1414ھ، ج5، ص28.
  8. ملاحظہ کریں: صالحی حاجی آبادی، تسمیۃ من قتل در ترازوی نقد،1392ہجری شمسی، فصلنامہ پژوہش نامہ تاریخ، ص131-159.
  9. ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج5، ص82. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1413ھ، ج2، ص583. ابن اثیر، اسدالغابۃ، دار الکتاب العربی، ج2، ص272.
  10. ابن سعد، الطبقات الکبری، دار صادر، ج5، ص82. طبری، المنتخب من ذیل المذیل،1358ھ، ص146. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1413ھ، ج2، ص583. ابن اثیر، اسدالغابۃ، دار الکتاب العربی، ج2، ص272.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی‌ بن محمد، اسدالغابۃ، بیروت، دار الکتاب العربی، بی‌تا.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • ابن عبدالبر، یوسف‌بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد، بیروت، دار الجیل، 1413ھ۔
  • المرشد باللہ، یحیی‌ بن حسین، الامالی الخمیسیۃ(تسمیۃ من قتل مع الحسین)، بیروت، عالم الکتب، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف، 1421 ھ۔
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسہ نشر الاسلامی، 1414ھ۔
  • حسینی حائری شیرازی، عبدالمجید بن محمدرضا، ذخیرۃ الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیہ‌السلام و أصحابہ، تحقیق باقر دُرْیاب نجفی، قم، زمزم ہدایت، بی‌تا.
  • سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ‌السلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، [بی جا]، مرکز الدراسات الاسلامیۃ لحرس الثورۃ، 1377ش/1419ھ۔
  • طبری، محمد، المنتخب من ذیل المذیل من تاریخ الصحابۃ و التابعین، بیروت، موسسۃ الاعلمی، 1358ھ۔
  • مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف اشرف، مطبعۃ المرتضویہ، بی‌تا.
  • محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیۃ فی مناقب الأئمۃ الزیدیۃ، تحقیق مرتضی بن زید محطوری، صنعا، مکتبہ بدر، بی‌تا.