مقام رأس الحسین (عسقلان)

ویکی شیعہ سے

مقام رأس الحسین یا مسجد مشہد الحسین یا مشہد ُ الرأس، فلسطین کے شہر عسقلان میں امام حسینؑ کے سر اقدس سے منسوب ایک زیارت ہے۔ بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے یزید کے سپاہیوں نے امام حسینؑ کے مبارک سر کو شام کے مختلف شہروں میں پھیرانے کے بعد اسے عسقلان کے باہر کہیں دفن کردیا۔ پھر فاطمی حکمرانوں نے اسے مصر لے آیا اور وہاں پر بھی ایک بارگاہ بنادیا۔

تمام شیعہ علما، بعض اہل سنت اور عربی بعض محققین کا کہنا یہ ہے کہ اس جگہ امام حسینؑ کا سر کسی بھی صورت میں دفن نہیں ہوا ہے۔ اس کے باوجود فلسطین اور اس کے ہمجوار مسلمانوں کے ہاں یہ جگہ قابل احترام اور مقدس رہی ہے۔

تاریخ اسناد کے مطابق یہ عمارت 484ھ میں فاطمی حکومت کے وزیروں کے وساطت سے تعمیر ہوئی۔ اس کے بعد اگرچہ صلیبی جنگوں میں عسقلان پر متعدد بار عیسایوں کا قبضہ ہوا لیکن بیسویں صدی عیسوی کبھی یہ عمارات پوری طرح سے منہدم نہیں ہوئی۔ اسرائیل کی فوج نے اس عمارت کو 1950ء میں منہدم کیا اور 90 کی دہائی میں ہندوستان کے شیعوں نے اس کی دوبارہ مرمت کرائی۔ اس جگہ ہر سنہ کچھ پاکستانی اور ہندوستانی زائر یہاں آتے ہیں۔

تعارف

مورخین کا کہنا ہے کہ مقام رأس الحسین پانچویں صدی ہجری سے شیعہ اور سنیوں کی آمد و رفت کی ایک مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے یہ جگہ فلسطین کی تاریخ میں شیعوں کی سب سے اہم زیارتگاہ ہے۔[1] اس جگہے کو «مسجدُ المَشہدِ الحسین» اور «مَشہدُ الرَّأس» جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔[2]

اس جگہ امام حسینؑ کا سر مبارک دفن ہونے کے بارے میں شک و تردید کے باوجود یہ جگہ تاریخ میں ہمیشہ سے فلسطین کے مسلمانوں کی زیارت اور نذورات دینے کی جگہ شمار ہوتی رہی ہے[3] اسی طرح بعض دوسرے ممالک سے بھی لوگ زیارت کرنے آتے ہیں۔[4]

امام حسینؑ کا سر مبارک عسقلان میں؟

20ویں صدی کی ابتدا میں مشہد الرأس کی عمارت عسقلان کے اطراف میں جورہ کے ٹیلے پر

بعض شیعہ محققین کا یہ نظریہ ہے کہ ممکن ہے عسقلا میں کوئی سر دفن ہوا ہوگا؛ لیکن یہ سر امام حسینؑ کا ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔[5] شیعہ علما کا یہی نظریہ رہا ہے کہ امام حسینؑ کا سر کسی بھی صورت میں عسقلان میں دفن نہیں ہوا ہے؛[6] بلکہ کوفہ اور شام میں پھیرانے کے بعد کربلا لے جایا گیا اور امام حسینؑ کے بدن کے ساتھ وہی پر دفن ہوا ہے۔[7]

اہل سنت عالم دین ابن تیمیہ نے بھی اس مکان کا امام حسینؑ سے منسوب ہونے کو انکار کیا ہے اور کہتا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی معتبر تاریخ نہیں ملتی ہے۔[8] مغربی کچھ محققین کے مطابق یہ زیارتگاہ کسی ٹیلے پر بنی ہے جو اسلام سے پہلے دو عیسائی شہیدوں کے سر قلم کرنے کی جگہ سے مشہور تھی۔ انھوں نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ زیارتگاہ بھی ان جگہوں میں سے ایک ہوگی جو عیسائیوں کے مقدس مقامات سے تبدیل ہوکر اسلامی زیارتگاہیں بنی ہیں۔[9]

ان کے مقابلے میں بعض مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ امام حسینؑ کا سر مبارک شام کے مختلف شہروں میں پھیرانے کے بعد آخر میں عسقلان کے اطراف میں دفن ہوا۔[10] بعض کا کہنا ہے یزید نے جان بوجھ کر امام حسینؑ کا سر یہاں دفن کرنے کا حکم دیا؛ کیونکہ وہاں پر اس وقت بعض شیعہ بستے تھے۔[11] ایک روایت کے مطابق عسقلان کے لوگوں نے ہی امام حسینؑ کا سر وہاں دفن کرنے کی یزید سے خواہش ظاہر کی پھر اس ٹیلے پر دفن ہوا اور وہیں ایک بارگاہ بنا دی۔[12]

مقام رأس الحسین کی عمارت

ایک نقل کے مطابق فاطمی حاکم مُستَنصَر (420-487ھ) کے دورِ حکومت میں ایک شخص نے خواب دیکھا کہ امام حسین کا سر مبارک عسقلان میں ہے[13] اور مستنصر کا عیسائی وزیر بدرالجمالی (متوفی 487ھ)[14] یا ان کا بیٹا افضل شہنشاہ (459-515ھ)[15] نے اس جگہ ایک قبہ بنانے کا حکم دیا۔ اس مسجد کے منبر پر موجود کتبہ کے مطابق اس زیارت گاہ کی تعمیر سنہ 484 ہجری کو ہوئی ہے۔ یہ کتبہ بعد میں فلسطین کے شہر الخلیل کی جامع مسجد لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ الخلیل مسجد میں پتھروں پر نقش شدہ پانچ کتبے بھی ہیں جو اس تاریخ کی گواہی دیتے ہیں۔[16]

عماد الدین قزوینی اپنی کتاب آثار البِلاد میں لکھتے ہیں کہ عسقلان میں مقام رأس الحسین کی عمارت بڑی شاندار تھی۔[17] ابن بطوطہ کے سفرنامے (703 -770ھ) میں بھی یہ جگہ ایک بڑی اور خوبصورت مسجد کے عنوان سے ذکر ہوئی ہے جس کے ستون سنگ مرمر کے ہیں اور ایک ستون سرخ سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے۔[18] بعض مصادر میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کے سر کو دفن کرنے کی جگہ ایک ستون بنایا تھا جس پر سرخ کپڑا اور سبز عمامہ رکھا ہوا تھا۔[19]

سرِ امام حسینؑ منتقل ہونے کے بعد عسقلان کی زیارتگاہ

عسقلان سے ایک سر کا قاہرہ منتقل کرنے میں محققین کو کوئی شک نہیں ہے۔[20] سنہ 545ھ کو صلیبی جنگوں میں عسقلان پر عیسائیوں کا قبضہ ہوا۔[21] سنہ 548ھ میں مصر کے نئے حاکم طلائع بن رُزّیک نے بہت بڑی رقم دے کر صلیبی حکمرانوں کو منوایا[22] اور امام حسینؑ سے منسوب سر کو عسقلان سے قاہرہ منتقل کیا۔[23] اس تاریخ کے بعد عسقلان کئی مرتبہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے قبضے میں آتا رہا اور آخر کار سنہ 645ھ کو مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔[24] وہاں جا کر دیکھنے والوں مسلمانوں کے مطابق اگرچہ عسقلان کئی مرتبہ صلیبیوں کے ہاتھوں آگیا اور شہر ویران ہوا لیکن مقام راس الحسین کی عمارت منہدم نہیں ہوئی۔[25] تاریخی شواہد کے مطابق بعد کی صدیوں میں یہ جگہ مسلمانوں کے ہاں مقدس سمجھی جاتی تھی۔[26]

دائیں جانب:علاقہ عسقلان اور مقام رأس الحسین سنہ 1870ء میں۔ بائیں جانب: 21ویں صدی میں مقام رأس الحسین عسقلان کے کسی ہسپتال میں

بیسویں صدی عیسوی میں عمارت کا انہدام

موخین کا کہنا ہے کہ 19ویں صدی کے آخر میں عسقلان کے باشندوں نے مقام رأس الحسین کی عمارت کی مرمت کی؛ لیکن سنہ 1950ء اسرائیلی فوج نے موشہ دایان (1915-1981ء) کے حکم سے منہدم کیا۔[27] لاس آنجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 1990ء کی دہائی میں ہندوستان کے شیعوں نے اس جگہ ایک چھوٹی سی زیارتگاہ بنادی جو آج کل عسقلان کے ایک ہسپتال کے اندرونی احاطے میں واقع ہے۔ [28] کہا جاتا ہے کہ یہ کام اسماعیلیہ فرقے کے 52واں پیشوا داعی محمد برہان الدین (1915-2014ء) کی درخواست پر انجام پایا ہے۔ [29] کہا جاتا ہے کہ ہر سال پاکستان اور ہندوستان سے کئی زائر اس جگہ کی زیارت کرنے آتے ہیں۔ [30]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p108-110.
  2. «مقام رأس الحسین در سرزمین ہای اشغالی»، سایت نور نیوز.
  3. قزوینی، آثار البلاد و اخبار العباد، 1998م، ص222.
  4. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p109.
  5. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص553.
  6. بیضون، موسوعۃ کربلاء، مؤسسۃ الأعلمی، ج2، ص542؛ گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص553.
  7. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص546؛ گروہ نویسندگان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہدا، 1395شمسی، ج2، ص574 و587؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، منشورات الرضی، ص 192؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج 45، ص145.
  8. ابن تیمیہ، رأس الحسین، 1368ھ، ص8.
  9. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p109.
  10. خامہ یار «رأس الحسین»، ص188؛ گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص526.
  11. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص518.
  12. گروہ نویسندگان، تاریخ و مقتل جامع امام حسین(ع)، 1395شمسی، ج2، ص584.
  13. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص516.
  14. خامہ یار، «رأس الحسین»، ص188.
  15. جمع نویسندگان، اہل بیت در مصر، 1427ھ، ص77.
  16. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p109.
  17. قزوینی، آثار البلاد و اخبار العباد، 1998م، ص222.
  18. ابن بطوطہ، رحلۃ ابن بطوطہ، 1417م، ج1، ص252.
  19. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p110.
  20. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص553.
  21. ابن تغری بردی، نجوم الزاہرہ، 1392ھ، ج5، ص299.
  22. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ج5، ص526.
  23. گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین، 1378-1390شمسی، ص516.
  24. ابوالفداء، تاریخ أبی الفداء، 1417ھ، ج2، ص282.
  25. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p109.
  26. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p110.
  27. Petersen, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, p110؛ Rapoport, «History Erased», Haaretz.
  28. SobelmaN, «Sacred surprise behind Israeli hospital», los angeles time.
  29. «مقام رأس الحسین در سرزمینہای اشغالی»، سایت نورنیوز.
  30. SobelmaN, «Sacred surprise behind Israeli hospital», los angeles time؛ Rapoport, «History Erased», Haaretz.

مآخذ

  • ابن بطوطہ، محمد بن عبد اللہ، رحلۃ ابن بطوطۃ، مراکش، أکادیمیۃ المملکۃ المغربیۃ، 1417ء۔
  • ابن بطوطہ، سفرنامہ ابن بطوطہ، ترجمہ محمدعلی موحد، موسسہ انتشارات آگاہ، 1370شمسی، بی جا.
  • ابن تغری بردی، یوسف، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر و القاہرۃ، قاہرہ، وزارۃ الثقافۃ و الإرشاد القومی. المؤسسۃ المصریۃ العامۃ، 1392ھ/ 1972ء۔
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، رأس الحسین، بی جاریال مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ، 1368ھ/ 1949ء۔
  • ابو الفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ أبی الفداء (المختصر فی أخبار البشر)، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1417ھ/ 1997ء۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، تحقیق محمدحسین آشتیانی، قم، علامہ، بی تا.
  • بیضون، لبیب، موسوعۃ کربلاء بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1427ھ/ 2006ء۔
  • خامہ یار، احمد، «رأس الحسین»، در دانشنامۀ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرت المعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین، قم، منشورات الرضی، بی تا.
  • قزوینی، زکریا بن محمد، آثارالبلاد و اخبارالعبا، بیروت، دار صادر، 1998ء۔
  • گروہ نویسندگان، اہل البیت فی مصر، تہران، مجمع تقریب مذاہب اسلامی، 1427ھ۔
  • گروہ نویسندگان، تاریخ امام حسین(ع)، تہران، سازمان پژوہش و برنامہ ریزی آموزشی. دفتر انتشارات کمک آموزشی، 1378-1390ہجری شمسی۔
  • گروہ نویسندگان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہدا، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1395ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • «مقام رأس الحسین در سرزمینہای اشغالی»، نور نیوز ویب سائٹ، تاریخ اشاعت: 23 مرداد 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 12 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • Petersen, Andrew, Bones of Contention: Muslim Shrines in Palestine, Springer, Singapore, 2017.
  • Sobelman, Batsheva, «Sacred surprise behind Israeli hospital», los angeles time. تاریخ درج مطلب: 14 تیر 1386شمسی، تاریخ بازدید: 15 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • «History Erased», Haaretz. تاریخ اشاعت: 14 تیر 1386شمسی، تاریخ مشاہدہ: 15 آذر 1402ہجری شمسی۔