مسلم بن عقیل

ویکی شیعہ سے
مسلم بن عقیل
کوفہ میں امام حسینؑ کے سفیر
مسجد کوفہ کے ساتھ مسلم بن عقیل کا مزار
مسجد کوفہ کے ساتھ مسلم بن عقیل کا مزار
کوائف
نام:مسلم بن عقیل
مشہور اقارب:امام حسین‌ؑ (چچازاد بھائی)، عقیل (والد)
محل زندگی:مدینہ
شہادتروز عرفہ، سنہ 60 ہجری
مدفن:کوفہ، مسجد کوفہ
دینی خدمات:کوفہ میں امام حسینؑ کے سفیر


محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


مُسْلِم بن عَقیل بن ابی طالب (شہادت: 60ھ) واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے سفیر اور آل ابی طالب میں سے تھے۔ بعض اسلامی فتوحات اور جنگ صفین میں شریک تھے۔ آپ نے ایک گزارش میں امام حسینؑ کو کوفیوں کی آمادگی کی اطلاع دی۔

یزید کی طرف سے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کرنے کے بعد کوفہ والے مسلم کو تنھا چھوڑ گئے۔ عرفہ کے دن سنہ 60 ہجری کو مسلم گرفتار ہوئے اور عبیداللہ ابن زیاد کے حکم سے شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ کوفہ میں مسلم کی موجودگی میں شیعوں کی شکست کی بنیادی وجہ عبیداللہ بن زیاد کی سیاست اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور کوفیوں کا باہم متحد نہ ہونا قرار دیا جاتا ہے۔ مسلم حضرت علی کے داماد تھے اور آپ کی اولاد میں سے چند بیٹوں کا نام شہدائے کربلا میں درج ہے۔

حسب و نسب

آپ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں البتہ آپ کی شہادت 9 ذی الحجہ کو ہوئی۔[1] بعض تاریخی شواہد کے مطابق شہادت کے دوران آپ کی عمر 28 سال تھی لیکن یہ بات مناسب نہیں لگتی ہے کیونکہ واقعہ کربلا میں حضرت مسلم کے بیٹوں کی عمر 27 اور 28 سال بیان ہوئی ہے۔[2] آپ کی جنگ صفین اور دیگر فتوحات میں شرکت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شہادت کے دوران آپ کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔[3] مسلم کی قبر مسجد کوفہ کے شرقی جانب واقع ہے۔[4] آپ کے والد عقیل حضرت ابو طالب کے فرزند، قریش کے ماہر نسب شناس[5]اور فصحائے عرب میں سے تھے[6] ۔

آپ کی والدہ بعض روایات کے مطابق ایک نبطی عورت تھیں جس کا تعلق «فرزندا» خاندان سے تھا[7] جبکہ ایک اور روایت کے مطابق وہ ایک کنیز تھی جن کا نام "علیّہ" (ایک روایت کے مطابق حلیہ)[8] تھا جسے عقیل نے شام سے خریدا تھا۔[9] مسلم بن عقیل رسول اللہ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔[10] بعض منابع نے عقیل کی اولاد میں مسلم کو قوی ترین اور شجاع تریں شمار کیا ہے۔[11]۔

شادی اور اولاد

مسلم نے حضرت علی کی بیٹی جناب رقیہ سے شادی کی اس لحاظ سے آپ حضرت علی کے داماد بنتے ہیں[12] جبکہ بعض دیگر منابع میں طائفہ بنی عامر بن صعصعہ کی کسی عورت سے شادی کا ذکر ملتا ہے۔[13] واقعہ کربال میں حضرت مسلم کی بعض اولاد کا تذکر ملتا ہے۔ منجملہ جب مکہ اور کوفہ کے راستے میں جب امام حسینؑ کو مسلم کی شہادت کی خبر ملی تو علی اکبر نے واپس لوٹنے کی تجویز دی اور کوفہ والوں کی بےوفائی کا ذکر کیا تو فرزندان مسلم نے علی اکبر کی اس تجویز کی مخالفت کی اور امام کو آگے بڑھنے کی تاکید کی۔[14]

آپ کے چند بیٹوں کا نام شہدائے کربلا میں مذکور ہیں ۔ان میں سے سے عبد اللہ بن مسلم اور محمد بن مسلم قدیمی کتب میں مذکور ہے ۔[15] جبکہ بعض متاخر ضعیف منابع میں عون، مسلم، عبید اللہ، جعفر اور احمد کا نام ملتا ہے۔[16]

بعض تاریخی منابع کی تصریح کے مطابق عبد الله بن مسلم کی والدہ کا نام رقیہ بنت علی تھا۔ ۔بعض دوسری تاریخی کتب میں مسلم، عبد العزیز ،علی اور محمد کا نام بھی آپ کی اولاد میں ملتا ہے [17]۔ان روایات کے مطابق عبد اللہ اور علی کی والدہ رقیہ اور مسلم بن مسلم کی والدہ بنی عامر بن صعصہ سے تھیں۔[18]

اسی طرح بعض کے مطابق آپ کی بیٹی ام حمیدہ[19] اور حمیدہ[20] کا نام بھی ملتا ہے ۔

بعض روایات میں حضرت مسلم کے دو بچوں کا تذکرہ مذکور ہے کہ جو شہادت امام حسین کے بعد کوفہ میں عبید اللہ بن زیاد کے حکم سے اسیر ہوئے اور زندان سے فرار ہونے کے جرم میں شہید کر دئے گئے[21] ۔

فتوحاتِ افریقہ میں شرکت

حضرت مسلم کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ان کا 21 ہجری کی اسلامی فتوحات کی شرکت ہے جو تاریخی کتب میں مذکور ہے۔ حضرت مسلم اپنے چند بیٹوں اور بھائیوں میں سے جعفر اور علی کے ہمراہ "بہنساء" کی جنگ میں شریک تھے ۔ [22]

جنگ صفین میں شرکت

حضرت مسلم بن عقیل نے جنگ صفین میں لشکر امیر المومنین کے ایک حصے کی علمبرداری کی حیثیت سے حضرت امام حسن، امام حسین اور عبد اللہ بن جعفر کے ہمراہ شرکت کی ۔[23] نیز حضرت امام حسن ع کی امامت کے دور میں انکے ہمراہ رہے ۔[24]

سفارت امام حسینؑ

حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین ؑ مدینے سے ہی آپ کے ہمراہ تھے ۔ مکے میں کوفیوں کے خطوط کی کثرت کو دیکھتے ہوئے امام نے عراق کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے حضرت مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔اگر وہاں کے حالات کوفیوں کے خطوط کی غمازی کرتے ہوں تو آپ کوفہ کی جانب سفر کریں گے ۔[25]

مستندات کے مطابق قیس بن مسہر صیداوی ، عمارۃ بن عبد سلولی اور عبد الرحمان بن عبد اللہ ارحبی کوفہ کے اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے ۔امام حسین ؑ نے مسلم بن عقیل کو تقوے کی نصیحت کے ساتھ ساتھ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اس سفر کو مخفی رکھیں لوگوں سے ملیں ۔ اگر لوگ ان کے ساتھ دینے پر راضی ہوں تو واپسی امام کو خبر دیں ۔[26]

سفر کی تیاری اور مشکلات سفر

حضرت مسلم نے کوفہ جانے کے عادی راستے کا انتخاب نہیں کیا اس سے پتہ چلتا ھے کہ انہوں نے اپنے کوفہ جانے کے سفر کو مخفی رکھا ۔آپ نے راستے کے راہنما دو افراد کو اپنے ہمراہ لیا لیکن راستہ گم ہوجانے کی وجہ سے شدید پیاس کا شکار ہو گئے اور وہ دونوں راہنما شدت پیاس سے ہلاک ہوگئے لیکن حضرت مسلم اپنی جان بچا کر ایک آبادی میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے آپ نے وہاں سے حضرت امام حسین ؑ کو خط کے ذریعے پیش آنے والے حالات سے با خبر کیا اور اسے ایک فال بد کہتے ہوئے امام سے اس سفر کی رخصت طلب کی لیکن امام نے انہیں اپنا سفر جاری رکھنے کا حکم دیا ۔[27]

مسلم اور کوفہ

حضرت مسلم جب کوفہ پہنچے تو وہاں مختار بن ابی عبیدہ کے نام سے گھر میں ساکن ہوئے ۔شیعیان اس گھر میں آپ کو ملنے آتے۔ مسلم نے حضرت امام حسین کا خط انہیں پڑھ کر سنایا [28]

البتہ مسعودی نے کہا ہے مسلم کوفہ میں عوسجہ نامی شخص کے گھر مقیم ہوئے [29] جبکہ ابن جوزی نے ابن عوسجہ کے گھر کا ذکر کیا ہے[30]۔

ابن عساکر کہتا ہے کہ 12000 افراد نے مسلم کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی بیعت کی [31] بعض نے بیعت کرنے والوں کی تعداد 18000 لکھی ہے [32] دیگر بعض نے 30000 افراد ذکر کی [33]۔مسلم کی اس قدر حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے یزید کے جاسوسوں نے یزید کو خط میں کوفہ کے حالات لکھے اور کہا کہ حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کمزور ہے یا کمزوری کا اظہار کر رہا ہے اگر کوفہ چاہتے ہو تو بصرے کے موجودہ حاکم عبید اللہ کو کوفہ کا حاکم بنا دو پس یزید نے عبید اللہ کو کوفے کا حاکم مقرر کر دیا ۔[34]

عبید اللہ کے کوفہ آنے پر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروۃ کے گھر منتقل ہوئے جو کوفہ کے ایک بزگ شخصیت مانے جاتے تھے ۔ہر چند مسلم کے شیعیاں کوفہ سے روابط پوشیدہ تھے لیکن عبید اللہ کے ذریعے مسلم کی رہائشگاہ کا پتہ لگا لیا ۔لہذا اس نے ہانی کو اپنے قصر میں طلب کیا اور تقاضا کیا کہ وہ مسلم اس کے حوالے کر دے لیکن ہانی نے ایسا کرنے سے انکار کیا ۔ ہانی کی قصر میں حاضر طلبی کی وجہ سے قبیلۂ مذجج نے قصر کا گھیراؤ کر لیا لیکن عبید اللہ نے قاضی شریح کے ذریعے انہیں دھوکہ دے کر منتشر کر لیا ۔

قیام اور شہادت

فائل:66301 121.jpg
حضرت مسلم بن عقیل کا مزار

جب یہ خبر مسلم کو پہنچی تو مسلم بن عقیل 4000 افراد کے ہمراہ یا منصور امت کے نعرہ کے ساتھ قصر کا گھیراؤ کر لیا ۔[35] عبید اللہ اپنے ساتھ حاضرین سے تقاضا کیا کہ وہ ڈرا دھمکا کر مسلم اور اس کے ساتھیوں کو منتشر کریں ۔

شمر کو عبید اللہ کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ اس نے مسلم کو ایک فتنہ گر کہا اور کوفیوں کو شام کی طرف سے لشکر کے آنے کی خبر کے ذریعے ڈرایا [36]۔یہ حیلہ کارگر ثابت ہوا لوگ مسلم کو چھوڑ کر جانے لگے ۔جب شام ہوئی تو مسلم اکیلے رہ گئے یہانتک کہ کوئی گھر سر چھپانے کیلئے بھی نہ تھا ۔طوعہ نام کی ایک خاتون کے گھر کے ساتھ آپ کھڑے تھے، اس خاتون سے آپ نے پانی کا تقاضا کیا ۔اس خاتون نے آپ کو پہچاننے کے بعد اپنے گھر رات رہنے کی پیشکش کی آپ نے اسے قبول کیا۔ لیکن طوعہ کے بیٹے نے اپنے گھر میں مسلم کی موجودگی کی خبر صبح کو عبد الرحمان بن محمد بن اشعث کو دی ۔ابن زیاد نے 70 افراد پر مشتمل ایک گروہ کو محمد بن اشعث کی سربراہی میں مسلم کی گرفتاری کیلئے بھیجا۔

مسلم اور محمد بن اشعث کے سپاہیوں کی جھڑپ کے بعد محمد بن اشعث نے مسلم کو امان دینے کا کہا۔ مسلم نے اس امان پر اطمینان کی بنا پر ہتھیار ڈال دئے ۔لیکن عبید اللہ نے اس امان کی کوئی پرواہ نہیں کی ۔مسلم اور عبید اللہ کے درمیان تلخ کلامی کے بعد عبید اللہ نے مسلم کو قصر کے اوپرلے جا کر سر تن سے جدا کرنے کا حکم دیا[37]۔

حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عبید اللہ نے ہانی کے قتل کا حکم دیا اور ان دونوں کے سرتن سے جدا کرنے کے بعد یزید کے پاس روانہ کئے ۔[38]

بعض روایات کی بنا پر مسلم کی عمر وقت شہادت 28 سال تھی یہ درست نہیں ہے کہ چونکہ کربلا میں شہید ہونے والے مسلم کے بعض بیٹوں کی عمر 27 اور 26 سال مذکور ہوئی ہے [39]۔

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۶۶.
  2. پورامینی، چهره‌ها در حماسه کربلا، ۱۳۹۴ش، ص۱۶۷.
  3. تهامی، «مسلم بن عقیل پیش از واقعه عاشورا»، ص۹۹.
  4. براقی، تاریخ الکوفة، ۱۴۲۴ق، ص۹۸.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۰۷۹.
  6. ابن عبدالبر، الاستذکار، ج۸، ص۲۴۹.
  7. ابن قتیبه، المعارف، ۱۹۶۹م، ص۲۰۴.
  8. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۷۴م، ج۳، ص۲۲۴.
  9. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۹۶۵م، ص۵۲.
  10. ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۵، ص۳۹۱.
  11. البلاذری، أنساب الأشراف، ج ۲، ص۷۷
  12. طبری، ج۴، ص۳۵۹؛ الطبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ج۱، ص۳۹۷.
  13. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۷۴م، ج۲، ص۷۰-۷۱.
  14. ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۱۱.
  15. طبری، ج۴، ص۳۵۹؛ البلاذری، أنساب الأشراف، ج۶، ص۴۰۷-۴۰۸؛ رجال الطوسی، ص۱۰۳ ؛
  16. پژوهشی پیرامون شهدای کربلاء، ص۹۱، ۱۲۳،۳۰، ۲۵۵، ۳۵۹.
  17. ابن قتیبہ، المعارف، ص۲۰۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج، ص 70-71
  18. البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر، أنساب الأشراف، ج۲، ص۷۰-۷۱.
  19. ابن ماکولا، إکمال الکمال، ج۶، ص۲۳۵.
  20. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ص32
  21. ر.ک: الصدوق، الامالی، ص۱۴۳-۱۴۸.
  22. واقدی، فتوح الشام، ج2، ص
  23. مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، ج۳، ص۱۹۷.
  24. اصحاب امام حسن علیہ السلام
  25. ابن قتیبہ الدینوری، الأخبار الطوال، ص۲۳۰.
  26. المفید، الارشاد، ص۲۹۵-۲۹۷؛ ترجمہ ارشاد، ص۳۳۹-۳۴۲.
  27. طبری، ج5، 354-355؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5،؛ ص 53
  28. ابن قتیبہ الدینوری، الأخبار الطوال، ص۲۳۱.
  29. المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج۳، ص۵۴.
  30. ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک، ج ۵، ص۳۲۵.
  31. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۴، ص۲۱۳.
  32. ابن قتیبہ الدینوری، الأخبار الطوال، ص۲۳۵.
  33. ابن قتیبہ الدینوری، الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۸.
  34. ابن قتیبہ الدینوری، الاخبار الطوال، ص۲۳۱.
  35. فرزندان ‏آل‏ ابى‏ طالب/ترجمہ، ج‏1، ص147
  36. وقعۃ الطف، ابومخفف، ص۱۲۳ـ۱۲۴.
  37. المفید، الارشاد، ص ۵۳-۶۳.
  38. ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج۵، ص۶۲.
  39. پور امینی، چہره ہا در حماسہ کربلا، ص167

مآخذ

  • ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج ۵، تحقیق: علی شیری، بیروت: دار الاضواء، ۱۴۱۱.
  • الأمین، السید محسن، أعیان الشیعہ، ج ۱، تحقیق، تحقیق وتخریج: حسن الأمین بیروت: دار التعارف للمطبوعات (نسخه موجود در لوح فشرده کتابخانہ اہل بیت (ع)، نسخه دوم).
  • البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر، أنساب الأشراف، ج ۲، تحقیق: الشیخ محمد باقر محمودی، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۴/۱۹۷۴.
  • ابن حبان، الثقات، ج ۵، مؤسسہ الکتب الثقافیہ،۱۳۹۳ق.
  • ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک، ج ۵، دراسہ وتحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا راجعہ وصححه: نعیم زرزور، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن عبدالبر، الاستذکار، ج ۸، تحقیق: سالم محمدعطا، محمدعلی معوض، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۰م.
  • ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج ۳، تحقیق: علی محد البجاوی، بیروت: دارالجبل، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۴، تحقیق: علی شیری بیروت: دار الفکر للطباعہ والنشر والتوزیع، ۱۴۱۵.
  • ابن عنبہ حسنی داودی، جمال الدین احمد بن علی، عمدہ الطالب فی انساب آل ابی طالب، انصاریان، قم، 1417ق.
  • ابن قتیبہ الدینوری، الأخبار الطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر/ مراجعہ: الدکتور جمال الدین الشیال، القاہرة: دار إحیاء الکتب العربی- عیسی البابی الحلبی وشرکاه/منشورات شریف الرضی.
  • ابن قتیبہ الدینوری، الامامہ و السیاسہ، تحقیق: علی شیری، قم: انتشارات شریف الرضی، ۱۴۱۳/۱۳۷۱.
  • ابن قتیبہ الدینوری، المعارف، تحقیق: دکتور ثروت عکاشہ، القاهرة: دار المعارف بمصر، ۱۹۶۹.
  • ابن ماکولا، إکمال الکمال، ج ۶، دار إحیاء التراث العربی (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اہل بیت (ع)، نسخه دوم)..
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق، تقدیم وإشراف: کاظم المظفر، النجف الأشرف: منشورات المکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۵ق/ ۱۹۶۵م.
  • اصفہانی، ابوالفرج علی بن حسین(356)فرزندان ابو طالب، ترجمه جواد فاضل، تہران، كتابفروشى على اكبر علمى،1339ش
  • الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج ۳، تحقیق: إشراف وتخریج: شعیب الأرنؤوط/ تحقیق: محمد نعیم العرقسوسی، مأمون صاغرجی، بیروت: مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
  • السید البراقی، تاریخ الکوفہ، تحقیق: ماجد احمد العطیہ، استدراکات السیدمحمدصادق آل بحرالعلوم، انتشارات المکتبہ الحیدریہ، ۱۴۲۴ق/۱۳۸۲ش. بی‌جا.
  • الصدوق، الامالی، قم: مرکز الطباعہ والنشر فی مؤسسہ البعثہ، ۱۴۱۷.
  • الطبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ج ۱، قم: مؤسسہ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، ۱۴۱۷.
  • رجال الطوسی، تحقیق: جواد القیومی الإصفہانی، قم: مؤسسہ النشر الإسلامی، ۱۴۱۵ق (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اہل بیت (ع)، نسخہ دوم).
  • القاضی النعمان المغربی، شرح الأخبار، ج ۳، تحقیق: السید محمد الحسینی الجلالی، قم: مؤسسہ النشر الإسلامی، بی‌تا، (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اہل بیت (ع)، نسخہ دوم).
  • المفید، الارشاد، تحقیق: مؤسسہ آل البیت(ع) لتحقیق التراث، بیروت: دار المفید، ۱۴۱۴/۱۹۹۳.
  • المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج ۳، قم: منشورات دار الہجرة، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش/۱۹۸۴م.
  • واقدی، محمد بن عمر، فتوح الشام، تحقیق عبداللطیف عبدالرحمن، بیروت، دار الکتب العلمیہ