عید غدیر

ویکی شیعہ سے

عید غدیر 18 ذوالحجہ کا دن اور اہل تشیع کی بڑی عیدوں میں سے ہے جس میں حضرت علیؑ رسول اللہؐ کے جانشین منتخب ہوئے۔ اس دن کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرمؐ اور شیعہ ائمہؑ سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح بعض اعمال بھی اس دن کے لئے ذکر ہوئی ہیں جن میں روزہ رکھنا، زیارت غدیریہ کی قرائت، نماز غدیر اور مومنوں کو کھانا کھلانا شامل ہیں۔ اہل تشیع پوری دنیا میں اس دن جشن مناتے ہیں جس میں مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں آج کل اس عید کو منانا شیعوں کے شعائر میں شمار ہوتا ہے۔

غدیر کا واقعہ

تفصیلی مضمون: واقعہ غدیر اور خطبہ غدیر

پیغمبر اکرمؐ ہجرت کے دسویں سال 24 یا 25 ذی القعدہ کو ہزاروں کا قافلہ لے کر مناسک حج انجام دینے کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[1] چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اس لئے یہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہوا۔[2] حج کے اعمال سے فارغ ہو کر پیغمبر اکرمؐ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ 18 ذوالحجہ کے دن یہ قافلہ غدیر خم کے مقام پر پہنچا[3] اس مقام پر جبرئیل آیت تبلیغ لے کر پیغمبراکرمؐ پر نازل ہوا اور خدا کی طرف سے حضرت علیؑ کو اپنا جانشین کے طور پر لوگوں میں اعلان کا حکم دیا۔[4]

رسول اللہؐ نے بھی حاجیوں کو جمع کیا اور علیؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ معرفی کیا۔[5]

روز غدیر کی فضیلت

اس دن کی فضیلت کے بارے میں معصومینؑ سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں:

  • رسول خداؐ فرماتے ہیں: "غدیر خم کا دن میری امت کی بڑی عیدوں میں سے ہے جس دن خدا نے دین اسلام کو مکمل کیا اور میری امت پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کی اور اسلام کو بعنوان دین ان کے لئے قبول کیا۔"[6]
  • امام صادقؑ فرماتے ہیں: "غدیر کا دن خدا کا بہت بڑا دن ہے خدا نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس دن کو عید کے طور پر منایا اور اس دن کی عظمت کو پہچان لیا۔ اس دن کو آسمان میں عہد و پیمان کا دن کہا جاتا ہے اور زمین میں محکم میثاق اور تمام لوگوں کے جمع ہونے کا دن ہے۔"[7]
  • ایک اور روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: عید غدیر سب سے باعظمت اور باشرافت‌ عید ہے اور اس دن سزاوار یہ ہے کہ ہر لمحہ خدا کا شکر بجا لایا جائے اور لوگ شکرانہ کے طور پر روزہ رکھیں جس کا ثواب 60 سال عبادت کے برابر ہے۔[8]
  • امام رضاؑ فرماتے ہیں: "روز غدیر اہل آسمان کے ہاں اہل زمین والوں سے بھی زیادہ مشہور ہے۔۔۔ اگر لوگ اس دن کی قدر و منزلت سے آگاہ ہوتے تو بےشک فرشتے ہر روز دس مرتبہ ان سے مصافحہ کرتے۔"[9]
  • اہل سنت عالم دین نصیبی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤول میں 18 ذوالحجہ کا دن عید ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔[10] ان کا کہنا ہے کہ یہ دن عید اور لوگوں کے جمع ہونے کا دن قرار پایا، کیونکہ جب رسول اللہؐ نے علیؑ کو اس بلند مرتبے پر فائز کیا تو کسی اور کو اس مرتبہ اور فضیلت میں علیؑ کا شریک نہیں ٹھہرایا۔[11] ابن خلّکان اپنی کتاب وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں کہ مصر کے حاکموں میں سے مستعلی بن مستنصر کی بیعت، 18 ذوالحجہ سنہ487ھ کو عید غدیر کے دن ہوئی۔[12]
غدیر خم میں حضرت علیؑ کی امامت کے اعلان کی منظر کشی
غدیر خم کا محل وقوع

جشن غدیر

تہران کے ولی عصر روڑ پر جشن عید غدیر)[13]

کتابِ خصائص الائمه کے نقل کے مطابق عید غدیر کے دن حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرمؐ کے حضور غدیر میں موجود مسلمانوں کے اجتماع میں بلند آواز سے اشعار پڑھا۔[14]

اسی طرح بحارالانوار میں منقول ایک روایت کے مطابق امام رضاؑ غدیر کے دن جشن مناتے تھے۔ آپؑ نے اپنے خاص اصحاب میں سے بعض کو افطار کے لئے اپنے ہاں روک دیا، ان کے گھر والوں کو کھانا اور تحفے بھیج دیا۔[15] چوتھی صدی ہجری کے مورخ علی بن حسین مسعودی اپنی کتاب التنبیه و الاشراف میں لکھتے ہیں کہ امام علیؑ کی اولاد اور ان کے شیعہ اس دن کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔[16] چوتھی صدی ہجری کے محدث کلینی نے بھی کسی ایک روایت میں اس دن شیعوں کا جشن منانے کو نقل کیا ہے۔[17]

آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ ابن‌ کثیر کا کہنا ہے کہ آل‌بویه کی حکومت میں شیعہ حکمران عید غدیر کے دن کو تعطیل اور جشن کا اعلان کرچکے تھے اور حکومتی اداروں اور لوگوں کو اس دن جشن منانے اور شہر کو سجانے کی ترغیب کرتے تھے۔[18] اس جشن میں وہ لوگ جھنڈے لگاتے تھے، اونٹ ذبح کرتے تھے اور رات کو آگ جلا کر جشن و سرور کرتے تھے۔[19] اسی طرح پانچویں صدی ہجری کے مورخ گردیزی نے بھی اس دن کو اسلام کے عظیم ایام اور شیعوں کی عید قارر دیا ہے۔[20]

مصر میں فاطمی خلفا اس دن کو جشن مناتے تھے۔[21] ایران میں صفویہ دور حکومت میں عید غدیر رسمی عیدوں میں سے تھی۔[22] ایران میں عید غدیر کے دن عام تعطیل ہوتی ہے۔[23] عراق میں بھی کربلا، نجف اور ذی‌قار جیسے صوبوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔[24]

عید غدیر کی رات کو بھی شیعہ اہمیت والی رات سمجھتے ہیں اور اس رات شب بیداری کرتے ہیں۔[25]

تاریخ کے آئینے میں

مسلمان بطور خاص شیعہ صدر اسلام سے ہی اس دن کو بڑے جوش و خروش سے جشن مناتے آئے ہیں اور ان کے ہاں یہ دن عید غدیر کے نام سے معروف اور مشہور ہے۔ [26]

مسعودی (متوفای ۳۴۶ ہ.ق) اپنی کتاب [27] میں لکھتے ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے فرزندان اور انکے شیعہ اس دن کو بڑے احترام سے دیکھتے ہیں۔ کلینی (متوفای ۳۲۸ ہ.ق) ایک روایت میں شیعوں کا اس دن جشن منانے کا ذکر کرتے ہیں۔ [28] بنابر این واضح ہے کہ عید غدیر کے دن جشن منانا تیسرے اور چوتھے صدی میں مکمل رائج ہوگیا تھا۔

اس سے پہلے بھی فیاض بن محمد بن عمر طوسی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس کے مطابق امام رضاؑ روز غدیر کو عید مناتے تھے۔[29] اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امام رضاؑ دوسرے صدی ہجری کے آخر میں زندگی کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ عید غدیر کے دن جشن منانا حتی دوسرے صدی ہجری میں بھی مرسوم تھے۔

عید غدیر کا احترام اس کے بعد بھی مسلمانوں کے ہاں مرسوم تھا یہاں تک کہ مستعلی بن مستنصر جو کہ مصر کے حکمرانوں میں سے تھا، کیلئے بیعت بھی اسی دن یعنی عید غدیر کے دن سال ۴۸۷ انجام پایا[30] مصر میں فاطمی خلفاء نے عید غدیر کو رسمیت دی اور ایران میں سنہ ۹۰۷ ہ.ق کو شاہ اسماعیل صفوی کے تخت نشین ہونے کے بعد سے اب تک عید غدیر نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

آج کل عید غدیر شیعوں کے شعائر میں شمار ہوتا ہے اور نجف اشرف امام علیؑ کے روضہ اقدس میں ہر سال اس دن ایک پروقار جشن منعقد ہوتا ہے۔ جس میں شیعہ علماء کے علاوہ تمام اسلامی ممالک کے سفراء بھی شرکت اور خطاب کرتے ہیں اور حضرت علیؑ کی شان میں منقبت اور قصائد سنائے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جہاں کہیں شیعیان حیدر کرار زندگی گزارتے ہیں اس دن کو بڑے عقیدت اور احترام سے مناتے ہیں یمن میں بھی زیدی شیعہ اس دن ایک پروقار جشن مناتے ہیں اور چراغان کرتے ہیں۔

شب عید غدیر بھی مسلمانوں کے ہاں اہم ترین راتوں میں شمار ہوتی ہے۔[31]

عید غدیر کے اعمال

تفصیلی مضمون: اعمال عید غدیر
  • روزہ رکھنا؛ اہل سنت کتابوں میں منقول حدیث نبوی کے مطابق، جو شخص 18 ذوالحجہ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالی اس کے لئے 6 مہینے کے روزوں کا ثواب لکھ دے گا۔[32]
  • مومنین کا ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت اس تہنیت کا پڑھنا: «الحمدُ لِلهِ الّذی جَعَلَنا مِنَ المُتَمَسّکینَ بِولایةِ اَمیرِالمؤمنینَ و الائمةِ المَعصومینَ علیهم السلام" (ترجمہ) حمد و ثنا اس خدا کے لئے جس نے ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دیا جو حضرت علیؑ اور باقی ائمہؑ کی ولایت سے متمسک ہیں۔» [33]
* زیارت غدیریہ پڑھنا[34]
  • نئے اور پاک و صاف لباس پہنا
  • زینت کرنا
  • عطر وغیرہ کا استعمال کرنا
  • صلہ رحم
  • اپنے گھر والوں کے لئے فراخدل ہونا یعنی گھریلو اخراجات میں کنجوس نہ ہونا
  • اطعام مومنین [35]
  • خوش ہونا اور مسکرانا
  • مؤمنین کو ہدیہ اور تحفہ دینا
  • ایمانی بھائی سے ملنا
  • ولایت کی عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا
  • زیادہ صلوات پڑھنا
  • زیادہ اعمال کا انجام دینا
  • مومنین کو کھانا کھلانا
  • روزہ داروں کو افطار کروانا[36]

خطبہ غدیر

تفصیلی مضمون: خطبہ غدیر

احادیث کے مطابق رسول خداؐ نے غدیر خم میں لوگوں کو جمع کیا اور حضرت علیؑ کا ہاتھ تھام کر بلند کیا تاکہ سب آپؑ کو دیکھ سکے اس کے بعد فرمایا: "أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلٰى، قال: مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا عَلٰى مَولاهُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاهُ وَعادِ مَن عاداهُ وَانصُر مَن نَصَرَهُ وَاخذُل مَن خَذَلَهُ"۔ ترجمہ: کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپؐ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا اور سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کردے۔ اس کے بعد مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا جو یہاں حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں۔"


مزید مطالعے کیلئے

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۴۷۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۱۴۸.
  2. زرقانی، شرح الزرقانی، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۴۱؛ تاری، «تأملی در تاریخ وفات پیامبر»، ص۳.
  3. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۱۲.
  4. أیازی، تفسیر قرآن المجید، ۱۴۲۲ق، ص۱۸۴؛ عیاشی، تفسیر عیاشی، مکتبه علمیه اسلامیه، ج۱، ص۳۳۲.
  5. ابن‌اثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج‌۳، ص۶۰۵؛ کلینی، الکافی،۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۵؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۱۰-۱۱۱؛ ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۴۹.
  6. شیخ صدوق، الامالی، مؤسسة البعثه، ص۱۸۸.
  7. حرعاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۸۹.
  8. حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۱۰، ص۴۴۳.
  9. طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۶، ص۲۴.
  10. نصیبی، مطالب السؤول، ۱۴۱۹ق، ص۶۴.
  11. نصیبی، مطالب السؤول، ۱۴۱۹ق، ص۷۹.
  12. ابن‌خلکان، وفيات الأعيان، دار صادر، ج۱۷ ص۱۸۰.
  13. «مهمانی ۱۰ کیلومتری به مناسبت عید غدیر - ۲»، خبرگزاری برنا.
  14. سید رضی، خصائص الائمة، ۱۴۰۶ق، ص۴۲.
  15. مجلسی، بحار الانوار، ج۹۵، ص۳۲۲.
  16. مسعودی، التنبیه و الاِشراف، ۱۳۵۷ق، ص۲۲۱.
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۴۹.
  18. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۲۷۶.
  19. ابن‌جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۱۴.
  20. گردیزی، زین الاخبار، ۱۳۶۳ش، ص۴۶۶.
  21. امینی، عیدالغدیر فی عهد الفاطمیین، ۱۳۷۶ش، ص۶۴-۶۵.
  22. نیک‌زاد طهرانی و حمزه، «تشیع و تاریخ اجتماعی ایرانیان در عصر صفوی»، ص۱۳۱.
  23. لایحه قانونی تعیین تعطیلات رسمی کشور، وبسایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.
  24. «حال و هوای نجف اشرف در عید غدیر و تعطیلی ۱۰ استان عراق»، خبرگزاری تسنیم.
  25. ثعالبی، ثمارالقلوب، ۱۴۲۴ق، ص۵۱۱.
  26. ابو ریحان بیرونی، ص۹۵
  27. التنبیہ و الاِشراف، ص۲۲۱
  28. کافی، ج۴، ص۱۴۹
  29. بحار الانوار، ج ۹۵، ص۳۲۲
  30. ابن خلکان، ج ۱، ص۶۰
  31. ثعالبی، ص۵۱۱
  32. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالکتب العلمیۃ، ج۸، ص۲۸۴.
  33. قمی، مفاتیح‌الجنان، ۱۸ ذی‌الحجہ کے اعمال کے ذیل میں.
  34. شهید اول، المزار، ۱۴۱۰ق، ص۶۴.
  35. قمی، ذیل اعمال روز ۱۸ ذوالحجہ
  36. قمی، مفاتیح‌الجنان، ذیل اعمال روز ۱۸ ذی‌الحجه.
  37. طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، ج۳، ص۱۴۳.
  38. بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج‌۱۱، ص۸۷.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن خلکان، وفیات الاعیان، تحقیق احسان عباس، دارالثقافہ، لبنان.
  • ابن طاووس، اقبال الاعمال، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۶۷ ہ‍.ش.
  • ابوریحان بیرونی، آثار الباقیہ، انتشارات ابن سینا، تہران.
  • ثعالبی، ثمار القلوب، تحقیق ابراہیم صالح، دار البشائر، دمشق.
  • حر عاملی، وسائل الشیعہ، موسسہ آل البیت، قم.
  • حلبی، السیرہ الحلبیہ، دارالمعرفہ، بیروت.
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبدالقادر، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
  • ری شہری، موسوعہ الامام علی بن ابی طالب، دارالحدیث، قم.
  • صدوق، امالی، تحقیق موسسہ بعثت، موسسہ بعثت، قم.
  • صدوق، خصال، تحقیق علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم.
  • طبرسی، الإحتجاج، نشر مرتضی، مشہد.
  • طوسی، تہذیب الاحکام، سید حسن موسوی خرسان، دارالکتب الاسلامیہ، تہران.
  • عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ.
  • قمی، مفاتیح الجنان.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، موسسہ الوفاء، بیروت.
  • مسعودی، علی بن الحسین، التبیہ و الاشراف، دار الصاوی، قاہرہ، ۱۳۵۷ ہ‍.ق.
  • مفید، الارشاد، موسسہ آل البیت، قم.