بیعت

ویکی شیعہ سے

بیعت، دینی و دنیاوی امور میں شریعت کی پیروی کرنے کے لیے کسی کو رہبر و رہنما مانتے ہوئے اس کے کہنے پر عمل کرنے کے عہد(بیشتر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر) کو کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں سب سے پہلے حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیعت کیں۔ اس کے بعد آپؐ کی مکی زندگی میں دو بیعتیں انجام پائی جو بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ خاص طور پر اس دوسری بیعت نے مدینہ کی جانب ہجرت کی شرائط فراہم کیں اور جس کی بدولت رسول اللہ نے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ رسول اللہ نے بدر کی جانب حرکت کرتے ہوئے مسلمانوں سے بیعت لی۔ بیعت رضوان یا بیعت شجره چھٹی ہجری میں حدیبیہ کے موقع پر لی گئی۔اور آٹھویں ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے بیعت لی۔ رسول خدا کے زمانے کی آخری بیعت آپ کے آخری ایام میں دسوین ہجری کی اٹھارہ ذی الحج کو غدیر کے مقام پر رسول اللہ کے بعد حضرت علی کی ولایت اور جانشینی کیلئے یہ بیعت لی گئی۔ اسلام سے پہلے، رسول اللہ کے زمانے اور آپ کے بعد بیعت لینے کا رواج موجود تھا۔

لغوی و اصطلاحی معنی

بیعت کے لفظ کا عربی زبان میں ریشہ اور مادہ «ب ی ع» ہے۔جس کا معنی معاملہ کرتے وقت اسے انجام دینے کیلئے کسی دوسرے کے ہاتھ میں دینا یا ہاتھ دبانا ہے.[1]

اسلام سے پہلے عرب میں رائج تھا کہ خرید و فروخت کرتے وقت معاملے کو قطعی اور یقینی بنانے کیلئے خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ؛اس عمل کو «بَیعَت» یا «صَفْقَہ» کہتے تھے۔اس عمل کو معاملے کے انجام پانے کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔اسی طرح کسی جماعت ،قبیلہ یا حاکم یا رئیس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی غرض سے اس عمل کو انجام دئے جانے رواج تھا۔اس عمل کی خرید و فروخت والے معاملے سے مشابہت کی بنا پر اسے بھی بیعت کہا جاتا تھا ۔[2]

اسی بنیاد پر بہت سے محققین اسلامی متون اور ماخذوں میں کسی شخص کے دائیں ہاتھ کو دوسرے شخص کے دائیں ہاتھ میں دینے کو پہلے شخص کی دوسرے شخص کی اطاعت و پیروی کرنے کے معنی میں سمجھتے ہیں۔[3] آہستہ آہستہ بیعت کی مختلف شکلوں میں تبدیلی کی وجہ سے بیعت کا لفظ مذکورہ معنہ کے علاوہ کسی کام کے عہد کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا اور اسی دوسرے معنی میں رائج ہو گیا ۔

اسلام میں بیعت کا معنی

قرآن، سنّت، تاریخ، کلام اور فقہ سیاسی اسلام میں اس کا رائج ترین معنی بیعت کرنے والا امام ،حاکم یا کسی دوسرے شخص کی عمومی طور پر یا کسی خاص موضوع میں اطاعت و فرمانبرداری کا عہد و پیمان باندھنا ہے ۔[4]

بیعت کا تاریخچہ

اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے بیعت لینے کا سلسلہ قبیلے کے رئیس یا کسی اہم منصب پر کسی شخص کی تعیین کیلئے رائج تھا[5] اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قریش اور بنی کنانہ کی پیغمبر اکرم کے جد اعلی قُصَی بن کِلاب کی بیعت کو ذکر کیا جا سکتا ہے جب انہوں نے خُزاعَہ قبیلے کو مکہ سے باہر نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔

رسول اللہ کا زمانہ

پہلی بیعت

حضرت علیؑ و خدیجہ(س) کی اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ کی بیعت سیرت پیغمبر کی پہلی بیعت ہے ۔[6]. جبکہ ابن شہرآشوب[7] تاریخ اسلام کی پہلی بیعت بیعت عشیره کو سنجھتے ہیں جو بعثت کے تیسرے سالیوم الدّار کے مقوع پر لی گئی۔اہل سنت اور شیعہ روایات کے مطابق اس دن رسول اللہ نے فرمان الہی کے مطابق بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اسلام قبول کرنے اور ان سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا لیکن صرف حضرت علی نے کم سنی کے عالم میں اس دعوت پر لبیک کہا اور آپکی بیعت کی۔[8]

بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ

پہلی بیعت عقبہ دوسری بیعت عقبہ مکہ میں بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کے نام سے دو اہم بیعتیں انجام پائیں۔بیعت عقبہ اولی بعثت کے بارھویں سال اور بیعت عقبہ ثانیہ بعثت کے تیرھویں سال ہوئیں۔دونوں بیعتیں حج کے موقع پر مکہ اور منا کے درمیان عقبہ نامی جگہ پر لی گئیں۔ان میں سے خاص طور دوسری بیعت مدینہ کی ہجرت کا سبب بنی کہ جس کے نتیجے میں رسول اللہ نے مدینہ ہجرت کی۔ [9]

جنگ بدر سے پہلے کی بیعت

رسول اللہ کی مدینے میں لی جانے والی بیعتوں میں سے ایک بیعت وہ ہے جو آپ نے جنگ بدر پر جانے سے پہلے مسلمانوں سے لی ۔[10]

بیعت رضوان

بیعت رضوان یا بیعت شجره ہجرت کے چھٹے سال حدیبیہ کے مقام پر انجام پائی۔ابن جریر طبری [11] نے سوره فتح کی آیات ۱۰ و ۱۸ کے ذیل میں اسکے متعلق لکھا ہے ۔ آیت نمبر ۱۰ میں رسول اللہ کی بیعت کو بیعت خدا کہا گیا ہے نیز بیعت‌ شکنی کی نکوہش کے ساتھ اس بیعت کو پورا کرنے اور اس پر باقی رہنے والوں کیلئے آخرت میں میں جزا کی خبر دی گئی ہے اور ۱۸ویں آیت میں اس بیعت پر پروردگار کی رضایت کا اعلان اور عنقریب مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے

فتح مکہ کے موقع پر خواتین کی بیعت

مردوں اور عورتوں کی رسول اللہ کی ایک اور بیعت جو ہجرت کے آٹھویں سال ہوئی اس کی طرف سورہ ممتحنہ کی ۱۲ویں آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔اس آیت میں رسول اللہ سے مکہکی ایمان لانے والی خواتین سے بیعت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ موضوعات این بیعت، که در کتب تفسیر، حدیث و تاریخ میںعورتوں کی یہ بیعت بیعۃ النساء کے نام سے مشہور ہے۔یہ بیعت شرک سے دوری، فحشا اور چوری سے پرہیز ،اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے ،دوسروں کی اولاد کو اپنے شوہروں کی طرف منسوب نہ کرنے اور رسول اللہ کے نیک کاموں کی مخالفت نہ کرنے پر بیعت لی گئی۔ [12]

عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ

بعض احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے پہلے پانی کے برتن میں اپنا ہاتھ ڈبویا اور پھر خواتین نے اس کی پیروی کی [13] دیگر روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ کے ہاتھ پر کپڑا موجود تھا اور رسول اللہ نے خواتین سے اس کپڑے پر عورتوں سے بیعت لی ۔[14] جبکہ بعض روایات کی بنا پر رسول اللہ الفاظ اور گفتگو کی صورت میں بیعت لی ۔ [15].اسکے علاوہ بعض احادیث میں بیعت کی اور صورتیں مذکور ہیں۔

اسکے علاوہ بھی عورتوں سے بیعت لینے کی صورتیں ذکر ہوئی ہیں.[16] قاسمی کے کہنے کے مطابق [17]بیعت عقبہ ثانیہ،بیعت رضوان اور فتح مکہ کی بیعت کے علاوہ رسول کے زمانے میں عورتوں سے دیگر کوئی بیعت نہیں لی گئی،[18] خؒفا اور حکام کے زمانوں میں عورتوں سے بیعت لینے کا تذکرہ موجود نہیں ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے رسول اللہ کے بعد بیعت صرف مردوں سے مخصوص ہو گئی ۔

غدیر خم میں حضرت علی کی بیعت

بعض تاریخی مآخذوں کے مطابق [19] رسول اللہ کے زمانے کی آخری وہ بیعت ہے جو غدیر خم کے موقع پر ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحج کو مسلمانوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کی ۔اس بیعت کا موضوع رسول اللہ کے بعد [[حضرت علی]]ؑ کی جانشینی اور ولایت تھا۔

رحلت پیامبرؐ کے بعد

رحلت پیامبرؐ کے بیعت کی رسم اسی طرح باقی رہی ۔اس بیعت کی یہ خصوصیت رہی کہ ایک شخص کو خلیفہ یا حاکم کے عنوان سے انتخاب کرتے اور پھر سب لوگ یا مخصوص افراد اس کی بیعت کرتے ۔اس تبدیلی کا نکتۂ آغاز سقیفہ کا موقع ہے۔ در روز رحلت پیامبرؐکے روز شروع میں عمر بن خطاب، ابو عبیده جراح اور بعض سران مہاجرین و انصار سقیفہ بنی ساعده نامی جگہ پر اکٹھے ہوئے اور سعد بن عباده کی جگہ ابوبکر کی بیعت کی اور اسے خلافت کیلئے نامزد کیا ۔پھر کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی اور کچھ سے زبردستی بیعت لی گئی .[20] اسکے بعد دوسرے خلفا عمر بن خطاب اور عثمان کی بیعت کا طریقہ یہی رہا ۔ [21] اسی طرح لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کے ساتھ حضرت امام علیؑ کی مسجد میں بیعت کی ۔[22] حضرت علی کی شہادت کے بعد لوگوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی۔[23] شیعہ کے آئمہ طاہرین کیلئے لی جانے والی بیعتوں میں سے کوفے کے لوگوں کا حضرت امام حسین کی نیابت میں مسلم بن عقیل کی بیعت کرنا[24] اور خراسان میں مامون کی ولیعہدی کیلئے امام رضاؑکی بیعتیں قابل ذکر ہیں۔[25]

عباسیوں اور امویوں کے زمانے میں بیعت

خلیفہ کی بیعت کرنے کی رسم اموی اور عباسیوں کے دور میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ باقی رہی ۔اگرچہ ابتدائی خلفا کی خلافت کے زمانے میں بیعت جبر کے ساتھ تھی،معاویہ کی فرمانروائی کے دور میں دیگر عناصر بیعت میں شامل ہو گئے ۔ اس طرح سے کہ بہت سے اہل سنت مصنفین اسکے معتقد ہیں کہ معاویہ نے اپنی خلافت اور اپنے خاندان اور اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کی خلافت کی بیعت کیلئے طاقت،تہدید،طمع و لالچ،حکومت دینے کا وعدہ اور ایجاد اختلاف جیسے عوامل بروئے کار لاتے ۔[26]

آہستہ آہستہ بیعت کی حقیقت کے ساتھ اکراہ اور جبر مکمل طور مل گئی۔ حقیقت میں اختیار اور آزادی کے ساتھ بیعت لینے کی بجائے صرف بیعت لینا مقصود تھا ۔[27] جیسا کہ یزید نے مدینہ میں اپنے حاکم ولید بن عتبہ کو دستور دیا کہ امام حسینؑ ، ابن زبیر اور دوسرے چند اشخاص کو گرفتار کرے اور ان اسے بیعت لے۔ ان میں سے جو بیعت نہ کرے اس کا سر تن سے جدا کر دے ۔[28] اس زمانے میں بیعت لینے میں بزرگ نمائی کا پہلو زیادہ موجود تھا چنانچہ حکومت کے آغاز میں خلیفہ کیلئے بیعت لینا خلیفے سے وفاداری کے اعلان کے طور پر رائج تھا ۔[29] اور اسی طرح خلیفہ کی موجودگی میں اسکے جانشین کیلئے بیعت لینا۔[30]

اکثر اوقات بیعتیں خاص طور پر کسی خلیفہ کی حکمرانی کے آغاز میں کھانے اور مال و دولت کے خرچ کے ہمراہ ہوتیں یہانتک کہ مقتدر عباسی کی بیعت کے وقت 30لاکھ درہم خرچ ہوئے۔اسی طرح خلیفے کے مسند خلافت پر بیٹھنے کے وقت رزق البیعہ کے نام سے لشکریوں کو بیعت کے بدلے میں ایک مبلغ رقم دی جاتی ۔[31] ظاہر ہوتا ہے کہ راغب اصفہانی بیعت کا معنی بیان کرتے ہوئے اسی کی جانب متوجہ تھا اور اس نے "بخشش کے مقابلے میں طاعت کے خرچ کرنے" کو بیعت کہا ہے ۔ کبھی ایک شخص کیلئے بیعت لی جاتی لیکن خود خلیفہ کی جانب سے اسے توڑا جاتا اور دوسرے شخص کو اس کی جگہ معین کیا جاتا۔[32]

خلافت کی مدعی حکومتوں میں بیعت

جعفر شہیدی[33] کے مطابق بیعت کی رسم اسلام کی دعویدار تمام اسلامی حکومتوں جیسے خوارج، فاطمیان، امویان اندلس و حتاکہ عثمانیوں میں رائج تھی۔ ایران میں خلافت اسلامی کے نام سے بننے والی حکومتوں تک اسکا رواج رہا اور ظاہرا خلافت عباسی کے جانے کے بعد یہ رسم چلی گئی۔نیز بیعت کی رسم حکومتوں موافقین اور مخالفین میں بھی رائج تھی جیسا کہ عراق کے لوگوں کا عبداللّه بن زبیر کی بیعت کرنا؛[34] زید بن علی بن حسین کے ساتھیوں کی بیعت؛[35] لوگوں کی ایک جماعت کا امویوں کے آخری دور میں محمدبن عبدالله نفس زکیہ کی بیعت کرنا اسی طرح منصور؛[36] کے زمانے میں ابومسلم کا خراسان کے لوگوں سے ابراہیم امام کیلئے بیعت لینا .[37]

صیغۂ بیعت

تاریخی اور حدیثی منابع کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ بیعت کیلئے دوسرے معاملات [38]کی طرح مخصوص لفظ تھا جس کے ذریعے اس بیعت کو انجام دیا جاتا تھا ۔[39]

اقسام بیعت

جیسا کہ بیعت کے لغوی معنا سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے یا ہاتھ دبانے سے بیعت متحقق ہوتی تھی۔بلکہ بعض لغویوں کے مطابق قَسَم کے معاملے میں بھی اسیا ہی کیا جاتا تھا اور قسم کو اسی مناسبت سے اہل عرب یمین کہتے ہیں اور اسی طرح بیعت کو "صَفقَہ" کہا جاتا ۔[40] رسول اکرم کی سیرت میں مردوں سے بیعت لینے کا یہی طریقہ منقول ہوا ہے ۔[41]

بعض مفسّرین نے سورۂ فتح کی 10 ویں آیت یداللّه فوق ایدیهم کے تحت اسی ہاتھ کو ہاتھ میں دینے کے ساتھ بیعت کے تحقق کی طرف اشارہ کیا ہے [42] اسکے علاوہ بیعت کی دیگر صورتیں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں ۔[43] اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ دئے بغیر بیعت کی رضامندی کے اعلان کے ذریعے بیعت کو متحقق سمجھا جاتا تھا ۔[44]

خاص اور عام بیعت

ابن شہرآشوب[45] نے پیغمبر گرامی کی بیعتوں کو مجموعی طور پر دو اقسام خاص اور عام بیعت میں تقسیم کیا ہے۔بیعت مخصوص جیسے عقبہ میں انصار کی بیعت اور بیعت عشیره جبکہ بیعت شجره کو عام بیعت میں گنا ہے چونکہ یہ بیعت عمومی طور پر لوگوں کیلئے تھی۔[46]

مشروط بیعت

کبھی بیعت مشروط ہوتی ہے اور اس میں بیعت کرنے والے کے نفع میں کوئی شرط لگائی جاتی ہے اور کبھی خود بیعت کو شرط سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔[47]ظاہری طور پر پیغمبرؐ کی سیرت میں صرف بیعت عشیره ایسی بیعت تھی جس میں وصایت اور خلافت کی شرط لگائی گئی تھی۔اس لحاظ سے یہ بیعت مشروط تھی۔[48]گاہی بعض خلفا نے بیعت میں کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر عمل کو مشروط کیا ۔[49]

وکیل یا نائب کے ذریعے بیعت لینا

کبھی کسی وکیل یا نائب کے ذریعے بیعت لی جاتی ہے جیسے حدیبیہ میں رسول اللہ کی نیابت میں عورتوں نے حضرت علی ع کی بیعت کی یا کوفہ کے لوگوں نے حضرت امام حسین کی نیابت میں حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کی ۔[50]

بیعت کی شکل میں تبدیلی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیعت کی شکل میں تبدیلیا رونما ہوتی رہیں۔اگرچہ شروع میں ہاتھ میں ہاتھ دینے یا ہاتھ کو دبانے کے ذریعے بیعت انجام پاتی رہی ۔امویوں کے دور حکومت میں بیعت قَسَم اٹھانے کے ساتھ کی جاتی ۔ حجّاج نے اَیمان البیعہ کے نام سے قسم مقرّر کی تھی جو بیعت کے وقت اٹھائی جاتی ۔[51]. ابن خلدون،[52] کے مطابق اسکے بعد بیعت میں شاہانہ شکل و صورت پیدا ہو گئی ۔یہانتک کہ خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو خلیفہ کی نسبت ایک قسم تحقیر سمجھا جانے لگا لہذا اسے منسوخ کر دیا گیا اور اسکی جگہ حاکم کے ہاتھ چومنے یا اس کے سامنے زمین کا بوسہ رائج ہو گیا ۔[53] ابن خلدون[54] کے زمانے میں یہ عمل مرسوم تھا اور اس پر مجازی طور پر بیعت کا اطلاق کیا جاتا تھا۔ کتانی [55] نے مکتوب بیعت کی بھی خبر دی ہے کہ جس میں میں رائج تھا کہ بیعت کرنے والا حاکم کی سلطنت کی قبولیت کے بارے میں ایک متن لکھتا یا اسکے اعتراف کو لکھی ہوئی صورت میں گواہیوں کے ساتھ درج کیا جاتا۔ تاریخی[56] متون کے مطابق مختلف سرزمینوں میں خلفا اور حاکموں کی بیعت کرنے کے مختلف اور مخصوص رسم و رواج موجود تھے ۔

کلامی اور فقہی لحاظ سے بیعت

رحلت پیغمبرؐ کے بعد بیعت کے مفہوم میں سیاسی رنگ پیدا ہو گیا یہانتک کہ بعض اہل سنّت کے مطابق سقیفہ کی بیعت کے بعد یہ ایک سیاسی اصطلاح میں تبدیل ہو گیا ۔[57]

ہر چند کلامی اور فقہ اسلامی میں اہل سنّت بیعت کیلئے اہم آثار کے قائل ہوئے ہیں لیکن حاکم کی بیعت کی حقیقت کے متعلق کم بحث ہوئی ہے ۔

متأخّر فقہی منابع میں چاہے وہ اہل سنت ہوں یا شیعہ کے ہوں ،بیعت کی قانونی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں مختلف آراء بیان ہوئی ہیں ۔ بہت سے علما بیعت کے لغوی معنی اور عقد بیع سے اس کی شباہت کی وجہ سے بیعت کے بارے میں دو طرفہ عہد کے قائل ہوئے ہیں۔فقہی اور قانونی لحاظ سے یہ ایک معوّض عقد ہے۔ انکے نظریے کے مطابق بیعت میں بیعت کرنے والا پیروی و اطاعت جیسے امور کا عہد کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں جس کی بیعت کی جاتی ہے وہ حکمرانی میں کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے مطابق عمل کرنے کا متعہد ہوتا ہے ۔[58] بعض دانشمندان سورۂ فتح کی 10 ویں آیت میں بیعت کے مفہوم میں جانوں اور نفسوں کو بہشت کے مقابلے میں بیچنے کو سمجھتے ہیں ۔[59]

رسول اللہ کے زمانے کی بیعتوں میں غور و فکر سے اگرچہ بیعت کی عقد کے لحاظ سے تائید ہوتی ہے لیکن دوسری جانب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیعت رسول اکرم میں اسلام پر پابند رہنا ،رسول اللہ کی نصرت، انکی اطاعت اور کفار سے جہاد کا ملتزم رہنا اس میں شامل تھا لیکن اسکے مقابلے میں رسول اکرم سے کسی قسم کے عہد کا تقاضا موجود نہیں تھا ۔البتہ ایک حدیث میں دونوں طرف سے عہد کی بات کی گئی ہے ۔[60] بیعت کرنے والے کے حق سے مراد اس حدیث اور قرآنی آیت سے استناد کرتے ہوئے نصرت اور ثواب الہی ہے کہ جو حقیقت میں بیعت کرنے والوں کے عمل کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے نہ یہ کہ بیعت ایک عقد معوّضی ہے ۔حضرت علی کے کلام میں بھی بیعت کو حاکم کے حقوق میں سے جانا گیا ہے ۔ظاہری طور پر اسی تحلیل کی بنا پر بہت سے محققین بیعت کو بذلِ طاعت یا طاعت کا عہد سمجھتے ہیں ۔[61] بعض محققین کے خیال میں بیعت عقد غیر معوّض کی مانند ہے جو عقد ہبہ کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے ۔[62] یہانتک کہ بعض اسے عقود کی اقسام میں سے ایقاع قرار دیتے ہیں۔[63] جبکہ بعض کے نزدیک بیعت دو طرفہ عہد نہیں بلکہ ایک جانبہ عہد ہے۔[64]

بیعت کے ارکان و شرائط

بیعت کی ماہیت عقد ہونے کی بنا پر اس کے تین ارکان ہیں: بیعت کرنے والا، جس کی بیعت کی جائے،بیعت کا موضوع۔بیعت کے عقد ہونے کی وجہ سے فقہی لحاظ سے ضروری ہے کہ طرفین میں بلوغ، رُشْد اور عقل کا ہونا ضروری ہے۔[65] البتہ اہل سنت کی احادیث میں بچے کی بیعت جائز قرار دی گئی ہے [66] بعض احادیث میں جس کی بیعت کی جارہی ہے اس میں استطاعت کی شرط کا لحاظ کیا گیا ہے ۔[67] دیگر جملہ شرائط میں طرفین کے اندر اختیار کے پائے جانے اور جبر کے نہ ہونے کی تاکید کی گئی ہے ۔[68]اہل سنّت کے بعض مآخذوں میں جبری بیعت کو شرعی لحاظ سے فاسد کہا گیا ہے جبکہ اسی وقت شرائط کی موجودگی میں مؤثر اور قانونی سمجھا گیا ہے۔[69]

اہل سنت کی سیاسی فکر میں بیعت

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان عقد بیعت کا مسئلہ مورد نزاع اور اختلاف ہے ۔سقیفہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت کے بعد پہلی مرتبہ خلافت کے ساتھ اس مسئلے کا ذکر ہوا ۔بعد کے ادوار میں اہل سنت کے علمائے علم کلام اس مسئلے کی وضاحت کرنے لگے ۔اس طرح علم کلام کے مآخذوں میں اہل سنت کا یہ عقیدہ بیان ہوا کہ امامت لوگوں کے اختیار اور انتخاب کے ساتھ بیعت کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ ایک شخص کی امامت کے متحقق ہونے کا بیعت ہی صرف ایک راستہ ہے ۔ [70] اسکے بعداہل سنت فقہِ سیاسی کے مؤلفین جیسے ماوردی و ابویعلی فرّاء نے اپنی تالیفات میں امامت کو اصول دین کی بجائے فروع دین میں رکھا[71] اور بیعت کے قانونی آثار اور شرائط کو محل بحث قرار دیا [72] بہت سے اہل سنت فقہا نے اہل حلو عقد کے نام سے ایک گروہ کی بیعت کو خلافت کے انعقاد کیلئے کافی سمجھتے ہیں۔ان میں سے جیسے ابو الحسن اشعری خلافت کیلئے حد اقل ایک شخص بیعت کرنے والا بعض دو افراد کے بعض تین افراد،بعض پانچ افراد اور بعض چالیس افراد کے قائل ہوئے ہیں۔بعض کسی خاص عدد کے بغیر کہتے ہیں کہ اہل حل و عقد میں سے اکثر بیعت کر لیں، بعض تمام کے اور بعض اجماع کو ضروری سمجھتے ہیں۔[73]بعض قائل ہوئے ہیں کہ اہل حل و عقد میں ایک جماعت خلافت کیلئے کافی سمجھتے ہیں۔[74]بعض اہل سنت فقہا صرف بیعت کے ذریعے ہی خلافت کے انعقاد کو ممکن سمجھتے ہیں۔[75]فقہائے متاخرین معاصرین میں ایک تعداد بیعت مذکورہ کے علاوہ عمومی طور پر بیعت کو خلافت کا اصلی رکن شمار کرتے ہیں اور اسے تین مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں:خلافت کیلئے کسی ایک فرد کا نامزد ہونا،بیعت خاصہ اور بیعت عامہ۔[76] ماوردی نے خلافت کے لیے بیعت کے مقدمات اور مراحل زیادہ تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔[77]

اہل سنت کی نئی سیاسی فکر میں بیعت

بہت سے اہل سنت فقہا اور معاصرین نے بیعت کو بعنوان دو طرفہ عقد اور وکالت پر تطبیق کرتے ہوئے اسے نظریۂ اجتماعی قرارداد کے معادل قرار دیا کہ جو جمہوری سسٹموں کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسے انتخابات اور ووٹنگ کے مشابہ ظاہر کیا ہے ۔[78] اس نظریے کی بنیاد پر اکثریت کی بیعت اقلیت کیلئے بھی الزام آور ہو گی۔ [79] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے کو سب سے پہلے شیخ محمد عبدہ نے اسے اہل سنت فقہ میں بیان کیا ہے [80]اگرچہ اس نظریے کے اہل سنت ناقدین بھی موجود ہیں ۔

تشیع کی سیاسی فکر میں بیعت

شیعہ نظریے کے مطابق ہر معاملے میں بیعت نہیں جا سکتی، بیعت کو اگر عقد مان لیا جائے تو بھی عقد کا موضوع مشروع اور جائز ہونا چاہئے۔مثال کے طور پر شیعہ متکلمین نبی اکرم کی خلافت اور امامت کو ان موضوعات میں سے مانتے ہیں کہ جن میں کسی ایک جماعت یا تمام لوگوں کے کی بیعت کے ذریعے کسی کی خلافت یا امامت ثابت نہیں کی جا سکتی بلکہ بہت سے سمعی اور عقلی دلائل کی بنا پر امام کو منصوص ہونا چاہئے اور اسکی امامت رسول خداکے توسط سے خدا کی جانب سے معین ہونی چاہئے۔ [81] شیعہ فقہا کی نظر میں اگرچہ عقدِ بیعت پر عمل کو یقینی بنانے کیلئے عقود کو پورا کرنے والی ادلہ جیسے اوفوا بالعقود[82] سے استناد کیا جا سکتا ہے۔[83] لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دلیلیں عقد کو مشورعیت اور جواز نہیں بخشتی ہیں بلکہ صرف عقود کے پورا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔[84]

اسی طرح شیعہ دانشمندوں کی نگاہ میں رسول اللہ کے زمانے میں بیعت کے لغوی معنی اور پیغمبر کی پیروی کے وجوب کو دیکھتے ہوئے سمعی اور عقلی دلائل کی بنا پر رسول اللہ کی بیعت ایک نیا عقد اور معاملہ نہیں تھا بلکہ اس میں صرف تاکیدی پہلو تھا اور عملی ایمان کی تاکید اور لوازم ایمان پر متعہد ہونے کی خاطر بلکہ بعض کی تعبیر کے مطابق پیغمبر کی نصرت اور اطاعت کیلئے ایک نئے محرک کے طور پر بیعت کی گئی۔پس بیعت کے ذریعے پیغمبر کے مقام ولایت اور انکی پیروی کو اور اصل مشروعیت کو اس کے ذریعے ثابت نہیں کیا گیا ۔[85] اسی طرح بیعت کا یہی جنبۂ تاکیدی بعض خلفا میں دیکھا جا سکتا ہے خاص طور پر جب پہلے خلیفے نے ایک شخص کو معین اور نامزد کر دیا ہو جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان کی خلافت میں ہوا۔[86]

اہل سنت کا نظریہ یا تو اسلام سے پہلے عرب قبیلوں میں قبیلے کے بزرگ کی بیعت کے رواج سے اخذ شدہ ہے یا تمام لوگوں یا بعض لوگوں کی بیعت کے ذریعے رسول اللہ کی جانشینی کے انتخاب پر مبتنی ہے ان میں سے کوئی بھی صورت قابل استناد نہیں ہے ۔

امامیہ دانشمند تاریخی حقائق سے استناد کرتے ہوئے اکثر خلفا کی بیعت میں جبر و اکراہ کی موجودگی کا اعتراض کرتے ہیں یہانت کہ بعض اہل سنت نے اسے قبول بھی کیا ہے ۔[87] بہت سے تاریخی اور حدیثی دلائل اسے بیان کرتے ہیں کہ واقعۂ سقیفہ کے بعد امام علی،بنی ہاشم اور بہت سے بزرگ صحابہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی تھی اور ان سے جبری بیعت لی گئی۔[88] بلکہ اس بیعت کے منعقد کرنے والوں میں ایک خود اس بیعت کو تدبر و فکر(فلتۃ) کی جانے والی بیعت کہا اور ایسے عمل کی دوبارہ تکرار پر عدم رضایت کا اظہار کیا۔ ان بیعتوں میں سے صرف حضرت علی کی ایک ایسی بیعت ہے تو آزادانہ ماحول میں ہوئی۔ یہانتک کہ اپنے بعض اصحاب کے اصرار کے باوجود آپ نے جبری بیعت لینے کو قبول نہیں کیا تاریخ مآخذوں کے مطابق چند افراد نے آپ کی بیعت نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود نہ تو انہیں معاشرتی حقوق سے محروم رکھا گیا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعرض ہی کیا گیا۔[89]

بعض اہل سنت مؤلفین [90] نے نہج البلاغہ کے بعض خطبوں اور خطوط[91] کہ جن میں لوگوں کی بیعت کے الزام آور ہونے کی بات کی گئی ہے،استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت علی حضرت امام حسن بھی اثبات ِامامت کو بیعت کے ذریعے قبول کرتے تھے۔[92]لیکن شیعہ محققین نے اس نظریے کو قبول نہیں کیا کیونکہ شیعہ علم کلام میں امامت ضروریات دین میں شمار ہونے کے علاوہ بیعت کے ذریعے امامت کے ثابت نہ ہونے کے متعلق خود حضرت علی کی تصریح اور تاکید موجود ہے۔[93] اس دلیل اور دیگر دلائل کی بنا پر ان احادیث کو مخالف کو خاموش اور چپ کروانے کیلئے جدل و مناظرہ پر حمل کریں گے۔[94]

جدید شیعہ سیاسی فکر میں بیعت

اگرچہ اکثر شیعہ فقہائے معاصر معصوم کے زمانے میں بیعت کے صرف تاکیدی ہونے کے قائل ہیں۔ان میں سے بعض معصوم کی غیبت کے زمانے میں بیعت کے ایک وسیع مفہوم یعنی بیعت میں جنبۂ انشائی ،ہونے کے قائل ہیں اگرچہ بعض فقہا معصوم کے زمانے اور غیبت کے زمانے میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں۔[95]

بعض معاصر غیبت کے زمانے میں لوگوں کی بیعت سے مشروعیت اور ایک طرح کی ولایت کے حاصل ہونے قائل ہیں۔ان میں سے چند ایک[96] بیعت کو عقد وکالت کی مانند سمجھتے ہیں کہ جس کا موضوع ولایت اور حاکمیت کو ایجاد کرنا ہے۔پس اس بنیاد پر اکثریت کی بیعت اور انتخاب کو نافذ اور لازم الاجرا سمجھتے ہیں حتاکہ جن تھوڑے سے افراد نے بیعت نہیں کی انکی نسبت یہ بیعت نافذ اور لازم الاجرا ہو گی۔بیعت کو عقد وکالت کے ساتھ توضیح دینا اور اس طرح کی لزومیت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔[97]

حوالہ جات

  1. شہیدی، بیعت و چگونگی آن در تاریخ اسلام، ص۱۲۵
  2. ابن خلدون، مقدمہ، ص۲۰۹
  3. شہرستانی، مدخل الی علم الفقہ، ص۱۵۵
  4. مکارم، انوار الفقاہۃ: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۷
  5. شہیدی، «بیعت و چگونگی آن در تاریخ اسلام، ص۱۲۵
  6. مجلسی، بحار ج۶۵، ص۳۹۲ ۳۹۳؛
  7. ابن شہرآشوب، مناقب، ج۲، ص۲۱، ۲۴
  8. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۱۹۳۲۱
  9. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۵۳۲۵۷
  10. مجلسی، بحار، ج۶۵، ص۳۹۵
  11. ابن جریر، تاریخ طبری، طبری، ج۲، ص۶۳۲ ۶۳۳
  12. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۵۲۱۵۳
  13. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۳، ص۶۲
  14. زمخشری، الکشاف، ذیل آیه ۱۲ سوره ممتحنہ
  15. کتانی، نظام الحکومۃالنبّویۃ ج ۱، ص۲۲۲
  16. مفید، الارشاد، ص۶۳
  17. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۷۷ ۲۷۸
  18. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۶۱۳۶۶
  19. مجلسی، بحار، ج۳۷، ص۱۳۳، ۱۳۸، ۱۴۲، ۲۰۲۲۰۳، ۲۱۷
  20. تستری، بہج الصّباغہ فی شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۲۸۸۲۸۹
  21. مسعودی، مروج الذّہب، ج۲، ص۳۱۲، ۳۴۰
  22. زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، ج۶، ص۶۹۲
  23. ابن شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۲۸
  24. مسعودی، مروج الذّهب، ج۳، ص۶۴
  25. مجلسی، بحار، ج۴۹، ص۱۴۴، ۱۴۶، ج۶۴، ص۱۸۴۱۸۶
  26. عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنہ و العقد الاجتماعی، ص۶۰۶۱
  27. کتانی، نظام الحکومہ النبّویہ، کتانی، ج۱، ص۲۲۳
  28. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۸
  29. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۳۱۱، ۴۷۱، ج۶، ص۴۲۳
  30. مسعودی، مروج الذّہب، ج۴، ص۲۱۰۲۱۱
  31. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۸۶
  32. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۸، ص۹
  33. شہیدی، بیعت و چگونگی آن در تاریخ اسلام، ص۱۲۵
  34. مسعودی، مروج الذّہب، ج۳، ص۸۳
  35. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۱۶۷، ۱۷۱
  36. مسعودی، مروج الذّہب، ج۳، ص۲۹۴، ۳۰۶
  37. ابن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۳۷۹۳۸۰
  38. نکاح و....
  39. مجلسی، بحار، ج۱۹، ص۲۶، ج۲۱، ص۹۸، ۱۱۳، ج۶۵، ص۳۹۲۳۹۳، ۳۹۵.
  40. مجلسی، بحار، ج۲، ص۲۶۶، ج۲۷، ص۶۸
  41. نہج البلاغہ، خطبہ ۸، ۱۳۷، ۱۷۰، ۲۲۹
  42. طباطبائی، المیزان، ذیل آیت
  43. مجلسی، بحار، مجلسی، ج۴۹، ص۱۴۴، ۱۴۶، ج۶۴، ص۱۸۴۱۸۶
  44. شہیدی، «بیعت و چگونگی آن در تاریخ اسلام، ص۱۲۷
  45. ابن شہرآشوب، مناقب، ج۲، ص۲۱
  46. میبدی، «بیعت و نقش آن در حکومت اسلامی، ص۱۸۳۱۸۶
  47. کتانی، نظام الحکومۃ النبّویۃ جلد۱، ص۲۲۲
  48. ابن شہرآشوب، مناقب، ج۲، ص۲۵
  49. بخاری جعفی، صحیح البخاری، ج۸، ص۱۲۲
  50. مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۶۴
  51. ابن قدامہ، المغنی، ج۱۱، ص۳۳۰
  52. ابن خلدون، مقدمہ، ص۲۰۹
  53. کتانی، نظام الحکومہ النبّویہ، ج۱، ص۲۲۳
  54. ابن خلدون، مقدمہ، ص۲۰۹
  55. کتانی، نظام الحکومہ النبّویہ، ج۱، ص۲۲۳
  56. سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص۲۶
  57. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۵۷ ۲۵۸
  58. مکارم، انوار الفقاہہ: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۷؛قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۷۳ ۲۷۴
  59. طبرسی، جوامع الجامع، ذیل آیت
  60. مجلسی، بحار، ج۱۹، ص۲۶
  61. شہرستانی، مدخل الی علم الفقہ، ص۱۵۵،
  62. عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنہ و العقد الاجتماعی، ص۲۲
  63. مکارم، انوار الفقاہۃ: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۷
  64. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۷۶
  65. آصفی، ولایۃ الامر، ص۸۵
  66. کتانی، نظام الحکومۃ النبّویۃ، ج۱، ص۲۲۲
  67. بخاری جعفی، صحیح البخاری، ج۸، ص۱۲۲
  68. عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنہ و العقد الاجتماعی، ص۱۳۳ ۱۳۸؛ آصفی، ولایۃ الامر، ص۸۶
  69. عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنۃ و العقد الاجتماعی، ص۱۳۹۱۴۰
  70. باقلانی، التمہید فی الرد علی الملحدة المعطّلہ و الرافضہ و الخوارج و المعتزلہ، ص۱۷۸
  71. جعفر سبحانی، الاہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، ج۴، ص۹۱۲
  72. ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص۷ کے بعد
  73. ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص۳۳۳۴؛زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، ج۶، ص۶۸۵۶۸۷
  74. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۶۸
  75. ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص۳۳۳۵؛زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّته، ج۶، ص۶۸۳۶۸۴
  76. عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنہ و العقد الاجتماعی، ص۷۳ ۱۰۵
  77. ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص۳۳ ۳۷
  78. زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، ج۶، ص۶۸۴؛عنایت، اندیشہ سیاسی در اسلام معاصر، ص۲۳۲۲۳۳
  79. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۷۶
  80. عنایت، اندیشہ سیاسی در اسلام معاصر، ص۲۳۶
  81. مظفر، دلائل الصِّدْق، ج۲، ص۲۵۳۲
  82. مائده، ۱
  83. سبحانی، مفاہیم القرآن فی معالم الحکومہ الاسلامیہ، ص۲۶۲۲۶۳؛حائری، ولایہ الامر فی عصر الغیبہ، ص۲۰۱۲۰۲
  84. حائری، ولایہ الامر فی عصر الغیبہ، ص۱۶۴؛ خلخالی، حاکمیت در اسلام، ص۵۸۰
  85. منتظری، دراسات، ج۱، ص۵۲۶؛مکارم، انوار الفقاہہ: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۸ ۵۱۹
  86. سبحانی، مفاہیم القرآن فی معالم الحکومہ الاسلامیہ، ص۲۶۳؛ کاظم حائری، ولایہ الامر فی عصر الغیبہ، ص۲۰۹
  87. خطیب، الخلافہ والامامہ، ص۴۰۹۴۱۲
  88. علم الہدی، الشّافی فی الامامہ، ج۲، ص۱۲، ۱۵۱؛مسعودی، مروج الذّہب، ج۲، ص۳۰۷۳۰۹
  89. تستری، بہج الصّباغہ فی شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۲۵۷
  90. کاتب، تطّور الفکر السیاسی الشیعی، ص۱۴۱۵
  91. جیسے خطبہ ۸، ۱۳۷، ۱۷۲، ۲۱۸، و خطوط ۱، ۶، ۷، ۵۴
  92. قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۲۶۵
  93. نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۲، ۱۰۵، ۱۴۴ و خط نمبر ۲۸، ۶۲ و حکمت ۱۴۷
  94. آصفی، ولایہ الامر، ص۹۵
  95. مکارم، انوار الفقاهة: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۹
  96. منتظری، دراسات، ج۱، ص۵۷۵ ۵۷۶
  97. مکارم، انوار الفقاہہ: کتاب البیع، ج۱، ص۵۱۷ ۵۱۸

مآخذ

  • قرآن
  • نہج البلاغہ، چاپ صبحی صالح، بیروت ] تاریخ مقدمہ ۱۳۸۷، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • محمد مہدی آصفی، ولایة الامر، تہران ۱۴۱۶/۱۹۹۵.
  • ابن اثیر، النهایة فی غریب الحدیث و الاثر، چاپ طاهر احمد زاوی و محمود محمد طناحی، قاهره ۱۳۸۳ ۱۳۸۵/۱۹۶۳ ۱۹۶۵.
  • ابن خلدون، مقدمه ابن خلدون، الجزء الاول من کتاب العبر و دیوان المبتدا و الخبر، بیروت ۱۳۹۱/۱۹۷۱.
  • ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم ۱۳۷۹.
  • ابن قدامه، المغنی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • ابن منظور، لسان العرب، قم ۱۳۶۳ش.
  • محمدبن طیب باقلانی، التمهید فی الرد علی الملحدة المعطّلة و الرافضة و الخوارج و المعتزلة، چاپ محمود خضیری و محمد عبدالهادی ابوریدَه، قاهره ۱۳۶۶/۱۹۶۷.
  • محمدبن اسماعیل بخاری جعفی، صحیح البخاری، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • مصطفی بغا، بحوث فی نظام الاسلام، دمشق ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • عبدالقاهربن طاهر بغدادی، کتاب اصول الدین، استانبول ۱۳۴۶/۱۹۲۸، چاپ افست بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • محمدتقی تستری، بهج الصّباغة فی شرح نهج البلاغة، تہران بی‌تا.
  • کاظم حائری، اساس الحکومة الاسلامیة: دراسة استدلالیة #مقارنة بین الدیموقراطیة و الشوری و ولایة الفقیه، بیروت ۱۳۹۹/۱۹۷۹.
  • کاظم حائری، ولایة الامر فی عصر الغیبة، قم ۱۴۱۴.
  • محمدبن حسن حر عاملی، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، چاپ عبدالرحیم ربانی شیرازی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • عبدالکریم خطیب، الخلافہ والامامہ، بیروت ۱۳۹۵/۱۹۷۵.
  • حسین بن محمد راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، چاپ صفوان عدنان داوودی، دمشق ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ہبہ مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
  • محمودبن عمر زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، بی‌تا.
  • جعفر سبحانی، الاہیات علی ہدی الکتاب و السنہ و العقل، بہ قلم حسن محمد مکی عاملی، ج۴، قم ۱۴۱۲.
  • جعفر سبحانی، مفاہیم القرآن فی معالم الحکومہ الاسلامیہ، قم ۱۳۶۴ش.
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، تاریخ الخلفاء، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، مصر ۱۳۷۸/ ۱۹۵۹.
  • محمد علی شہرستانی، مدخل الی علم الفقہ، لندن ۱۴۱۶/ ۱۹۹۶.
  • جعفر شہیدی، بیعت و چگونگی آن در تاریخ اسلام، کیہان اندیشہ،ش ۲۶، مہر و آبان ۱۳۶۸.
  • محمد حسین طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت ۱۳۹۰۱۳۹۴/ ۱۹۷۱۱۹۷۴.
  • فضل بن حسن طبرسی، جوامع الجامع فی تفسیر القرآن المجید، تبریز ۱۳۷۹.
  • فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبائی، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸؛
  • محمدبن جریر طبری، تاریخ الطبری، تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، ۱۳۸۲۱۳۸۷/۱۹۶۲۱۹۶۷.
  • احمد فوأد عبدالجواد عبدالمجید، البیعہ عند مفکّری اہل السنہ و العقد الاجتماعی فی الفکر السیاسی الحدیث، دراسہ مقارنہ فی الفلسفہ السیاسیہ، قاہره ۱۹۹۸.
  • علی بن حسین علم الہدی، الشّافی فی الامامہ، ج۲، تہران ۱۴۱۰.
  • حمید عنایت، اندیشہ سیاسی در اسلام معاصر، ترجمہ بہاءالدین خرمشاہی، تہران ۱۳۶۲ش.
  • حمید عنایت، سیری در اندیشہ سیاسی عرب، تہران ۱۳۷۰ش.
  • محمد فاکر میبدی، بیعت و نقش آن در حکومت اسلامی، حکومت اسلامی، سال ۲،ش ۳، پاییز ۱۳۷۶.
  • خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم ۱۴۰۵.
  • احمدبن محمد فیومی، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر للرافعی، بیروت ] بی‌تا. [؛
  • ظافر قاسمی، نظام الحکم فی الشریعہ و التاریخ الاسلامی، ج۱، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵؛
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج۹، جزء۱۸، قاهره ۱۳۸۷/ ۱۹۶۷، چاپ افست تہران ۱۳۶۴ش.
  • احمد کاتب، تطّور الفکر السیاسی الشیعی، لندن ۱۹۹۷.
  • محمد عبدالحی بن عبدالکبیر کتانی، نظام الحکومہ النبّویہ المسمّی التراتیب الاداریہ، بیروت، بی‌تا.
  • محمدبن یعقوب کلینی، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱.
  • علی بن محمد ماوردی، الاحکام السلطانیہ و الولایات الدّینیہ، بیروت ۱۴۱۰/ ۱۹۹۰.
  • محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحارالانوار، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، ج۲۹۳۰، چاپ عبدالزہراء علویہ، بیروت، بی‌تا.
  • علی بن حسین مسعودی، مروج الذّہب و معادن الجوہر، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، مصر ۱۳۸۴۱۳۸۵/ ۱۹۶۴ ۱۹۶۵.
  • محمدحسن مظفر، دلائل الصِّدْق، بیروت، بی‌تا.
  • محمد ہادی معرفت، ولایت فقیہ، قم ۱۳۷۷ش.
  • لویس معلوف، المنجد فی اللغہ و الاعلام، بیروت ۱۹۷۳۱۹۸۲، چاپ افست تہران ۱۳۶۲ش.
  • محمدبن محمد مفید، الارشاد، قم، بی‌تا.
  • ناصر مکارم شیرازی، انوار الفقاہہ، کتاب البیع، جزء۱، قم ۱۴۱۱.
  • حسینعلی منتظری، دراسات فی ولایہ الفقیہ و فقہ الدّولہ الاسلامیہ، قم ۱۴۰۹ ۱۴۱۱.
  • محمدمہدی موسوی خلخالی، حاکمیت در اسلام، تہران ۱۳۶۱ ش.