تنعیم

ویکی شیعہ سے

تنعیم عمرہ مفردہ کے میقاتوں (ان مقامات میں سے جہاں حج و عمرہ کرنے والے افراد کیلئے احرام باندھنا ہوتا ہے) میں سے ہے اور اسی جگہ امام حسین ع کے کاروان کا کربلا جاتے ہوئے یزید بن معاویہ کے قافلے سے آمنا سامنا ہوا جو یمن سے شام جا رہا تھا نیز امام (ع) نے ان سے کرائے پر اونٹ حاصل کئے۔

محل وقوع

مسجدالحرام کے شمال غرب میں واقع علاقہ ہے جو مکہ اور سَرِف کے درمیان ہے۔ یہ عالقہ دو پہاڑوں ناعم اور نعیم کے درمیان واقع ہے جنہیں نعمان بھی کہتے ہیں۔ مکہ سے یہ مقام ایک فرسخ کے فاصلے پر موجود ہے۔[1]

میقات

تنعیم کو ادنی الحل شمار کرتے ہیں یعنی اسے حدود حرم سے باہر کے نزدیک مقام کہا جاتا ہے نیز عمره مفرده کا میقات گنا جاتا ہے۔[2] پیامبر اسلام نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ عائشہ کو اس وادی سے باہر لے جائے تا کہ وہ اُس جگہ عمرہ مفردہ کا احرام باندھ سکے۔[3]

مسجد تنعیم اسی علاقے میں موجود ہے۔ گذشتہ زمانے میں مسجد تنعیم مسجد عائشہ کے نام سے جانی جاتی تھی[4] یہ مسجد آج کل مکہ شہر کے وسط میں آ گئی ہے اور اس کے ایک کنارے پر انصاب حرم ہیں۔

وقائع

رسول خدا کا معراج سے واپسی پر اسی مقام پر قریش کے ایک تجاری قافلے سے سامنا ہوا تھا۔ جب مشرکین قریش نے معراج کی تکذیب کی تو اس وقت اس قافلے کے مشاہدے کی خبر مفید واقع ہوئی۔[5]

ہجرت کے تیسرے[6] یا چوتھے قمری[7] سال خُبیب بن عدی اور زید بن دثنہ انصاری اسی جگہ شہید ہوئے۔

امام حسین(ع) کے ۶۰ ہجری قمری میں مکہ سے نکلنے کے بعد تنعیم کے علاقے میں یزید کیلئے یمن سے شام مال و اموال لے جانے والے قافلے سے ملاقات ہوئی۔ شیخ مفید کی الارشاد میں آیا ہے کہ امام حسین ع نے اس قافلے سے اپنے لئے اونٹ کرائے پر حاصل کئے اور قافلے والوں سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ عراق آئیں وہاں انہیں مکمل کرایہ ادا کیا جائے یا اسی مقام تک جتنا ان کا کرایہ بنا ہے وہ انہیں ادا کیا جائے۔ پھر اپنے سفر کو صفاح کی سمت جاری رکھا۔[8] بلاذری کے مطابق اس قافلے میں سے تین افراد امام حسین ع کے ساتھ کربلا آئے۔[9] اس کے مقابلے میں اہل سنت کے بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ امام نے اس قافلے کو لوٹا تھا۔[10]

حوالہ جات

  1. حموی، معجم البلدان، ج۲، ص۴۹.
  2. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۴۱۱.
  3. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۸، ص ۱۵۳.
  4. حموی، معجم البلدان، ج۲، ص۴۹.
  5. ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۵۶.
  6. خلیفہ، تاریخ، ص۳۲.
  7. طبری، تاریخ، ج۲، ص۵۳۸-۵۴۲.
  8. مفید، ارشاد، ج۲، ص۶۸؛
  9. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۴.
  10. ابن اثیر، الکامل ج۴، ص۴۰.

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/م۱۹۶۵.
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم‌، قم.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت، قم، ۱۴۰۹ق.
  • حموی بغدادی، یاقوت، معجم البلدان، دارصادر، بیروت، ۱۹۹۵م.
  • خلیفہ بن خیاط العصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط، تحقیق فواز، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.