شمر بن ذی الجوشن

ویکی شیعہ سے
شمر بن ذی الجوشن
ذاتی کوائف
نامشمر بن شُرجَیل بن اَعْوَر بن عمرو
کنیتابو سابغہ
نسب/قبیلہقبیلۂ ہوازن کی شاخ بنو عامر بن صعصعہ
وجہ شہرتقاتل امام حسین ؑ
مشہوراقاربشرجیل بن اعور(باپ،صحابی)
وفات66 ہجری قمری
کیفیت وفاتمختار ثقفی کے سپاہیوں کے ہاتھوں
واقعہ کربلا میں کردار
اقداماتکوفے میں مسلم بن عقیل سے لوگوں کو دور کرنا • روز عاشورا امام حسین ؑ کے کلام کو قطع کرنا • زہیر بن قین کی طرف تیر پھینکنا • نافع بن ہلال کو شہید کرنا • امام حسین(ع) کو شہید کرنا• امام سجاد(ع) کو شہید کرنے کا قصد اور خیموں کو آگ لگانا • عبداللہ بن عمیر کلبی کی بیوی کو شہید کرنا کا حکم دینا
نمایاں کردارقتل امام حسین ؑ • لشکر عمر بن سعد کے بائیں بازو کی کمانڈ • ابن زیاد اور یزید کے دربار میں شہداء کے سروں کو لے جانا


شَمِر بن ذی الجَوْشَن تابعین اور قبیلۂ ہوازن کے رؤساء میں سے تھا۔شروع میں اصحاب امیرالمؤمنین(ع) میں شامل تھا لیکن بعد میں امام(ع) اور آپ(ع) کے خاندان کے کینہ پرور دشمنوں کے زمرے میں شامل ہوا۔ اس کا باپ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اور اس کی ماں بدنام عورتوں میں سے تھی۔

واقعہ کربلا میں اس کا کردار نمایاں رہا جیسے مسلم بن عقیل کی شہادت کے اسباب فراہم کرنا۔ روز عاشورا جنگ کی آگ بھڑکانا، عمر سعد کے میسرے کا امیر ہونا، امام حسین(ع) کو شہید کرنا، خیام پر حملہ کرنا، امام سجاد(ع) کو شہید کرنے کی کوشش کی کوشش کرنا،.....۔

زیارت عاشورا میں شمر کا تذکرہ لعن و نفرین کے ساتھ ہوا ہے۔ اسے مختار ثقفی کے مقابلے میں شکست ہوئی اور اس کا سر تن سے جدا ہوا۔

نسب

شَمِر بن ذی الجَوْشَن کی کنیت "ابو سابغہ" تھی۔ تابعین میں سے تھا اور قبیلہ ہوازن کی شاخ بنو عامر بن صعصعہ کے رؤسا میں شمار ہوتا تھا اور ضباب بن کلاب کی نسل سے تھا[1] اسی بنا پر اس کا تذکرہ عامری، ضِبابی[2] اور کلابی[3] جیسے انساب کے ساتھ ہوا ہے۔ لغت کی کتابوں میں اس کا نام "شَمِر" آیا ہے لیکن عام لوگوں کے ہاں "شِمْر" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بظاہر شمر ایک عبرانی لفظ ہے جس کی جڑ "شامِر" بمعنی "سامِر" (= افسانہ سرا، شب نشینی میں مصاحب) ہے۔[4] شمر کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

شمر کا باپ (ذو الجوشن) (=زرہ والا) کا نام "شُرَحبیل بن اَعْوَر بن عمرو" تھا۔[5] اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ پہلا عرب تھا جس نے زرہ پہنی اور یہ زرہ ایران کے بادشاہ نے اسے دی تھی۔ دوسروں کا خیال ہے کہ اس کا سینہ چونکہ آگے کی طرف ابھرا ہوا تھا اسی وجہ سے اس کو ذوالجوشن کہا جاتا تھا۔[6] ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام "جوشن بن ربیعہ" تھا۔[7] ذوالجوشن نے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ(ص) کی دعوت کو وقعت نہ دی لیکن فتح مکہ میں مسلمان مشرکین پر فتح مند ہوئے تو اس نے [بہت سے دوسروں کی مانند] اسلام قبول کیا۔[8]

شمر کی ماں کا تذکرہ پلیدی کے وصف کے ساتھ ہوا ہے حتی کہ کہا گیا ہے کہ وہ بھیڑ بکریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے وقت گناہ کا ارتکاب کر گئی اور شمر اسی ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ امام حسین(ع) نے بھی واقعہ کربلا کے دوران شمر کو "بکری چرانے والی عورت کا بیٹا" کہہ کر پکارا تھا۔[9]

نظریاتی تبدیلی

شمر بن ذی الجوشن ابتدا میں امیرالمؤمنین(ع) کے اصحاب میں سے تھا۔ اس نے جنگ صفّین میں امیرالمؤمنین(ع) کا ساتھ دیا اور (شامی فوج کے) "ادہم بن مُحرِز باہِلی" کے ساتھ لڑتے ہوا اس کا چہرہ بری طرح زخمی ہوا[10] لیکن بعدازاں اس نے علی(ع) سے روگردانی کی اور آپ(ع) اور آپ(ع) کے خاندان کے کینہ پرور دشمنوں کے زمرے میں شامل ہوا۔

سنہ 51ہجری قمری میں صحابی رسول(ص) حُجر بن عَدی کی گرفتاری کے وقت شمر ان افراد میں سے تھا جنہوں نے زیاد بن ابیہ کے پاس جھوٹی گواہی دی کہ "حجر مرتد ہوچکے ہیں اور انھوں نے شہر کے امن و امان کو غارت کیا ہے!"۔[11] وہ کربلا میں بھی امام حسین(ع) کے قاتلین اور آپ(ع) کی شہادت کے عاملین اور مسببین میں سے تھا۔

واقعۂ کربلا میں کردار

مسلم بن عقیل نے سنہ 60 ہجری قمری میں کوفہ میں قیام کیا تو شمر ان افراد میں سے تھا جسے کوفہ میں یزید بن معاویہ کے والی عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے مسلم کے حامیوں کو منتشر کرنے کا حکم ملا تھا۔ اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر مسلم پر فتنہ انگیزی کا الزام لگایا اور عوام کو سپاہ شام سے خوفزدہ کیا۔[12]

جب امام حسین(ع) کربلا پہنچے تو لشکر کوفہ کا امیر عمر بن سعد جنگ اور خونریزی سے بچنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ پرامن راہ حل کے در پے تھا[13] لیکن شمر نے ابن زیاد کو ـ جو بظاہر عمر بن سعد کی روش کا حامی نظر آرہا تھا ـ جنگ کی ترغیب دلائی۔[14]

محرم سنہ 61 ہجری قمری کی نویں تاریخ کی شام کو شمر 4000 افراد کا لشکر اور عمر بن سعد کے لئے ابن زیاد کا دھمکی آمیز خط لے کر کربلا پہنچا۔ ابن سعد نے خط رکھ کر شمر سے کہا: "تو نے اس کام کو تباہ کیا جس میں خیر و صلاح کی امید تھی"۔ اس کے باوجود عمر سعد نے ابن زیاد کا یہ حکم مان لیا کہ یا تو امام حسین(ع) سے بیعت لے یا پھر ان کے ساتھ جنگ کرے[15] اور شمر اس کی سپاہ کا امیر بن گیا۔ شمر حضرت عباس بن علی(ع) اور ان کے تین بھائیوں کی والدہ ماجدہ ام البنین(س) کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ اس نے اپنی قبائلی ریت اور جاہلی رشتوں کو زندہ کرنے [یا جاہلی انداز سے رشتوں کو بروئے کار لانے] کے لئے روز تاسوعا بوقت عصر حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو "بھانجوں" کے عنوان سے بلایا تاکہ ان کے لئے ابن زیاد سے امان نامہ حاصل کرے لیکن انھوں نے اس کی درخواست مسترد کردی اور امام حسین(ع) کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔[16]

روز عاشورا

روز عاشورا صبح کے وقت شمر نے ابن سعد کی سپاہ کے میسرے کی امارت سنبھالی[17] اور جب اس کو خیام حسینی کے اطراف میں خندق اور جلتی ہوئی لکڑیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے گستاخانہ لب و لہجے کے ساتھ امام(ع) کے ساتھ گفتگو کی۔[18]

امام حسین(ع) نے سپاہ کوفہ کو تذکر اور تنبہ دلانے کے لئے خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں اپنے خاندان کے تابندہ ماضی کی طرف اشارہ کیا اور اہل بیت کی مودت کے بارے میں رسول اللہ(ع) کی ہدایات سے اپنے کلام کا آغاز کیا تو شمر نے آپ(ع) کی بات کاٹ دی تاہم حبیب بن مظاہر نے اس کو منہ توڑ جواب دیا۔[19]

ایک دفعہ جب امام حسین(ع) کے گرانقدر صحابی زُہَیر بن قَین، نے کوفیوں کو نصیحت کرنے کا آغاز کیا اور انہیں امام حسین(ع) کی مدد و نصرت کی دعوت دی تو شمر نے ان کی طرف تیر پھینکا اور ان کی توہین کی۔[20] عبداللّہ بن عُمَیر کلبی شہید ہوئے تو شمر نے اپنے غلام (رستم) کو حکم دیا کہ ان کی زوجہ کو ـ جو اپنے خاوند کی بالین پر بیٹھی تھیں ـ نیزہ مار کر شہید کرے اور اس نے ایسا ہی کیا۔[21]

امام حسین(ع) کے بہادر صحابی نافع بن ہِلال جَمَلی نے شدید جنگ لڑی اور ان کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تو شمر نے انہیں اسیر کرکے شہید کیا۔[22]


امام حسین(ع) کے بہت سے اصحاب کی شہادت کے بعد، دشمنوں نے خیام کی طرف حملہ کیا۔ شمر نے امام(ع) کے خیمے کو نیزہ مارا اور چلا کر کہا: "آگ لے کر آؤ تاکہ میں اس خیمے کو اس کے اندر موجود افراد کے ساتھ جلا دوں"۔ امام(ع) نے اس پر لعن و نفرین کردی اور حتی کہ شمر کے دوست شَبَث بن رِبعی نے بھی اس پر لعنت ملامت کی۔[23]

ایک بار عصر عاشورا امام حسین(ع) کی شہادت سے قبل شمر نے خیام اور ان میں موجود مال و اسباب لوٹنے کی غرض سے امام(ع) کے خیموں پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام(ع) نے اسے خبردار کیا اور وہ واپس چلا گیا۔[24]

قاتل امام حسین ؑ

شمر نے تیراندازوں کو حکم دیا کہ امام حسین ؑ کے جسم مبارک کو نشانہ بنائیں[25] اور بعدازاں سب نے اس کے حکم پر امام حسین(ع) پر حملہ کیا اور سنان بن انس اور زُرْعَۃ بن شریک نے امام(ع) کے جسم پر وار کئے۔[26]

امام حسین(ع) کے قاتل اور آپ(ع) کا سر مبارک تن سے جدا کرنے والے شخص کے بارے میں روایات مختلف ہیں جن میں سے بعض روایات کا اشارہ شمر کی طرف ہے۔ "واقدی" کا کہنا ہے کہ شمر نے امام حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے گھوڑے کے ذریعے آپ (ع) کے جسم مبارک کو پامال کیا۔[27] بعض روایات میں منقول ہے کہ شمر آپ(ع) کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپ(ع) کا سر مبارک قفا (=پشت گردن) سے جدا کیا۔[28]

امام حسین(ع) کی شہادت اور خیموں کے لوٹے جانے اور جلائے جانے کے بعد، شمر نے امام سجاد(ع) کو ـ جو کہ بیماری کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے ـ قتل کرنا کا ارادہ کیا لیکن لوگوں نے اس کو باز رکھا۔[29]

شمر ان مہم جو افراد میں سے تھا جو واقعات و حوادث میں اپنے ذاتی مفاد کے درپے ہوتا تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے کسی بھی عمل سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ وہ ابرص (=برص زدہ) اور کریہ المنظر شخص تھا۔[30] امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز شمر سے مخاطب ہوکر فرمایا: "رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے سچ فرمایا کہ گویا میں دیکھتا ہوں کہ ایک سیاہ و سفید کتا میرے اہل بیت کا خون پی رہا ہے"۔ زیارت عاشورا میں شمر کا تذکرہ لعن و نفرین کے ساتھ ہوا ہے۔[31]

عاشورا کے بعد

11 محرم سنہ 61 ہجری کو عمر بن سعد نے حکم دیا کہ 72 شہدائے کربلا کے سر جدا کئے جائیں اور شمر اور کئی دیگر افراد انہیں کوفہ میں یزید بن معاویہ کے والی ابن زیاد کے پاس لے جائیں[32] جن قبائل نے کربلا کی جنگ میں شرکت کی تھی انھوں نے ابن زیاد کی قربت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے سروں کو آپس میں بانٹ لیا۔ شمر کی سرکردگی میں قبیلۂ ہوازن، 20 سر[33] اور سید بن طاؤس کے بقول[34] 12 سر ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ کہا گیا ہے کہ شمر شہداء کے سروں کے حامل افراد کو عمر بن سعد کے آگے آگے حرکت دیتا تھا۔[35]

عبیداللہ بن زیاد نے یزید بن معاویہ کا حکم پاکر اسیران کربلا اور شہداء کے سروں کو شمر اور اس کے ساتھیوں کے سپرد کرکے شام روانہ کیا۔[36] شمر نے دربار یزید میں امام حسین(ع) اور دیگر شہدائے کربلا کے بارے میں توہین آمیز الفاظ ادا کئے۔[37]۔[38]

اہل بیت علیہم السلام کی مدینہ واپسی کے بعد شمر کی سرکاری ذمہ داری بھی ختم ہوئی اور وہ کوفہ واپس آیا۔ مروی ہے کہ وہ نماز پڑھتا تھا اور اللہ سے مغفرت کی التجا کرتا تھا اور قتل امام حسین(ع) میں شرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا تھا کہ اس نے امیروں کے حکم کی تعمیل کی ہے۔[39]

انجام کار

مختار ثقفی نے سنہ 66 ہجری قمری میں قیام کیا تو شمر نے ان کے خلاف ہونے والی جنگ میں شرکت کی لیکن مختار شمر سمیت اموی امراء کو کوفہ کے محلے "جَبّانۃُ السَبیع" میں ہونے والی جنگ میں شکست دی[40] اور شمر کوفہ سے فرار ہوکر چلا گیا۔ مختار ثقفی نے کچھ افراد کو اپنے غلام (زِربی) کے ہمراہ اس کو تعاقب میں روانہ کیا۔ شمر نے مختار کے غلام کو قتل کیا[41] اور "ساتیدَما" نامی گاؤں کی طرف بھاگ نکلا اور وہاں سے (شوش اور گاؤں صیمرہ کے درمیان واقع) "کلتانیہ" نامی گاؤں کی طرف چلا گیا[42] اور ایک خط مُصعَب بن زبیر کے لئے بھجوایا جو مختار کے خلاف جنگ کے لئے تیار تھا لیکن مختار کے کچھ سپاہیوں نے شمر کو گھیر لیا جبکہ اس کے دوسرے ساتھی بھاگ چکے تھے۔ انھوں نے شمر کو ہلاک کردیا اور اس کا سر قلم کرکے مختار کے لئے کوفہ بھجوایا اور اس کا بدن کتوں کے سامنے ڈال دیا[43] مختار نے بھی شمر کا سر محمد بن حنفیہ کے پاس مدینہ بھجوایا۔[44]

اہل سنت کے رجال میں حیثیت

شمر نے اپنے باپ سے روایت کی ہے اور ابو اسحق سبیعی نے شمر سے روایت کی ہے جبکہ اہل سنت کے منابع م مآخذ میں شمر کا تذکرہ مذمت کے ساتھ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ امام حسین(ع) کے قاتلوں میں سے تھا اور وہ نقل حدیث کی اہلیت نہیں رکھتا۔[45] شمر کی اولاد سے "صُمَیل بن حاتم بن شمر"، کو اندلس میں ایک عہدہ ملا تھا۔[46]

حوالہ جات

  1. ابن عبدربّہ، العقد الفرید، ج3، ص318ـ320۔
  2. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص186۔
  3. انساب الاشراف، بلاذری، ج2، ص482۔
  4. ابومخنف، ص124۔نیز پاورقی حاشیہ نمبر 3۔
  5. ابن سعد، ج6، ص46۔
  6. فیروزآبادی، ذیل "جوشن"۔
  7. ابن سعد، طبقات، ج6 ص24۔
  8. ابن سعد، طبقات، ج6، ص47ـ48۔تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص187ـ188۔
  9. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔ شیخ مفید، الارشاد ج2، ص96۔
  10. نصربن مزاحم، وقعہ صفین، ص267ـ268۔طبری، طبری، تاریخ طبری، ج5، ص28۔
  11. طبری، تاریخ طبری، ج5، ص269ـ270۔
  12. ابومخنف، وقعۃ الطف، ص123ـ124۔
  13. شیخ مفید، الارشاد ج2، ص87ـ88۔
  14. ابومخنف، وقعة الطف، ص187ـ188۔ بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص482۔
  15. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483۔ طبری، تاریخ طبری، ج5، ص414ـ415۔
  16. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483ـ484۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89۔
  17. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔
  18. ابومخنف، وقعۃ الطف، ص205۔ بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔ >شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص96۔
  19. طبری، تاریخ طبری، ج5، ص425۔
  20. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص488ـ489۔ طبری، تاریخ طبری، ج5، ص426۔
  21. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔
  22. طبری، تاریخ طبری، ج5، ص441ـ442۔
  23. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔ طبری، تاریخ طبری، ج5، ص438۔
  24. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص499۔طبری، تاریخ طبری، ج5، ص450۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص118۔
  25. الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص111ـ112۔
  26. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص500۔طبری، تاریخ طبری، ج5، ص453۔ مفید، الارشاد، ج2، ص112۔
  27. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص512۔ ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص119۔
  28. خوارزمی، مقتل الحسین، ج2، ص41ـ42۔شیخ مفید، الارشاد، ج2 ص112۔بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص500ـ501۔طبری، تاریخ طبری، ج5، ص453۔
  29. ابن سعد، طبقات، ج5، ص212۔طبری، تاریخ طبری، ج5، ص454۔شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص112ـ113۔
  30. طبری، تاریخ طبری، ج6، ص53۔ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص190۔
  31. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص329۔
  32. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص503۔طبری، تاریخ طبری، ج5، ص456۔
  33. بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص504۔ طبری، تاریخ طبری، ج5، ص468۔
  34. ابن طاؤس، اللهوف فی قتلی الطفوف، ص62ـ63۔
  35. دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔
  36. طبری، تاریخ طبری، ج5، ص460۔
  37. دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔ طبری، تاریخ طبری، ج5، ص459۔
  38. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص118، شیخ نے یہ الفاظ و کلمات "زحربن قیس" سے منسوب کئے ہیں۔
  39. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج23، ص189۔ ذهبی، میزان الاعتدال، ج2، ص280۔
  40. بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص58ـ59۔ طبری، ج6، ص18، 29۔
  41. بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65۔طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52۔
  42. طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52
  43. بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65ـ66۔
  44. دینوری، الاخبار الطوال، ص305۔
  45. ذهبی، میزان الاعتدال، ج2، ص280۔
  46. جمهرة انساب العرب، ابن حزم، ص287۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت 1385ہجری قمری/1965 عیسوی۔
  • ابن حزم اندلسی، جمہرة انساب العرب، چاپ عبدالسلام محمدہارون، بیروت لبنان 1403ہجری قمری/1983 عیسوی۔
  • ابن سعد، طبقات (بیروت)۔
  • ابن عبدربہ، العقدالفرید، چاپ علی شیری، بیروت 1417ہجری قمری/1996 عیسوی۔
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت۔
  • ابو ابی مخنف لوط بن یحیی، وقعۃالطف، چاپ محمدہادی یوسفی غروی، قم، 1367ہجری شمسی۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ سیداحمد صقر، قاہرہ1368ہجری قمری/1949 عیسوی۔
  • ابوحنیف ہدینوری، الاخبارالطوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاہرہ1960 عیسوی۔
  • احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، بیروت 1423ہجری قمری/2002 عیسوی۔
  • احمد بن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت 1411ہجری قمری/1991 عیسوی۔
  • احمد بن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق 1997ـ2000 عیسوی۔
  • جاحظ، کتاب البرصان و العرجان، بیروت 1410ہجری قمری/1990 عیسوی۔
  • جعفربن محمدابن قولویہ، کامل الزیارات، چاپ جواد قیومی، قم 1417 ہجری قمری۔
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃبن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت 1415ہجری قمری/1995 عیسوی۔
  • ذہبی، میزان الاعتدال، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت دارالمعرفہ۔
  • ذہبی، تاریخ الاسلام، حوادث و وفیات 61ـ80ه، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت 1408ہجری قمری۔
  • سبط بن جوزی، تذکرةالخواص، بیروت 1401ہجری قمری/1981 عیسوی۔
  • طبری، تاریخ، (بیروت)۔
  • عبدالمجید، نعنعی، تاریخ الدولۃ الامویۃ فی الاندلس، بیروت 1986 عیسوی۔
  • علی ابن طاؤس، اللہوف فی قتلی الطفوف، نجف 1369ہجری قمری/1950 عیسوی۔
  • فیروزآبادی، القاموس المحیط۔
  • محمد بن محمد مفید، الارشاد، قم، 1413ہجری قمری۔
  • موفق بن احمد خوارزمی، مقتل الحسین، چاپ محمد سماوی، قم 1381ہجری شمسی /1423 قمری
  • نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، چاپ عبدالسلام محمدہارون، قاہرہ1382ہجری قمری۔
  • ہشام بن محمد ابی کلبی، مثالب العرب، چاپ نجاح طائی، لندن، 1998 عیسوی۔
  • یاقوت حموی.