قیام مختار

ویکی شیعہ سے

قیام مُختار اس تحریک کو کہا جاتا ہے جسے مختار بن ابی عبید ثقفی نے شہدائے کربلا کے خون کا بدلہ لینے کی غرض سے چلائی تھی۔ یہ قیام سنہ 66 ہجری قمری میں کوفہ سے شروع ہوا جس میں امام حسینؑ کی شہادت میں ملوث بہت سارے افراد منجملہ عبیداللہ بن زیاد، عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن اور سنان بن انس وغیرہ اپنے انجام کو پہنچے۔ مختار نے اس قیام کو محمد بن حنفیہ کے نام سے شروع کیا جبکہ بعض شیعہ علماء معتقد ہیں کہ مختار نے اس قیام کو امام سجادؑ کی اجازت سے شروع کیا تھا۔

قیام کا ہدف

مختار واقعہ کربلا کے وقت کوفہ میں عبیداللہ ابن زیاد کی قید میں بند تھا۔ وہاں سے آزاد ہونے کے بعد اس نے امام حسینؑ کے قاتلوں سے بدلہ لینے کا ارادہ کیا۔ شروع میں مختار نے عبداللہ بن زبیر جو اس وقت حجاز پر حاکم تھا سے مل کر یزید سے مقابلہ کیا[1] لیکن درمیان میں مختار کو عبداللہ ابن زبیر کی نیت کا پتہ چلا اور اسے یہ معلوم ہوا کہ وہ اس کا ہم عقیدہ اور ان دونوں کا مقصد ایک نہیں اس لئے اس سے جدا ہو کر کوفہ چلا گیا اور وہاں کوفہ کے شیعہ بزرگان سے مل کر قیام کا آغاز کیا۔[2]

عبداللہ بن زبیر کی بیعت

مختار نے اس سے پہلے عبداللہ بن زبیر کے ساتھ ملاقات کی تھی اس وجہ سے اپنے دوستوں کی طرف سے عبداللہ ابن زبیر کی بیعت کرنے کی تجویز پر یہ کہا کہ میرا اور اس کا ہدف ایک نہیں ہے۔[3] لیکن دوستوں کی اصرار پر مختار نے دو شرطوں کے ساتھ اس کی بیعت کی:

پہلی شرط: عبداللہ بن زبیر کاموں میں ان سے مشورت کرینگے اور خود سرانہ کوئی اقدام نہیں اٹھائیں گے اور اس کی مخالفت نہیں کرینگے۔[4]

دوسری شرط: اپنی حکومت میں سب سے کلیدی عہدہ مختار کو دینگے۔[5]

جب یزید کی سپاہیوں نے مکہ پر حملہ کر کے عبداللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا تو اس وقت مختار نے عبداللہ ان زبیر کے ساتھ یزید کی فوج سے مقابلہ کیا۔ لیکن بعض منابع کے مطابق جب مختار کو معلوم ہوا کہ عبداللہ ابن زبیر اس کے ساتھ مکر و فریب سے کام لے رہا ہے اور اسے دھوکہ دینا چاہتا ہے،[6] اور خود خلافت کا دعوا کر رہا ہے تو اس سے جدا ہو گئے اور کوفہ جا کر اپنی تحریک شروع کی۔[7]

محمد بن حنفیہ سے ملاقات

کوفہ کی جانب حرکت کرنے سے پہلے مختار نے محمد بن حنفیہ کے ساتھ ملاقات کیا اور اپنی تحریک کے اغراض و مقاصد سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے ان سے مشورت طلب کیا۔ محمد بن حنفیہ نے ایک مبہم جملات میں انہیں اس قیام کی اجازت دے دی لیکن ان سے تقوا کی رعایت کرنے کی سفارش کی۔[8] بلاذری نقل کرتے ہیں کہ محمد بن حنفیہ نے صراحت کے ساتھ مختار کو قیام کی اجازت دی تھی۔[9]

کوفہ واپسی

مختار ابن زبیر سے جدا ہونے کے بعد کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک جگہے پرامام حسینؑ کی مصیبت کو یاد کرکے گریہ اور عزاداری کیا یہاں تک کہ وہاں کے مقامی شیعوں نے انہیں دیکھا اور ان کے فریفتہ ہو گئے۔[10] مختار جمعہ کے دن "حیرہ" نامی دریا کے کنارے پہنچے تو غسل کرکے خود کو عطر سے معطر کیا سر پر عمامہ رکھا اور تلوار حمائل "مسجد سکون" نامی مسجد میں چلا گیا اور جہاں سے بھی گذرتا لوگوں کو فتح و کامیابی کی نوید سناتا گیا۔[11]

کوفہ میں داخلہ

مختار یزید کی ہلاکت کے چھ ماہ بعد ماہ مبارک رمضان کی 15 تاریخ کو کوفہ میں داخل ہوا۔[12] اسی وقت ابن زبیر نے عبداللہ بن مطیع کو کوفہ کے گورنر کے عنوان سے کوفہ بھیجا۔[13]

مختار اور قیام توابین

مختار کوفہ میں پہنچنے کے بعد سلیمان بن صرد اور قیام توابین سے مواجہ ہوا۔ چونکہ مختار سلیمان کو قیام مناسب نہیں سمجھتا تھا اس لئے ان کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور اس نے کوفیوں سے بھی کہا کرتا تھا کہ سلیمان جنگی حوالے سے کوئی تجربہ یا مہارت نہیں رکھتا اور جنگی رموز سے نا آشنا ہے۔ عمر بن سعد نے حاکم کوفہ کو یہ باور کرایا کہ اس کی حکومت کو توابین سے کوئی خطرہ نہں بلکہ اس کیلئے اصل خطر مختار کی جانب سے ہے ۔[14] اس لئے قیام توابین کے شروع ہوتے وقت مختار عبداللہ بن زبیر کے کارندوں کی زندان میں قید تھا۔[15]

بازماندگان توابین اور مختار

قیام توابین کی شکست کے بعد مختار نے ان کے بازماندگان کو ایک خط لکھا اور انہیں اپنے ساتھ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے مختار کے خط کا مثب جواب دیتے ہوئے اسے پیغام دیا کہ زندان پر حملہ کرکے انہیں آزاد کر دینگے۔ لیکن مختار نے انہیں اس کام سے روکا اور کہا کہ وہ عنقریب آزاد ہونے والا ہے۔ مختار نے عبداللہ بن عمر جو اس کا بہنوی تھا کیونکہ صفیہ بنت ابی عبید اس کی بیوی تھی، کو ایک خط لکھا اور ان سے اپنی آزادی کے حوالے سے کوئی اقدام اٹھانے کی درخواست کی یوں عبداللہ بن عمر کی وساطت سے مختار زندان سے آزاد ہوا۔

حاکم کوفہ سے معاہدہ

ابراہیم بن محمد جو اس وقت کوفہ کا حاکم تھا نے مختار کی آزادی کے وقت اس سے یہ معاہدہ کیا کہ حکومت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے اور اسے قسم کھلایا کہ اگر حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرینگے تو ایک ہزار اونٹ بطور جرمانہ قربانی کرینگے اور اپنے سارے غلام اور کنیزوں کو آزاد کرینگے۔ مختار نے بھی اسی طرح قسم کھایا اور یوں وہ زندان سے آزاد ہوا۔

آزادی کے بعد اس نے کہا کہ میرے ہدف اور مقصد کے سامنے ایک ہزار اونٹ کی قربانی دینا ایک آسان کام ہے اسی طرح میں حاضر ہوں اس مقصد کی راہ میں اپنے سارے غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کروں، یہ کہا اور اپنا کام جاری رکھا۔[16]

مقدمات قیام

چونکہ حکومتی کارندے مختار کے حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے اسلئے مختار نے شروع میں کچھ افراد کو مخفیانہ طور پر افرادی قوت اکھٹا کرنے کیلئے اپنا نمائندہ بنایا ان کے نام یہ ہیں:

محمد بن حنفیہ کی نمایندگی

مختار نے کوفہ میں یہ اعلان کیا کہ وہ محمد بن حنفیہ کا نمائندہ ہے اور اپنے آپ کو اس کا امین اور وزیر قرار دیا اور اس حوالے سے ان کی طرف سے اہل بیت کے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ان کے دشمنوں سے جنگ کرنے پر مأمور ہونے کا دعوا کیا۔[17]

مختار کے ادعا پر شکوک و شبہات

بعض شیعہ رہنما "سعر بن ابی سعر حنفی" کے گھر میں جمع ہوئے اور "عبدالرحمان بن شریح" نے کہا: مختار محمد بن حنفیہ کی طرف سے نمائندگی کا دعوا کرتا ہے بہتر ہے ہم میں سے کوئی مدینہ جاکر مختار کے اس ادعا کی صحت و سقم سے آگاہی حاصل کریں۔[18]

کوفیوں کا محمد بن حنفیہ سے ملاقات

عبدالرحمن بن شریح کی سربراہی میں کوفہ کے شیعہ رہنماوں کا وفد مدینہ روانہ ہوا اور محمد بن حنفیہ سے ملاقات کرکے مختار کے قیام اور اس سے مربوط تمام واقعات کو محمد بن حنفیہ تک پہنچایا اور ان سے مختار کے نمائندگی کے بارے میں بھی سوال کیا۔ اس موقع پر محمد بن حنفیہ نے کہا خدا کی قسم میں چاہتا ہوں کہ جس کسی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو خدا ہمارے دشمنوں سے ہمارے خون کا بدلہ لے لیں۔[19]

علامہ مجلسی نے ابن نما سے نقل کیا ہے کہ محمد بن حنفیہ نے انہیں امام سجادؑ کے ہاں جا کر اجازت لینے کا کہا تو امام سجادؑ نے فرمایا: چچا جان دنیا کے کسی کونے سے بھی اگر کوئی شخص ہماری حمایت کیلئے قدم اٹھائے تو ہمارے شیعوں پر واجب ہے کہ اس کی مدد کریں۔ اور میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں آپ جو بھی مصلحت سمجھے انجام دے دیں۔[20]

کوفہ کا وفد مدینہ سے باہر آئے اور کہا کہ امام زین العابدینؑ اورو محمد بن حنفیہ نے ہمیں قیام کی اجازت دے دی۔[21] اس وفد نے کوفہ پہنچنے کے بعد مختار کے ادعا کی تصدیق کی۔[22]

شاید انہی روایات کی بنا پر بعض شیعہ بزرگان جیسے آیت اللہ خویی[23] اور مامقانی[24] قیام مختار کو امام زین العابدینؑ کی اذن خاص سے انجام پانے کے معتقد ہیں۔

ابراہیم بن مالک اشتر کا کردار

مختار اپنے قیام کی اہداف تک پہنچنے اور شیعہ سرکردگان کی تجویز پر ابراہیم بن مالک اشتر سے اس کے قیام میں ان کا ساتھ دینے کی دعوت کی۔ [25] ابراہیم پہلے مردد تھے لیکن محمد بن حنفیہ کی طرف سے مختار کی حمایت پر مبنی اجازت نامہ دیکھنے اور کوفہ کے وفد کا اس اجازت نامے کی تائید کے بعد مختار کی بیعت کی۔[26] اس قیام میں مختار کے بعد ابراہیم ابن مالک اشتر نے سب سے مؤثر کردار ادا کیا۔

تاریخ شروع قیام

قیام کے سرکردگان کی مشورت سے شروع میں جمعرات ۱۴ربیع الاول کو قیام شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔[27] لیکن ابراہیم کا کوفہ کے انتظامی فوج کے سپہ سالار ایاس بن مضارب کے ساتھ لڑائی اور اس کی ہلاکت پر قیام کے سرکردگان نے سوموار 12 ربیع الاول سنہ ۶۶ ہجری کو ہی قیام کا آغاز کیا۔[28]

نعرہ

مختار نے عبداللہ بن شداد کو یا منصور امت کا نعرہ لگانے کا حکم دیا۔ [29] یہ نعرہ پہلی بار پیغمبر اکرم(ص) نے جنگ بدر[30] اور بنی مصطلق[31] میں لگایا تھا جبکہ اس کے بعد والے اکثر شیعہ تحریکوں جیسے زید بن علی،[32] محمد نفس زکیہ، ابراہیم بن عبداللہ کے قیاموں میں بھی یہی نعرہ لگایا گیا۔ اسی طرح مختار نے سفیان بن لیلی اور قدامہ بن مالک کو نعرہ یا لثارات الحسین (یعنی اے خون حسین کا انتقام لینے والو)لگانے کا بھی حکم دیا۔ [33]

ان نعروں کے بعد قیام علنا شروع ہوا اور چند دنوں کی لڑائی کے بعد عبداللہ بن مطیع نے کوفہ سے فرار اختیار کیا۔ [34] عبداللہ بن مطیع جو عبداللہ بن زبیر کی طرف سے بعنوان حاکم کوفہ منسوب ہوا تھا تاکہ مختار وغیرہ کی تحریکوں کو سرکوب کیا جائے ۔ [35]

قصر کوفہ کی تسخیر

بروز جمعہ ۱۵ ربیع الاول سنہ 66 ہجری کو مختار قصر کوفہ میں داخل ہوا اور ان کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی گئی اس نے نماز سے پہلے خطبہ دیتے ہوئے اس قیام کے اہداف کو بیان کیا اور لوگوں سے باقاعدہ بیعت لیا۔

حکومتی عہدوں کی تقسیم

  • "عبداللہ بن حارث نخعی" ابراہیم بن مالک کا چچا، ارمنیہ کی گورنری
  • "محمد بن عمیر" ،آذربایجان کی گورنری
  • "عبدالرحمان بن سعید بن قیس" ، موصل کی گورنری
  • "اسحاق بن مسعود"، مدائن کی گورنری
  • "سعید بن حذیفہ بن یمان" ، "حلوان" کی گورنری
  • "عبداللہ بن مالک طائی" کوفے کا چیف جسٹس
  • ابوعمرہ کیسان کوفہ کے داخلی فوج کی سپہ سالاری

قاتلوں سے انتقام

مجرم کا نام جرم کی نوعیت کیفیت مجازات مجرم کا نام جرم کی نوعیت کیفیت مجازات
عمر بن سعد فوج یزید کا چیف کمانڈر تلوار سے سر تن سے جدا حفص بن عمر بن سعد اپنے باپ عمر بن سعد سے ہمکاری تلوار سے سر تن سے جدا
شمر بن ذی الجوشن فوج یزید کا سپہ سالار اور متعدد جنایات لڑائی میں ہلاک اور سر تن سے جدا سنان بن انس سر امام حسینؑ کا کاٹنا ہاتھ پاوں کاٹ کر دیگ میں پھینکا گیا
خولی بن یزید حامل سر امام اور متعدد جنایات آگ میں پھینکا گیا بجدل بن سلیم کلبی امام حسینؑ کی انگلی قطع کرنا انگلیاں اور ہاتھ پاؤں کاٹا گیا
حرملہ بن کاہل اسدی قاتل علی اصغر اور متعدد جنایات ہاتھ پاؤں کاٹ کر آگ میں پھینکا گیا حکیم بن طفیل قاتل حضرت عباسؑ ہاتھ پاؤں میں کیل اور تیر باران کیا گیا
مرۃ بن منقذ قاتل حضرت علی اکبرؑ ہاتھ کاٹا گیا اور آخر عمر تک فلج ہوا زید بن رقاد جہنی تیر انداز کربلا اور متعدد جنایات سنگسار اور تیر باران
عمرو بن صبیح قاتل عبداللہ بن مسلم نیزے سے ہلاک کیا گیا عبداللہ بن اسید جہنی کربلا میں فعال کردار گردن مارا گیا
حمل بن مالک محاربی کربلا میں فعال کردار گردن مارا گیا رقاد بن مالک بجلی اسباب امام کا لوٹنا سر عام گردن مارا گیا
عمرو بن خالد بجلی اسباب امام کا لوٹنا سر عام گردن مارا گیا عبدالرحمان بن بجلی خیمہ اور اسباب امام کا لوٹنا سر عام گردن مارا گیا
عبداللہ بن قیس خولانی جنگ میں شرکت اور اسباب امام کا لوٹنا سر عام گردن مارا گیا مالک بن نسیر امام کا آہنی ٹوپی لوٹا ہاتھ پاؤں کاٹا گیا
عثمان بن خالد جہنی قاتل عبدالرحمان بن عقیل گردن مار کر آگ میں پھینکا گیا زیاد بن مالک جنگ میں فعال کردار اور امام کے شخصی لباس کی غارت گری سر عام گردن مارا گیا
عبدالرحمان بن ابی خشکارہ جنگ میں فعال کردار اور امام کے شخصی لباس کی غارت گری سر عام گردن مارا گیا اسحاق بن حویہ امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا
رجا بن منقذ عبدی امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا سالم بن خثیمہ امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا
واحظ بن ناعم امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا صالح بن وہب امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا
ہانی بن ثبیت امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا اسید بن مالک امام کے بدن پر گھوڑا دوڑانا ہاتھ پاؤں میں زمین کے ساتھ کیل ٹھونسا گیا

امام سجادؑ کی بد دعا کا قبول ہونا

منہال بن عمرو کہتے ہیں کہ مدینے میں امام سجادؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے حرملہ کے بارے میں سوال کیا، میں نے کہا جب میں کوفہ میں تھا تو زندہ تھا، امام نے فرمایا:

«...اللهم اذقه حرالحدید، اللهم اذقه حرالحدید، اللھم اذقه حرالنار...».[36]
یعنی خدایا لوہے کی تپش اسے چکھا دے....

منہال کہتا ہے کہ جب میں کوفہ آیا تو دیکھا کہ حرملہ گرفتار ہو گیا تھا اور امام کی بد دعا قبول ہوئی تھی.

عمر بن سعد کا امان نامہ

عمر بن سعد نے عبداللہ بن جعدہ جو حضرت علیؑ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا، کو مختار کے پاس بھیجا تاکہ اس کیلئے امان مل سکے۔ مختار نے کچھ مصلحتوں کی بنا پر اسے امان تو دیا لیکن یہ شرط لگائی کہ اس سے کوئی حدث سر زد نہ ہو اور کوفہ سے بھی باہر نہ جائے۔

امان نامہ کی مخالفت

جب عمر بن سعد کی آزادی اور اسے امان دینے کے حوالے سے محمد بن حنفیہ کی نگرانی اور ناراضگی کی خبر مختار تک پہنچی[37] تو مختار عمر بن سعد کو قتل کرنے کے بارے میں چارہ جوئی کی فکر میں پڑ گیا اور عمر بن سعد کے رشتہ داروں کی ایک محفل میں واقعہ کربلا کے اصلی مجرم کی عنقریب ہلاکت کے متعلق گفتگو کی۔ مختار نے امان نامہ میں ایک ایسی عبارت لکھا تھا جس کے سبب وہ جب چاہے اس امان نامہ کی مخالفت کر سکتا تھا۔ امان نامہ میں یہ شرط لگائی گئی تھی کہ عمر بن سعد سے کوئی حدث سر زد نہ ہو۔ امام محمد باقرؑ اس امان نامہ میں تحریر حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سے مختار کی مراد وضو کو باطل کرنے والا حدث تھا۔[38] مختار نے ابوعمرہ کو عمر بن سعد قتل کرنے کیلئے بھیجا اور ابوعمرو نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کا سر مختار کے پاس لے آیا۔

حکومت شام کے ساتھ جنگ

کوفہ میں موجود اکثر قاتلین اپنے برے انجام کو پہنچے صرف چند افراد کوفہ سے فرار ہو کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کی بعد مختار نے واقعے کربلا کے اصلی مجرمین یعنی بنی امیہ سے بدلہ لینے کا قصد کیا یوں شامی حکومت کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ بعض منابع کے مطابق امام حسینؑ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد مختار کی سب سے بڑی خواہش ابراہیم بن مالک اشتر کی سرکردگی میں ایک مجہز فوج شام کی طرف روانہ کرنا تھا۔[39]

ابراہیم بن مالک کی شام روانگی

مختار نے امام حسینؑ کی قاتلوں کو قلع و قمع کرنے کی دو دن بعد ابراہیم کو شام کی طرف روانہ کیا۔[40]اس طرف سے عبیداللہ بن زیاد نے بھی ایک بڑی فوج لے کر ابراہیم کے ساتھ مقابلہ کرنے کی غرض سے روانہ ہوا اور دونوں لشکر موصل کے مقام پر ایک دوسرے سے جا ملے۔

لشکر ابراہیم ۱۲۰۰۰ہزار افراد پر مشتمل تھا جس میں سے ۸۰۰۰ایرانی اور ۴۰۰۰عرب زبان تھے،[41] بعض منابع میں لشکر ابراہیم کی تعداد ۲۰۰۰۰ سے ۳۰۰۰۰تک تخمین لگایا گیا ہے۔[42]

ابن زیاد سے روبرو

موصل کے مقام پر ابراہیم کا لشکر ابن زیاد کے 80 ہزار فوج[43] کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔ اس جنگ میں عبیداللہ بن زیاد، حصین بن نمیر اور شرحبیل بن ذی الکلاع جیسے افراد کی ہلاکتے کے ساتھ ابراہیم کے حق میں ختم ہوا۔[44] عبیداللہ بن زیاد سنہ ۶۷ہجری کو عاشورا کے دن قتل ہوا۔[45]

عبیداللہ بن زیاد کی لاش کو آگ لگا دی گئی اور[46] اس کا سر مختار کے پاس کوفہ بھیجا گیا اور وہاں سے مدینے میں امام سجادؑ اور محمد بن حنفیہ کی خدمت میں بھیجا گیا۔[47]

ابن زیاد کا سر مدینے میں

جب ابن زیاد کا سر امام سجادؑ کے پاس پہنچا تو اس وقت امامؑ کھانا تناول فرما رہے تھے اس حوالے سے امام سجادؑ نے فرمایا:

"...ادخلت علی عبیدالله بن زیاد و هو یتغذی و راس ابی بین یدیه و قلت: اللهم لاتمتنی حتی‌ترینی راس ابن زیاد...".[48]

جب ہمیں ابن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا تو اس وقت وہ کھانا کھا رہے تھے جبکہ میرے بابا کا سر اس کے سامنے تھا اس وقت میں نے خدا سے یہی طلب کیا کہ خدایا اتنی عمر دے کہ میں زندہ رہوں اور ابن زیاد کا سر میرے سامنے ہو۔

ڈنڈا بردار فوج

عبداللہ بن زبیر نے محمد بن حنفیہ اور عبداللہ بن عباس سمیت بنی ہاشم کے 17 افراد منجملہ حسن مثنی کو شعب عارم نامی ایک غار میں زندانی کرکے ان سے کہا کہ اگر میری بیعت سے انکار کرے تو انہیں آگ میں جلایا جائے گا۔ محمد بن حنفیہ نے مختار کے لئے پیغام بھیجا اور اس سے مدد طلب کیا۔ مختار نے کچھ افراد جن کا اصلحہ صرف لکڑی کا ڈنڈا تھا مکہ روانہ کیا اور انہوں نے بنی ہاشم کے افراد کو ابن زبیر سے نجات دلا دی یہ گروہ اسی وجہ سے خشبیہ یعنی ڈنڈا بردار فوج کے نام سے معروف ہوا۔[49] ڈنڈے کے ساتھ مسلح ہونے کی وجہ مکہ کی تقدس کو برقرار رکھنے کی وجہ سے تھا اس لئے تلوار کی جگہ ڈنڈے کے ساتھ مسلح تھے۔[50]

"عروہ بن زبیر" اپنے بھائی کے بنی ہاشم کے افراد کو آگ لگانے کے کام کی توجیہ میں کہتا ہے: "انہوں نے یہ کام امت میں اختلاف اور پراکندگی وجود میں نہ آنے کیلئے انجام دیا تاکہ بنی ہاشم بھی ان کی اطاعت کریں یوں سارے مسلمان متحد ہو جائیں جیسا کہ یہ کام عمر بن خطاب نے بھی بنی ہاشم کے ساتھ انجام دیا تھا جب انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔[51]

مختار اور مصعب بن زبیر کے درمیان جنگ

امام حسینؑ کے بعض وہ قاتلین فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے جن میں سر فہرست محمد بن اشعث اور شبث بن ربعی تھے، انہوں نے بصرہ جا کر مصعب بن زبیر کو مختار سے جنگ کرنے پر تیار کیا۔

کوفہ سے باہر جنگ

شروع میں دونوں گروہ مذار نامی جگہے پر ایک دوسرے سے روبرو ہوئے۔ مختار کے سپاہیوں کا سپہ سالار احمر بن شمیط اور اس کا نائب عبداللہ بن کامل تھا جبکہ ابوعمرہ کیسان بھی موجود تھے۔ مصعب کے ساپیوں میں مہلب بن ابی صفرہ بھی موجود تھا۔ اس جنگ میں مختار کے سپاہیوں کو سخت شکست سے دوچار ہوئے اور ابن شمیط، ابن کامل اور ابوعمرہ سمیت اس کے بہت سارے سپاہی جن میں اکثریت ایرانیوں کی تھی شہید ہو گئے۔

اس کے بعد مختار کی موجودگی میں کوفہ سے باہر دونوں گروہ کے درمیان لڑائی ہوئی اس میں بھی مختار کے سپاہیوں کو شکست ہوئی یوں وہ کوفہ کی جانب عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوئے اس جنگ میں محمد بن اشعث بھی مارا گیا۔

شہر کے اندر جنگ

مصعب کے سپاہیوں نے شہر کی جانب پیش قدمی کی اور مختصر مزاحمت کے بعد شہر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور دارالامارہ کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔ مختار کے ساتھ تقریبا 6000 ہزار افراد دارالامارہ کے اندر موجود تھے۔ مختار نے انہیں دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا مشورہ دیا تاکہ عزت کی موت مر سکیں لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔

مختار کی شہادت

مختار 19 افراد کے ساتھ قصر سے باہر آئے اور مصعب کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد سب کے سب قتل ہوئے یہ واقعہ 14 رمضان المبارک سنہ 67 ہجری کو پیش آیا۔[52]

اس جنگ میں مختار کے ساتھ قتل ہونے والے افراد میں حجر بن عدی کے دو بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمان [53] اور سائب بن مالک اشعری جو قم کے اشعری قوم سے تعلق رکھتا تھا بھی شامل تھے۔[54]

ہتھیا ڈالنے والے افرد کا انجام

مختار کے سپاہیوں میں سے وہ افراد جنہوں نے مختار کی تجویز کو ٹھکرا کر مصعب بن زبیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے مختار کی شہادت کے بعد مصعب نے سب کی گردنیں اڑا دی اور ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔[55]

ایک دن جب مصعب عبداللہ بن عمر کے پاس سے گذرا تو عبداللہ نے اس سے کہا: کیا تم وہی ہو جس نے ایک ہی دن 6000 ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا؟ مصعب نے جواب دیا وہ سب کے سب کافر ہو گئے تھے۔ عبداللہ نے کہا اس مقدار میں اگر تمہارے باپ کی ارث میں سے بھیڑ بکریاں بھی مار دیا ہوتا تو بھی اسراف اور حرام تھا چہ جائیکہ مسلمانوں کو مارا جائے۔[56]

مختار کی اہلیہ کا قتل

مصعب نے تمام اسراء کو قتل کرنے کے بعد مختار کی دو بیویوں ام ثابت اور عمرہ کے پیجھے گیا اور ان سے مختار سے بیزاری برتنے اور اس پر لعن طعن کرنے کا کہا۔[57] ام ثابت نے ایسا کیا اور وہ آزاد ہو گئی جبکہ عمرہ نے کہا خدا اس پر رحمت نازل کرے وہ خدا کے نیک اور صالح بندوں میں سے ایک تھا۔ اس پر معصب نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا اور مطر نامی ایک شخص نے اسے قتل کر دیا۔ یعقوبی لکھتے ہیں: مصعب نے مختار کے بارے میں عمرہ کی رائ دریافت کی تو اس نے مختار کی مدح سرائی کی اور کہا "إنه کان تقیا، نقیا صواما" یعنی وہ ایک متقی، پاکیزہ اور بہت زیادہ روزہ رکھنے والا انسان تھا۔ اس پر مصعب نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا اور عمرہ اسلام میں وہ پہلی خاتون تھی جس کی گردن ماری گئی۔[58]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج‌۶، ص ۳۷۸-۳۷۷۔
  2. رضوی اردکانی، ماهیت قیام مختار، ۱۳۷۸ش، ص ۲۶۲.
  3. أنساب الأشراف،ج۶،ص:۳۷۸
  4. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۹۰۷، تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۲،ص:۳۷
  5. تاریخ الطبری،ج۵،ص:۵۷۵
  6. أنساب الأشراف،ج۵،ص:۳۱۷
  7. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۹۱۰
  8. أنساب الأشراف،ج۶،ص:۳۸۰
  9. أنساب الأشراف،ج۶،ص:۳۸۰
  10. الکامل،ج۴،ص:۱۷۴
  11. تاریخالطبری،ج۵،ص:۵۷۸
  12. تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۲،ص:۴۳
  13. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۹۱۱، تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۲،ص:۴۴
  14. الکامل،ج۴،ص:۱۷۲
  15. إمتاعالأسماع،ج۱۲،ص:۲۵۱
  16. تجاربالأمم،ج۲،ص:۱۳۷
  17. إمتاع الأسماع،ج۱۲،ص:۲۵۰، تاریخ الإسلام،ج۵،ص:۶۲
  18. أنساب الأشراف،ج۶،ص:۳۸۴
  19. تاریخالطبری،ج۶،ص:۱۴
  20. بحار الأنوار، ج۴۵، ص: ۳۶۵
  21. بحار الأنوار، ج۴۵، ص: ۳۶۵، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمۃ الأطہار، ج۱، ص: ۲۹۸
  22. أنساب الأشراف،ج۶،ص:۳۸۴، تاریخ الطبری،ج۶،ص:۱۴
  23. معجم الرجال، ج۱۸ص ۱۰۰
  24. تنقیح المقال، ج۳ص ۱۰۱
  25. تاریخ الطبری،ج۶،ص:۱۵
  26. تاریخ الطبری،ج۶،ص:۱۶
  27. تجارب الامم ج ۲ص ۱۴۷
  28. طبری، ج۷ص ۱۸۳
  29. انساب الاشراف، ج۶ص ۳۰۹
  30. طبقات ج۲ص ۱۰امتاع الاسماع، ج۱ص ۱۰۶
  31. الاستیعاب،ج۲،ص:۶۵۶
  32. طبری ج۷ص ۱۸۳، مقاتل ص۱۳۳
  33. انساب الاشراف، ج۶ص ۳۹۰
  34. انساب الاشراف ج۶ص ۳۹۲، طبری، ج۶ص۲۷
  35. آفرینش وتاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۹۱۱، تاریخ ابن خلدون/ترجمہ متن،ج۲،ص:۴۴
  36. کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج۲، ص: ۱۱۲
  37. تاریخالطبری،ج۶،ص:۶۲
  38. تاریخ الطبری،ج۶،ص:۶۱
  39. أنسابالأشراف،ج۶،ص:۴۲۳
  40. انسابالأشراف،ج۶،ص:۴۲۳، الأمالی (للطوسی)، النص، ص: ۲۴۰
  41. بحار الأنوار، ج۴۵، ص: ۳۳۴
  42. الأخبارالطوال،ص:۲۹۳
  43. أنسابالأشراف،ج۶،ص:۳۶۳
  44. أنسابالأشراف،ج۶،ص:۴۲۶
  45. بحار الأنوار، ج۴۵، ص: ۳۸۳
  46. أنسابالأشراف،ج۶،ص:۴۲۶
  47. بحار الأنوار، ج۴۵، ص: ۳۸۶
  48. بحار الأنوار، ج۴۵، ص۳۳۶
  49. أنساب الأشراف،ج۳،ص:۲۸۴
  50. الکامل،ج۴،ص:۲۵۱
  51. شرح نہج البلاغۃ لابن أبي الحديد، ج‏20، ص 147
  52. تاریخ قم،ص:۲۹۰
  53. الإصابۃ،ج۲،ص۳۴
  54. تاریخ قم،ص:۲۹۰
  55. المنتظم،ج۶،ص:۶۶
  56. البدایۃوالنہایۃ،ج۸،ص:۲۸۹، أنسابالأشراف،ج۶،ص:۴۴۵
  57. الأخبارالطوال،ص:۳۰۹
  58. تاریخ الیعقوبی،ج۲،ص:۲۶۴

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌دار صادر -‌دار بیروت، ۱۳۸۵/۱۹۶۵.
  • ابن حجر، احمدبن علی عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۵/۱۹۹۵.
  • ابن خلدون، العبر تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبد المحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چ اول، ۱۳۶۳ش.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶.
  • ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن ہبہ اللہ‏، شرح نہج البلاغۃ لابن أبي الحديد، محقق ابراہيم، محمد ابوالفضل‏، مكتبۃ آيۃ اللہ المرعشي النجفي‏، قم‏، 1404 ق‏، چاپ اول‏.
  • ابن مسکویہ، ابوعلی الرازی، تجارب الأمم، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران، سروش، ط الثانیۃ، ۱۳۷۹ش.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ(ط- القدیمۃ)اربلی، رسولی محلاتی، ہاشم، تبریز ۱۳۸۱ ق،چاپ اول.
  • بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶.
  • جزایری، سید نعمت اللہ، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمۃ الأطہار، مؤسسۃ التاریخ العربی، بیروت۱۴۲۷ ق- ۲۰۰۶ م،نوبت چاپ اول.
  • خویی، ابو القاسم، ۱۳۷۲، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، مرکز نشر الثقافہ الاسلامیہ، قم.
  • طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی(للطوسی) طوسی،دار الثقافۃ، قم، ۱۴۱۴ ق، چاپ اول
  • قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ترجمہ حسن بن علی بن حسن عبد الملک قمی (در ۸۰۵)، تحقیق سید جلال الدین تہرانی، تہران، توس، ۱۳۶۱ش.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال،مطبعہ المرتضویہ، نجف.۱۳۴۹ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار،‌دار إحیاء التراث العربی،سال چاپ ۱۴۰۳ ق،نوبت چاپ دوم.
  • مقدسی، مہطر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴ش.
  • مقریزی، تقی الدین احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۲۰/۱۹۹۹.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا.