حرملۃ بن کاہل اسدی

ویکی شیعہ سے

حرمله بن کاہل اسدی شیعہ حضرات کے نزدیک وہ منفور ترین شخص ہے کیونکہ وہ عاشور کے دن کربلا میں، عمر بن سعد کے لشکر میں شامل تھا. اور اس نے حضرت عبد اللہ بن حسین(علی اصغر) اور حضرت عبد اللہ بن حسن(قاسم) کو شہید کیا.

زندگی

اس کا تعلق قبیلۂ بنی اسد سے تھا. تاریخی منابع اور ماخذ واقعۂ کربلا سے پہلے اس کی زندگی کے بارے میں کوئی تفصیل ذکر نہیں کرتے ہیں۔بعض تاریخی کتب میں اس کا نام حرملہ بن کاہن ذکر ہوا ہے[1] اور وہ قیام مختار میں مارا گیا. [2]

روز عاشورا

عاشورا کے روز حرملہ بن کاہل اسدی عمر بن سعد کے لشکر کے تیر اندازوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے تیر کے ذریعے حضرت امام حسین ؑ کے شیر خوار بیٹے عبد اللہ بن حسین کو حضرت کی گود میں نشانہ بنایا۔[3] اسی طرح عبد اللہ بن حسن کے قاتل کے طور پر بھی اس کا نام ذکر ہوا ہے. [4] نیز حضرت عباس بن علی کی شہادت میں بھی اس کے کردار کو ذکر کیا ہے. [5] اور کوفہ میں حضرت عباس کے سر کے حاملین میں سے تھا. [6] ابن اثیر نے اسے ابوبکر بن حسن کے قاتل کے طور پر بھی ذکر کیا ہے. [7]

شیعوں کی نگاہ میں اس کا مقام

زیارت ناحیہ میں اس پر لعن مذکور ہے [8]۔منہال بن عمرو کے قول کے مطابق اس نے حج کے سفر میں حضرت امام سجاد(ع) نے مدینہ میں ملاقات کی. قیام مختار اور کربلا کے قاتلین کے بارے میں گفتگو کے دوران جب امام سجاد حرملے کے زندہ ہونے سے با خبر ہوئے تو آپ نے فرمایا:

خداوند کریم!اسے جہنم کی آتش اور لوہے کی گرمائش کا مزہ چکھائے[9]۔

بِشر بن غالب اسدی نے حضرت امام سجاد(ع) ؑ سے ملاقات میں امام سجاد(ع) ؑ کی حرملہ پر نفرین کا ذکر کیا ہے۔[10]

موت

قیام مختار میں حرملہ گرفتار ہوا تو مختار کے حکم سے اس کے ہاتھ اور پاؤں کے قطع کرنے کا حکم دیا پھر اسے جلایا گیا۔منہال بن عمرو حج کے موقع پر حضرت امام سجاد ؑ سے ملاقات کر کے آیا تو اس نے نزدیک سے حرملہ کے قتل کا نزدیک سے مشاہدہ کیا. اس نے امام سجاد(ع) سے اپنی ملاقات کا سارا واقعہ مختار کو سنایا. مختار نے اس بات پر سجدہ شکر ادا کیا کہ امام سجاد(ع) ؑ کی دعا اس کے ذریعے پوری ہوئی۔[11]

حوالہ جات

  1. طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۹۲.
  2. ابن نما، ذوب النضار، ص۱۲۱.
  3. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۰۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۶۵، ج۹۸، ص۲۶۹.
  4. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۹۳؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۶۸.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۰۱.
  6. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱۳، ص۲۵۶.
  7. ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۹۲.
  8. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۶۵؛ ابن طاوس، اقبال، ص۵۷۴.
  9. اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۱۱۲؛ طوسی، امالی، ص۲۳۸-۲۳۹؛ ابن نما، ذوب النضار، ص۱۲۱.
  10. دانشنامہ امام حسین، ج۹، ص۲۳۶ به نقل از شجری، امالی، ج۱، ص۱۸۸؛ ابن نما، ذوب النضار، ص۱۲۱.
  11. اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۱۱۲؛ طوسی، امالی، ص۲۳۸-۲۳۹.

ماخذ

  • بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من انساب الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • اصفہانی، (ابوالفرج) علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق: سیداحمد صقر، دارالمعرفہ، بیروت، بی‌تا.
  • ابن اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • علامہ مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ق.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، مکتبہ بنی ہاشمی، تبریز، ۱۳۸۱ق.
  • شیخ طوسی، الأمالی، انتشارات دارالثقافہ، قم، ۱۴۱۴ق.
  • ابن نما حلی، ذوب النضار فی شرح الثار، مؤسسہ نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۶ق.
  • ری شہری، محمد و...، دانشنامہ امام حسین (ع)، مترجم: محمد مرادی، دارالحدیث، قم، ۱۴۳۰ق/۱۳۸۸ش.