سہل بن حنیف

ویکی شیعہ سے
سہل بن حنیف
کوائف
مکمل نامسہل بن حنیف انصاری
کنیتابو سعید، ابو سعد یا ابو عبد
محل زندگیمدینہ، کوفہ
مہاجر/انصارانصار
اقاربعثمان بن حنیف
وفات38 ھ، کوفہ
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتبدر، احد، صفین
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ و امام علیؐ کے صحابی


سَہلِ بْن حُنَیف اَوسی اَنْصاری، پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کے بزرگ اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے دور رسالت مآب میں جنگ بدر اور جنگ احد اور امیر المومنین کے دور حکومت میں جنگ صفین میں شرکت کی۔ حضرت علی (ع) نے جنگ جمل کے لئے عراق کی طرف روانہ ہوتے وقت انہیں مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔ وہ شرطۃ الخمیس کے اعضاء میں سے ایک تھے۔ سہل بن حنیف نے جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں وفات پائی۔

نسب و کنیت

سہل بن حنیف بن واہب اوسی انصاری کی کنیت ابو سعید یا ابو سعد یا ابو عبد تھی۔ ۳۸ ق میں کوفہ میں ان کی رحلت ہوئی۔[1]

عصر پیغمبر میں

سہل نے جنگ بدر اور دوسری تمام جنگوں میں پیغمبر اسلام (ص) کے ہمراہ شرکت کی اور جنگ احد میں جب مسلمان فرار ہو گئے تو وہ ان انگشت شمار چند لوگوں میں سے تھے جو ثابت قدم رہے اور اس دن انہوں نے پیغمبر اکرم کے ہاتھ پر مرتے دم تک ساتھ رہنے کی بیعت کی اور تیر اندازی کے ذریعے آنحضرت (ص) سے دفاع کر رہے تھے تو آنجناب (ص) نے فرمایا: سہل کو تیر دو وہ آسانی سے تیر اندازی کر رہے ہیں۔[2]

سنہ 9 ہجری میں سریہ امام علی (ع) میں فلس کے صنم کدہ کو تباہ کرنے کے لئے فوج کا پرچم سہل کے ہاتھوں میں تھا۔[3]

خلفاء کے زمانہ میں

فضل بن شاذان سے نقل ہوا ہے کہ سہل اور ان کے بھائی عثمان ان اولین افراد میں سے تھے جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد سے سب پہلے امام علی (ع) کی طرف پلٹ کر آئے۔[4]

سہل کا نام ان ۱۲ افراد میں ذکر ہوا ہے جنہوں نے ابو بکر کی خلافت کا انکار کیا اور ان میں سے ہر ایک نے تقریر کرکے ابو بکر سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی خلافت سے صرف نظر کریں۔ ابو بکر کے سلسلے میں سہل کے اقوال اس طرح سے نقل ہوئے ہیں:

میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خدا (ص) نے منبر پر فرمایا: میرے بعد تمہارے امام و رہبر علی بن ابی طالب ہیں۔ وہ میری امت کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ انسان ہیں۔[5]

امیرالمومنین کے دور میں

جس وقت لوگوں نے امام علی (ع) کے دست مبارک پر بیعت کی سہل اسی وقت سے امام کے ہمراہ ہو گئے تھے اور امام (ع) نے جنگ جمل کے لئے روانہ ہوتے وقت انہیں مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔ انہوں نے جنگ صفین میں شرکت کی۔ امام نے انہیں جنگ صفین کے بعد فارس کا حاکم مقرر کیا۔ لیکن لوگوں نے انہیں وہاں سے نکال دیا اور اسی سبب سے امام نے وہاں زیاد بن ابیہ کو بھیجا جسے لوگوں نے پسند کیا۔[6]

سہل اپنے بھائی عثمان کے ہمراہ امام علی (ع) کے خاص اصحاب، شرطۃ الخمیس میں شامل تھے۔[7]

وفات

سنہ ۳۸ ھ کو کوفہ میں وفات پائی اور جیسا کہ امام جعفر صادق (ع) سے روایت میں نقل ہوا ہے: امام علی (ع) نے ان کی نماز جنازہ میں ۵ تکبیریں کہیں اور اس کے بعد کچھ آگے بڑھے اور جنازہ زمین پر رکھ دیا گیا اور امام نے پھر ۵ تکبیریں کہیں۔ اسی طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہا اور امام نے ان کے جنازہ میں ۲۵ تکبیریں کہیں۔[8] ایک روایت میں امام محمد باقر (ع) سے نقل ہوا ہے اور آپ نے امام کی طرف سے ۵ بار تکبیر کہنے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ہر بار جنازہ جیسے ہی ذرا آگے بڑھتا کچھ لوگ اسے تشییع کرتے اور اس پر نماز پڑھتے پھر نئے افراد اس میں شامل ہو جاتے اور کہتے ہم نے نماز نہیں پڑھی ہے لہذا امام جنازہ کو رکھ دیتے اور بھر سے نماز پڑھاتے۔ یہاں تک کہ جب جنازہ قبر تک پہنچا تب تک ۵ بار ایسا کرنا پڑا۔[9]

نقل ہوا ہے کہ امام ان کی وفات کے بعد بہت بیتاب رہتے تھے اور تعجب کے ساتھ نقل فرمایا کرتے تھے: آغاز اسلام کی پہلی صدی ہجری میں سہل اپنی قوم کے بتوں کو رات میں توڑ دیا کرتے تھے اور ان کے ٹکڑوں کو انصار کی ایک بیوہ خاتون کے پاس لے کر جاتے تھے اور اس سے کہتے تھے انہیں اپنے لئے آگ جلانے میں استعمال کر لیا کرو۔[10]

حوالہ جات

  1. الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۰.
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۶۶۲-۶۶۳؛ الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۱.
  3. آیتی، تاریخ پیغمبراسلام، ص۵۰۸.
  4. الطوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ج۱، ص۱۷۷-۱۸۳.
  5. الصدوق، کتاب الخصال، ج۲، ص۴۶۱-۴۶۵.
  6. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۶۶۲-۶۶۳؛ الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۱.
  7. البرقی، الرجال، ص۴.
  8. الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۱.
  9. الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۱.
  10. الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۳۲۱.

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸ ش
  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابو القاسم گرجی، تہران: انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۷۸ ش
  • البرقی، احمد بن محمد بن خالد، الرجال، تہران: دانشگاه تہران، بی‌تا
  • ابن عبد البر، الاستیعاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت: دارالجیل، ۱۴۱۲ق-۱۹۹۲ع
  • الصدوق، کتاب الخصال، صححہ و علق علیہ: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۶ق
  • الطوسی، اختیار معرفۃ الرجال، تصحیح و تعلیق: میر داماد الاستر آبادی، تحقیق: السید مہدی الرجائی، قم: مؤسسۃ آل البیت(ع)، ۱۴۰۴ق
  • الامین، السید محسن، اعیان الشیعہ، حققہ واخرجہ حسن الامین، ج۷، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق-۱۹۸۶ع