مقام رأس الحسین (قاہرہ)

ویکی شیعہ سے
مقام رأس الحسین (قاہرہ)
ابتدائی معلومات
بانیمصر میں فاطمیوں کے وزیر طلائع بن رزیک
تاسیس548 یا549ھ
استعمالمسجد • زیارتگاہ
محل وقوعشہر قاہرہ، مصر
دیگر اسامیمسجد الحسین، مشہد الحسینی
مشخصات
معماری
تعمیر نو2022ء


مقام رأس الحسینؑ یا مسجد الحسینؑ یا مشہد الحسینی قاہرہ میں ایک مقام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ امام حسینؑ کا سر اقدس یہاں دفن ہوا ہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق چھٹی صدی ہجری میں جب فلسطین کے شہر عَسْقَلان پر صلیبیوں کا قبضہ ہوا تو اس وقت امام حسینؑ کے سر مبارک جو عسقلان میں دفن تھا۔ فاطمی حکمرانوں نے بے حرمتی کے خوف سے یہاں سے نکال کر قاہرہ منتقل کیا اور سنہ 548 یا 549ھ کو سر مقدس کو قاہرہ میں دفن کر کے اس پر ایک عمارت بنائی جس کا نام مسجد الحسین ہے۔

مسجد الحسین میں دفن ہونے والے سر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ مشہور شیعہ علماء کے مطابق امام حسینؑ کا سر اقدس آپ کے بدن کے ساتھ کربلا میں ہی دفن ہوا ہے۔ اس بنا پر مذکورہ مسجد میں مدفون سر کے بارے میں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ شاید یہ سر شہدائے کربلا میں سے کسی علوی سید یا امام حسینؑ کے اہل‌ بیت میں سے کسی کا ہے۔

مصر میں لوگ اس مقام کے لئے احترام کے قائل ہیں اور اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منسوب بعض اشیاء اور قرآن کریم کا ایک قدیمی نسخہ‌ٔ بھی اس مسجد میں محفوظ ہے۔ اسی طرح بعض مشہور قاریوں کے تلاوت قرآن کی محفلیں بھی مسجد الحسین میں منعقد ہوتی ہیں۔

مصریوں کے ہاں اس کا مقام

مقام رأس‌ الحسین، امام حسینؑ سے منسوب مقامات میں سے ایک ہے جو مسجد اَلْاَزْہر کے بعد قاہرہ کا دوسرا اہم مقام ہے جہاں لوگ زیادہ جمع ہوتے ہیں۔[1] سید محسن امین جنہوں نے سنہ 1321ھ کو اس مقام کی زیارت کی ہے اس کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: «مصر کے لوگ جوق در جوق اس مقام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور یہاں دعا اور راز و نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔»[2] ابن‌ جُبَیْر اندلسی (متوفی:614ھ) نیز لکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ اس مقام پر امام حسینؑ سے متبرک ہوتے ہیں۔[3] بعض سلفی لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ الازہر کی مسجد میں خلوت ہونے کے باوجود لوگ اس مقام کو مسجد پر ترجیح دیتے ہیں۔[4] مصر کے لوگ امام حسینؑ کے سر مبارک کے یہاں پہنچنے کی تاریخ کو ہر سال جشن مناتے ہیں۔[5] یہ مراسم ربیع الثانی کے آخری منگل کو مسجد کے اطراف میں خیمے نصب کر کے منایا جاتا ہے۔[6]

کہا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں مصر کے رہنماؤں نے نماز عید اس مقام پر برگزار کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ جمال عبدالناصر (صدارت: 1956-1970ء) کی صدارت میں ایسا ہوا تھا۔[7] مصر کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ جس طرح عراق کے لوگوں کا ظالم اور استعمار کے خلاف متحد ہونے اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے میں حرم امام حسینؑ کا کردار ہے اسی طرح مصر میں مقام رأس الحسین کا کردار بھی ہے۔[8]


اہل سنت عالم دین ابن‌ جُبَیْر اندلسی (متوفی: 614ھ) مقام رأس الحسین کے بارے میں کہتا ہے

«میں گمان نہیں کرتا کہ دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہو جہاں لوگ اس مقام سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ جمع ہوتے ہوں، یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہ مقام کوئی دلفریب یا خوبصورت منظر ہے!»

ابن‌جبیر، رحلۃ ابن‌جبیر، دار الہلال، ص19

اہل‌ سنت مورخ ابن‌کثیر(متوفی:774ھ) لکھتے ہیں کہ مصر کے لوگ اس مقام کو «تاج‌ الحسین» کے نام سے پکارتے ہیں۔[9] ابن‌ نِمای حِلی نیز کہتے ہیں کہ مصر کے لوگ اس مقام کو «مشہد الکریم» کا نام دیتے ہیں۔[10] مالک الحزین «مسجد الحسین اور مصر کے اہل سنت کے سینوں میں اس کا مقام» نامی مقالے میں لکھتے ہیں کہ مصر کے لوگ اس قدر اس مقام کو مقدس سمجھتے ہیں کہ بہت سارے مورخین نے اس مقام کو مسجد حرم مصر کے نام سے دیا کیا ہے۔[11] اسی طرح اس مقام کو «مسجد الحسینؑ»،[12] «مقام رأس الحسین»[13] یا «مشہد الحسینی»[14] کے نام سے بھی یاد کئے جاتے ہیں۔

کیا امام حسینؑ کا سر اقدس قاہرہ میں دفن ہے؟

بعض منابع کے مطابق امام حسینؑ کا سر اقدس عسقلان میں دفن تھا۔[15] لیکن جب صلیبیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تو مسلمانوں نے سر اقدس کو قاہرہ منتقل کر دیا۔[16] کہا جاتا ہے کہ یہ کام فاطمی حکومت کے وزیر طلائِع بن رُزّیک (متوفی: 556ھ) کے توسط انجام پایا۔[17] انہوں نے صلیبیوں کو بہت سارے مال و اموال دیکر امام حسینؑ کے سر اقدس کو قاہرہ منتقل کیا اور وہاں دفن کرایا۔[18]نویں صدی ہجری کے مصری مورخ مقریزی کے مطابق امام حسینؑ کے سر اقدس کو 10 جمادی‌ الثانی سنہ 548 یا 549ھ کو قاہرہ منتقل کیا گیا۔[19] کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں سے سر اقدس کو لے جایا گیا وہاں سے مشک کی خشبو آتی تھی۔ قاہرہ میں «حارَۃ المِسْک» نامی محلے کا نام اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔[20] اہل‌ سنت مورخ ابن‌کثیر (متوفی:774ھ) کا کہنا ہے کہ فاطمیوں نے یہ کام اپنا نسب امام حسینؑ سے متصل ہونے کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیا ہے۔[21]

فاطمیون اور صوفیوں کے بعض گروہ[22] نیز مصر کے مفتی اور ہیئت کبار الاَزْہر کے رکن علی جمعہ،[23]جیسے مصر کے بعض اہل‌ سنت بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسینؑ کا سر اقدس اسی مقام پر دفن ہے۔ لیکن مشہور شیعہ علماء کے نظریے کے مطابق امام حسینؑ کا سر اقدس ان کے بدن کے ساتھ کربلا میں ہی دفن ہے۔[24] سلفی[25] اور بعض اہل‌ سنت علماء[26] بھی امام حسینؑ کے سر اقدس کا یہاں دفن ہونے کے نظریے کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

عسقلان میں دفن ہونے والے اور وہاں سے قاہرہ مصر منتقل ہونے والے سر کے بارے میں بعض شیعہ محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ شاید یہ سر شہدائے کربلا میں سے کسی علوی سید یا امام حسینؑ کے اہل‌ بیت میں سے کسی شہید کا سر تھا۔[27]

مسجد الحسین اور اس کی تاریخ

سنہ 549ھ کو سلسلہ فاطمیہ کے وزیر صالح الطلائع کی نگرانی میں اس مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی[28] جس کا نام مسجد الحسین رکھا گیا۔ یہ مسجد سفید سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے جس کے تین دروازوں ہیں۔[29] مصر کے دوسرے وزراء اور فرمانروا بھی اس مسجد اور مقام رأس الحسینؑ پر توجہ دیتے رہے ہیں؛[30]مثلا تیرہویں صدی ہجری کے اواخر میں اس وقت کے مصری فرمانروا خِدِیوی اسماعیل کے حکم سے مسجد کی تعمیر ہوئی۔[31] 2021ء کو اسماعیلی بہروں کے توسط سے مسجد الحسینؑ کی مرمت ہوئی[32] اور سنہ 2022ء کو مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کے ہاتھوں افتتاح ہوئی۔[33] مرمت کے دوران مقبرہ پر نئی ضریح نصب کی گئی ہے۔[34] مصر کی وزارت اوقاف نے سنہ 2022ء میں وسعت اور فعالیت کے حوالے سے مسجد الحسینؑ کو بہترین مسجد کے عنوان سے انتخاب کیا۔[35]

مسجد الحسین محلہ امام حسین (حَیُّ الحسین) میں واقع ہے[36]جو قاہرہ کے تاریخی اور مہذب محلوں میں سے ایک ہے۔[37] اسی طرح مصر کی سب سے اہم مذہبی اور علمی مرکز اَلاَزہر یونیورسٹی [38] اور قاہرہ کی مشہور شاہراہ خان‌ الخَلیلی[39] بھی اسی مسجد کے ساتھ واقع ہیں۔ اسی طرح اسلامی کتابوں کے خرید و فروخت کا سب سے مشہور مرکز درب الاَتْراک بھی اس مسجد کے ساتھ واقع ہے۔[40] بی‌قاب بی‌قاب

قدیم اسلامی آثار کی حفاظت

مسجد الحسین میں قرآن کریم کا ایک قدیمی نسخہ موجود ہے جس کی کتابت امام علیؑ (شہادت:40ھ) سے منسوب ہے؛[41]البتہ بعض اس کی کتابت کو پہلی صدی ہجری کے دوسرے نصف حصے کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[42] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ سے منسوب بعض اشیاء بھی اس مسجد میں موجود ہیں جن میں: تلوار، سرمہ‌ دان، موئے مبارک، قمیص اور عصا کا ایک ایک ٹکڑا۔[43]

مسجد الحسین میں تلاوت قرآن کی محفلیں

مسجد الحسینؑ میں مصر کے بعض مشہور قاریوں جیسے منشاوی اور عبدالباسط وغیره کی تلاوت قرآن کی محفلیں بھی برگزار ہوتی تھی جن میں تلاوت کی کرسی حاصل کرنے کے لئے قراء ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے۔[44] اسی طرح مصر کے بعض برجستہ قاری اپنی اہم قرآنی محفلوں کو بھی یہاں منعقد کرتے ہیں۔[45]

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. عبدالرحمن، «بتوزيع الحلوى.. توافد المواطنين على مسجد الإمام الحسين للاحتفال بالمولد النبوي الشريف»، قاہرۃ لایف24۔
  2. امین، لواعج الاشجان فی مقتل الحسينؑ، دار الأمير للثقافۃ و العلوم، ص191۔
  3. ابن‌جبیر، رحلۃ ابن‌جبیر، دار الہلال، ص19۔
  4. استانبولی، تحقیق حکم القراءۃ على الأموات، الجامعۃ الاسلامیہ، ص29، پاورقی1۔
  5. حجازی و عاطف، «الحسين حبيب المصريين۔ "الوطن" تحتفی بسيد الشہداء فی احتفالات ذكرى استقرار "الرأس الشريف" بالقاہرۃ» سایت روزنامہ الوطن؛ الدیک و سامی، «مولد الحسين ليلۃ فى حب آل البيت الحسين»، الشروق۔
  6. «عاشوراء در مصر»، پایگاہ تخصصی تحلیلی جامعہ و فرہنگ ملل۔
  7. «الدور السياسي لمقام رأس الإمام الحسين في القاہرۃ في ندوۃ لندنيۃ»، سایت الاجتہاد۔
  8. «الدور السياسي لمقام رأس الإمام الحسين في القاہرۃ في ندوۃ لندنيۃ»، سایت الاجتہاد۔
  9. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1408ھ، ج8، ص222 ۔
  10. ابن‌نمای حلی، مثیر الاحزان، 1406ھ، ص107۔
  11. حزین، «مسجد الحسين ومنزلتہ في نفوس المصريين السنۃ»، شبکہ ہجر، 19 دسامبر 1999ء، بہ نقل از: کورانی عاملی، الانتصار، 1421ھ، ج9، ص26۔
  12. ملاحظہ کریں: «حي الحسين۔۔ ہنا مر التاريخ وترك ذكرى»۔
  13. نمونہ کے لئے ملاظہ کریں: «ما لا تعرفہ عن مقام رأس الحسين في القاہرۃ»، شبکہ الکوثر۔
  14. نمونہ ملاحظہ کریں: انصاری، «المشہد الحسینی بالقاہرۃ»، سایت جریدۃ ابو الہول۔
  15. ملاحظہ کریں: ابن‌العمرانی، الانباء فی تاريخ الخلفاء، 1421ھ، ص54؛ ہروی، الاشارات الى معرفۃ الزيارات، 1423ھ، ص36؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج5، ص142؛ مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج1، ص205۔
  16. ملاحظہ کریں: ہروی، الاشارات الى معرفۃ الزيارات، 1423ھ، ص36؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج5، ص142؛ امین، لواعج الاشجان فی مقتل الحسينؑ، دار الأمير للثقافۃ و العلوم، ص191۔
  17. نمونہ کے لئے ملاظہ کریں: مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج1، ص205۔
  18. ملاحظہ کریں: مناوی، فیض القدیر، 1356ھ، ج1، ص205۔
  19. مقریزی، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار، 1418ھ، ج2، ص323۔
  20. شناوی، «مصر كنانۃ أہل البيت۔۔۔»، سایت مرکز کربلاء للداراسات و البحوث؛ مصراوی، «في ذكرى احتفال المصريين بقدوم الراس الشريف للامام الحسين ؑ الي مصر في اخر ثلاثاء من ربيع الاخر في كل عام – لماذا يشكك السلفيون في وجود الراس الشريف بمصر ؟!!»، سایت تفسیر النبأ العظیء۔
  21. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1408ھ، ج8، ص222 ۔
  22. الخالدی، «رحلۃ فی الديار المصريۃ فی القرن الثامن عشر»، ص24۔
  23. «اظہارات مفتی سابق مصر در خصوص مقام رأس الحسینؑ در قاہرہ»، شیعہ‌نیوز۔
  24. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج 45، ص145؛ محمدی ری‌شہری و دیگران، الصحیح من مقتل سید الشہداء و اصحابہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص391۔
  25. ملاحظہ کریں: ابن‌تیمیہ، رأس الحسین، تحقیق جمیلی، ص181۔
  26. ملاحظہ کریں: قرطبی، التذكرۃ بأحوال الموتى و امور الآخرۃ، 1425ھ، ص1122۔
  27. موسوی، «مدفن رأس الحسین»، ص558۔
  28. مقریزی، اتعاظ الحنفا بأخبار الائمۃ الفاطمیین الخلفا، 1416ھ، ج3، ص251۔
  29. مقریزی، المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار، 1418ھ، ج2، ص323۔
  30. حزین، «مسجد الحسين ومنزلتہ في نفوس المصريين السنۃ»، شبکہ ہجر، 19 دسامبر 1999ء، بہ نقل از: کورانی عاملی، الانتصار، 1421ھ، ج9، ص26۔
  31. عبداللہ، «تجديد مسجد الحسين يعيد جدل أزمات ترميم الآثار بمصر»
  32. «السيسي يفتتح اليوم مسجد الحسين بعد تجديدہ (صور)»، وبگاہ RT Arabic؛ «سیسی، بہرہ‌ہا و توسعہ مسجد رأس الحسین»، دین آنلاین۔
  33. «رئیس جمہور مصر مسجد امام حسینؑ را افتتاح کرد و در آن نماز خواند»، شفقنا۔
  34. «سیسی، بہرہ‌ہا و توسعہ مسجد رأس الحسین»، دین آنلاین۔
  35. «مسجد «راس الحسینؑ» قاہرہ، مسجد نمونہ سال 2022 شد»، وبگاہ شبستان۔
  36. «جامع الحسين»، سایت الہیئۃ العامۃ للاستعلامات بوابتک الی مصر۔
  37. «حي الحسين۔۔ ہنا مر التاريخ وترك ذكرى»، الجزیرہ۔
  38. مالک بن نبی، مذكرات شاہد للقرن، 1404ھ، ص13؛ حزین، «مسجد الحسين ومنزلتہ في نفوس المصريين السنۃ»، شبکہ ہجر، 19 دسامبر 1999م، بہ نقل از: کورانی عاملی، الانتصار، 1421ھ، ج9، ص26۔
  39. «كيف عادت الأجواء الروحانيۃ إلى مسجد الحسين بالقاہرۃ بعد حظر دام عامين؟»، الجزیرہ۔
  40. «حي الحسين۔۔ ہنا مر التاريخ وترك ذكرى»، الجزیرہ۔
  41. فحام، «المصاحف المنسوبۃ لأمير المؤمنين (عليہ السلام)»، سایت ینابیع۔
  42. سقار، «مخطوطات القرآن المكتوبۃ في القرن الہجري الأول تشہد بموثوقيۃ نص القرآن العظيم»، سایت اعجاز القرآن و السنۃ۔
  43. جمال، «آثار النبى ص فى القاہرۃ المحروسۃ»، سایت الأہراء۔
  44. «کشف سند رقابت قاریان شہیر مصری برای تلاوت در مسجد «الحسین»، خبرگزاری ایکنا۔
  45. ملاحظہ کریں: البحیری، «انطلاق مقرأۃ كبار القراء من مسجد الإمام الحسين۔۔ صور»، مصری الیوء۔

مآخذ