لا یوم کیومک یا اباعبداللہ

ویکی شیعہ سے
لا یوم کیومک یا اباعبداللہ
حدیث لَا یَوْمَ‏ کَیَوْمِکَ یَا اَبا عَبْدِاللہ
کتیبہ حدیث لا یوم کیومک یا اباعبداللہ
کتیبہ حدیث لا یوم کیومک یا اباعبداللہ
حدیث کے کوائف
موضوععاشورا، امام حسینؑ
صادر ازامام حسنؑ
اصلی راویامام صادقؑ، امام باقرؑ، امام سجادؑ، مفضل بن عمر
شیعہ مآخذالامالی
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


لَا یَوْمَ‏ کَیَوْمِکَ یَا اَبا عَبْدِاللہِ (یا اباعبداللہ تیرے دن کی طرح کوئی دن نہیں)، یہ جملہ امام حسن مجتبیؑ کی ایک حدیث کا فقرہ ہے جس میں واقعہ کربلا کی بعض خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ اس حدیث میں واقعہ کربلا کی عظمت اور مصیبت کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔ اس حدیث کو شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں مُفَضّل بن عُمر سے نقل کی ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے۔ اکثر خطبا مجالس میں واقعہ کربلا کے مصائب کی طرف جانے کے لئے اس جملے سے آغاز کرتے ہیں۔

حدیث کا متن

انَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ ع دَخَلَ یَوْماً إِلَى الْحَسَنِ(ع) فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْهِ بَکَى، فَقَالَ لَهُ مَا یُبْکِیکَ یَا أَبَاعَبْدِ اللهِ؟ قَالَ: أَبْکِی لِمَا یُصْنَعُ بِکَ. فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ(ع): إِنَّ الَّذِی یُؤْتَى إِلَیَّ سَمٌّ یُدَسُّ إِلَیَّ فَأُقْتَلُ بِهِ وَ لَکِنْ لَا یَوْمَ کَیَوْمِکَ یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ یَزْدَلِفُ إِلَیْکَ ثَلَاثُونَ أَلْفَ رَجُلٍ یَدَّعُونَ أَنَّهُمْ مِنْ أُمَّةِ جَدِّنَا مُحَمَّدٍ(ص) وَ یَنْتَحِلُونَ دِینَ الْإِسْلَامِ فَیَجْتَمِعُونَ عَلَى قَتْلِکَ وَ سَفْکِ دَمِکَ وَ انْتِهَاکِ حُرْمَتِکَ وَ سَبْیِ ذَرَارِیکَ وَ نِسَائِکَ وَ انْتِهَابِ ثِقْلِکَ فَعِنْدَهَا تَحِلُّ بِبَنِی أُمَیَّةَ اللَّعْنَةُ وَ تُمْطِرُ السَّمَاءُ رَمَاداً وَ دَماً وَ یَبْکِی عَلَیْکَ کُلُّ شَیْ‏ءٍ حَتَّى الْوُحُوشِ فِی الْفَلَوَاتِ وَ الْحِیتَانِ فِی الْبِحَارِ.[1] ترجمہ: امام حسینؑ ایک دن امام حسنؑ کے پاس گئے اور امام کو دیکھتے ہی گریہ کرنے لگے۔ امام حسنؑ نے فرمایا: اباعبداللہ! کس چیز نے آپ کو رلایا؟ فرمایا: اس ظلم پر رو رہا ہوں جو آپ پر روا رکھا جائے گا۔ امام حسن نے فرمایا: مجھے سازش کے تحت زہر دیکر قتل کیا جاؤں گا، لیکن تیرے دن کی طرح کوئی دن نہیں ہوگا اے اباعبداللہ! 30 ہزار لوگ آپ کو گھیرے میں ڈالیں گے جو خود کو ہمارے جد امجد کی امت سمجھیں گے اور خود کو اسلام سے منسوب کریں گے۔ وہ آپ کو قتل کرنے، خون بہانے، حرمت پامال کرنے، آپ کے بچوں اور خواتین کو اسیر کرنے اور آپ کے اموال کو تاراج کرنے کے لئے جمع ہوئے ہونگے! اللہ بنی امیہ پر لعنت کرے۔ آسمان سے خاکستر اور خون برسے گا اور آپ کی مظلومیت پر ہر چیز یہاں تک کہ صحرا کے وحشی جانوار اور سمندر کی مچھلیاں بھی گریہ کریں گی۔

حدیث کی اہمیت

یہ حدیث ان روایات میں سے ایک ہے جس میں واقعہ کربلا کی پیشنگوئی ہوئی ہے۔ امام حسنؑ نے اصل واقعے کی پیشنگوئی کے علاوہ مصیبت کی ہولناکی، شہادت کی کیفیت، اس سے مربوط بعض جزئیات، قتل کے عناصر اور ان کے اعتقادات کی طرف اشارہ کیا ہے۔[حوالہ درکار]

اس جیسی حدیث کے وجود سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسینؑ نے علم اور آگاہی کے ساتھ شہادت کے راستے کو انتخاب کیا ہے اور اس میں کسی کو شک کی گنجائش نہیں۔[2]
بعض کا کہنا ہے کہ یہ جملہ کسی بھی مصیبت زدہ شخص کو تسلیت دینے کے لیے استفادہ ہوتا ہے اور شیعہ ائمہؑ نے یہی تاکید کی ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آن پڑے تو عاشورا اور اہل بیتؑ کے مصائب یاد کریں تاکہ تمہیں مصیبت کے داغ کو برداشت کرنے میں آسانی ہوسکے۔سانچہ:مدرک خطبا بھی جب بھی کسی معصوم کے مصائب پڑھتے ہیں تو آخر میں مندرجہ بالا جملہ پڑھ کر واقعہ کربلا کے مصائب بیان کرتے ہیں چونکہ سب سے عظیم مصیبت یہی ہے۔[3]

حدیث کی سند اور مآخذ

«لا یوم کیومک یا اباعبداللہ» والی حدیث کو شیخ صدوق (متوفی 381ھ) نے اپنی کتاب امالی میں احمد بن ہارون فامی سے، انہوں نے مُفضَّل بن عُمر سے انہوں نے امام صادقؑ سے، انہوں نے امام باقرؑ سے، انہوں نے امام سجادؑ سے نقل کیا ہے۔[4] یہ حدیث بعض دوسری کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔ ابن شہر آشوب (متوفی 588ھ) نے مناقب میں[5]، سید بن طاوس (متوفی 664ھ) نے اللہوف میں[6]، فیض کاشانی (متوفی 1091ھ) نے نوادر الأخبار میں[7] اور شیخ حر عاملی (متوفی 1104ھ) نے اپنی کتاب اثبات الہداۃ میں نقل کیا ہے۔[8]

حدیث کے معنی

لایوم کیومک یا اباعبداللہ والی حدیث کے معنی میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کربلا میں اپنے تمام اسماء جلال و جمال کے ساتھ جلوہ نما ہوئے۔ اسی سبب امام حسینؑ کی لشکر میں صرف وہی لوگ باقی رہے جنہوں نے اسماء الہی کے علاوہ کوئی اور چیز منعکس نہیں کی۔ اور امام حسینؑ اسماء الہی کا مظہر کامل تھے اور آپ کے باوفا اصحاب انسان کامل کی صفات میں سے کسی ایک صفت کے مظہر تھے۔ امام اللہ کے مظہر تھے اور اصحاب امام کے مظہر تھے؛ اسی لئے کسی بھی دن کو امام حسینؑ کے دن کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی سبب امامؑ خود فرماتے ہیں کہ «میری طرح کے بہتر اصحاب اور نیک اہل بیت کسی اور کے نہیں دیکھے، اللہ مجھ سے آپ کو جزائے خیر دے۔»[9]

بعض کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ کا دن واقعہ کربلا کی ہولناکیوں کی وجہ سے دوسرے ایام سے بےنظیر تھا؛ اگرچہ باقی اہل بیتؑ کی شہادت اور مصیبت بھی عظیم اور سخت ہے لیکن جو کچھ کربلا میں رونما ہوا وہ کسی بھی حادثے سے قابل قیاس نہیں بہت سخت مصیبت تھی عاشورا کے سانحے کی طرح کوئی اور سانحہ اور اباعبداللہ کی مظلومیت کی طرح کوئی اور مظلوم واقع نہیں ہوا ہے۔[10]
یہ حدیث، کُلُّ یومٍ عاشورا و کُلُّ أرضٍ کَربَلا والے جملے سے تنافی بھی نہیں ہے؛[حوالہ درکار] کیونکہ اس جملے کے معنی یہ ہیں کہ ہر دن امام حسینؑ کے نام پر کسی ظالم اور باطل سے مقابلہ رہتا ہے اور حق اور عدالت کا پرچار ہوتا ہے۔[11]

لایوم کیومِ الحسین

امالی صدوق میں امام سجاد سے منقول ایک روایت میں امام سجادؑ، حضرت ابوالفضل العباس کے بیٹے عبیداللہ سے کہتے ہیں: « رسول اللہؐ پر احُد کے دن سے سخت کوئی اور دن نہیں گزرا ہے جس میں حضرت حمزہ شہید ہوئے۔ اس کے بعد جنگ موتہ کا دن تھا جس میں جعفر طیار شہید ہوئے۔ لیکن حسین کے دن کی طرح کوئی دن نہیں کیونکہ 30 ہزار کے لشکر نے حملہ کیا۔[12] اسی طرح واقعہ کربلا کے بعد عبداللہ بن عمر نے یزید کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ اسلام میں ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوا ہے اور حسین کے دن کے طرح کوئی اور دن نہیں۔[13]

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش، ص115.
  2. محمدی ری شہری، پژوہشى دربارہ احاديث پيشگويی شہادت امام حسين عليہ السلام، 1388ش، ج3 ، ص318.
  3. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1374ش،‌ ص391.
  4. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش، ص115.
  5. ابن شہرآشوب، المناقب، علامہ، ج4، ص86
  6. ابن طاوس، اللہوف، جہان، ج1، ص25.
  7. فیض کاشانی، نوادر الأخبار، 1372ش، ج1، ص164
  8. حر عاملی، اثبات الہداۃ، ج4، ص20.
  9. قمی، نفس المہموم، المکتبۃ الحیدریۃ، ج2، ص205.
  10. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1374ش،‌ ص391.
  11. مطہری، حق و باطل، مجموعہ آثار، ج3، ص434 و 435.
  12. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش، ص426.
  13. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج45، ص328.


مآخذ

  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، قم، علامہ، بی‌تا.
  • ابن طاوس، علی بن موسی، اللہوف، تہران، جہان، بی‌تا.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، چ1، 1425ھ۔
  • خمینی (امام)، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام:‏‏ مجموعہ آثار امام خمینی(س)، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، چ5، 1389ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز النشر الثقافۃ الاسلامیۃ فی العالم، 1372ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، علی بن بابویہ، الامالی، قم، انتشارات اسلامیہ، 1362ہجری شمسی۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1410ھ۔
  • محمدی ری شہری، محمد، پژوہشى دربارہ احاديث پيشگويی شہادت امام حسين عليہ السلام، در دانشنامہ امام حسینؑ بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، قم، دارالحديث، چ1، 1388ہجری شمسی۔
  • علیاری تبریزی، علی، بہجہ الآمال، تہران، بنیاد فرہنگ اسلامی مرحوم کوشان پور، 1412ھ۔
  • فیض کاشانی، ملا محسن، نوادر الأخبار فیما یتعلق باصول الدین، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی وزارت فرہنگ و آموزش عالی، 1372ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، قم، المکتبۃ الحیدریۃ.
  • قمی، شیخ عباس، تحفۃ الاحباب، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ‭1370‬ہجری شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، تہران، نشر جہان.
  • مفضل بن عمر، توحید المفضّل، تحقیق: کاظم المظفر، قم، مکتبۃ الداوری.
  • مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم: کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، بیروت،‌ دار احیاء الثراث العربی، 1403ھ۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، معروف، 1374ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، نبرد حق و باطل (در مجموعہ آثار ج 3)، تہران، انتشارات صدرا.