زید بن ارقم

ویکی شیعہ سے
زید بن ارقم
کوائف
مکمل نامزید بن ارقم انصاری خزرجی
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخزرج
وفاتسنہ 65 ہجری یا سنہ 66 یا سنہ 68 ہجری
دینی معلومات
جنگوں میں شرکت19 جنگوں میں جن میں سے 17 غزوات تھے۔
وجہ شہرتاصحاب امام علی (ع)
نمایاں کارنامےراوی حدیث غدیر، جنگ صفین میں شرکت، سر امام حسین (ع) کی توہین پر ابن زیاد پر اعتراض کیا۔


زِید بن اَرقَم انصاری خزرجی، صحابی انصار، حضرت علیؑ کے اصحاب اور حدیث غدیر کے راویوں میں سے تھے۔ واقعہ عاشورا کے بعد جب ابن زیاد نے امام حسینؑ کے سر کی بے حرمتی کرنا شروع کیا تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔

نسب اور کنیت

آپ کا نسب زید بن ارقم بن زید بن قیس بن نعمان بن مالک انصاری خزرجی ہے۔[1]

منابع میں آپ کی مختلف کنیتیں ذکر ہوئی ہیں جن میں: ابو سعد، ابو انیسہ، ابو عمرو، ابو عامر، ابو سعیدہ، ابن عدی، ابو عمارہ، ابو حمزہ، ابو انیس مشہور ہیں۔[2]

پیغمبر اکرم کے دور میں

آپ نے 19 جنگوں میں حصہ لیا جن میں سے 17 غزوات میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شرکت کی۔ پہلا غزوہ جس میں آپ نے حصہ لیا وہ غزوہ مُرَیسیع تھا۔[3] کمسنی کی وجہ سے آپ نے جنگ احد اور جنگ بدر میں حصہ نہیں لیا۔[4]

عبداللہ بن ابی کی منافقانہ باتوں کو پیغمبر اکرمؐ تک پہنچانے والی آپ ہی کی ذات تھی۔[یادداشت 1]

جب "عبد اللّہ بن أبی" نے اپنی ناروا گفتار کی تردید کی اور زید بن ارقم پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا اور انصار میں سے اس کے قبیلے کے لوگوں نے بھی جب اس کی تائید کی اور زید بن ارقم کو نوجوان ہونے کی بنا پر غلطی کرنے اور اس کے باتوں کو نقل کرنے میں اشتباہ کرنے کی تاکید کی تو اس وقت سورہ منافقون نازل ہوئی "عبد اللّہ بن أبی" کی ناروا باتوں کو اس سورہ میں یوں بیان کیا ہے: یقُولُونَ لَئِن رَّ‌جَعْنَا إِلَی الْمَدِینَةِ لَیخْرِ‌جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَ‌سُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یعْلَمُونَ یقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنا إِلَی الْمَدِینَةِ، لَیخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (ترجمہ: یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے حالانکہ ساری عزت اللہ، رسول اور صاحبان ایمان کے لئے ہے اور یہ منافقین یہ جانتے بھی نہیں ہیں۔)[؟–8]

و نیز:

هُمُ الَّذِینَ یقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَیٰ مَنْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّهِ حَتَّیٰ ینفَضُّوا۔۔۔ (ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ منتشر ہوجائیں حالانکہ آسمان و زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے لئے ہیں اور یہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں)[؟–7]

خداوند متعال نے اس سورت کی ابتداء ہی میں منافقین کی چھوٹ اور ان کے قسموں کے جھوٹی ہونے کی گواہی دی اور اپنے رسول کو اس بات سے آگاہ فرماتے ہوئے یوں خطاب ہوا: ان منافقین کے ظاہر سے آپ دھوکے میں نہ آئیں آپ کے دشمن یہی منافقین ہیں ان سے ہوشیار رہیں اور ان کی منافقانہ باتوں پر یقین نہ کریں۔

خلفاء کے دور میں

فضل بن شاذان سے منقول ہے کہ آپ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد امام علیؑ کا ساتھ دینے والے پہلے شخص تھے۔[5]

آپ نے واقعہ سقیفہ میں امام علیؑ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین مقرر ہوئے تو کوئی اختلاف پیش نہیں آئے گا۔[6]

حضرت علی کے دور میں

آپ جنگ صفین میں امام علیؑ کے ساتھیوں میں سے تھے۔[7]

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے جب صحابہ سے حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے سننے کے بارے میں گواہی دینے کا کہا تو زید بن ارقم نے گواہی نہیں دی جس کی بنا پر حضرت علیؑ نے ان کے حق میں بدعا کی تو وہ نابینا ہو گئے تھے۔ سید محسن امین لکھتے هیں کہ چونکہ ایسی ایک روایت براء بن عازب کے متعلق بھی منقول ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زید بن ارقم کی طرف نسبت دینے والی یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سارے راویوں نے حدیث غدیر کو خود زید سے روایت کی ہے۔ اس کے علاوہ زید ان افراد میں سے ہیں جو ابتداء ہی سے حضرت علیؑ کو دوسروں سے افضل اور برتر سمجھتے تھے اور وہ ہمیشہ آپ کے ساتھیوں میں سے رہے ہیں۔[8]

نقل حدیث غدیر

تفصیلی مضمون: حدیث غدیر

آپ حدیث غدیر کو پیغمبر اکرمؐ سے روایت کرنے والے راویوں میں سے ہیں اور اہل سنت کے بہت سے معتبر راوی من جملہ: احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں، نَسائی نے السنن الکبری اور خصائص امیرالمؤمنین میں، حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کو زید سے مختلف اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔[9]

واقعہ عاشورا کے بعد آپ کا رد عمل

ابن زیاد پر اعتراض

علامہ مجلسی لکھتے ہیں: سعید بن معاذ اور عمرو بن سہل سے منقول ہے کہ ابن زیاد کے مجلس میں بیٹھے تھے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ عبیداللہ ابن زیاد ہاتھ میں چھڑی لے کر امام حسینؑ کے دہان مبارک کے ساتھ بے حرمتی کرنے لگا؛ اس موقع پر زید بن ارقم (صحابی رسول خدا) بھی اس مجلس میں حاضر تھے، وہ یہ منظر برداشت نہ کر سکا اور اٹھ کر کہا: اے ابن زیاد اپنی چھڑی کو ہٹاؤ، کیوں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رسول خداؐ اس مبارک دہان کا بوسہ لیتے تھے، یہ کہ کر وہ بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔

اس موقع پر ابن زیاد نے کہا: اے دشمن خدا! خدا تمہای آنکھوں کو کبھی خشک نہ کرے! اگر تم ایک عمر رسیدہ عقل سے محروم بوڑھا شخص نہ ہوتا تو میں یقینا تمہاری گردن اڑا دیتا![10]

زید نے کہا: پس مجھے اجازت دے دیجئے ایک اور واقعہ نقل کروں جو اس چیز سے بھی زیادہ اہم ہے جو میں نے اب تک بیان کیا ہے۔ وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ حضور نے امام حسن(علیہ‌السلام) کو دائیں زانوں پر اور امام حسین(علیہ‌السلام) کو بائیں زانوں پر بٹھایا ہوا تھا؛ اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک ان کے سروں پر پھیرے ہوئے فرمایا: "أَللّہُمَّ إِنّی أسْتَوْدِعُکَ إیاہُما وَ صالِحَ الْمُؤمِنینَ"؛ (ترجمہ: خدایا من ان دونوں اور صالح مؤمنین کو آپ کی پناہ میں دیتا ہوں۔)اب بتاؤ رسول خدا کی امانت کے ساتھ تم نے کیا کیا ہے؟[11]

طبری کے نقل کے مطابق اس گفتگو کے بعد زید بن ارقم ابن زیاد کی مجلس باہر چلے گئے۔[12] جب وہ باہر جا رہے تھے تو بعض لوگوں کے بقول ان کی زبان پر کچھ اور الفاظ جاری تھے کہ اگر ابن زیاد ان الفاظ کو سنتے تو اسے ضرور قتل کئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اس خبر کا راوی کہتا ہے کہ جب میں نے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے تو لوگوں نے کہا: زید جس وقت ہمارے پاس سے گذر رہے تھے تو یہ کہہ رہے تھے: مَلِکَ عَبْدٌ حُرّاً; ایک غلام اس وقت ایک آزاد شخص کا مالک بنا بیٹھا ہے؛ اس کے بعد مزید کہا: "یا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! اَلْعَبیدُ بَعْدَ الْیوْمِ، قَتَلْتُمُ ابْنَ فاطِمَةَ وَ أَمَّرْتُمُ ابْنَ مَرْجانَةَ، فَہُوَ یقْتُلُ خِیارَکُمْ وَ یسْتَعْبِدُ شِرارَکُمْ، فَرَضیتُمْ بِالذُّلِّ، فَبُعْداً لِمَنْ رَضِی بِالذُّلِّ»؛ (ترجمہ: اے عرب کے لوگو! آج کے بعد تم سب غلام ہو! فرزند فاطمہ کو تم لوگوں نے قتل کر دئے ہو اور ابن مرجانہ کے بیٹے کو اپنا فرمانروا بنا لئے ہو۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جو تمہارے نیک اشخاص کو قتل کر دے گا اور تمہیں اپنا غلام بنا لے گا۔ جو شخص ذلت و خواری پر راضی ہو گا وہ خدا کی رحمت سے دور ہو گا۔)[13]

نوک نیزہ قرآن‌ کی تلاوت سنا

آپ سے ایک اور روایت نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے: ہم کوفہ میں ایک گھر میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں سر امام حسینؑ کو نیزے پر بلند کر کے ہمارے قریب سے گزارا گیا۔ جب امامؑ کا سر ہمارے قریب پہنچا تو ہم نی سنا کہ سر سے یہ آواز آ رہی تھی: أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَہْفِ وَالرَّ‌قِیمِ كَانُوا مِنْ آیاتِنَا عَجَبًا (ترجمہ: کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز نشانی تھے؟)[؟–9]خدا کی قسم میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے آواز دی: فرزند رسول! خدا کی قسم! آپ کا سر عجیب سے عجیب تر ہے۔[14]

وفات

آپ کی تاریخ وفات مورد اختلاف ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں، حاکم نیشابوری نے مستدرک میں نیز استیعاب اور اُسْدُ الغابۃ میں کہا ہے کہ آپ کوفہ میں سنہ 68 ہجری کو وفات پا گئے۔ بعض مورخین آپ کی وفات کو کوفے میں مختار کی حکومت کے دوران سنہ 66 ہجری کو قرار دیتے ہیں۔ بعض نے سنہ 65 ہجری ذکر کی ہے۔[15]

نوٹ

  1. واقعہ کچھ یوں تھا: جہجاہ بن مسعود غفاری، جو عمر بن خطاب کا مزدور تھا اور ان کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھا، کا سنان بن وَبَر جُہَنی حلیف بنی عوف بن خزرج کے ساتھ پانی کے معاملے میں جگڑا ہوا۔ جہنی نے انصار کو جبکہ جہجاہ نے مہاجرین مدد کیلئے پکارا۔ اس موقع پر قریش اور أوس و خزرج کے قبائل جہجاہ کی مدد کیلئے دوڑے اور تلواریں نیام سے باہر نکالی گئیں لیکن بعض مہاجرین اور انصار کے وساطت سے سنان نے جہجاہ کو معاف کر دیا یوں معاملہ ختم ہو گیا۔ عبداللہ بن ابی اس واقعے سے بہت ناراض ہوئے اور اپنے قبیلے کے چند لوگوں من جملہ زید بن ارقم جو کہ اس وقت نوجوانی کے عالم میں تھے، کے سامنے کہا: آیا نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ یہ لوگ ہماری سرزمین میں ہمارے اوپر برتری کے خواہاں ہے اور ہمارے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے ہیں؟ یہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے ان کو اپنے اوپر مسلط کیا ہے، خدا کی قسم ہماری اور ان مہاجرین کی مثال اس مشہور کہاوت کی سی ہے جو کہتی ہے: سمّن كلبك یأكلك (یعنی اپنے کتے کو خوب خوراک کھلاؤ تاکہ وہ تمہیں کھا جائے)۔ خدا کی قسم: اگر میں مدینہ واپس پلٹ جاؤں تو ہم جو مدینے کے بزرگوں اور باعزت لوگوں میں سے ہیں، ان بے چارے مہاحرین کو وہاں سے نکال باہر کر دیں گے۔ اس کے بعد اس نے اپنے قبیلے والوں کی طرف رخ کر کے کہا: تم لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودی ہیں، ان کو اپنے گھروں اور محلوں میں سکونت دی ہیں اور اپنی جمع پونجی ان میں تقسیم کر دی ہیں۔ خدا کی قسم اگر اپنی جمع پونجی میں ان کو شریک نہ کرتے تو یہ لوگ کسی اور جگہ چلے گئے ہوتے۔ زید بن ارقم نے عبداللہ بن ابی کی ساری باتیں جنگ کے خاتمے پر پیغمبر اکرمؐ کی گوش گزار کر دیں۔ حضرت عمر جو اس وقت وہاں تھے نے کہا: عباد بن بشر سے کہہ دیجئے کہ وہ عبداللہ بن ابی کو مار ڈالے۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا: میں کیسے ایسا حکم دے سکتا ہوں ایسا کروں تو لوگ کہیں گے کیا محمد اپنے اصحاب کو قتل کر ڈالیں گے؟ زید بن أرقم کی اس رپورٹ کی بعد پیغمبر اکرم نے ایک ایسے وقت میں حرکت کرنے کا حکم صادر فرمایا جس وقت عموما حرکت نہیں کرتے تھے۔ جب آپ اور آپ کے أصحاب چلنے لگے تو اسید بن حضیر آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کے بعد کہا: اے پیغمبر خدا! کیوں اس وقت حرکت کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ "عبد اللّہ بن أبی" نے کیا کہا؟ اس نے کہا: مگر اس نے کیا کہا ہے؟ رسول خدا نے فرمایا: اس نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ جیسے ہی مدینے پہنچیں گے تو مدینے کے باعزت اور بزرگان، ان بے چارے مہاجرین کو وہاں سے نکال باہر کر دینگے۔ "أسید بن حضیر" نے کہا: خدا کی قسم: اے رسول خدا اگر آپ چاہیں تو "عبد اللّہ بن أبی" کو مدینے سے نکال باہر کر سکتے ہیں، خدا کی قسم، اصل میں ذلیل وہ خود ہی ہے آپ تو باعزت اور باشرف ہو۔ اس کے بعد اس نے کہا: اے رسول خدا! اسے معاف کر دیں، خدا کی قسم: حس وقت خدا نے آپ کو ہماری طرف بھیجا اس وقت اس کا قبیلہ اس کے لئے تاج و تخت آمادہ کر رہے تھے، اسی بنا پر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ آپ نے اس سے تخت و تاج چھین لیا ہے۔ "عبد اللّہ بن أبی" کو جب "زید بن أرقم" کی رپورٹ کا پتہ چلا تو رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قسم کھا کر کہا: میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ اور چونکہ وہ اپنے قبیلے میں ایک باعزت شخص تھا اس لئے اس کے قبیلہ والوں نے اس کی حمایت میں کہا: شاید اس نوجوان (زید بن ارقم) نے غلطی کی ہے اور عبداللہ بن أبی کے الفاظ کو صحیح طور پر آپ تک منتقل نہیں کر سکا ہے۔(آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، صص۳۵۶-۳۶۰۔)

حوالہ جات

  1. الامین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۸۷/ الاصابہ، ج۲، ص۴۸۷
  2. الامین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۸۷-۸۸
  3. ابن عبد البر،الاستیعاب، ج۲، ص۵۳۵
  4. ابن عبد البر،الاستیعاب، ج۲، ص۵۳۵
  5. الطوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ج۱، ص۱۷۷-۱۸۲۔
  6. الامین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۸۸
  7. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۵۳۶۔
  8. الامین، اعیان الشیعۃ، ج۷، ص۸۸۔
  9. رجوع کنید بہ: الامینی، الغدیر، ج۱، صص ۷۷-۹۲۔
  10. شیخ مفید نے بھی اس گفتگو کو ارشاد (صص ۱۱۴-۱۱۵) میں مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
  11. المجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۱۸۔
  12. بحارالانوار (ج ۴۵، ص۱۱۷) میں آیا ہے: وہ اس حالت میں وہاں سے باہر گئے کہ اس کے رونے کی آواز بلند تھی۔
  13. تاریخ طبری، ج۵، ص۴۵۶ و بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۱۶ (با مقداری تفاوت)
  14. المفید، الارشاد، ص۱۱۷۔
  15. الامین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۸۷

مآخذ

  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، تہران: انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۸۔
  • الامین،السید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن الامین، بیروت،‌ دار التعارف للمطبوعات،۱۴۰۶/۱۹۸۶
  • الامینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب، تحقیق: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ق-۱۹۹۵م۔
  • ابن عبد البر،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌ دار الجیل، الاولی، ۱۴۱۲ق/ ۱۹۹۲
  • الطبری، تاریخ الطبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، الثانیہ، ۱۳۸۷ق/۱۹۹۷
  • الطوسی، اختیار معرفۃ الرجال، تصحیح و تعلیق: میر داماد الاسترآبادی، تحقیق: السید مہدی الرجائی، قم: مؤسسۃ آل البیت(ع)، ۱۴۰۴ق۔
  • المجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفا، بی‌تا۔
  • العسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، الاولی، ۱۴۱۵ق/ ۱۹۹۵
  • المفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق: مؤسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لاحیاء التراث، قم: المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق۔