قیس بن مسہر صیداوی

ویکی شیعہ سے
قیس بن مسہر صیداوی
کوائف
نام:قَیس بن مُسْہّر صیداوی اَسدی
نسبطایفہ صیداء، قبیلہ بنی اسد
شہادتواقعہ عاشورا سے چند روز قبل
شہادت کی کیفیتدارالخلافہ کے چھت سے نیچے گرانے کے ذریعے
اصحابامام حسینؑ
مذہبسفیر امام حسینؑ


قیس بن مسہر صیداوی، امام حسینؑ کا قاصد جو آپؑ کے خطوط کو کوفیوں اور مسلم بن عقیل تک پہنچاتے تھے اور اسی جرم میں قادسیہ کے مقام پر عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور واقعہ عاشورا سے چند روز قبل شہید کر دئے گئے۔ ان کا نام زیارت الشہدا میں آیا ہے اور انہیں واقعہ کربلا کا پہلا شہید تصور کیا جاتا ہے۔

خاندانی تعارف

قیس بن مسہر کا مکمل نام قیس بن مسہر بن خلید بن جندب بن منقذ بن جسر بن نکرة بن صیداء ہے۔[1] ان کے والد کا نام مُسہِر ہے لیکن چہ بسا مُسَہَّر پڑھا جاتا ہے۔

قبیلۂ قیس بنی صیداء کے نام سے معروف تھے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا ایک طائفہ شمار ہوتا ہے۔[2] اسی وجہ سے بعض منابع میں انہیں بنی اسد کے شہداء میں شمار کیا گیا ہے۔[3] آپ کے اجداد میں ایک کا نام نکرہ ہونے کی وجہ سے انہیں قیس بن مسہر نکری بھی کہا گیا ہے۔[4]

تاریخی روایات میں انہیں ایک شریف، بہادر اور خاندان اہل بیتؑ کا محب قرار دیا گیا ہے۔ شاعر کمیت اسدی نے انہیں بنی صیداء کے بزرگ کے طور پر معرفی کیا ہے۔[5]

نامہ رسانی

واقعۂ کربلا میں ان کے اصلی کردار کو نامہ رسانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قیس نے اس واقعہ میں جن خطوط کو پہنچانے کا کام کیا وہ درج ذیل ہیں:

  • مکہ میں امام حسینؑ تک کوفیوں کے خطوط پہنچائے۔[6]
  • کوفہ سفر کے دوران حضرت مسلم کے خطوط امام حسین ؑ تک پہنچائے۔
  • حضرت امام حسین ؑ کے خطوط کو حضرت مسلم تک پہنچائے۔
  • کوفہ کے سفر میں حضرت مسلم بن عقیل کا ہمسفر اور مسلم کی طرف سے کوفیوں کی بیعت کی اطلاع کا خط امام تک پہنچایا۔[7]۔
  • حضرت امام حسین ؑ کی ہمسفری اور حاجز کے مقام سے کوفیوں کی طرف خط لے کر جانا۔[8]۔

امام حسین کے نام کوفیوں کے خطوط

10 رمضان کو عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبد اللہ بن قیس کے توسط سے کوفیوں کے کئی خطوط حضرت امام حسین تک پہنچے۔ دو دن کے بعد قیس بن مسہر، عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی اور عمارۃ بن عبد سلولی کوفیوں کے مزید 150 خطوط لے کر امامؑ کی خدمت میں پہنچے۔[9]

اس سے پتہ چلتا ہے قیس کوفہ کا رہنے والا تھا اور امام حسین ؑ تک خطوط پہنچانے کیلئے مکہ آئے تھے۔

حضرت مسلم کے خطوط

قیس تین دن استراحت کرنے کے بعد 15 رمضان کو امام حسین کے حکم پر مسلم بن عقیل کے ہمراہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔[10] مسلم اپنے اہل خانہ سے خدا حافظی کے لئے پہلے مدینہ چلے گئے۔[11] اس سفر میں ان کے ساتھ راستوں سے واقف دو اور اشخاص بھی تھے جو راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے فوت ہو گئے۔[12]

پہلا خط: حضرت مسلم نے خبیت کے مقام سے امام حسینؑ کو خط لکھا۔ قیس نے امام تک پہنچایا اور جواب لے کر مسلم تک پہنچا۔[13]
مقصد کی طرف رواں دواں: قیس نے مسلم بن عقیل کے ساتھ سفر جاری رکھا ان کے ساتھ عمارۃ بن عبد سلولی و عبد الرحمن بن عبد اللّہ بن کدن ارحبی بھی تھے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قیس اس پورے سفر میں مسلم بن عقیل کے ہمراہ تھے یہانتک کہ مختار کے گھر پہنچ گئے۔[14]
افرادی قوت کیلئے تگ و دو: قیس کوفہ سے اپنے قبیلے بنی اسد آئے اور لوگوں کو حضرت مسلم کے آنے کی اطلاع دی۔ پس حبیب بن مظاہر اسی قبیلے سے مسلم سے ملاقات کیلئے آئے۔[15]
دوسرا خط: کوفیوں کی طرف سے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کرنے کے بعد قیس مسلم بن عقیل کا دوسرا خط لے کر امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے۔ اس خط کو امام تک پہنچانے میں عابس بن ابی شبیب شاکری نے قیس کے ساتھ ہمراہی کی۔[16] بعض ماخذ میں شوذب کا نام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

انجام کار

آخری نامہ رسانی

حضرت امام حسینؑ نے وادئ حاجز سے قیس کو کوفہ روانہ کیا اس سفر میں انہوں نے مسلم بن عقیل کو امام کا خط پہنچایا۔[17] بعض نقل کے مطابق یہ خط کربلا سے کوفہ بھیجا گیا تھا۔[18] بہر حال یہ خط حضرت مسلم کی شہادت کے بعد بھیجا گیا۔[19]

گرفتاری

قیس بن مسہر صیداوی جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے انہیں گرفتار کر کے ابن زیاد کی طرف روانہ بھیجا[20] تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی حکم صادر کرے۔ البتہ قیس نے گرفتار ہونے سے پہلے امام کا خط پھاڑ دیا تھا تا کہ یہ خط دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔[21]

ابن زیاد سے گفتگو

دارالامارہ میں ابن زیاد کے پاس جب قیس کوپیش کیا گیا تو ان کے ما بین یہ گفتگو ہوئی:

ابن زیاد: تو کون ہے؟

قیس: علی اور حسین کے شیعوں میں سے ایک ۔

ابن زیاد: خط کیوں پھاڑ دیا؟

قیس: تا کہ تجھے پتہ نہ چلے کہ اس میں کیا لکھا تھا۔

ابن زیاد: کس کی طرف سے تھا اور کسے لکھا گیا تھا؟

قیس: امام حسین کی طرف سے کوفے کی ایک جماعت کے نام تھا ۔ انکے نام نہیں جانتا ہوں۔

ابن زیاد آگ بگولہ ہوا اور اسنے کہا:خدا کی قسم!اس وقت تیری جان نہیں چھٹے گی جب تک تو مجھے ان کے نام نہیں بتاتا یا یہ کہ منبر پر جاؤ اور جھوٹے حسین بن علی اور اسکے باپ پر لعنت کرو ورنہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔

قیس : اس جماعت کے نام نہیں بتاتا لیکن لعنت کر دیتا ہوں۔ [22]

شہادت

ابن زیاد کے حکم پر قیس منبر پر گئے تاکہ ابن زیاد کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق علیؑ اور ان کی اولاد پر لعن کریں۔ منبر پر جانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے خدا کی حمدد و ثنا کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ پر صلوات بھیجی اور علیؑ، حسنؑ اور حسینؑ کی مدح و سرائی کی اور ان پر خدا کی رحمت کا بھیجی۔ اس کے بعد انہوں نے عبید اللہ بن زیاد ان کے والد اور بنی امیہ کے ستمکاروں پر اول سے آخر تک لعنت بھیجی اور آخر میں کہا:

اے لوگو! میں تمہاری طرف حسین ابن علی کا سفیر ہوں فلان جگہے پر وہ مجھ سے جدا ہوئے ہیں پس ان کی طرف چل پڑو۔[23]

شہادت کی نوعیت

قیس کی جانب سے بنی امیہ کے کرتوتوں کا راز فاش کرنے کے بعد ابن زیاد نے انہیں دالعمارہ کی چھت سے نیچے گرانے کا حکم دیا یوں قیس شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔[24] اس کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔[25]

شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پیر باندھ کر دارالعمارہ سے نیچے گرایا گیا جس سے ان کی ہڈیاں چکناچور ہو گئے تھے اور ابھی ان کے بدن میں جان باقی تھی کہ عبد الملک بن عمیر لخمی نامی شخص نے ان کا سر قلم کیا۔ حاضرین نے اس کام پر ان کی مذمت کرتے ہوئے کا کہ ایسا کیوں کیا؟ اس پر اس نے جواب میں کہا: میں چاہتا تھا کہ ان کی موت جلد واقع ہو اور ان کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔[26] البتہ بعض منابع میں یہ داستان عبداللہ بن یقطر کے لئے ذکر کی گئی ہے۔[27]

تاریخ شہادت

قیس کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین عذیب الہیجانات کے مقام پر تھے کہ آپ کو قیس کی شہادت کی خبر دی گئی۔ اس لحاظ سے امامؑ کے کربلا پہنچنے سے پہلے قیس شہید ہوئے ہیں۔[28] لیکن بعض روایات کے مطابق کربلا سے کوفہ خط لے جاتے ہوئے دو محرم اور عاشورا کے درمیان شہادت ہوئی ہے۔

بہرحال یہ بات قطعی ہے کہ قیس مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد عازمِ کوفہ ہوئے لہذا ان کی شہادت روزِ عرفہ کے بعد واقع ہوئی ہے۔

امام حسینؑ کا رد عمل

طرماح بن عدی کے ذریعے جب امام حسین کو قیس کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے نمناک آنکھوں سے اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ۔احزاب٢٣ ان میں کچھ شہادت کو پہنچ گئے ہیں اور کچھ ان میں سے اس کے منتظر ہیں اور وہ کسی صورت میں (اپنے عقیدے کو) تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔ اور فرمایا :بار الہا!ہمارے اور انکے لئے بہشت قرار دے نیز ہمارے اور انکے درمیان رحمت قرار دے اور ثواب مرحمت فرما۔[29]

بعض نے کہا ہے کہ مجمع بن عبد اللہ عائدی نے شہادت قیس کی خبر پہنچائی۔[30]

نامہ رسانی کا اختلاف

بہت سے تاریخی مستندات میں خطوط کی ارسال و ترسیل میں قیس بن مسہر کی جگہ عبد اللہ بن یقطر مذکور ہے۔ لیکن کوفہ بھیجے جانے کا راستہ مختلف ذکر ہوا ہے۔ لیکن باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے نامہ رسانی کے درمیان تفاوت موجود ہے۔[31][32]

امام نے ایک دفعہ عبد اللہ بن یقطر کو ایک راستے سے کوفہ روانہ کیا دوسری مرتبہ ایک دوسرے راستے سے قیس بن مسہر کو روانہ کیا۔ لیکن دونوں قاصد گرفتار ہو گئے اور شہید ہو گئے۔

زیارت ناحیہ

زیارت ناحیہ میں آپ کا نام بھی مذکور ہے :السلام علی قیس بن مسهر الصیداوی

حوالہ جات

  1. أنساب الأشراف، ج۱۱، ص ۱۶۴؛جمہرةأنساب العرب، متن، ص ۱۹۵۔
  2. تاریخ الیعقوبی، ج۱، ص ۲۳۰۔
  3. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۲، ص ۲۴۔
  4. تاج العروس، الزبیدی، ج۷، ص ۵۵۹.
  5. نفس المہموم، شیخ عباس قمی، ص ۵۸۶۔
  6. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۷۳؛ تاریخ الطبری، ج ۶، ص۲۹۴ ط أولی مصر
  7. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۷۳.
  8. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۷۳.
  9. مقتل الحسین(ع)، الخوارزمی، ج۱، ص ۲۸۳؛ الإرشاد، المفید، ج۲، ص ۳۸؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج۶، ص ۱۱۱.
  10. الإرشاد، المفید، ج۲، ص ۳۹؛ وقعۃ الطف، أبو مخنف، ص ۹۷.
  11. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص ۹۶۔
  12. تاریخ الطبری، ج۵، ص ۳۵۴.
  13. تاریخ الطبری، ج۵، ص ۳۵۴؛ در کربلا چہ گذشت، ص ۱۱۲۔
  14. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص ۹۷؛ در کربلا چہ گذشت، ص ۱۰۹۔
  15. موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج۶، ص ۷۱.
  16. تاریخ الطبری، ج ۶ ص۲۱۰؛ مثیر الأحزان، ابن نما الحلی، ص ۳۲۔
  17. وقعہ الطف، أبو مخنف، ص ۱۵۹؛ نہایة الأرب، النویری، ج۲۰، ص ۴۱۲۔
  18. مقتل الحسین(ع)، الخوارزمی، ج۱، ص ۳۳۵؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص ۱۸۰۔
  19. الطبقات الکبری، خامسۃ۱، ص ۴۶۳؛ موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۷۱۔
  20. الأخبارالطوال، ص ۲۴۶؛ نہایة الأرب، النویری، ج۲۰، ص۴۱۳؛ الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۶۳؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص ۱۵۲۔
  21. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۷۳۔
  22. دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲.
  23. دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲۔
  24. الأخبارالطوال، ص۲۴۶؛ أنساب الأشراف، ج۱۱، ص۱۶۴۔
  25. نہایۃ الأرب، النویری، ج۲۰، ص۴۱۳۔
  26. البدایۃوالنہایۃ، ج۸، ص۱۶۸؛ دمع السجوم ترجمہ نفس المہموم، ص۱۵۲۔
  27. أنساب الأشراف، ج۳، ص۱۶۹؛ چاپزکار، ج۳، ص۳۷۹۔
  28. مقتل الحسین(ع)، المقرم، ص۱۹۲؛ وقعۃ الطف، أبو مخنف، ص۱۷۴۔
  29. نفس المہموم، الشیخ عباس القمی، ص۵۸۶؛ موسوعہ التاریخ الإسلامی، الیوسفی الغروی، ج۶، ص۱۲۴.
  30. در کربلا چہ گذشت، ص۲۴۰.
  31. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص۵۵۲.
  32. پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، ص۳۱۹.
  33. أنساب الأشراف، ج۳، ص ۱۶۷؛ چاپزکار، ج۳، ص۳۷۸؛ موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص۵۵۳؛ تجارب الأمم، ج۲، ص۶۰.
  34. موسوعہ کربلاء، لبیب بیضون، ج۱، ص ۵۵۳.

کتابیات

  • ابن حزم (م ۴۵۶)، جمہرة أنساب العرب، تحقیق لجنہ من العلماء، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • ابن نما حلی (۸۴۱ ق)، مثیر الأحزان، مدرسہ الإمام المہدی عجّل الله تعالی فرجہ الشریف، قم۱۴۰۶ ق.
  • ابو مخنف کوفی (۱۵۸ ق)، وقعۃ الطف، جامعہ مدرسین، قم،۱۴۱۷ ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر (م۲۷۹) کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶ق
  • خوارزمی، موفق بن احمد (۵۶۸ ق)، مقتل الحسین علیہ السلام، انوار الہدی، قم، ۱۴۲۳ ق.
  • دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود (م ۲۸۲)الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
  • زرکلی، خیر الدین (م ۱۳۹۶)الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ط الثامنة، ۱۹۸۹.
  • سید ابن طاوس (۶۶۴ ق)، لہوف / ترجمہ، مترجم سید ابوالحسن میر ابوطالبی، دلیل ما، قم.
  • شیخ مفید (۴۱۳ ق)، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ ق.
  • طبری، ابو جعفر محمد بن جریر (م ۳۱۰) تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، ط الثانیۃ، ۱۳۸۷/۱۹۶۷.
  • قمی، شیخ عباس، نفس المہموم فی مصیبۃ سیدنا الحسین المظلوم، المکتبۃ الحیدریۃ، نجف.
  • قمی،‌ شیخ عباس، مترجم کمره‌ای، در کربلا چه گذشت / ترجمہ نفس المہموم، مسجد جمکران، قم، ۱۳۸۱ ش.
  • لبیب بیضون، موسوعۃ کربلاء، مؤسسہ الاعلمی، بیروت، ۱۴۲۷ ق.
  • مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی (۱۱۱۰ ق)، بحار الأنوار (ط- بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ ق، دوم.
  • مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام مقرم / ترجمہ، محمد مہدی عزیزالہی کرمانی،،نوید اسلام، قم.
  • نویری (۷۳۳ ق) نہایة الأرب فی فنون الأدب،‌ دار الکتب و الوثائق القومیہ، قاهره، ۱۴۲۳ ق.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وهب (م ۲۹۲)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا.
  • یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الإسلامی، مجمع اندیشہ اسلامی، قم، ۱۴۱۷ ق.