جنگ خازر

ویکی شیعہ سے
جنگ خازر
تاریخسنہ ۶۷ھ
مقامخازِر یا خازَر (دریائے زاب کی داہنی ندی)
مختصاتخازر اربل اور موصل کے مابین واقع ایک ندی ہے
علل و اسبابیزید کی موت کے بعد عراقیوں نے اموی تسلط سے نجات کیلئے جدوجہد شروع کی کہ جسے کچلنے کیلئے عبید اللہ بن زیاد امویوں کی طرف سے مقرر ہوا۔۔۔
نتیجہعبید اللہ بن زیاد کے لشکر کی شکست
فریق 1بنو امیہ مخالف لشکر
فریق 2ابن زیاد کا لشکر
سپہ سالار 1ابراہیم بن مالک اشتر
سپہ سالار 2عبید اللہ بن زیاد
نقصان 1ابراہیم کے متعدد ساتھیوں کی موت
نقصان 2شامی لشکر کی بڑی تعداد منجملہ حصین بن نمیر، شُرَحیل بن ذی الکلاع اور ابن زیاد کی موت


جنگ خازر قیام مختار کے دوران ہونے والی جنگوں میں سے ایک ہے کہ جو 67 ہجری میں ابراہیم بن مالک اشتر(سپاہ مختار کے سردار) اور عبید اللہ بن زیاد (سپاہ شام کے سردار) کے مابین لڑی گئی۔ یہ جنگ خازِر یا خازَر (دریائے زاب کی داہنی ندی) کے کنارے پر ہوئی اور اس کا اختتام عبید اللہ کے قتل پر ہوا۔ ابراہیم بن مالک اشتر نے اپنے ساتھیوں کو امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کی ترغیب دی۔ عبید اللہ کے لشکر کے دائیں بازو (میمنہ) کے کمانڈر حُصین بن نمیر نے عراقی فوج کے بائیں بازو (میسرہ) پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد ابراہیم نے میمنہ کے کمانڈر اور اپنے پرچمدار کو پیشقدمی کا حکم دیا جبکہ خود پیدل سپاہیوں کی مدد سے دشمن پر حملہ آور ہوا اور سخت لڑائی کے بعد انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس جنگ میں کام آئے اور ابراہیم بن مالک نے عبید اللہ بن زیاد کو موت کے گھاٹ اتارا۔

جنگ کا مقام اور تاریخ

جنگ خازر کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ بعض نے 66ھ[1] اور بعض [2] نے 67ھ تحریر کی ہے۔ طبری[3] نے ابو مخنف کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہ جو تاریخی اعتبار سے زمانہ جنگ سے نزدیک ہے، 67ھ کو جنگ کا سال قرار دیا ہے۔[4] اس لڑائی میں حادثہ کربلا کے بہت سے ذمہ دار منجملہ عبید اللہ بن زیاد مارے گئے۔ جغرافیہ دانوں کے بقول خازر، اربل اور موصل اسی طرح نہر ذات بالا اور موصل کے درمیان واقع ایک نہر کا نام ہے۔ یہ نہر نخلا کے گاؤں آربون سے نکلتی ہے اور آخر کار دریائے دجلہ میں جا گرتی ہے۔[5] کچھ منابع میں اس نہر کا نام جازر ثبت ہوا ہے۔[6] ایک اور نقطہ نظر کے مطابق خازر مدائن کا ایک شہر ہے۔[7] طبری[8] کی نقل کے مطابق خازر موصل کا حصہ اور قریہ باربیثا کے نزدیک تھا اور خازر سے موصل تک کا فاصلہ پانچ فرسخ (پندرہ میل) تھا۔

اس علاقے کی دیگر جنگیں

اس علاقے میں پہلی صدی کی ایک خطرناک جنگ لڑی گئی کہ جس کا تذکرہ اکثر مسلمان مورخین اور جغرافیہ دانوں نے کیا ہے۔ طبری جیسے مورخین نے تفصیل جبکہ خلیفۃ بن خیاط اور یاقوت حموی جیسوں نے چند جملوں پر اکتفا کیا ہے۔ جنگ خازر سانحہ کربلا کے مجرمین اور امام حسینؑ کے قاتلوں کے خلاف دوسری مسلح جدوجہد تھی۔ پہلی لڑائی عین الوردہ (بمطابق سنہ 65ھ) میں عبید اللہ بن زیاد اور سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں جمع ہونے والے کوفیوں میں ہوئی کہ جو توابین کی جنگ کے نام سے مشہور ہے۔

جنگ کا پس منظر

یزید بن معاویہ کی 64ھ میں موت اور معاویہ بن یزید کی خلافت سے علیٰحدگی کے بعد شاماور عراق میں بدامنی پھیل گئی۔ امویوںکا عراق میں مقرر کردہ والی عبید اللہ بن زیاد کہ جس نے امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کیلئے لشکر روانہ کیا تھا، مجبورا شام چلا گیا۔ عراقیوں نے اموی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی، منجملہ مختار بن ابو عبید ثقفی (متوفی 67ھ) کہ جس نے کوفہ میں امویوں کے خلاف اور امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کی غرض سے قیام کر رکھا تھا؛ نے نمایاں شیعہ شخصیت ابراہیم بن مالک اشتر کو ایک بڑے لشکر کے ہمراہ کوفہ سے شمال (شام) کی جانب روانہ کیا تاکہ عراق میں داخلے سے قبل ہی عبید اللہ بن زیاد کے لشکر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ عبید اللہ بن زیاد کہ جو اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کی جانب سے عراق پر کنٹرول اور اسے اموی حکومت میں دوبارہ شامل کرنے پر مامور تھا؛ شام سے نکلا۔ ماہ ذوالحجہ 66ھ کی پہلی لڑائی میں اس نے یزید بن انس کی زیر قیادت مختار کے ایک دستے سے شکست کھائی۔ اس کے بعد عبید اللہ بن زیاد کی ابراہیم بن مالک کے لشکر کے ساتھ خارز میں جنگ ہوئی۔[9]

جنگ کا آغاز

اس جنگ میں ابراہیم کے لشکر کی تعداد آٹھ ہزار اور عبید اللہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار نقل کی گئی ہے۔[10] ابراہیم بن مالک اشتر نے اپنے ایک دلیر سپاہی طفیل بن نخعی کو پیش رو کمانڈر کی حیثیت سے عبید اللہ کی طرف روانہ کیا۔ ابراہیم فوجی شان و شوکت سے حرکت کرتا رہا اور اس نے سواروں اور پیادوں کو خود سے جدا نہیں ہونے دیا۔ اپنے سپاہیوں کی صفیں منظم کرنے کے بعد اس نے پیدل دستوں کہ جن کی تعداد کم تھی، کو قلب اور میمنہ میں اپنے ہمراہ رکھا۔ ابراہیم بن مالک اشتر، اپنے ساتھیوں کو امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے اور عبید اللہ بن زیاد اور اس کے لشکر سے نبردآزما ہونے کی تلقین کرتے رہے۔ عبید اللہ کی فوج کے دائیں بازور کا سردار حصین بن نمیر عراقی فوج کے بائیں بازور پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس پر ابراہیم نے میمنہ کے کمانڈر اور اپنے پرچمدار کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور خود پیدل سپاہیوں کی مدد سے دشمن پر حملہ آور ہو کر سخت لڑائی کے بعد انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ دونوں طرف کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ ابراہیم بن مالک نے عبید اللہ بن زیاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اموی لشکر میں شامل بڑے بڑے شامی معززین منجملہ حصین بن نمیر اور شرجیل بن ذی الکلاع بھی قتل ہو گئے۔ ابراہیم کے ساتھیوں نے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا اور فوجی چھاؤنی پر قبضہ کر لیا۔ بھاگ دوڑ کے دوران دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہونے والے دشمنوں کی تعداد میدان جنگ میں مارنے جانے والوں سے زیادہ تھی۔[11] ابراہیم کے حکم پر عبید اللہ بن زیاد کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ ابراہیم نے اپنی کامیابی کی خوشخبری کے ساتھ عبید اللہ اور اس کے سرداروں کے سر بھی مدائن میں مختار کے پاس بھیج دئیے جبکہ عبید اللہ کا بدن جلا دیا گیا۔[12]

حوالہ جات

  1. خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، 1415ھ، ص164؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ذیل "خازر"۔
  2. ابن‌ اثیر، الکامل، دار صادر، ج4، ص261۔
  3. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1382ـ1387ھ، ج6، ص86۔
  4. ابن‌ اثیر، الکامل، دار صادر، ج4، ص261؛ ذہبی، العبر، 1984م، ج1، ص73-74۔
  5. یاقوت حموی، معجم البلدان، ذیل "خازر"۔
  6. ابن‌ قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج2، ص31؛ بکری، معجم مااستعجم، 1403ھ، ج1، ص484؛ ذہبی، تاریخ‌ اسلام، حوادث و وفیات 6180ق، 1410ھ، ص 55۔
  7. بکری، معجم مااستعجم، 1403ھ، ج1، ص484۔
  8. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1382ـ1387ھ، ج6، ص86۔
  9. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1382ـ1387ھ، ج6، ص3842، 86۔
  10. ذہبی، تاریخ‌ الاسلام، حوادث و وفیات 6180ھ، 1410ھ، ص 55۔
  11. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1382ـ1387ھ، ج6، ص38-42، 86-92؛ خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، 1415ھ، ص164؛ ابن‌ قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، 1410ھ، ج2، ص24-25؛ مسعودی، مروج الذہب، 1965-1979م، ج3، ص298۔
  12. مسعودی، مروج الذہب، 1965-1979م، ج3، ص298؛ ابن‌ اثیر، الکامل، دار صادر، ج4، ص264-265۔

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، چاپ علی شیری، بیروت، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، چاپ علی شیری، بیروت، 1408ھ/1988ء۔
  • بکری، ابوعبید، معجم مااستعجم، چاپ مصطفی سقا، بیروت، 1403ھ۔
  • خلیفۃبن خیاط، تاریخ خلیفۃبن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت، 1415ھ/1995ء۔
  • ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، حوادث و وفیات 6180، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، 1410ھ/1990ء۔
  • ذہبی، العبر فی خبر من غبر، چاپ صلاح‌الدین منجّد، کویت، 1984ء۔
  • طبری، محمد بن جرير، تاريخ‌الامم والملوك، چاپ محمد ابوالفضل ابراہيم، بيروت 1382ـ1387ھ/ 1962ـ1967ء۔
  • مسعودی، علی بن‌حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، چاپ شارل پلا، بیروت، 1965-1979ء۔
  • یاقوت حموى، كتاب معجم‌البلدان، چاپ فرديناند ووستنفلد، لايپزيگ 1866ـ1873، 6ج، چاپ افست تہران1965ء۔