ضحاک بن عبداللہ مشرقی

ویکی شیعہ سے
ضحاک بن عبداللہ مشرقی
کوائف
نام:ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی
مقام سکونتکوفہ
اصحابامام حسینؑ و امام سجادؑ
سماجی خدماتواقعہ کربلا کا راوی
مذہبشیعہ


ضَحّاک بن عبد اللہ مشرقی، امام حسین (ع) کے اصحاب میں سے تھا جو واقعہ عاشورا کے روز کربلا میں موجود تھا۔ اس نے سپاہ عمر بن سعد سے جنگ کی اور چند افراد کو قتل کرنے اور نماز ظہر کے بعد روز عاشورا فرار اختیار کی۔ ضحاک بن عبداللہ واقعہ کربلا کے راویوں میں سے ہے نیز اس کا تعلق کوفہ سے تھا۔

زندگی نامہ

ضحاک بن عبد اللہ مشرقی قبیلہ ہمدان سے تھا۔ اس کی زندگی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ صرف یہی معلوم ہے کہ وہ کربلا میں امام حسین کی مدد کرنے کے علاوہ امام زین العابدین کے زمانے میں زندہ تھا۔ شیخ طوسی اسے اصحاب امام سجّاد (ع) سے شمار کرتے ہیں۔[1]

کربلا میں حضور

ضحاک بن عبداللہ مشرقی امام حسین (ع) کے ان اصحاب میں سے ہے جس نے عاشورا کے روز جنگ کے بعد میدان جنگ سے فرار اختیار کیا۔ جس کی وجہ بعد میں آنے والے مؤرخین اس کی اس کام پر نکوہش کی ہے۔

ملاقات امام حسین(ع)

طبری نے نقل کیا ہے: ضحاک مالک بن نضر ارحبی کے ہمراہ امام حسین کے کوفہ آنے کے دوران امام سے ملا۔امام نے ان دونوں کو اپنی مدد کی دعوت دی۔ جب انہوں نے اس سے چشم پوشی کرنا چاہی تو امام نے اس کا سبب دریافت کیا۔ مالک بن نضر نے کہا: میں مقروض اور صاحب عیال ہوں۔ ضحاک نے امام کی دعوت مشروط قبول کی اور کہا: میں بھی مقروض ہوں اور عیال دار ہوں۔ آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گے کہ ج آپ کے ساتھ کوئی مراہ نہیں رہے گا تو میں واپس چلا جاؤں گا۔ میں صرف اس وقت تک آپ کیلئے جنگ کرونگا جب تک آپ کے نفع میں اور میں آپ سے دفاع کر سکوں۔ امام (ع) نے اسے قبول کیا۔[2].

روز عاشور کی جنگ

ضحاک صبح روز عاشورا کے حملے میں شرکت کی اپنی طرف سے بہت شجاعت کا مظاہرہ کیا اور نماز ظہر کو امام کی اقتدا میں ادا کیا۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ بنی امیہ نے عمر بن سعد کے دستور کے مطابق اصحاب امام (ع) کو ہدف قرار دیا تو اس نے اپنے گھوڑے کو خیمہ میں مخفی کیا پیادہ جنگ میں شریک ہوا۔

ضحاک نے خود نقل کیا کہ اس امام (ع) کے سامنے دو جنگ کرنے والوں کو واصل جہنم کیااور ایک اور شخص کا ہاتھ قطع کیا تو امام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا: سستی نکرو مبادا ہاتھ قطع نہ ہو جائے۔ خداوند اہل بیت رسول (ص) سے بہترین پاداش تمہیں عطا کرے گا۔[3].

جنگ سے فرار

ابومخنف نے عبداللہ بن عاصم الفائشی کی زبانی ضحاک بن عبداللہ مشرقی سے نقل کیا:

«جب میں نے دیکھا کہ اصحاب امام حسین (ع) قتل ہو گئے اور ان کے خاندان کی باری آگئی اور ان کے ساتھ صرف سوید بن عمرو خثعمی اور بشیر بن عمرو حضرمی رہ گئے ہیں تو میں ابا عبداللہ کی خدمت میں آیا اور کہا: یابن رسول اللہ! آپ کو یاد ہے کہ ہمارے درمیان کیا معاہدہ ہوا تھا؟ حضرت نے فرمایا: ہاں یاد ہے، میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا لی ہے۔ تم کس طرح اس لشکر سے فرار کرو گے؟ ضحاک نے کہا: میں نے اپنا گھوڑا خیمہ میں مخفی کیا ہوا ہے اسی لئے تو میں نے پیادہ ان سے جنگ لڑی ہے۔

پس ضحاک اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ سے فرار ہو گیا۔ عمر سعد کے ۱۵ افراد نے اس کا تعاقب کیا یہانتک کہ ساحل فرات کے نزدیک ایک گاؤں میں توقف کیا۔ پیچھا کرنے والوں میں کثیر بن عبداللہ شعبی، ایوب بن مشرح حیوانی اور قیس بن عبداللہ صایدی نے اسے پہچان لیا لیکن تعقب کرنے والوں سے بنی تمیم کے لوگوں نے اسے رہائی دلوائی۔[4]

وقائع عاشورا کا راوی

ضحاک کوفہ کا محدث اور واقعہ کربلا کا راوی ہے۔ طبری جیسے مؤرخین نے شب عاشورا کو اصحاب امام حسین کی بیعت اور اصحاب کی طرف سے اظہار وفاداری کو ضحاک کی زبانی نقل کیا ہے۔[5]

شیخ مفید نے ارشاد میں واقعہ عاشورا کی روایت اس سے نقل کی ہے۔[6] پس اس بنا پر مقاتل کی کتب میں اس سے بہت سی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی؛ رجال الشیخ الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ق، ص۱۱۶.
  2. طبری، تاریخ طبری، ج۴، بیروت، ص۳۱۷؛ ہمو تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران: نشر بنیاد فرہنگ ایران، ۱۳۵۲، ص۳۰۱۵.
  3. الطبری، پیشین، ص۳۰۵۰.
  4. البلاذری، احمد بن یحیی؛ انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، دار التعارف، چاپ اول، ۱۹۷۷، ج۳، ص۱۹۷؛ الطبری، پیشین، ص۳۰۵۰- ۳۰۵۱؛ ابن اثیر، پیشین، ج۴، ص۷۳.
  5. طبری، تاریخ، ج۴، ص۳۳۹، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۷.
  6. شیخ مفید، الارشاد، نشر اسلامیہ، ۱۳۸۰، ص۴۴۶.

مآخذ

  • البلاذری، احمد بن یحیی؛ انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، دارالتعارف، چاپ اول، ۱۹۷۷ء۔
  • شیخ طوسی، رجال الشیخ الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ مفید، الارشاد، نشر اسلامیہ، ۱۳۸۰شمسی ہجری۔
  • محمدبن جریر طبری، تاریخ طبری، بیروت، نشر موسسہ الاعلمی للمطبوعات.
  • محمد بن جرر طبری، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، نشر بنیاد فرہنگ ایران، ۱۳۵۲شمسی ہجری۔