کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ

ویکی شیعہ سے

کوفہ میں حضرت زینب(س) کا خطبہ، یہ وہ خطبہ ہے جسے حضرت زینب(س) نے واقعہ عاشورا کے بعد اسیران کربلا کے کوفہ میں داخل ہوتے وقت کوفہ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں حضرت زینب(س) نے واقعہ عاشورا میں امام حسین(ع) کی مدد کرنے میں کوتاہی کرنے پر کوفہ والوں کی سرزنش کرتے ہوئے ان کے اس کام کو بہت بڑا گناہ قرار دیا۔

حضرت زینب کا خطبہ دینا

منقول ہے کہ جب اسیران کربلا کو کوفہ لایا گیا تو کوفہ کی خواتین نے گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنا گریباں چاک کیا اور ان کے مردوں نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا۔ امام سجاد(ع) جو اس وقت بیمار تھے، نے نحیف آواز میں فرمایا: کیا یہ لوگ ہم پر رو رہے ہیں! پس ہمیں کن لوگوں نے شہید کیا ہے؟ اس موقع پر حضرت علی(ع) کی بیٹی جناب زینب(س) نے لوگوں کی طرف اشارہ کر کے انہیں خاموش ہونے کا حکم دیا! سانسیں سینوں میں حبس ہوئیں اور اونٹوں کے گردن میں باندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں بھی بند ہو گئیں۔ راوی کہتا ہے: کسی با پردہ خاتون کو ان سے زیادہ خوش بیان نہیں دیکھا تھا؛ گویا حضرت علی(ع) کی آواز میں بول رہی تھی۔

آپ(س) نے خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم(ص) پر درود بھیجنے کے بعد کوفہ والوں کو ان کی دوغلی پالیسی اور امام حسین(ع) کی مدد کرنے میں کوتاہی کرنے پر ان کی سرزنش کی اور جنت کے جوانوں کے سردار کو شہید کرنے پر ان کو قیامت کے دن بہت بڑے عذاب کا وعدہ دیا۔ حضرت زینب(س) کی تقریر کے بعد لوگ حیرانی کے عالم میں اپنی انگلیوں کو دانتوں تلے چبا رہے تھے۔[1]

امام سجاد کا اپنی پھوپھی کو تسلی دینا

امام سجاد(ع) نے اپنی پھوپھی حضرت زینب(س) سے فرمایا: "پھوپھی جان بے قراری کا مظاہرہ نہ کریں گذشتگان کی داستانیں زندہ لوگوں کیلئے مايہ عبرت ہیں۔ آپ خدا کے فضل و کرم سے عقیلہ بنی ہاشم اور عالمہ غیر معلمہ ہیں۔ جو لوگ شہید ہو چکے ہیں آپ کے رونے سے وہ لوگ واپس نہیں آئیں گے"۔ امام سجاد(ع) کی ان باتوں سے حضرت زینب(س) کو سکون ملا اور آپ خاموش ہو گئیں۔[2]

متعلقہ صفحات

خطبہ اور اس کا ترجمہ

متن ترجمه
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

ثُمَّ قَالَتْ بَعْدَ حَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهِ (ص):أما بعد :يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ وَمَلَقُ الْإِمَاءِ وَغَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا بِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَفِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أتَبْكُونَ أَخِي؟! أَجَلْ، وَاللَّهِ فَابْكُوا فَإِنَّكُمْ أَحْرَى بِالْبُكَاءِ فَابْكُوا كَثِيراً وَاضْحَكُوا قَلِيلًا فَقَدْ أَبْلَيْتُمْ بِعَارِهَا وَمَنَيْتُمْ بِشَنَارِهَا وَلَنْ تَرْحَضُوهَا أَبَداً وَأَنَّى تَرْحَضُونَ قُتِلَ سَلِيلُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنِ الرِّسَالَةِ وَسَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَلَاذُ حَرْبِكُمْ وَمَعَاذُ حِزْبِكُمْ وَمَقَرُّ سِلْمِكُمْ وَآسِي كَلْمِكُمْ وَمَفْزَعُ نَازِلَتِكُمْ وَالْمَرْجِعُ إِلَيْهِ عِنْدَ مُقَاتَلَتِكُمْ- وَمَدَرَةُ حُجَجِكُمْ وَمَنَارُ مَحَجَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ وَسَاءَ مَا تَزِرُونَ لِيَوْمِ بَعْثِكُمُ فَتَعْساً تَعْساً وَنَكْساً نَكْساً لَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَتَبَّتِ الْأَيْدِي وَخَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَبُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ* وَضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ أَ تَدْرُونَ وَيْلَكُمْ أَيَّ كَبِدٍ لِمُحَمَّدٍ ص فَرَثْتُمْ وَأَيَّ عَهْدٍ نَكَثْتُمْ وَأَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَأَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ هَتَكْتُمْ وَأَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ دَماً وَلَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى‏ وَهُمْ لا يُنْصَرُونَ- فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ «3» وَلَا يُخْشَى عَلَيْهِ فَوْتُ النَّارِ كَلَّا إِنَّ رَبَّكَ لَنَا وَلَهُمْ لَبِالْمِرْصادِ ثُمَّ أَنْشَأَتْ تَقُولُ (ع‏): مَا ذَا تَقُولُونَ إِذْ قَالَ النَّبِيُّ لَكُمْ مَا ذَا صَنَعْتُمْ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ‏ بِأَهْلِ بَيْتِي وَأَوْلَادِي وَتَكْرِمَتِي مِنْهُمْ أُسَارَى وَمِنْهُمْ ضُرِّجُوا بِدَمٍ‏ مَا كَانَ ذَاكَ جَزَائِي إِذْ نَصَحْتُ لَكُمْ أَنْ تَخْلُفُونِي بِسُوءٍ فِي ذَوِي رَحِمِي‏ إِنِّي لَأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ يَحُلَّ بِكُمْ مِثْلُ الْعَذَابِ الَّذِي أَوْدَى عَلَى إِرَمٍ‏ ثُمَّ وَلَّتْ عَنْهُمْ- قَالَ حِذْيَمٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ حَيَارَى قَدْ رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ شَيْخٌ فِي جَانِبِي يَبْكِي وَقَدِ اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ بِالْبُكَاءِ وَيَدُهُ مَرْفُوعَةٌ إِلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقُولُ بِأَبِي وَأُمِّي كُهُولُهُمْ خَيْرُ كُهُولٍ وَنِسَاؤُهُمْ خَيْرُ نِسَاءٍ وَشَبَابُهُمْ خَيْرُ شَبَابٍ وَنَسْلُهُمْ نَسْلٌ كَرِيمٌ وَفَضْلُهُمْ فَضْلٌ عَظِيمٌ ثُمَّ أَنْشَدَ: كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَنَسْلُكُمْ إِذَا عُدَّ نَسْلٌ لَا يَبُورُ وَلَا يَخْزَى‏ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ يَا عَمَّةِ اسْكُتِي فَفِي الْبَاقِي مِنَ الْمَاضِي اعْتِبَارٌ وَأَنْتِ بِحَمْدِ اللَّهِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَةٍ إِنَّ الْبُكَاءَ وَالْحَنِينَ لَا يَرُدَّانِ مَنْ قَدْ أَبَادَهُ الدَّهْرُ فَسَكَتَتْ- ثُمَّ نَزَلَ (ع) وَضَرَبَ فُسْطَاطَهُ وَأَنْزَلَ نِسَاءَهُ وَدَخَلَ الْفُسْطَاطَ.۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

سب تعریفیں خداوند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ! اے اہل فریب و مکر! کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیا اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طور پر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو، جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔ آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روۆ زیادہ اور ہنسو کم۔ تم امام علیہ السلام کے قتل کی عار و شنار میں گرفتار ہو چکے ہو اور تم اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل (فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منارہئ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔ تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم برباد ہو گئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول (ص) کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا؟ اور ان کا کون سا خون بہایا؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا؟ تم نے ایسے اعمال شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام کا جرم شنیع کیا ہے جو پہنائی و وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔ اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔ کیونکہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے”۔

حوالہ جات

  1. طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۰۴
  2. سید بن طاوس، لہوف، ۱۷۴تا ۱۷۹/خوارزمی، مقتل الحسین، ص۴۵ تا۴۷/شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص۲۱۵

منابع

  • سید بن طاوس، لہوف، ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، نشر بخشایش، چاپ پنجم،۱۳۷۸ش.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج على أہل اللجاج‏، مشہد، مرتضى‏، ۱۴۰۳ق.
  • مجلسی، بحار الأنوار، بیروت، داراحیاءالتراث، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.