ابو الاسود دوئلی

ویکی شیعہ سے
ابو الاسود دوئلی
کوائف
نام:ظالم بن عمرو بن سفیان
نسببنی‌ کنانہ مُضَر کی شاخ دئل
مشہور اقاربابو حرب، عطا
پیدائشعام الفتح کا سال
اصحابامام علی، امام حسین
سماجی خدماتتعلیم قرآت قرآن، قرآن کی اعراب گزاری، علم نحو کے بانی، شاعر
مذہباسلام


اَبو الاَسْوَدِ دُوئلی (متوفا 69 ھ) شاعر اور حضرت امام علی کے مشہور صحابی کا اصل نام ظالم بن عمرو بن سفیان تھا۔ انہیں علم نحو کے بانی کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ جمل کے موقع پر جب حضرت عائشہ بصرہ کی جانب روانہ ہوئیں تو عثمان بن حُنیف نے انہیں ام المؤمنین سے مذاکرات کیلئے بھیجا۔ ابو الاسود جنگ جمل میں حضرت علی کی سپاہ میں شامل رہے۔ شعر کہنے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ امام علی اور امام حسین علیہم السلام کی مدح میں اشعار اور مرثیہ کہے۔ تاریخی روایات کے مطابق وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کی آیات پر اعراب گزاری کا کام انجام دینے کا اقدام کیا۔ اکثر مآخذ نے ان کا سن وفات 69 ہجری اور مقام وفات بصرہ ذکر کیا ہے۔

خاندان

ابو الاسود دوئلی کا اصل نام ظالم بن عمرو بن سفیان تھا۔ وہ دورہ جاہلیت میں پیدا ہوئے[1] جبکہ ان سے مروی قول کے مطابق ان کی پیدائش کا سال عام الفتح ہے۔[2]

ان کا تعلق بنی‌ کنانہ مُضَر سے تھا جو بصرے کے اعلی خاندان میں سے تھا۔[3]اس کا قبیلہ دُئل کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ حجاز کے مقیم لوگ اسے «دیلی» کے تلفظ سے پڑھتے۔[4] ان کا قبیلہ حجاز اور مکہ کے اطراف میں آباد تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس خاندان کا نام بعض وقائع میں لیا گیا ہے۔[5]

ابو الاسود کی والدہ کا تعلق بنی‌ عبد الدار کی شاخ سے تھا۔[6] ایک قول کے مطابق ان کا باپ کسی غزوہ میں مشرکین کی ہمراہی کرتے ہوئے قتل ہوا۔[7] لیکن زیادہ احتمال ہے کہ اس مورد میں خلط ہوا ہے۔[8]

ابو الاسود کے دو بیٹوں کے نام: عطا اور ابو حرب تھے۔ عطا کی نسل باقی نہیں رہی جبکہ ابو حرب سے اس کی نسل باقی رہی۔ کہتے ہیں کہ ابو حرب ایک شاعر اور علم نحو کا ماہر تھا اور وہ حجاج بن یوسف کی جانب سے ایک علاقے کا حاکم تھا۔[9]

تین خلافتوں کا زمانہ

بعض نے ابو الاسود کو صحابہ سے شمار کیا ہے لیکن ابن اثیر اس کے صحابی ہونے کو ایک خبر کے متن میں تصحیف کی وجہ قرار دیتا ہے۔[10] کہتے ہیں کہ فقت ہونے کے وقت اس کا سن 85 یا 100 سال تھا۔[11] اس کا انتقال بصرہ میں ہوا۔ اکثر مصادر 69 ہجری کو طاعون کی وبا میں ان کی موت ذکر کرتے ہیں۔[12] اس کے علاوہ اس کی موت کے بارے میں دیگر اقوال بھی مذکور ہیں۔[13] مشہور تاریخ وفات کے مطابق رسول اللہ کے زمانے کو درک کرنا بعید نظر آتا ہے۔[14]

ابو الاسود نے ابوذر غفاری کی ربذہ میں تبعید کے دوران اس سے ملاقات میں تبعید کے متعلق بات چیت کی۔[15] اس ملاقات کا راوی موسی بن میسرہ ہے جو طایفہ دؤل سے تعلق رکھتا تھا۔[16]

بیعت امام علی (ع)

ابو الاسود جنگ جمل میں حضرت علی (ع) کے ہمراہ۔[17] حضرت عائشہ جب جنگ جمل سے پہلے بصرہ گئیں تو عثمان بن حُنیف کی جانب سے ابو الاسود کو گفتگو کیلئے حضرت عائشہ کے پاس بھیجا گیا تو اس نے گفتگو کے دوران ان سے سخت لہجے میں بات کی۔[18]

حکومتی عہدے

جنگ صفین کے موقع پر ابن عباس نے امیرالمؤمنین علی(ع) کے دستور کے مطابق اسے فوجی قوت تشکیل دینے کا کہا[19] اور خود امام کی جانب صفین کی طرف روانہ ہوا نیز ابوالاسود کو بصرہ میں اپنی جگہ مقرر کیا۔[20] تاکہ نماز قائم کرے اور وہاں قضاوت کے فرائض انجام دے نیز زیاد بن ابیہ کو دیوان اور مالیات کے امور سونپے۔ اس مدت میں دونوں کے درمیان دشمنی ظاہر ہوئی یہی وجہ ہے کہ ابو الاسود کے زیادہ اشعار اس کی ہجو سرائی میں ہیں۔[21]

ایک روایت کے مطابق امام علی(ع) نے جنگ صفین میں حَکَم بنانے کے موقع پر پہلے حَکَم کیلئے اس کے انتخاب کا ارادہ کیا تھا۔[22]

ابن عباس جنگ کے بعد بصرہ واپس لوٹ آیا اور ابن عباس نے بصرے کی حاکمیت کے دوران خوارج کی فتنہ انگیزیوں کو خاموش کرنے کیلئے ابو الاسود کو روانہ کیا۔[23] کچھ مدت کے بعد ابو الاسود نے ابن عباس پر بیت المال میں ناجائز تصرف کا الزام لگایا اور امام علی(ع) نے ابن عباس کی اس امر پر سرزنش کی۔[24] اس واقعے کے بعد ابن عباس نے بصرہ کو چھوڑ دیا اور حجاز چلا گیا۔[25] ابن عباس کو اس امر سے روکنے کیلئے ابو الاسود اور اس کے قبیلے نے کوششیں کیں لیکن وہ اسے روکنے میں ناکام رہے[26] البتہ اس نے بصرہ چھوڑنے سے پہلے بصرے کیلئے اپنا جانشین زیاد بن ابیہ کو بنایا اور ابو الاسود کو کسی حکومتی عہدے کی ذمہ داری نہیں سونپی۔ ابو الاسود اس بات پر ابن عباس سے ناراض ہو گیا۔[27]

بیعت امام حسن

جب شہادت امام علی(ع) اور بیعت امام حسن(ع) کی بیعت کی خبر بصرہ پہنچی تو ابو الاسود نے منبر پر آکر کہا::مارقین نے خلیفہ کو شہید کر دیا ہے اور تمام اہل بصرہ کو حضرت امام حسن کی بیعت کرنے کی دعوت دی۔ شیعوں نے اسکی بیعت کی لیکن عثمانی‌ مذہب کے گروہ نے بیعت نہیں کی اور وہ لوگ معاویہ کے پاس چلے گئے۔ معاویہ فریب کاری کرتے ہوئے کسی کو ابو الاسود کے پاس معاویہ کی حسن سے صلح کا پیغام بھیجا نیز اس سے چاہا کہ وہ اس کیلئے لوگوں سے بیعت لے۔ ابو الاسود نے شہادت امام علی کے مرثیے میں اس مسئلے کی جانب اشارہ کیا اور اس کا ذمہ دار معاویہ کو قرار دیا۔[28]

خلافت بنی‌ امیہ

44 ہجری قمری میں بصرے کے والی ابن عامر نے معاویہ کے پاس ایک وفد بھیجا۔[29] ابو الاسود بھی اس وفد میں شامل تھا۔ وہ احنف بن قیس کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اور اس نے وہاں سخت گفتگو کی۔[30] معاویہ نے 45 ہجری میں زیاد بن ابیہ کو عراق کی امارت سونپی۔[31] ابو الاسود نے سابقہ دوستانہ تعلقات نہ رکھنے کے باوجود ظاہری طور پر اس کے پاس آنا جانا جاری رکھا اگرچہ کبھی کبھار اس سے ناراضگی کا اظہار بھی کرتا اور اشعار میں اسے ملامت کرتا نیز حضرت علی سے وابستگی کی وجہ سے اس کا مورد توجہ نہ رہنے کا احتمال ہے۔[32]

ابو الاسود کے زیاد اور نحو کی بنیان گزاری کے متعلق روایات منقول ہوئی ہیں۔ بعض کا کہنا ہے: وہ زیاد کے بیٹوں کا معلم تھا۔[33]

واقعہ کربلا کے واقعے کی نسبت کہا گیا کہ اس نے شہادت امام حسین کی شہادت کی مناسبت سے اشعار کہے اور وہ ابن زیاد کی ہجو کرتا تھا۔[34] بعض غیر معتبر تاریخی روایات کے مطابق[35]، حلب کے نزدیک حضرت امام حسین کا سر واپس لینے میں درۃ الصدف کی مدد کی اور خولی کا کارندوں سے درگیر ہوا۔[36] بعض گزارشوں کے مطابق ابن زیاد کی حکومت کے دوران ابو الاسود[37] اس سے اور یہانتک کہ وہ ایران کے جنوب میں زیاد کے بعض عہدے داروں سے مدد کی درخواست کرتا تھا جیسا کہ اس کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر اس نے جندی شاپور، جی اور اصفہان کا سفر کیا اگرچہ اس سفر میں اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔[38]

65 ہجری قمری میں ابن زبیر نے حارث بن عبداللہ مخزومی معروف بنام قُباع کو بصرہ کا حاکم بنایا ابو الاسود نے اس نئے حاکم کی اشعار میں اسے برا بھلا کہا۔[39]

علمی اور ادبی مقام

ابوالاسود نے عمر، امام علی(ع) [40] اور ابوذر غفاری [41] سے حدیث نقل کی ہے۔ اسکا بیٹا ابو حرب، یحیی بن یعمر، عبداللہ بن بریدہ اور... اس سے حدیث نقل کرتے ہیں۔[42] حدیث نقل کرنے میں رجالی مآخذ اسے ثقہ شمار کرتے ہیں۔ [43]

ابوالاسود کی علم کلام میں تحریر موجود ہے۔ عبد القاہر بغدادی نے معتزلہ کی مخالفت میں قدریوں کی طرف سے سب سے پہلے لکھے جانے والے جوابی رسالے کی مذمت میں ابو الاسود سے منسوب تالیف شدہ رسالے کی خبر نقل کی ہے۔[44] علم کلام میں معتزلیوں نے اسے معتزلی طبقات میں سے گنا ہے۔[45]

قرآن کی اعراب گزاری

ابو الاسود وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے قرآن کریم کیلئے اعراب وضع کئے اور انہیں قرآنی آیات پر لگایا۔[46] ابو الفرج اصفہانی کی نقل کے مطابق زیاد بن ابیہ نے اسے قرآن کریم پر نقطہ گزاری کا حکم دیا لہذا اس نے اسے انجام دیا۔[47] مصادر کے مطابق اس نے عبد القیس کے طائفے سے ایک فصیح اور عقلمند شخص کا انتخاب کیا اور اسے قرات قرآن کی تعلیم دینا شروع کی اور اسے کہا: دیکھ! الفاظ کی ادائیگی کے موقع پر اگر کسی لفظ کو ادا کرنے میں میرے ہونٹ کھل جائیں تو اس لفظ کے اوپر ایک نقطہ لگا دو اور اگر لفظ کو ادا کرنے میں ہونٹ نیچے کی جانب آئیں تو اس لفظ کے نیچے نقطہ لگا دو اور اگر کسی لفظ کو ادا کرنے میں ہونٹ سُکُڑ جائیں تو اس حرف کے آگے ایک نقطہ لگا دو۔ اسی طرح اس روایت میں دیگر علامات کی وضع کی نسبت بھی اسی کی طرف دی گئی ہے۔[48] جبکہ قلقشندی کے اعتقاد کے مطابق اکثر محققین زیر، زبر، پیش نیز تنوین کو صرف ابو الاسود کی وضع سمجھتے ہیں۔[49]

اشعار

ابو الاسود سے اشعار منقول ہیں[50] مختلف مصادر میں اس سے منسوب نقل ہونے والے اشعار ایک مجموعے کی شکل میں علیحدہ کتاب کی صورت میں دیوان ابو الاسود کے عنوان سے چھپے ہیں۔[51] البتہ بعض ان تمام اشعار کی اس کی طرف نسبت کے صحیح ہونے میں متردد ہیں[52] اور مدعی ہیں کہ ان اشعار کے مضامین روایات میں مذکور شخصیت کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتے ہیں۔[53] دور حاضر کے محقق ان اشعار کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں۔[54] البتہ اس کی ابن سلام، ابن سعد، جاحظ، ابن قتیبہ اور ابن عبد ربہ سے اسکے حکمت آمیز کلمات ۱۹ویں عیسوی تک کے مصادر میں مذکور ہوئے ہیں۔[55] نیز ابو الاسود نے حضرت علی اور حضرت امام حسین کی مدح اور سوگ میں مرثیے کہے ہیں۔[56] بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے بے رخی برتنے کا سبب حضرت علی سے محبت ہے۔ [57]

اس کی شاعری کے متعلق روایات موجود ہیں: عرب کے مشاق شاعر ابن عباس اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بہترین شعر کی راہنمائی کرے۔[58] اسی طرح وہ حضرت علی کی موجودگی میں بہترین اشعار بیان کرتا ہے۔ [59] نیز یغموری ایک اعرابی کے حوالے سے اسے عرب کے چار فصحا میں سے شمار کرتا ہے۔[60]

حوالہ جات

  1. لغوی، مراتب النحویین، ۱۳۷۵ق، ص۸
  2. یغموری، نور القبس، ۱۳۸۴ق، ص۲۱.
  3. پلاتر، ص۱۲۵.
  4. ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۵، ص۳۳۲.
  5. نک‍: واقدی، المغازی، ۱۹۶۶م، ج۲، ص۷۸۱، ۸۲۳.
  6. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۳۸۸ق، ص۴۳۴-۴۳۵، ۴۳۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، خطی، ج۲، ص۳۵۷؛ ابن ماکولا، الاکمال، ۱۴۰۲ق، ج۳، ص۳۴۸.
  7. ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۲۸ق، ج۳، ص۳۰۴.
  8. مقایسہ کنید با: واقدی، المغازی، ۱۹۶۶م، ج۱، ص۱۵۱؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ۱۳۵۵ق، ج۲، ص۷۱۲.
  9. نک‍: بلاذری، انساب الاشرف، خطی، ج۲، ص۳۵۷؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۳۸۸ق، ص۴۳۴-۴۳۵؛ قفطی، انباہ الرواہ، ۱۳۶۹ق، ج۱، ص۲۱؛ ابن عدیم، بغیہ الطلب، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۲۶۸۳.
  10. ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۲۸۰ق، ج۳، ص۷۰؛‌ نک‍: ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۲۸ق، ج۷، ص۱۵.
  11. نک‍: یغموری، نور القبس، ۱۳۸۴ق، ص۲۱؛ ابو الفرج، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۳۴؛ قس: بلاذری، انساب الاشراف، خطی، ج۲، ص۳۵۷.
  12. نک‍: زبیدی، طبقات النحویین و اللغویین، ۱۹۷۳م، ص۲۶؛ یغموری، نور القبس، ۱۳۸۴ق، ص۲۱؛ ابو الفرج، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۳۴؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۵، ص۳۴۱.
  13. نک‍: ابو الفرج، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۳۴؛ قفطی، انباہ الرواہ، ۱۳۶۹ق، ج۱، ص۲۰؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن حجر، تہذیب الہذیب، ۱۳۲۷ق، ج۱۲، ص۱۰؛ نک‍: بیہقی، المحاسن والمساوی، دارصادر، ص۴۲۲؛ یافعی، مرآۃ‌ الجنان، ۱۳۳۸ق، ج۱، ص۲۰۳.
  14. نیز نک‍: ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۲۸ق، ج۳، ص۳۰۵.
  15. ر ک: سید مرتضی، الشافی، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۲۹۸.
  16. ابن حجر، الاصابہ، ۱۳۲۸ق، ج۱۰، ص۳۷۳.
  17. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۸۲.
  18. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص225؛ طبری، ج4، ص461-462، روایت سیف بن عمر تمیمی؛ نیز نک‍: الامامہ والسیاسہ، ج۱، ص۶۵-۶۶
  19. طبری، ج۵، ص۷۸-۷۹
  20. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ق، ص۱۱۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، خطی، ج۲، ص۳۵۵؛ دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۷۹ق، ص۱۶۶.
  21. قس: یغموری، نور القبس، ۱۳۸۴ق، ص۸؛ ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۱۱-۳۱۲
  22. ابن عبد ربّہ، العقد الفرید، ۱۴۰۲ق، ج۴، ص۳۴۶، ۳۴۹؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۵، ص۳۲۹
  23. رک: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۷۹ق، ص۲۰۵؛ طبری، ج۵، ص۷۶-۷۷
  24. نک‍: یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۰۵؛ طبری، ج۵، ص۱۴۱؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۶۹-۱۷۰؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۲ق، ج۴، ص۳۵۴-۳۵۵؛ ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ۱۳۶۹ق، ص۱۵۰-۱۵۱.
  25. رک: بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۶۹-۱۷۰؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۲ق، ج۴، ص۳۵۴-۳۵۵؛ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۳۶۹ق، ص۱۵۰-۱۵۱.
  26. قس: ابن اثیر، الکامل، ج۳، ص۳۸۷
  27. ہمان، ج۲، ص۴۲۶
  28. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۵۰۸؛ طبری، ج۵، ص۱۵۰-۱۵۱؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۴۱۶
  29. ابن اثیر، الکامل، ج۳، ص۴۴۰
  30. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۲ق، ج۴، ص۳۴۹؛ ابن عساکر، ج۵، ص۳۲۷، ۳۲۹؛ نیز نک‍: ابن عدیم، بغیہ الطلب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۳۱۵
  31. ابن اثیر، الکامل، ج۳، ص۴۴۷
  32. بلاذری، انساب الاشراف، خطی، ج۲، ص۳۵۶؛ ابوالفرج، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۱۲، ۳۱۳.
  33. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۴، ص۸۲؛ صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۰۲ق، ج۱۶، ص۵۳۵؛ قس: افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۳، ص۲۷.
  34. ابو الاسود، ص۱۸۰-۱۸۲؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۳۸۵ق، ج۳، ص۶۸؛ یغموری، نورالقبس، ۱۳۸۴ق، ص۹؛ مقایسہ کنید با روایت بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۲۱.
  35. نک: امین، اعیان‌الشیعہ، ج۱۰، ص۳۴۳.
  36. نک: فاضل دربندی، اکسیرالعبادات، ج۳، ص۴۴۵-۴۵۰.
  37. نک‍: ابو الاسود، ص۱۶۷-۱۶۸
  38. ابوالاسود، ص۱۶۴-۱۶۵؛ ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۱۴-۳۱۵.
  39. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱، ص۱۱۰؛ نیز نک‍: بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۳۶م، ج۵، ص۲۵۶، ۲۷۷.
  40. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۲۹۷، ۳۰۰
  41. رک: ابن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۵، ص۱۶۶؛ بَحْشَل، تاریخ واسط، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۵.
  42. سیرافی، اخبار النحویین و البصریین، ۱۴۰۶ق، ص۲۲؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۱۲، ص۱۰.
  43. جاحظ، البخلاء، ۱۳۵۱ق، ج۱، ص۴۴؛ جاحظ، البرصان، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۲، ص۲۷۹؛ جاحظ، البیان، ۱۳۵۱ق، ج۱، ص۲۵۸.
  44. بغدادی، اصول الدین، ۱۳۴۶ق، ص۳۱۶.
  45. نک‍: قاضی عبدالجبار، فرق و طبقات المعتزلہ، ۱۹۷۲م، ص۳۱؛ ابن مرتضی، طبقات المعتزلہ، ۱۳۸۰ق، ص۱۶.
  46. رک : عسکری، اوائل، ج۱، ص۲۹۶-۲۹۷
  47. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۲۹۸.
  48. رک: لغوی، مراتب النحویین، ۱۳۷۵ق، ص۱۰-۱۱؛ سیرافی، اخبار النحویین و البصریین، ص۱۶؛ ابن انباری، نرہۃ الالباء، ۱۹۵۹م، ص۴-۵؛ قفطی، انباہ الرواہ، ۱۳۶۹ق، ص۵.
  49. قلقشندی، صبح الاعشی، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۱۵۷.
  50. دیکھیں: فہرست الکتاب، ۱۴۰۳ق؛ ابن درید، جمہرہ اللغہ، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۱۲۱، ۲۰۲؛ نک‍: راغب اصفہانی، محاظرات الادباء، ۱۹۶۱م، ج۳، ص۳۶۷؛ میدانی، مجمع الامثال، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۶.
  51. آذرنوش، ابو الاسود، ج۵، ص۱۹۰.
  52. بلاشر، III. ص۵۰۸. پلا، ص۱۴۸.
  53. آذرنوش، ابوالاسود، ج۵، ص۱۹۰.
  54. برای نمونہ، نولدکہ، ص۲۳۲-۲۴۰.
  55. آذرنوش، ابوالاسود، ج۵، ص۱۹۱.
  56. رک : جاحظ، البرصان، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۲، ص۲۷۹؛ صدر، تأسیس الشیعہ، ۱۳۵۴ق، ص۴۳-۴۶.
  57. رک: ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۲، ص۳۲۳-۳۲۴، ۳۲۶.
  58. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۱، ص۵
  59. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، ج۱۶، ص۳۷۶
  60. یغموری، نورالقبس، ۱۳۸۴ق، ص۸.

مآخذ

  • آذرنوش، آذرتاش، ابو الاسود، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، ۱۳۷۲ش.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، قاہرہ، ۱۲۸۰ق.
  • ہمو، الکامل؛
  • ابن انباری، عبد الرحمن بن محمد، نرہۃ الالباء، بہ کوشش ابراہیم سامرایی، بغداد، ۱۹۵۹م.
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرہ الخواص، نجف، ۱۳۶۹ق.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق.
  • این حجر، تہذیب التہذیب، حیدر آباد دکن، ۱۳۲۷ق.
  • ابن درید، محمد بن حسن، جمہرہ اللغہ، حیدرآباد دکن، ۱۳۴۵ق.
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، بہ کوشش احمد امین و دیگران، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م.
  • ابن عدیم، عمر بن احمد، بغیہ الطلب، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۸م.
  • ابن عساکر، علی بن حسین، تاریخ مدینہ دمشق، نسخہ خطی کتابخانہ احمد ثالث استانبول، شم‍ ۲۸۸۷.
  • این قتیبہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۳۸۸ق.
  • ابن ماکولا، علی بن ہبہ اللہ، الاکمال، حیدر آباد دکن، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م.
  • ابن مرتضی، احمد بن یحیی، طبقات المعتزلہ، بہ کوشش زوزانادیوالد ـ ویلتسر، بیروت، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱م.
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بہ کوشش ابراہیم ابیاری و دیگران، قاہرہ، ۱۳۵۵ق/۱۹۳۶م؛
  • ابو الاسود دوئلی، دیوان، بہ کوشش عبد الکریم دجیلی، بغداد، ۱۳۷۳ق/۱۹۵۴م؛
  • لغوی، ابو الطیب عبدالواحد بن علی، مراتب النحویین، بہ کوشش محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۵ق/۱۹۵۵م.
  • ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، قاہرہ، دار الکتب المصریہ.
  • ابوہلال عسکری، حسن بن عبداللہ، الاوائل، دمشق، ۱۹۷۵م.
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہرہ، ۱۳۱۳ق.
  • افندی، عبداللہ، ریاض العلماء، قم، ۱۴۰۱ق.
  • بحشل، اسلم بن سہل، تاریخ واسط، بہ کوشش کورکیس عواد، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
  • بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، اصول الدین، استانبول، ۱۳۴۶ق/۱۹۲۸م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۲)، نسخہ خطی کتابخانہ عاشر افندی استانبول، شم‍ ۵۹۸.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۲)، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۳)، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷م؛
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف(ج۵)، بہ کوشش گوبتین، بیت المقدس، ۱۹۳۶م.
  • بیہقی، ابراہیم بن محمد، المحاسن والمساوی، بیروت، دارصادر.
  • ثقفی، ابراہیم ابن محمد، الغارات، بہ کوشش عبد الزہرا حسینی، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م؛
  • جاحظ، عمرو بن بحر، البخلاء، بہ کوشش احمد عوامری بک و علی جارم بک، بیروت، دار الکتب العلمیہ،
  • جاحظ، عمرو بن بحر، البرصان والعرجان، بہ کوشش محمد موسی خولی، بیروت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
  • جاحظ، عمرو بن بحر، البیان و التبیین، بہ کوشش حسن سندوبی، قاہرہ، ۱۳۵۱ق/۱۹۳۲م.
  • دجنی، فتحی عبدالفتاح، ابوالاسود الدؤلی. کویت، ۱۹۷۴م؛
  • دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبد المنعم عامر، قاہرہ، ۱۳۷۹ق/۱۹۵۹م؛
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، محاظرات الادباء، بیروت، ۱۹۶۱م.
  • زبیدی، محمد بن حسن، طبقات النحویین و اللغویین، قاہرہ، ۱۹۷۳م.
  • زریاب خویی، عباس، «ابو الاسود الدؤلی»، بزم آورد، تہران، ۱۳۶۸ش.
  • سیبویہ، عمرو بن عثمان، الکتاب، بہ کوشش عبد السلام محمد ہارون، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، بہ کوشش عبدالزہرا حسینی، تہران، ۱۴۱۰ق.
  • سیرافی، حسین بن عبداللہ، اخبار النحویین و البصریین، بہ کوشش فریتس کرنکو، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • صدر، حسن، تأسیس الشیعہ، بغداد، ۱۳۵۴ق.
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بہ کوشش وداد قاضی، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م؛
  • قاضی عبدالجبار، فرق و طبقات المعتزلہ، بہ کوشش علی سامی نشّار و عصام الدین محمد علی، قاہرہ، ۱۹۷۲م.
  • قفطی، علی بن یوسف، انباہ الرواہ، بہ کوشش محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۶۹ق/۱۹۵۰م.
  • قلقشندی، احمد بن علی، صبح الاعشی، قاہرہ، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م؛
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، بہ کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۶م.
  • میدانی، احمد بن محمد، مجمع الامثال، بہ کوشش محمد محی الدین عبد الحمید، بیروت، دارالمعرفہ.
  • نصربن مزاحم منقری، وقعہ صفین، بہ کوشش عبد السلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۸۲ق.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
  • یافعی، عبداللہ، بن اسعد، مرآہ الجنان، حیدرآباد دکن، ۱۳۳۸ق.
  • یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ق/۱۹۶۰م؛
  • یغموری، یوسف بن احمد، نور القبس، محمد بن عمران مرزبانی، بہ کوشش رودلف زلہایم، ویسبادن، ۱۳۸۴ق/۱۹۶۴م.
  • Pellat, Ch, Le Milieu basrien et la formation de ہahiz, Paris, 1953.
  • Nہldeke, Th.,»Uber den Dîwân des Abû Tâlib und den des Abû'l'aswad Addualf«, ZDMG, Leipzig, 1864, vol. XVIII;

بیرونی رابط