شِیعَتِی مَا إِنْ شَرِبْتُمْ ماءَ عَذْبٍ فَاذْکُرُونِی (میرے شیعو! جب بھی ٹھنڈا پانی پیو تو میری پیاس کو یاد کرو) امام حسینؑ کی طرف نسبت دی جانے والی مشہور شعر کا ایک مصرع ہے۔ یہ شعر کربلا میں امام حسینؑ کو پیاسے شہید کئے جانے کی یاد دلاتی ہے۔ اس شعر کے ابتدائی مصرعے میں شیعوں سے یہ سفارش کی جا رہی ہے کہ جب بھی ٹھنڈا پانی پیئے تو امام حسینؑ کو یاد کیا کریں۔[1] بعض شیعہ علماء اس شعر اور اہلبیتؑ سے نقل ہونے والی بعض احادیث کی روشنی میں پانی پیتے وقت امام حسینؑ کو یاد کرنا واجب[2] اور بعض مستحب[3] قرار دیتے ہیں۔
اے میرے شیعو! جب بھی ٹھنڈا پائی پیو تو مجھے یاد کرو اور جب بھی کسی غریب کی غربت یا شہادت سے با خبر ہو تو مجھ پر گریہ کرو۔[5]
فاضل دربندی کتاب اسرار الشہادۃ میں کہتے ہیں کہ یہ شعر خود امام حسینؑ کی ہے۔[6] بعض منابع اس شعر کو اس وقت کے ساتھ ربط دیتے ہیں جب امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپ کی بیٹی سکینہ(س) میدان کربلا میں آپ کی لاش پر پہنچی تھی۔[7] نویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین کَفْعَمی حضرت سکینہ(س) سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں... امام حسینؑ کی شہادت کے بعد جب میں نے اپنے بابا کا جنازہ گود میں لیا تو مجھ پر غشی طاری ہوئی اسی حالت میں میں نے سنا کہ میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود شیخ عباس قمی کتاب نَفَس المَہموم اور مُنْتَہی الآمال[9] میں اور مُقَرَّم کتاب مَقْتَل الحُسَین[10] میں مذکورہ شعر کو نقل کرنے کے باوجود اس کے لئے کوئی مآخذ ذکر نہیں کئے ہیں۔ سید محمد صدر (متوفی: 1377ہجری شمسی) امام حسینؑ کی شہادت اور اس کے بعد کی حالات اور واقعات کو بیان کرنے والی اشعار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اشعار یقینا خود امام حسینؑ کی نہیں ہیں؛[11] وہ اور بعض دیگر علماء یہ احتمال دیتے ہیں کہ ممکن هے یہ اشعار امام حسینؑ کا زبان حال ہے۔[12]
بعض کتابوں میں یہ شعر "شیعتی مہما شَربتُم عَذْبَ ماءٍ" یا "شیعتی ما ان شِربتُم رَیَّ عَذْبٍ..." کی شکل میں اور اور دوسرا مصرع "او سَمِعتُم بشہیدٍ أو قَتیلٍ" یا "أو سَمعتُم بقتیلٍ أو جریحٍ" کی شکل میں نقل ہوئی ہے کہ سب کے سب تقریبا ایک جیسے معانی دیتے ہیں۔[15] بعض کتابوں میں اس شعر کے دیگر مصرعے بھی نقل ہوئے ہیں جن کی مجموعی تعداد 5 مصرعے بن جاتے ہیں۔[16] شیخ عباس قمی اس بات کے معتقد ہیں کہ باقی مصرعے دوسرے شاعروں نے اضافہ کئے ہیں اور ان کو امام حسینؑ کی طرف نسبت دینا مشکل ہے۔[17] بقیہ مصرعے در ذیل ہیں:
میںرسول خدا کا نواسا ہوں، مجھے بے جرم و خطا قتل کرنے کے بعد میرے جسم پر گھوڑے دوڑا کر میرے بدن کو پایمال کیا گیا۔ اے کاش تم روز عاشورا کربلا میں ہوتے اور دیکھتے کہ میں کیسے اپنے شیر خوار بیٹے کے لئے پانی مانگ رہا تھا اور کسی کو مجھ پر کوئی رحم نہ آیا۔ پانی کی جگہ میرے شیرخوار بچے پر ستم کے تیر برسائے گئے۔ اتنی عظیم اور دردناک مصیبتیں جن پر کوہ حجون (مکہ کا ایک پہاڑ) کو بھی زلزلہ آیا۔ وای جن و انس کے پیغبمر کے قلب مبارک کو کس طرح زخمی کیا گیا! پس اے میرے شیعو! ہمیشہ اور جنتا بھیج سکتے ہو ان پر لعنت بھیجو۔[19]
صدر، سید محمدباقر، أضواء علی ثورۃ الحسین علیہالسلام، عراھ، ہیئۃ التراث السید الشہید الصدر، 1430ھ۔
عنانی، بہرام و محمدیان، فخرالدین و شریف کاظمی، خدیجہ، «سیمای وقفنامہ در آب انبارہای سرایان در خراسان جنوبی»، در وقف میراث جاویدان، شمارہ90، 1394ہجری شمسی۔