ابو ایوب انصاری

ویکی شیعہ سے
ابو ایوب انصاری
کوائف
مکمل نامخالد بن زید بن کلیپ بن نجار
کنیتابو ایوب
محل زندگیمدینہ
اقاربسعد بن قیس بن عمرو بن امرؤ القیس، زید بن ثابت
وفات/۵۲ھ/۶۷۲ء
مدفنترکی، استنبول، مسجد ایوب سلطان،
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتتمام غزوات؛ صفین، جمل اور نہروان؛ رومیوں کے خلاف جنگ
نمایاں کارنامےزمانہ پیغمبرؐ میں جمع قرآن، ہجرت مدینہ کے موقع پر پیغمبرؐ کی میزبانی،
دیگر فعالیتیںشورائے سقیفہ اور خلفا کی مخالفت؛ امیر المومنین علیؑ کے دور حکومت میں مدینہ کے گورنر


خالد بن زید بن کُلَیب بن نجار جو ابو ایوب اَنصاری کے نام سے مشہور ہیں؛ پیغمبر اکرمؐ کے مشہور صحابی اور امام علیؑ کے مخلص شیعوں میں سے تھے۔ انہیں بیعت عقبہ میں شرکت کرنے اور پیغمبراکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے موقع پر آپؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ ابو ایوب انصاری نے پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کی حیات طیبہ میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ اسی طرح وہ عثمان کے قتل کے بعد حضرت علیؑ کی بیعت کرنے والے اولین افراد میں سے تھے۔ اہل سنت کے علماء انہیں ثقہ مانتے ہیں لیکن شیعہ علمائے رجال نے صرف ان کی مدح پر اکتفا کیا ہے۔

نسب

خالد بن زید بن کلیب بن نجار، کی کنیت ابوایوب اور ان کا نسب "نجار" تک پہنچتا ہے اور ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے۔ آپ کی والدہ سعدبن قیس بن عمرو بن امرؤالقیس کی بیٹی ہیں جبکہ آپ کی بیوی زید بن ثابت کی بیٹی ہیں۔[1] ابن سعد کے مطابق[2] ان کا "عبدالرحمن" نامی ایک بیٹا تھا جس کی نسل میں سے کوئی باقی نہیں ہے۔

حالات زندگی

بیعت عقبہ میں شرکت

ابوایوب انصاری ان 70 افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے بیعت عقبہ کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کی اور یہ عہد کیا کہ آپؐ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔[3] نصر بن مزاحم انہیں انصار کے بزرگان اور امام علیؑ کے شیعوں میں سے قرار دیتے ہیں۔[4] ابو ایوب انصاری سے 150 احادیث منسوب ہیں لیکن بخاری اور مسلم نے ان میں سے صرف 7 نقل کی ہیں۔[5]

پیغمبر اکرمؐ کی میزبانی

جس چیز نے ابوایوب انصاری کو مسلمانوں کے یہاں عزت اور شہرت دی وہ ہجرت مدینہ کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ کا دوسروں کے اصرار کے باوجود ابو ایوب کے گھر سکونت اختیار کرنا ہے۔ اس بنا پر تمام مورخین نے انہیں مدینے میں پیغمبر اکرمؐ کا میزبان قرار دیا ہے۔[6] بلاذری کے مطابق[7]، پیغمبر اسلامؐ نے 7 ماہ تک یعنی مسجد نبوی اور آپؐ کے مکان کی تعمیر تک ابو ایوب انصاری کے گھر سکونت اختیار کی۔ مسعودی نے[8] اس مدت کو ایک مہینہ ذکر کیا ہے۔ مدینہ میں ابو ایوب انصاری کا گھر ہمیشہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ چنانچہ اس میں مذاہب اربعہ کیلئے ایک مدرسہ تعمیر کیا گیا جو مدرسہ شہابیہ کے نام سے مشہور ہوا جس میں پیغمبر اکرمؐ کی سواری کے رکنے کی جگہ کہ جسے "مبروکہ" کہا جاتا تھا؛ کو مشخص کرکے اس سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔[9]

حضرت علیؑ کی جانشینی کا دفاع

ابوایوب انصاری نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد دیگر 11 اصحاب کے ساتھ حضرت علیؑ کی خلافت و جانشینی کے دفاع کیلئے آواز بلند کی۔[10] اس بنا پر ابن اثیر[11] انہیں امام علیؑ کے خاص اصحاب میں سے قرار دیتے ہیں۔

جامع قرآن

بخاری[12] نے ابو ایوب انصاری کو انصار کے ان پانچ افراد میں سے قرار دیا ہے کہ جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ہی قرآن کو جمع کر کے اسے مرتب کیا۔

جنگوں میں حصہ

ابو ایوب نے تمام غزوات منجملہ بدر و احد اور خندق میں حصہ لیا۔[13] ابو ایوب انصاری نے صرف ایک بار جنگ میں شرکت سے انکار کیا کہ جب مسلمانوں کی قیادت ایک جوان کے ہاتھوں سونپی گئی تھی۔ التہ بعد میں ہمیشہ اپنے اس عمل پر ندامت اور پشمانی کا اظہار کرتے تھے۔[14] تاریخی منابع کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سے انہیں ایک خاص قسم کا لگاؤ تھا اور آنحضورؐ کی اطاعت و فرمانبرداری میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔[15] ابن ہشام کی نقل کے مطابق[16] انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر مسجد نبوی سے ان منافقین کو نکال باہر کرنے میں پیش قدمی کی کہ جو مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ان میں سے بعض ان کے رشتہ دار بھی تھے۔ بعض روایات کے مطابق قرآن کی بعض آیات[17] میں حادثہ افک میں ابوایوب انصاری اور ان کی زوجہ کی مدح سرائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[18]

صحابہ کے امام جماعت

مخالفین کی جانب سے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیے جانے کے دوران مسلمان، ابو ایوب انصاری کی اقتداء میں با جماعت نماز ادا کرتے رہے[19] اور آپ منجملہ ان شہود میں سے تھے کہ جنہوں نے عثمان سے آئندہ کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کرنے کا عہد لیا تھا۔[20]

علیؑ کی بیعت اور حمایت

ابو ایوب انصاری، عثمان کے قتل کے بعد حضرت علیؑ کی بیعت کرنے والے اولین افراد میں سے تھے اور آپ نے انصار کو بھی اس کی ترغیب دلائی۔[21]

حضرت علیؑ کے ہمراہ جنگوں میں شرکت

ابو ایوب انصاری ان تمام جنگوں میں شریک تھے کہ جن میں حضرت علیؑ کو دشمن کے خلاف تلوار اٹھانی پڑی[22] البتہ ابن سعد نے صرف جنگ نہروان جبکہ[23] واقدی نے صفین کا ذکر کیا ہے۔[24] ان تمام جنگوں میں ابو ایوب انصاری کی بہادری کی سب نے تعریف کی ہے۔[25] حضرت علیؑ نے جنگ نہروان میں پیادہ فوج کی کمانڈ انہی کے سپرد فرمائی تھی اور جنگ شروع ہونے سے پہلے خوارج کو وعظ و نصیحت کر کے اتمام حجت کرنے کیلئے انہیں ہی بھیجا تھا۔[26] جب آپ سے پوچھا گیا: جلیل القدر صحابی ہو کر کس طرح حضرت علیؑ کے ہمرکاب ہو کر اہل قبلہ کے ساتھ جنگ کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: رسول خداؐ نے ہم سے یہ بیعت لی تھی کہ تم حضرت علیؑ کی معیت میں ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف جنگ کرو گے۔[27] آپ نے 35ھ میں ایک گروہ کے ساتھ کوفہ میں یہ گواہی دی کہ ہم نے پیغمبر اکرمؐ سے حدیث غدیر کو سنا ہے۔[28]

مدینہ کی گورنری

جنگ نہروان کے بعد حضرت علیؑ نے آپ کو مدینہ کا گورنر مقرر فرمایا[29] مگر جب سنہ 40 ہجری میں معاویہ کی طرف سے "بسر بن ابی ارطاۃ" کی قیادت میں 3000 جنگجوؤں نے مدینہ پر حملہ کیا تو ابو ایوب انصاری مدینہ کو چھوڑ کر عراق پہنچ گئے اور حضرت علیؑ سے جا ملے۔ بُسر نے مدینہ پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے گھر کو آگ لگا دی۔[30]

رومیوں کے خلاف جنگ میں شرکت

ابوایوب انصاری حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد ایک مرتبہ پھر محاذ جنگ پر گئے۔ طبری[31] کے مطابق یزید بن معاویہ نے سنہ 49 ہجری میں رومیوں کے خلاف جنگ کیلئے فوج روانہ کی تو ابو ایوب انصاری بڑھاپے کے باوجود اس جنگ میں شریک ہوئے۔

وفات

فائل:Eyüp Sultan.jpg
مسجد سلطان ایوب (استانبول) میں ابو ایوب انصاری کی آخری آرام گاہ

ابوایوب کی وفات سنہ 52ھ میں ہوئی۔ اس وقت قسطنطنیہ مسلمانوں کے محاصرے میں تھا۔[32] بعض روایات کے مطابق ان کی وفات سنہ50 یا 51 ھ میں واقع ہوئی ہے۔[33] ابوایوب نے احتضار کے وقت یزید سے جو اس کی عیادت کیلئے آیا تھا؛ یہ وصیت کی: میری وفات کے بعد میری لاش کو جہاں تک دشمن کے علاقے میں مسلمان فوج جا سکیں وہاں تک لے جاؤ اور وہیں پر دفن کر دو۔[34] اور روایت کے مطابق آپ نے کہا: میں نے پیغمبر خداؐ سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا "قسطنطنیہ" کی دیوار کے پاس ایک صالح اور نیک آدمی دفن ہوگا میری آرزو ہے کہ وہ میں ہی ہوں۔[35] ابوایوب انصاری کی وفات کے بعد یزید نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور شہر کی دیوار کے ساتھ انہیں دفن کردیا۔[36] اس کے بعد گھڑ سوارں کو ان کی قبر روند ڈالنے کا حکم دیا تاکہ دشمن ان کی قبر کو نہ پہچان سکیں۔[37]

ابو ایوب انصاری کی قبر کی ایک تصویر

ابوایوب کا مزار

ابن سعد[38] نے نقل کیا ہے کہ ابو ایوب انصاری کی قبر کا روم میں بہت احترام تھا اور بالخصوص خشکسالی کے ایام میں لوگ وہاں جا کر طلب باران کرتے تھے۔ابن عبدربہ[39] کے بقول بعد میں ان کی قبر پر ایک گنبد بھی تعمیر کیا گیا۔ اس کے بعد 857ھ/1453ء میں ترکی کی عثمانی سلطنت کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح تک ان کی قبر غیر معروف رہی۔ اس کے بعد ان کا مزار شمس الدین شیخ الاسلام کے ہاتھوں افسانوی انداز سے کشف ہوا۔ سنہ 863ھ/1458ء میں دوسرے عثمانی حکمران سلطان محمدنے مسجد (مسجد ایوب سلطان) کی بنیاد رکھی اور ابو ایوب انصاری کی قبر پر ایک بارگاہ تعمیر کی۔ اس کے بعد عثمانی سلطنت کے بہت سے بزرگان اس کے اطراف میں دفن ہوئے اور سلطنت عثمانی کے حکمران تخت نشین ہوتے وقت باقاعدہ طور پر ان کی قبروں پر حاضری دیتے تھے اور ایک خاص تقریب کے دوران بزرگوں سے وراثت میں ملنے والی تلوار جو شمشیر عثمانی کے نام سے معروف تھی؛ کو حمائل کرتے تھے۔[40]

ابوایوب کی روایات کے ناقلین

ان سے روایت نقل کرنے والوں میں ابن عباس، براء بن عازب، جابر بن سمرہ، مقدام بن معدی کرب، ابوامامہ باہلی، زید بن خالد جُہنی کے علاوہ بعض اور صحابہ شامل ہیں۔ بعض تابعین جیسے سعید بن مسیب، عروۃ بن زبیر اور عبداللہ بن حنین نے بھی ان سے حدیث کو سنا اور نقل کیا ہے۔ ابن سعد[41] اور مزّی[42] نے ان سے حدیث نقل کرنے والے راویوں کی ایک فہرست نقل کی ہے۔

ابو ایوب کی توثیق

ابوایوب کی اہل سنت کے تمام رجالیوں نے تعریف و تمجید کی ہے اور بعض نے ان کی توثیق بھی کی ہے[43] مگر علمائے شیعہ نے صرف ان کی تعریف پر اکتفا کیا ہے جبکہ توثیق نہیں کی ہے۔[44] یہاں تک کہ ابن داوود حلی[45] نے انہیں مہمل راویوں میں شمار کیا ہے۔ علیؑ کے حق خلاف کی پرزور حمایت کے باوجود شیعہ علمائے رجال کا ان کی جانب سے معاویہ اور یزید کی زیرقیادت مشرکین کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کی توجیہ میں اختلاف ہے۔فضل بن شاذان ان کے اس عمل کو اجتہادی خطا اور غفلت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ خلیفہ وقت سے راضی نہیں تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کی خاطر انہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا تھا۔[46] اس پر شاہد وہ مناظرات و مکالمات ہیں کہ جو ان کے اور معاویہ کے مابین وقوع پذیر ہوئے۔[47] تاہم آیت اللہ خوئی[48] نے اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے یہ احتمال دیا ہے کہ انہوں نے امام معصوم یعنی امام حسن مجتبیؑ کی اجازت سے یہ کام انجام دیا ہے۔

شاعری

ابوایوب انصاری کا شمار اپنے زمانے کے معروف شعرا میں کیا جاتا ہے۔[49] ان کی طرف شاعری کی نسبت شاید ان اشعار کی وجہ سے دی جاتی ہے جو انہوں نے جنگ صفین کے وقت اور بعد میں معاویہ بن ابی سفیان کے خطوط کے جواب میں کہے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص484؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج2، ص424۔
  2. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص484۔
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص484؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج2، ص80۔
  4. نصربن مزاحم، وقعہ صفّین، ص366 ۔
  5. نووی، تہذیب الأسماء و اللغات، ج1، ص177۔
  6. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص141؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص484۔
  7. بلاذری، فتوح البلدان، 20۔
  8. مسعودی، مروج الذہب، ج2، ص280۔
  9. یافعی، مرآۃ الجنان، ج1، ص124۔
  10. برقی، احمدبن محمد، الرجال، صص63، 66۔
  11. ابن اثیر، اسدالغابه، ج5، ص143۔
  12. بخاری، التاریخ الصغیر، ج1، ص66۔
  13. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص100۔
  14. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، 485۔
  15. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص144؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8، ص126۔
  16. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج2، ص175۔
  17. نور 24/12۔
  18. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج3، ص316؛ طبری، تاریخ، ج2، ص617۔
  19. طبری، تاریخ، ج4، ص423۔
  20. بلاذری، انساب، ج4، ص553۔
  21. یعقوبی، تاریخ، ج2، ص178۔
  22. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج2، ص425؛ ابن اثیر، الکامل، ج3، 459۔
  23. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج3، ص484۔
  24. ابن حبیب، المحیر، ص291۔
  25. مثلاً ابن اعثم، ج3، ص48-50۔
  26. دینوری، الاخبار الطوال، ص207، 210۔
  27. اسکافی، المعیار و الموازنہ، ص37؛ کشی، معرفہ الرجال، ج1، ص172-173؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، ج7، ص340؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ص2/410۔
  28. ابن اثیر، اسدالغابه، ج5، 6، ص205۔
  29. بلاذری، انساب، ج2، ص382۔
  30. طبری، تاریخ، ج5، ص139؛ ثقفی، الغارات، ج2، ص602-604۔
  31. طبری، تاریخ، ج5، ص232۔
  32. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص485؛ ابن عساکر، التاریخ الکبیر، ج5، ص37۔
  33. خلیفہ بن خیاط، الطبقات، ج1، ص202؛ مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص24۔
  34. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8، ص126۔
  35. ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج5، ص116۔
  36. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8، ص126۔
  37. ابن قتیبه، المعارف، ص274۔
  38. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8، ص126۔
  39. ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج5، ص116۔
  40. کانار، ص73؛ ایشلی، ص23-30۔
  41. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج3، ص484۔
  42. مزّی، تهذیب الکمال، ج8، ص67-68۔
  43. ابن حبان، کتاب الثقات، ج3، ص102؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج2، ص402؛ یافعی، مرآۃ الجنان، ج1، ص124۔
  44. ابن داوود، الرجال، ص392؛ علامہ حلی، ص65۔
  45. ابن داوود حلی، الرجال، ص137۔
  46. کشی، معرفۃ الرجال، ج1، ص177۔
  47. نصربن مزاحم، وقعہ صفّین، ص366۔
  48. آیت اللہ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج7، ص24۔
  49. امین، اعیان الشیعہ، ج6، ص238۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبہ اللـہ، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1960ء۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ، تہران، 1377ھ۔
  • ہمو، الکامل؛ ابن اعثم، احمد، کتاب الفتوح، حیدرآباد دکن، 1390ھ/1970ء۔
  • ابن حبان، محمد، کتاب الثقات، حیدرآباد دکن، 1397ھ/1977ء۔
  • ابن حبیب، محمد، المحیر، بہ کوشش ا. لیختن اشتتر، حیدرآباد دکن، 1361ھ/1942ء۔
  • ابن داوود حلی، حسن بن علی، الرجال، بہ کوشش جلال الدین محدّث، تہران، 1342شمسی۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللـہ، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، مکتبہ النہضہ‍۔
  • ابن عبدربہ، احمدبن محمد، العقد الفرید، بہ کوشش عبدالمجید الترحینی، بیروت، 1404ھ/1983ء۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، التاریخ الکبیر، بہ کوشش عبدالقادر افندی بدران، دمشق، 1332ھ۔
  • ابن قتیبہ، عبداللـہ بن مسلم، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، 1960ء۔
  • ابن منظور، محمدبن مکرم، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، بہ کوش احمد رایت حمّوش و محمد نساجی العمر، دمشق، 1404ھ/1984ء۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، 1375ھ/1955ء۔
  • اسکافی، محمدبن عبداللـہ، المعیار و الموازنہ، بہ کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، 1402ھ/1981ء۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، 1403ھ۔
  • بخاری، محمدبن اسماعیل، التاریخ الصغیر، بہ کوشش محمود ابراہیم زاید، بیروت، 1406ھ۔
  • برقی، احمدبن محمد، الرجال، بہ کوشش جلال الدین محدّث، تہران، 1342شمسی۔
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، ج2، بہ کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، 1394ھ/1974ء۔
  • ہمو، ہمان، ج4، بہ کوشش احسان عباس، بیروت، 1400ھ/1979ء۔
  • ہمو، فتوح البلدان، بہ کوشش رضوان محمد رضوان، بیروت، 1398ھ/1978ء۔
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، بہ کوشش جلال الدین محدّث، تہران، 1353شمسی۔
  • حلبی، علی ابن برہان الدین، السیرہ الحلبیہ، بیروت، مکتبہ الاسلامیہ۔
  • خطیب بغدادی، احمدبن علی، الرحلہ فی طلب الحدیث، بہ کوشش نورالدین عتر، دمشق، 1395ھ۔
  • خلیفہ بن خیاط، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، 1966ء۔
  • خوئی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، 1403ھ۔
  • دینوری، احمدبن داوود، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبدالمنعم عامر و جمال الدین شیال، قاہرہ، 1379ھ/1959ء۔
  • ذہبی، محمدبن احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط، بیروت، 1405ھ/1985ء۔
  • طبری، تاریخ؛ علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال، بہ کوشش محمدصادق بحرالعلوم، نجف، 1381ھ/1961ء۔
  • قرآن مجید۔
  • کشی، محمد، معرفہ الرجال، اختیار طوسی، شرح میرداماد استرابادی، قم، 1404ھ۔
  • مزی، یوسف بن عبدالرحمن، تہذیب الکمال، بہ کوشش بشار عوّاد معروف، بیروت، 1407ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، بہ کوشش یوسف اسعد داغر، بیروت، 1965ء۔
  • نصربن مزاحم، وقعہ صفّین، بہ کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، 1382ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، تہذیب الأسماء و اللغات، قاہرہ، ادارہ الطباعہ المنیریہ۔
  • یافعی، عبداللـہ بن اسعد، مرآہ الجنان، حیدرآباد دکن، 1338ھ۔
  • یعقوبی، احمدبن ابی یعقوب، تاریخ، بیروت، 1379ھ/1960ء۔

بیرونی روابط