ہانی بن عروہ

ویکی شیعہ سے
ہانی بن عروہ
کوفہ میں ہانی بن عروہ کا مزار
کوفہ میں ہانی بن عروہ کا مزار
کوائف
نام:ہانی بن عروہ بن غزان مرادی
نسبقبیلہ مذحج کے بنی مراد طائفہ کا سردار اور سربراہ
مشہور اقاربیحیی بن ہانی بن عروہ
مقام سکونتکوفہ
شہادت9 ذی الحجہ، سنہ 60 ہجری
شہادت کی کیفیتابن زیاد کے حکم سے
مقام دفنحرم امام حسینؑ
اصحابامام علی،امام حسن اور امام حسین
سماجی خدماتجنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علیؑ کے رکاب میں • یزید کے ولیعہد بنے کی مخالفت • حجر بن عدی کا زیاد بن ابیہ کے خلاف قیام کی حمایت • کوفہ میں مسلم بن عقیل کی حمایت


ہانی بن عروہ بن غزان مرادی (شہادت :9 ذی الحجہ، سنہ 60ھ)، امام علیؑ کے خاص دوست اور کوفہ کی بڑی شخصیات میں سے تھے. آپ جنگ جمل اور جنگ صفین دونوں میں شرکت کی. حجر بن عدی نے جب زیاد بن ابیہ کے خلاف قیام کیا تو اس کا ایک رکن ہانی بھی تھا اور یزید کی بیعت کرنے کے خلاف تھا. عبیداللہ بن زیاد کے کوفہ داخل ہونے کے وقت ہانی کا گھر سیاسی اور فوجی شخصیات کے امور کا مرکز تھا، مسلم بن عقیل کے قیام میں آپ کا اہم کردار تھا. 8 ذی الحجہ سنہ 60ھ، کو مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد، عبیداللہ بن زیاد کے حکم سے آپ کا سر بدن سے جدا کیا گیا. آپ کی شہادت کی خبر امام حسینؑ کو کوفہ کے راستے میں زرود کے مقام پر ملی. امامؑ نے اس کی موت پر گریہ کیا اور آیت استرجاع کی تلاوت کی اور آپ کے لئے خدا سے رحمت کی درخواست کی. ہانی کو کوفہ میں دارالامارہ کے ساتھ دفن کیا گیا اور اب بھی اہل تشیع آپ کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہیں.

خاندان اور شخصیت

ہانی بن عروہ امام علیؑ کا مخلص شیعہ [1] اور آپؑ کا خاص صحابی تھا. [2] آپ کا تعلق بنی مراد کے مشہور خاندان، مذحج [3]، شیخ اور زعیم بنی مراد کے قبیلے سے تھا[4]، آپ اہل کوفہ کی نظر میں جانی پہچانی اور مشہور شخصیت تھے.[5] ہانی کا بیٹا، یحیی، اہل سنت کی نگاہ میں ایک محدث اور راوی کی حیثیت رکھتا ہے. [6]

ہانی کی زندگی، مسلم کے کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے

مسلم بن عقیل کے کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے، ہانی کا واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے سفیر ہونے کے حوالے سے کوئی خاص اطلاع موجود نہیں ہے. آپ جنگ جمل [7] اور صفین[8] میں حاضر تھے اور جنگ صفین میں امام علیؑ نے آپ سے مشورہ لیا تھا. جب امامؑ نے، اشعث بن قیس کو دو قبیلوں ربیعہ اور کںدہ کی حکومت سے برکنار کیا تو ہانی نے امامؑ کو رائے دی کہ اشعث کی جگہ کسی اور کو ان دوقبیلوں کی حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے. [9] ہانی بن عروہ اپنے قبیلے کے لئے متعصب تھا، جب کثیر بن شھاب مذحجی، خراسان کے والی، پر مشکل پڑھی اور وہ بھاگ کر کوفہ آ گیا تو ہانی نے اسے پناہ دی اور اس وجہ سے معاویہ نے آپ پر اعتراض کیا. [10] جب معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کے لئے، کوفہ کے لوگوں سے بیعت لی تو ہانی نے مخالفت کی اور معاویہ کے اس کام پر تعجب کیا اور یزید کی بری خصوصیات کو بتایا. [11] حجر بن عدی نے جب زیاد بن ابیہ کے خلاف قیام کیا تو اس کا ایک رکن ہانی تھا. [12]

مسلم بن عقیل کے قیام میں ہانی کا کردار

مسلم بن عقیل، کو جب عبیداللہ کی دھمکی اور اس کی کوفہ میں آمد کی خبر ملی تو آپ مختار بن ابوعبید ثقفی کے گھر سے نکل کر ہانی بن عروہ کے گھر چلے گئے.[13] ایک قول کے مطابق ہانی خوش نہیں تھا کہ مسلم اس کے گھر داخل ہوں، لیکن مسلم کے داخل ہونے کے بعد، اپنے تمام توان سے آپ کا دفاع کیا. [14] ہانی کا گھر اس لئے انتخاب کیا کیونکہ یہ مختار کے گھر سے زیادہ بااطمینان تھا. عبیداللہ کے کوفہ میں داخل ہوتے وقت ہانی کا گھر سیاسی اور نظامی شخصیات کا مرکز تھا اور آپ کے گھر میں اہل تشیع کی آمد رفت لگی رہتی تھی. [15] شریک بن الاعور، جو کہ امام علیؑ کے خاص دوست[16]اور بصرہ کے شیعہ تھے وہ عبیداللہ کے ہمراہ کوفہ میں آئے تھے، اور بیمار ہو گئے اور ہانی کیونکہ آپ کا دوست تھا اس لئے اس کے گھر پر تشریف لے آئے. [17] اور ہانی کو مسلم کی مدد کرنے کو کہا اور ہانی کے گھر پر ہی عبیداللہ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا[18] اور اسی لئے عبیداللہ اس کی عیادت کے لئے ہانی کے گھر آیا.[19] بہرحال، اس وجہ سے کہ ہانی راضی نہیں تھا کہ اس کا مہمان اس کے گھر پر قتل ہو، یہ نقشہ عملی نہ ہو سکا. [20]

گرفتاری اور شہادت

ہانی کی ضریح

عبیداللہ بن زیاد نے اپنے ایک شامی غلام کو حکم دیا کہ وہ ہانی کے گھر پر نظر رکھے. [21]اور کیونکہ ہانی ابن زیاد کو ملنے نہیں گیا تھا، اس نے ہوشیاری سے محمد بن اشعث، اسماء بن خارجہ[22] اور عمروبن حجاج زبیدی[23] جو کہ ہانی کے دوست اور خاندان سے تھے ان کے واسطے ہانی کو دارالامارہ لایا گیا اس طرح ہانی کو مسلم بن عقیل سے دور کیا گیا جس کی وجہ سے مسلم بن عقیل کے قیام کو شکست حاصل ہوئی. اور جب ہانی مسلم بن عقیل کو عبیداللہ کے سامنے تسلیم کرنے کے لئے حاضر نہ ہوا تو ہانی پر بہت ظلم کئے گئے آپ کے ناک کو توڑ کر قید میں ڈال دیا گیا. [24] مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد، ہانی کے ہاتھوں کو باندھ کر قصائیوں کے بازار میں لے گئے اور عبیداللہ بن زیادہ کے حکم سے، عبیداللہ کے غلام رشید نے، آپ کا سر بدن سے جدا کیا. [25] ہانی کی تاریخِ شہادت کا تاریخی منابع میں کہیں اشارہ نہیں ہوا ہے لیکن مسلم بن عقیل کی شہادت 9 ذی الحجہ کو واقع ہوئی ہے۔[26] مسعودی کے قول کے مطابق[27] ہانی جب بنی مراد کے قبیلے کو مدد کے پکارتا تھا تو ٤٠٠٠ زرہ پوش گھوڑا سوار مرد اور ٨٠٠٠ فوجی پیدل اس کے ساتھ چلتے تھے اور اگر اپنے قبیلے والوں کو دعوت دیتا تھا تو ٣٠٠٠٠ زرہ پوش فوجی آپ کے ساتھ ہوتے تھے، لیکن جب آپ قتل گاہ کی طرف جا رہے تھے تو کسی نے بھی مدد نہ کی.[28] امام علیؑ نے ہانی کے موت کے بارے میں پہلے سے بتایا تھا. [29] عبیداللہ بن زیادہ نے مسلم اور ہانی کے سروں کو، ہانی بن ابی حیہ ہمدانی اور زبیر بن اروج تمیمی کے ہاتھوں یزید کے پاس بھیجا. [30] اور آپ دونوں کے بدن مبارک کو کناسہ کے بازار میں گھسیٹا گیا [31] اور پھر لٹکایا گیا. [32]

ہانی کی شہادت پر امام حسینؑ کا رد عمل

ہانی اور مسلم کی شہادت کی خبر کوفہ کے راستے میں، ثعلبیہ[33] یا زرود[34] یا قادسیہ[35]یا قطقطانہ[36]، کے مقام پر امام حسینؑ کو ملی. امامؑ نے دونوں کی موت پر گریہ کیا اور آیت استرجاع کی تلاوت فرمائی اور کئی مرتبہ خداوند سے آپ دونوں کے لئے رحمت کی درخواست کی. [37] عبداللہ بن زبیر اسدی، نے اپنے شعر کے مصرے میں، ان دونوں کی شہادت کی توصیف کی ہے. [38]

مزار

ہانی کو کوفہ میں دارالامارہ کے کنارے دفن کیا گیا. اب آپ کا مزار مسجد کوفہ سے ملا ہوا اور مسلم بن عقیل کی قبر کے پیچھے اور آپ کے شمال کی طرف واقع ہے. [39] ہانی بن عروہ کی قبر اس وقت اہل تشیع کی زیارت گاہ ہے. اور ہانی کے لئے مخصوص زیارت نامہ ہے جس میں آپکو عبدصالح، اور امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا صحابی کہا گیا ہے. [40]

نوٹ

حوالہ جات

  1. امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۳۴۴.
  2. طوسی، رجال، ص۸۵
  3. ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج۳، ص۳۶۳؛ ابن حزم اندلسی، جمہرةالانساب العرب، ص۴۰۶
  4. تستری، قاموس الرجال، ج۱۰، ص۴۹۰
  5. بن قتیبہ، الامامہ والسیاسہ، ج۲، ص۴.
  6. بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۳۳۰؛ ذہبی، ج۸، ص۳۰۲؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۱۵؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۶، ص۱۸۸.
  7. ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ج۵، ص۴۰.
  8. ابن مزاحم،وقعة الصفین، ص۱۳۷
  9. ابن مزاحم،وقعة الصفین، ص۱۳۷.
  10. زرکلی، الاعلام، ج۸، ص۶۸.
  11. بوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج۲، ص۳۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۸، ص۴۰۷؛ تستری، قاموس الرجال، ج۱۰، ص۴۹۱.
  12. بلاذری،انساب الاشراف، ج۵، ص۲۵۵.
  13. رجوع کنید بہ بلاذری،انساب الاشراف، ج۲، ص۳۳۶؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۳۳؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۶۲؛ ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ج۵، ص۴۰؛ مسعودی، مروج، ج۳، ص۲۵۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۳۸؛ مقدسی،البدء و التاریخ، ج۶، ص۹.
  14. طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۶۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۵.
  15. رجوع کنید بہ دینوری، الاخبار الطوال ص۲۳۳؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۹۷۹۸.
  16. ثقفی،الغارات، ج۲، ص۷۹۳.
  17. رجوع کنید بہ ثقفی،الغارات، ج۲، ص۷۹۳-۷۹۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۳۷؛ دینوری،الاخبار الطوال، ص۳۳۳-۳۳۴.
  18. بلاذری، انساب الاشراف، ج۵، ص۲۵۵؛ دینوری،الاخبار الطوال، ص۲۳۴-۲۳۵؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۶۳؛ ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ج۵، ص۴۲-۴۳؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۹۸-۹۹.
  19. بلاذری، انساب الاشراف، ج۵، ص۲۵۵؛ ابن قتیبہ، الامامة والسیاسة، ج۲، ص۴؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳؛ قس طبری، ج۵، ص۳۶۳، کہ گفتہ است عمارة بن عبید سلولی پیشنہاد دہندہ بود.
  20. بلاذری، انساب الاشراف، ج۵، ص۲۵۵؛ دینوری،الاخبار الطوال، ص۲۳۴-۲۳۵؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۶۳؛ ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ج۵، ص۴۲-۴۳؛ قس ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۹۹، کہ نوشتہ است ہمسر ہانی موافق نبود.
  21. رجوع کنید بہ بلاذری، ج۲، ص۳۳۶-۳۳۷؛ دینوری، ص۲۳۵-۲۳۶؛ طبری، ج۵، ص۳۴۸، ۳۶۲؛ ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۴۱-۴۲؛ مفید، ص۴۵-۴۶.
  22. دینوری، ص۲۳۶
  23. طبری، ج۵، ص۳۴۹؛ ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۴۵؛ ابن اثیر، ج۴، ص۲۸؛ طبرسی، ج۱، ص۴۴۰.
  24. رجوع کنید بہ دینوری، ص۲۳۷۲۳۸؛ طبری، ج۵، ص۳۶۵-۳۶۷؛ مسعودی، ج۲، ص۲۵۲؛ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۴۶-۴۷.
  25. ابن سعد، ج۵، ص۱۲۲؛ طبری، ج۵، ص۳۶۵۳۶۷؛ ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۶۱؛ طبرسی، ج۱، ص۴۴۴.
  26. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۶.
  27. مسعودی، ج۳، ص۲۵۵.
  28. ابن اعثم کوفی، ج۵، ص۶۱؛ طبری، ج۵، ص۳۶۷؛ تستری، ج۱۰، ص۴۹۳.
  29. امین، ج۷، ص۷.
  30. بلاذری، ج۲، ص۳۴۱۳۴۲؛ دینوری، ص۲۴۰-۲۴۱؛ طبری، ج۵، ص۳۸۰.
  31. ابن کثیر، ج۸، ص۱۵۷.
  32. ابن خلدون، ج۳، ص۲۹.
  33. ابن اثیر، ج۴، ص۴۲
  34. دینوری، ص۲۴۰۲۴۱
  35. مسعودی، ج۳، ص۲۵۶.
  36. یعقوبی، ج۲، ص۲۴۳.
  37. رجوع کنید بہ دینوری، ص۲۴۰۲۴۱؛ طبری، ج۵، ص۳۸۰.
  38. بلاذری، ج۲، ص۳۴۰؛ ابن سعد، ج۲، ص۴۲؛ مقدسی، ج۶، ص۹؛ ابوالفرج اصفہانی، ص۱۰۸؛ قس ابن حبیب، ص۲۴۵، کہ اسم شاعر را عبدالرحمان بن زبیر اسدی بیان کردہ است؛ ابن طقطقی، ص۱۱۴، نیز اسم شاعر را فرزدق ذکر کردہ است.
  39. براقی نجفی، ص۸۴
  40. رجوع کنید بہ قمی، ذیل زیارت ہانی بن عروہ».

مآخذ

  • ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ ۱۳۸۵ ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ ۱۹۹۷.
  • ابن اثیر، اسدالغابہ فی معرفةالصحابہ، قاہرہ ۱۲۸۰ ۱۳۸۶، چاپ افست بیروت.
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت ۱۳۸۵ ۱۳۸۶/ ۱۹۶۵ ۱۹۶۶.
  • ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/ ۱۹۹۱.
  • ابن حبیب، المحبر، چاپ ایلزہ لیختن شتیتر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱.
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییزالصحابہ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمہرةالانساب العرب، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن خلدون، کتاب العبر و دیوان المبتداء و الخبر، بیروت ۱۳۹۱/ ۱۹۷۱.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، چاپ احسان عباس، بیروت ۱۹۶۸-۱۹۷۷
  • محمدبن علی ابن-طقطقی، الفخری فی الآداب السلطانیہ و الدول الاسلامیہ، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
  • ابن عبدربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاح‍ی‍اءال‍ت‍راث‌‌ال‍ع‍رب‍ی‌، ۱۴۱۱/ ۱۹۹۰.
  • ابن قتیبہ دینوری، الامامة والسیاسة، چاپ طہ محمد زینی، قاہرہ ۱۳۷۸/ ۱۹۶۷.
  • ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، بیروت، مکتبة المعارف.
  • نصر ابن مزاحم منقری، وقعة الصفین، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، ۱۴۰۴.
  • ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، چاپ ابوالقاسم امامی، ۱۳۶۶ش/ ۱۹۸۷.
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، چاپ سیداحمد صقر، قاہرہ ۱۳۶۸/ ۱۹۴۹.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق سید حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
  • حسین بن احمد نراقی، تاریخ الکوفہ، چاپ محمدصادق بحر العلوم، بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷.
  • احمدبن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، چاپ زکار.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، ق‍م‌، ج‍م‍اع‍ہ‌‌ال‍م‍درس‍ی‍ن‌ ب‍ق‍م‌ م‍وس‍س‍ہ‌‌ال‍ن‍ش‍ر‌الاس‍لام‍ی‌‏‫، بی‌تا.
  • ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، چاپ میرجلال الدین حسینی ارموی.
  • احمدبن داود دینوری، الاخبار الطوال، چاپ عبدالمنعم عامر، قاہرہ ۱۹۶۰.
  • دہخدا، لغت نامہ.
  • محمدبن احمد ذہبی، تاریخ الاسلام و وفی‌ات المشاہیر والاعلام، حوادث و وفی‌ات ۱۲۱ ۱۴۰ ہ، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت ۱۴۰۷.
  • زرکلی، الاعلام، بیروت.
  • فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری بہ اعلام الہدی، چاپ مؤسسہ آل البیت.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۰ق.
  • طبری، تاریخ (بیروت).
  • کفعمی، ابراہیم بن علی عاملی،المصباح للکفعمی(جنة الأمان الواقیة)،‌دارالرضی(زاہدی)، قم،۱۴۰۵ ق، چاپ دوم
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان.
  • قمی، شیخ عباس، متہی الامال، تحقیق ناصر باقری بیدہندی، قم، انتشارات دلیل، ۱۳۷۹، چاپ اول.
  • مجلسی، بحارالانوار، تحقیق: سید ابراہیم میانجی، محمد باقر بہبودی، ۱۴۰۳ق، بی جا.
  • مسعودی، مروج (بیروت).
  • مفید، محمدبن محمد، الارشاد، قم ۱۴۱۳.
  • مطہربن طاہر مقدسی، البدء و التاریخ، چاپ ارنست لروصحاف، ۱۸۹۹.
  • یعقوبی، تاریخ (بیروت).

[[زمرہ: