یمن

ویکی شیعہ سے
یمن
عام معلومات
کل آبادی26.5 میلین افراد (۲۰۱۴ء) [1]
رقبہ536.869 مربع کیلومیٹر
حکومتجمہوری
دار الحکومتصنعا
اہم شہرمأرب، صعدہ، عَدَن
ادیاناسلام (99 فیصد)، دیگر ادیان (1 فیصد)
سرکاری زبانعربی
اسلام
اسلامی پس منظرپیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے
مسلم آبادی26 میلین
شیعوں کی تعداد
ملکی آبادی کے تناسب سے فیصد30 فیصد (اکثراً زیدیہ اور 2 سے 8 فیصد امامیہ)
تشیع کی تاریخ
حکومتیںزیدیہ
پارٹیاں اور شیعہ گروہ
پارٹیاںجنبش انصاراللہ یمن ، حزب الحق
فرقےزیدیہ، اسماعیلیہ، امامیہ
شیعہ مراکز
تربیتی انسٹی ٹیوٹرابطۃ الشیعۃ جعفریۃ فی الیمن
سماجی انسٹی ٹیوٹالمجمع الاسلامی الیمنی الشیعی، نبأ ویلفر فونڈیشن
شیعہ شخصیات
مذہبیحجر بن عدی، عمرو بن حمق خزاعی
سیاسیالسید حمود عباس المؤید، بدرالدین الحوثی


یمن، براعظم ایشیا کا ایک ملک ہے جو جزیرہ عرب کے جنوب میں واقع ہے۔ اسلام اور تشیع میں اس کی بڑی قدمت ہے۔ یمن وہ واحد ملک ہے جو کسی جنگ کے بغیر پیغمبر اسلام کی طرف سے بھیجے گئے نمائندے، امام علی(ع) کے سامنے تسلیم ہوا اور اسلام قبول کیا۔ واقعہ سقیفہ کے بعد شیعوں کو مضبوط بنانے اور عثمان بن عفان کے قتل کے بعد امام علی علیہ السلام کو خلافت کی دعوت دینے میں یمن کے مسلمانوں کا کردار تھا۔ یمن کے لوگ معاویہ کے سرسخت مخالف تھے اور عاشورا کے سانحے میں بھی یمن کے چند مسلمان امام حسین(ع) کی دفاع کے لئے حاضر تھے۔ 280 ہجری سے زیدی شیعوں نے یمن میں حکومت تشکیل دیا اور اس دور سے یمن زیدیوں کا مرکز شمار ہوتا ہے۔

آج کل یمن کے شیعوں کو سلفیوں (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سعودی عربیہ ان کی حمایت کرتی ہے) کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔ یمن کے شیعوں کا مرکزی حکومت سے بھی رابطہ ٹھیک نہیں تھا۔ نوے کی دہائی کے آواخر میں یمن کے شیعوں نے اس ملک میں آنے والی تبدیلوں میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوششوں میں تیزی لانا شروع کیا اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں سے اکثر تحریکیں شیعوں کے ذریعے ہی چلائی گئی ہیں۔ حوثی‌ یمین میں شیعوں کا سب سے اہم گروہ ہے۔

2015 میں یمن میں پیش آنے والی مسلسل حوادث کے بعد جو اس ملک کے مستعفی صدر منصور ہادی کو اس ملک سے فرار ہونے اور حوثیوں کے مضبوط ہونے کا باعث بنی، سعودی عرب نے امریکہ سمیت بعض مغربی اور اکثر عرب ممالک کی حمایت سے طویل المیعاد انتہائی خطرناک ہوائی حملے شروع کئے جس کے نتیجے میں اب تک بہت سارے شہری مارے جا چکے ہیں۔

یمن کا حدود اربعہ

یمن ایک ایسا ملک ہے جس کے شمال میں سعودی عرب، مشرق میں عمان، جنوب میں خلیج عدن اور مغرب میں بحیرہ احمر ہے۔ اور اس ملک کا کل رقبہ تقریبا ۵۳۶/۸۶۹ مربع کلومیٹر ہے۔

اہم شہر

یمن کے صوبوں کا نقشہ

یمن میں بہت سارے تاریخی اور اہم شہر پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض اہم شہر مندرجہ ذیل ہیں:

  • صنعا: اسی نام کے ایک صوبے کا مرکز اور دینا کے قدیمی ترین دار الخلافوں میں سے ایک ہے اور یہ شہر جمہوریہ یمن کا سیاسی اور تجارتی مرکز کہلاتا ہے اور صنعا حضرت عیسی(ع) کے دور سے اسی نام سے مشہور ہے۔
قصر دار الحجر(صنعا کے قریب بارہویں صدی میں حاکم یمن کا گرمیوں میں رہنے کا محل)
  • مأرب: قدیم یمن کا مشہور شہر ہے جو صنعا کے مشرق میں واقع ہے اور «سبا» حکومتوں اور ملکہ سبا «بلقیس» کا قدیمی دار الخلافہ تھا۔ مأرب وہی ملک سبا ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی ذکر کیا ہے اور وہاں کے باسیوں پر سیل عرم کا عذاب نازل کیا۔
  • صعده: یہ شہر صوبہ صعدہ کا مرکز ہے اور ان مراکز میں سے ایک کہ جن کا اسلامی دور میں بڑا کردار رہا ہے۔ یہ شہر مکہ جانے والے حاجیوں اور تاجروں کے رہنے کی جگہ شمار ہوتی تھی ۔ اس علاقے کا قدیمی شہر جو ایک دیوار سے احاطہ کیا ہوا ہے امام الہادی (یمن کے زیدیوں کا پہلا امام) کی حکومت کا مرکز تھا اور اسی نام سے اس شہر میں ایک مسجد بھی دیکھی جاسکتی ہے جو صنعا کے شمال میں 243 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایسی عمارتیں پائی جاتی ہیں جن کی دیواریں سالہا سال پہلے مٹی سے بنائی گئی ہیں اور اب تک باقی ہیں اوراس شہر میں بھی تاریخی اور آثار قدیمہ کے بہت سارے آثار پائے جاتے ہیں۔
  • شبوه: یمن کے قدیمی شہروں میں سے ایک ہے۔ شبوہ چونکہ حضرموت کی حکومت کا مرکز رہا ہے اس لئے قدیم تاریخ تمدن میں اس کی بڑی حیثیت ہے۔
  • ذَمار: یہ شہر اپنی منفرد معماری اور اسلامی مدارس کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس شہر کے مکانات کالے زینتی پتھروں سے بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان کالے پتھروں کو بڑے اچھے انداز میں استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے شہر کے مکانوں کی دیواریں بڑی خوبصورت لگتی ہیں۔ اس شہر کا مدرسہ الشمسیہ کے بہت سارے فارغ التحصیل تھے۔
  • عَدَن: یہ شہر صوبہ عدن کا مرکز ہے اور یمن کا اقتصادی اور تجارتی مرکز شمار ہوتا ہے۔ عدن ایک ایسا قدیمی شہر ہے جس نے بہت سارے تاریخی حوادث دیکھے ہیں۔ یہ شہر یمن کا اسٹراٹیجیک شہر بھی کہلاتا ہے اور آج کل بحر عرب اور بحر ہند کا سب سے اہم قدرتی راستہ اور بحیرہ احمر جانے کے لئے بھی اہم راستہ ہے۔
  • سیئون: یہ شہر حضرموت صوبے میں واقع ہے اور یمن کے قدیمی شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس شہر کو قوم عاد کے رہنے کی جگہ بھی کہا گیا ہے۔ قوم عاد کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام سے منسوب آرامگاہ بھی اسی شہر میں واقع ہے۔

الحوطہ، مَحویت، مُکَلّا، الشحر، بیضاء، یاریم ۔ ظفار، حمام دمت، إب، جبلہ، تعز، الغیضہ، حدیدہ، مَہرہ، حجہ و حضرموت یمن کے دوسرے شہر اور صوبے ہیں۔

نسلیں اور قومیں

یمن کے لوگ سامی اور قحطانی قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ قحطانی عربوں کی اصل ہے جس کی طرف عربوں کو نسبت دی جاتی ہے۔ شمالی علاقے میں رہنے والے عرب ہیں جبکہ جنوبی علاقوں میں سالہا پہلے سے ہندوستان، پاکستان، سومالی، اریٹریا اور ایتھوپیا وغیرہ سے ہجرت کر کے آنے والی اقلیتی قومیں آباد ہیں۔

یمنی معاشرے کی ساخت

یمین میں قبایلی نظام حاکم ہے۔ عربی انکی سرکاری زبان ہے اور اسی زبان میں ہی لکھتے ہیں۔

جدید یمن

بیسویں صدی کے پہلے نصف صدی تک یمن میں زیدیوں کی حکومت تھی اور پورے ملک میں ایک وااحد نظام حاکم تھی۔ لیکن 1962 کو یمن کے فوجی افیسروں نے امام محمد بدر کے خلاف بغاوت کر کے جمہوری نظام قائم کئے۔ اس سے یمن میں خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں ایک فریق جمہوریت پسندوں کا تھا تو دوسرا فریق قدرت طلبوں کا تھا۔ اس کشمکش کے نتیجے میں یہ ملک، شمالی یمن اور جنوبی یمن میں تقسیم ہوگیا اور 30 نومبر 1967 کو یمن کے جنوبی حصے میں عوامی جمہوریہ یمن وجود میں آگئی۔ یمن میں یہ تقسیم بندی باقی تھی یہاں تک کہ بیسویں صدی کی اسّی کی دہائی میں دونوں یمن کے درمیان اتحاد کیلیے مذاکرات ہوئی جس کے نتیجے میں 22 مئی 1990 کو عربی جمہوریہ یمن (شمالی یمن) اور عوامی جمہوریہ یمن (جنوبی یمن) کے اتحاد سے جمہوریہ یمن وجود میں آگئی۔[2]

علی عبدالله صالح جو ۱۹۷۸ سے ۱۹۹۰ تک شمالی یمن کے صدر تھے، شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد بھی صدر رہے اور 1990 سے 2011 تک اسی عہدے پر باقی رہے۔ اس کی حکومت کا دورانیہ بہت لمبا تھا اور آخرکار اسلامی بیداری کی تحریک میں اسے حکومت سے بر طرف ہونا پڑا۔[3]

علی عبداللہ صالح کی معزولی کے بعد یمن کی حکومت نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئی اور عوام پھر سے مظاہرے کرنے لگے۔ اور یہ مظاہرے جو کہ یمنی حوثیوں کی سرپرستی میں ہوتے تھے 2014 کی گرمیوں میں اپنی عروج پر پہنچے۔ ان تحریکوں میں عوام کے تین بنیادی مطالبات تھے " فاسد حکومت کا خاتمہ، انرژی آزاد ہونے کے حکم کو لغو کرنا اور قومی مذاکراتی کانفرنس کے نتایج کو عملیاتی کرنا"۔ آخرکار حوثیوں نے دارالخلافہ صنعا کے بعض علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد حکومت کو مذاکراتی میز پر آنے پر مجبور کردیا۔

مارچ 2015 کو یمن میں خانہ جنگی کے علاقے

اقوام متحدہ کے ایلچی جمال بن عمر کی نگرانی میں یمن کے صدر اور انصار اللہ کے رہبروں کے درمیان 20 ستمبر 2014 کو موجودہ بحران کے حل کیلیے موافقت ہوگئی اور اس توافق کے نتیجے میں «باسندوه» کی حکومت ختم ہوگئی اور انصار اللہ یمن کے سیاسی میدان میں وارد ہونے کے بعد اس ملک کی نئی حکومت تشکیل پائی جس کی ریاست خالد بحاح کے ذمے تھی۔ لیکن حالات ایسے پیش آئے جس کی وجہ سے خالد بحاح نے وزارت عظمی کے عہدے سے استعفی دیا اور منصور ہادی بھی عدن سے صنعا چلا گیا۔ اور منصور ہادی کی اس حرکت پر حوثیوں نے عکس العمل دکھایا اور آخر کار منصور ہادی سعودی عرب بھاگ گیا۔

سعودی عرب کا حملہ

26 مارچ 2015 جمعرات کی صبح سعودی عرب نے یمن کے مستعفی صدر کی حمایت اور یمن میں انصار اللہ کی بڑتی ہوئی قدرت سے اپنے لئے لاحق خطرے کو بہانہ بنا کر اس ملک پر حملہ کیا۔[4] سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی ہوائی، دریایی اور زمینی حملوں نے یمن کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کر اور یمن کو ویرانے میں تبدیل کردیا۔

  • سعودی عرب کے حملے میں یمن کے نقصانات کے اعداد و شمار

سعوی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی یلغار کے نقصانات 26 مارج 2015 سے 19 جنوری 2016ء تک مندرجہ ذیل ہیں:

عمومی نقصانات:

615 مساجد ۳۲۵۱۳۷ گھر، ۲۳۸ صحت کے مراکز، ۵۶۹ سکول اور ادارے، ۳۹ یونیورسیٹیاں اور ۱۶ میڈیا ادارے حملوں کی زد میں آگئے۔

انفراسٹرکچر نقصانات:

۱۴ ائیرپورٹ، ۱۰ بندرگاہ، ۵۱۲ پل اور سڑکیں، ۱۲۵ بجلی کے ترسیلاتی ادارے، ۱۶۴ آبی ذخایر، ۱۶۷ مواصلاتی ادارے ہدف قرار پائے۔

درآمداتی اداروں کے نقصانات:

۱۲۵ پولٹری فارم، سات غلہ کے انبار، ۴۲ گرونڈ، ۱۹۰ کارخانے، ۱۱۹ سیاحتی مراکز، ۵۹ تاریخی اور قدیمی مراکز، ۲۳۸ پیٹرول پمپ، ۱۷۵ تیل کے ٹینکرز، ۴۰۹ غذائی اشیاء بردار گاڑیاں، ۳۵۳ تجارتی مراکز اور بازار، ۵۴۶ غذائی انبار اور ۹۷۰ حکومتی ادارے مورد حملہ قرار پائے۔

عام شہری ہلاکتیں:

ہلاکتوں کی تعداد: ۴۶۲۸ مرد، ۱۵۱۹ عورتیں،۱۹۹۶ بچے مرنے والوں کی مجموعی تعداد: ۸۱۴۳ عام شہری مارے گئے۔

زخمیوں کی تعداد: سعودی عرب کے تجاوز کے تین سو دنوں میں یمن ۱۱۸۲۶ مرد، ۱۵۷۶ عورتیں،۱۷۸۲ بچے؛ زخمیوں کی مجموعی تعداد: ۱۵۱۸۴ نفر۔[5]

یمن کی اہمیت

  • تاریخی اہمیت

یمن ایک طولانی تاریخ پر مشتمل بہت پرانا ملک ہے۔ شہر مأرب دنیا کا مشہور قدیمی شہر ہے جو قدیم زمانے میں ملکہ سباء، بلقیس اور دوسرے یمنی حکمرانوں کا دارالخلافہ اور ارض الجنتین (دو جنتوں کی زمین) سے مشہور تھی۔ مأرب کا پرانا ڈیم بھی اس ملک کے تاریخی عمارتوں میں سے ہے۔ یہ ڈیم حضرت عیسی کی ولادت سے 500 سال پہلے بلق الایمن اور بلق الایسر نامی دو پہاڑوں کے درمیان عبدالشمس موسی کے دور میں بنا ہے۔ حضرت سلیمان کا تخت بھی یمن میں تھا۔ جرمنی کے معروف مستشرق موریٹز کا کہنا ہے کہ حروف کا خط بھی پہلی بار یمن میں دیکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے فینیقی سامیوں کو اس خط کا موجد قرار دیا جاتا تھا جبکہ اس کے اصل موجد یمنی تھے اور فینیقی لوگوں نے اپنی کتابت کو یمن کی عربی کتابت کی بنیاد پر آغاز کیا ہے۔ ایسی روشن تاریخ کی وجہ سے یمن کی بہت اہمیت ہے۔[6]

  • اسٹریٹیجک اہمیت

یمن آبنائے «باب المندب» پر مسلط ہونے کی وجہ سے بحیرہ احمر پر بھی کنٹرول کرسکتا ہے بلکہ وہاں پر موجود اسٹریٹیجک جزیرہ «پریم» کے ذریعے اسے بند بھی کرسکتا ہے۔

ادیان و مذاہب

  • اسلام: یمن کا سرکاری مذہب اسلام اور لوگوں کی اکثریت بھی مسلمان ہیں جس میں سے تقریبا 30 فیصد، زیدی شیعہ اور باقی شافعی مذہب کے ماننے والے ہیں۔[7] کچھ اسماعیلیہ اور بہت ہی کم تعداد میں اثنا عشری شیعہ بھی یمن میں بستے ہیں۔[8]
  • مسیحیت:
  1. رومن کیتھولک کلیسا: عربی اسقف کلیسا، یہ کلیسا اس علاقے کا ذمہ دار ہے جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہیں اور ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ کیتھولک اس کے اعضاء ہیں۔
  2. انگلیکن مسیحی: یروشلم اور مشرق وسطی کے اسقفی کلیسا کے تحت یمن قبرس اور خلیج فارس کے اسقف میں پایا جاتا ہے، اور یہ لوگ غیر ملکی اور عدن اور صنعا میں رہتے ہیں۔ قبرس اور خلیج فارس کا اسقف قبرس میں رہتا تھا جبکہ خلیج فارس کے کلیسا کے خادم متحده عرب امارات میں رہتا ہے۔
  • ہندوازم: بہت کم تعداد میں ہندو بھی یمن میں رہتے ہیں۔

یمن میں تشیع کی تاریخ

پیغمبر اکرم(ص) کے دور میں

یمن وہ واحد ملک ہے جس کے باشندوں نے کسی جنگ اور خونریزی کے بغیر پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی ایلچی حضرت علی(ع) کے پہنچتے ہی اسلام قبول کئے، لیکن اس سے پہلے یمن میں ایرانی حاکم باذان اور ابناء (یمن میں مقیم ایرانی) نے پیغمبر اکرم کا خسرو پرویز کو لکھے ہوئے خط کی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا۔[9]

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی علیہ السلام سے پہلے خالد بن ولید اور معاذ بن جبل کو بھیجا تھا لیکن وہ دونوں لوگوں کو مسلمان بنانے میں ناکام رہے [10]؛ اسی لیے پیغمبر اکرم (ص) نے علی بن ابی طالب(ع) کو یمن بھیجا۔ انہوں نے یمن کا سب سے بڑا قبیلہ «حمدان» کے لوگوں کو پیغمبر اکرم کے خط سننے کی دعوت دی اور پیغمبر اکرم (ص) کے کلام کی عظمت نے قبیلہ حمدان کو اتنا متاثر کیا کہ وہ سب ایک ہی دن کے اندر مسلمان ہوگئے۔[11] حمدان قبیلے کے بعد، مذحج اور نخع قبیلوں نے بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا۔ حضرت علی علیہ السلام کا یمن پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس شخص نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ام سعید برزخیہ کے نام کی ایک عورت تھی۔ اس عورت نے اپنے گھر کو مسجد میں تبدیل کیا اور اس کا نام «علی مسجد» رکھا جو کہ ابھی بھی مشہور اور موجود ہے۔

خلفا کے دور میں

حضرت علی (علیہ السلام) اور یمنیوں کی دوستی اسقدر گہری تھی کہ سقیفہ کے حادثے کے بعد آپ(ع) کے حامی 23 افراد جنہوں نے تشیع کی بنیاد رکھی، میں سے دس افراد یمنی انصار تھے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جس وقت زیاد بن لبید انصاری «حضر موت» میں خلیفہ کا نمایندہ تھا، یمنی قبیلوں کے سردار؛ حارث بن معاویہ تمیمی، حارثہ بن سُراقہ کندی اور اشعث بن قیس کندی نے اس سے کہا: ہم پیغمبر (ص) کی اہلبیت کی اطاعت کرینگے، کیوں تم لوگوں نے انہیں خلافت سے محروم کیا۔[12] خلافت کی تشکیل کے بعد جب اسلامی سلطنت پھیل گئی تو خلیفہ دوم کے حکم سے (16 ہجری کو) «کوفہ» اور «بصرہ» کو فوجی علاقہ قرار دیا گیا اس وقت یمن کے بعض قبائل یمن سے کوچ کر کے ان شہروں میں سکونت پذیر ہوئے اور کچھ عرصے بعد وہاں کا سماجی چہرہ یمنیوں کے حق میں تبدیل ہوگیا۔

«طائفہ حمدان» بھی «کوفہ» میں بسنے والے قبیلوں میں شامل تھا اور پہلی صدی میں اسلامی دنیا کی سیاسی تحولات میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ [13]

امام علی(ع) کے دَور میں

جب حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی خلافت کی باتیں شروع ہوئیں تو آپ کی مخالفت کے باوجود آپ کو خلافت قبول کرنے کی ترغیب دینے میں، دوسرے قبیلوں کے مقابلے میں یمنی قبیلے پیش پیش تھے اور منقول ہے کہ سب سے پہلے مالک اشتر نے امام علی علیہ السلام کی بیعت کی۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کے دوران ابتدائی اقدامات میں سے ایک، اسلامی سرزمینوں کے لیے والیوں انتخاب تھا اور آپ نے عبیدالله بن عباس کو یمن کا والی مقرر کر کے اس کو یمن بھیج دیا۔[14] جب سے امام علی علیہ السلام نے خلافت کے امور کو سنبھالا تو ابتداء ہی سے آپ کے بعض ہم پیمانوں نے وعدہ خلافی کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں جنگ جمل رونما ہوا۔ جنگ جمل میں حضرت علی (علیہ السلام) کی فوج میں یمنی سپاہ پیش پیش تھے جو امام کی جنگ میں کامیابی کے اصلی عوامل میں سے تھے جنگ صفین میں بھی یمن کی چند سیاسی شخصیات نے بہت کوشش کی جن میں مالک اشتر، عُدَی طایی، زُحَرْ بن قیس اور ہانی بن عُروه تھے۔[15] جنگ صفین میں حاضر یمن کے دوسرے قبائل میں، بَنو أحمس، قبیلہ بُجیلہ بن اَنمار بن نزار سے تھے «پیکار صفین»، کے مؤلف کے بقول اس قبیلے سے سات سو لوگ اس جنگ میں شامل تھے۔[16]

یمنیوں کی حضرت علی (ع) سے وفاداری کی بنا پر معاویہ نے ان سے انتقام لینا چاہا اور بسر بن ارطاة کو یمن بھیجا جس نے یمن میں آتے ہی بہت ساری جنایتوں کا ارتکاب کیا؛ تیس ہزار لوگوں کو قتل عام کیا؛ ایک گروہ کو آگ میں جلا دیا اور حمدان کی عورتوں کو قیدی بنا کر بازار میں بیچ دیا۔[17] جب اس شخص کی جنایتوں کی خبر حضرت علی(ع) تک پہنچی تو آپ نے اسے بد دعا کی اور فرمایا: خدایا، اس شخص سے یہ دین، عقل اور تکبر کو چھین لے۔ بسر بن اطارہ وسواس کے مرض میں مبتلا ہوکر پاگل ہو گیا اور اسی حالت میں ہلاک ہوگیا۔[18]

معاویہ کے دَور میں

جب معاویہ بر سر اقتدار آئے تو اس نے شیعوں کی مخالفت میں شدت بخشا اور خاص کر یمنی شیعوں کو زیادہ ازیتیں پہنچائی حجر بن عدی[19] اور عمرو بن حمق خزاعی[20] دو اہم شیعہ شخصیات معاویہ کے دور میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں خاص کر حجر بن عدی معاویہ کی ظلم و بربریت کی افشاگری کرتے تھے اور اسی وجہ سے معاویہ نے انہیں شہید کیا۔ امام حسن (علیہ السلام) کی صلح سے لے کر امام حسین (علیہ السلام) کے قیام تک کے درمیانی عرصے میں حجر ابن عدی کی تحریک، شیعہ تحریکوں میں بہت اہم تھی۔ اس تحریک کی وجہ سے امویوں کے اس قدر ہوش اڑ گئے کہ اس کو سرکوب کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائی کو بروے کار لے آئے اور انکے قتل کا جواز پیدا کرنے کے لیے «کوفہ» کے بزرگوں سے گواہی طلب کی اور انہیں خارجی عامل قرار دیا گیا۔

امام حسین(ع) کے دَور میں

امام حسین (ع) کے دور میں بھی جب کوفہ والوں کی طرف سے امام کی طرف دعوت نامے بھیجے گئے تو ان میں بھی بہت سارے یمنی باشندے شامل تھے۔ جب امام نے کوفہ جانے کا قصد کیا تو عبدالله بن عباس نے نصیحت کے طور پر امام حسین علیہ السلام سے درخواست کی کہ کوفہ کی بجاے «یمن» کو سکونت کے لیے انتخاب کریں؛ کیونکہ یہاں کے شیعوں کے دل میں اہل بیت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔[21]

عاشورا کا سانحہ یمنیوں کے کارناموں کا ایک اور میدان تھا۔ جیسا کہ تاریخ میں آیا ہے کہ اس عظیم سانحے میں 34 شہداء یمن سے تھے۔[22] عاشورا کے واقعے کے بعد، شیعوں کا ایک گروہ جنہوں نے جنت کے جوانوں کے سردار کی دفاع میں کوتاہی کی تھی، اپنی اس کوتاہی پر پشیمان ہوئے اور اس کو جبران کرنے کے لیے اموی سلطنت کے خلاف ایک محاذ بنایا۔ ان تحریکوں میں سے ایک توابین کا قیام تھا جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی کر رہے تھے۔ اس شیعہ تحریک کے اصلی اور فردی محرک بھی یمن والے تھےاور بعد میں انہوں نے اہل بیت کی نسبت اپنے عقیدے کی دفاع میں جان کا نذرانہ پیش کئے۔[23]

امویوں کے دور میں

بنی امیہ کے دَور کے اواخر میں جب بنی عباس کی طرف سے اقتدار کیلئے کوششیں شروع ہوئیں تو شیعوں نے «آل ابی طالب» اور «بنی عباس» کی باہمی رشتہ داری کی بناپر عباسیوں کی حمایت کی اور اسی وجہ سے 129ق کو ابوحمزہ اور عبد اللہ بن یحیی جو کہ طالب الحق سے معروف تھا نے ابومسلم خراسانی کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے کالی پگڑیاں باندھ کر کالے کپڑے پہنے اور کالے پرچم اٹھائے بنی امیہ کے حاکم مروان حمار کی مخالفت کا اعلان کیا۔انہوں نے «صنعا» پر قبضہ کیا۔ طالب الحق نے «صنعا» میں اپنا ٹھکانہ مضبوط کیا اور ابوحمزہ «مکہ» چلا گیا اور وہاں وہ مکہ کے والی کو شہر سے بھگانے میں کامیاب ہوا اور کچھ عرصہ بعد «مدینہ» کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ البتہ ان کے اس کام کو مروانیوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی لشکر کو مدینہ کے قریب بنی امیہ کی فوج کے ساتھ ایک جنگ میں شکست ہوئی اور ابوحمزہ بھی مارے گئے۔ ابوحمزہ کا کام تمام ہونے کے بعد، بنی امیہ نے صنعا کی طرف لشکر کشی کی اور طالب الحق کو بھی قتل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دوبارہ سے صنعا کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔[24]

عباسی دَور میں

عباسی حکومت کے آغاز کی پہلی صدی میں یمن عباسیوں کے ہاتھ میں تھا اور 280 ق کو ہادی یحیی بن حسین بن قاسم رسّی، متولد ۲۴۵ نے زیدی شیعوں کے نام پر ایک مستقل حکومت تشکیل دیا اس وقت سے اب تک یمن اور خاص کر اس کے شمالی علاقے زیدیوں کے سنتی مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور ان کے اماموں، شخصیات اور فکری تحریکوں کا ظہور اسی علاقے سے ہوا ہے۔

زیدی حکومت

یمن میں زیدی حکومت مختلف فراز و نشیب کا حامل رہی ہے کبھی حکومت زیدی حاکموں کے ہاتھ سے نکل بھی جاتی تھی اس کے باوجود زیدیوں نے گیارہ سو سال تک یمن پر حکومت کی ہے۔ درج ذیل جدول میں یمن پر زیدی حاکموں کی مختصر رپورٹ پیش کرتے ہیں۔

زیدی حاکم دوره حکومت توضیحات
هادی یحیی بن حسین ۲۸۰-۲۹۸ ق
مرتضی لدین الله ۲۹۸-۳۱۰ ق
ناصر لدین الله ۳۱۰-۳۱۵ ق
چوتھی صدی کے اواخر تک زیدیہ اپنے داخلی تفرقہ ، اختلافات اور اسماعیلیہ سے تنازعات سے دوچار تھی اور کوئی ایسا قابل ذکر حاکم موجود نہیں تھا
منصور بالله قاسم بن علی وفات:۳۹۳ ق
مهدی لدین الله حسین بن قاسم ۳۹۳-۴۰۴ق انکے کچھ پیروکار تھے جو ان کی غیبت اور مہدویت کا عقیدہ رکھتے تھے اور حسینیہ کے نام سے مشہورہوئے تھے۔[25] اسی دوران زیدیہ دو گروہ مطرفیہ اور مخترعہ میں تقسیم ہوگئے۔[26]
ناصر لدین الله ابوالفتح دیلمی وفات:۴۴۴ ق وہ یمن کے اسماعیلیوں کے ہاتھوں مارا گیا [27] اور ان کے مرنے کے بعد یمن میں زیدیہ حکومت کا پہلا دور ختم ہوگیا۔[28]
متوکل علی الله احمد بن سلیمان ۵۳۲-۵۶۶ ق وہ مطرفیہ عقاید کے خلاف مقابلہ کرنے کو نکلا[29]
منصور بالله عبدالله بن حمزه ۵۶۶-۶۱۴ ق انکو چھٹی صدی کا زیدی مذہب کا مجدد سے جانا جاتا ہے[30]
مهدی لدین الله احمد بن حسین وفات:۶۵۶ ق بعض زیدیہ کا ان کے بارے میں مہدویت کا گمان تھا۔
منصوربالله حسن بن بدرالدین محمد وفات: ۶۷۰ ق زیدیہ اماموں میں زیدیہ خالص عقیدے میں سب سے زیادہ معروف قرون وسطی میں
متوکل‎علی‎الله مطهر بن یحیی، معروف به المظلّل بالغمام وفات: ۶۹۷ ق
مهدی‎لدین‎الله محمد وفات: ۷۲۸ ق وہ اور اس کا باپ متوکل علی الله دونوں آٹھویں صدی کے ابتدا میں زیدیہ مجدد ہیں
مؤیدبالله یحیی بن حمزه ۷۲۹-۷۴۹ ق آپ بہت ساری اہم تالیفات کے مولف ہیں
مهدی‎الدین‎الله احمد بن یحیی، مشهور به ابن‎مرتضی وفات: ۸۴۰ ق نویں صدی کے آغاز میں زیدیہ مذہب کا مجدد
هادی‎الی‎الحق عزالدین بن حسن وفات:‌۹۰۰ ق زیدیہ معروف تھیورسین
متوکل‎علی‎الله یحیی شرف‎الدین ۹۶۵ ق ان کی وفات کے بعد سے تقریبا نصف صدی تک یمن زیدی حاکموں کی حکومت سے خالی رہی اور حکومت ترک کے عثمانیوں کے ہاتھوں آگئی۔
منصوربالله قاسم بن محمد بن علی ۱۰۰۶-۱۰۲۹ ق انکی اہم تالیفات اور موثر شاگرد ہیں اور انکو زیدیہ مذہب کے اس صدی کے مجدد کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
مؤیدبالله محمد ۱۰۲۹-۱۰۵۴ ق
متوکل‎علی‎الله اسماعیل ۱۰۵۴- ۱۰۸۷ ق ان دونوں کے بعد تقریبا دو سو سال تک زیدیہ اپنے داخلی اختلافات کا شکار رہی اور اسی وجہ سے ایک بار پھر سے ترک عثمانیوں کے یمن کا بھاگ ڈور سنبھالا۔
منصوربالله محمد بن یحیی حمیدالدین وفات:‌۱۳۲۲ ق
متوکل علی الله یحیی وفات: ۱۳۶۷ ق جو مقابلے اور مبارزے منصور کے دور میں عثمانیوں کے خلاف شروع ہوئے تھے ان کے دور میں پایہ تکمیل کو پہنچے اور یمن عثمانیوں کے تسلط سے نکل گیا۔
محمد بدر ۱۹۶۲ م وہ ایک فوجی مارشل لاء کے ذریعے سے حکومت سے برطرف ہوا اور ان کی برطرفی کے بعد یمن میں زیدیہ اماموں کی حکومت کا بھی خاتمہ ہوا۔ اگرچہ آٹھ سال تک یمن کی حکومت سے لڑا لیکن کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ اور لندن کے اطراف میں وفات پایا۔۔[31]

موجودہ یمن اور تشیع

امامیہ

اگرچہ ماضی میں اثناعشری شیعہ بہت کم تعداد میں تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران اور اسلامی ممالک پر اس کے اثرات بعد آہستہ آہستہ یمن میں شیعہ اثناعشری کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا اور یمن کے زیدی اور اسماعیلی شیعہ کے خواص، اساتذہ، طالبعلم اور ثقافتی ماہرین شیعہ اثناعشری سے آشنا اور اس مذہب میں جذب ہوگئے۔ البتہ 1990 کی دہائی میں یمن کی خانہ جنگی کے دوران صعدہ کے زیدی بزرگ عالم دین علامہ بدرالدین الحوثی کا ایران میں حضور، یمن کے جوانوں میں شیعہ اثناعشری تفکر پھیلنے میں بہت موثر تھا۔ اثناعشری شیعوں کا زیدی شیعوں سے اچھے تعلقات ہیں اور تنظیم وحدت شیعیان جزیرہ یمن، زیدی شیعہ اور اثنی عشری شیعہ دونوں کی نمائندگی کرتی ہے۔[32]

شیعہ اثناعشری عدن اور صنعاء کے علاوہ جوف، مأرب، ذمار، رداع اور یمن کے بعض دیگر علاقوں میں بھی متفرق طور پر رہتے ہیں[33] اور ان کی سرگرمیاں بھی رابطۃ الشیعۃ جعفریۃ فی الیمن نامی تنظیم کے زیر نظر انجام پاتی ہیں۔ اثناعشری شیعوں کی آبادی کے تناسب کو 2 سے 8 فیصد تک اندازہ لگایا گیا ہے۔

علماء

اس تنظیم کے بنانے سے پہلے انہوں نے 1991ء میں ایک اور تنظیم اتحاد القوی الإسلامیۃ الثوریۃ کی بنیاد رکھی جو بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر منحل ہوگئی۔

مصر کے سیکیورٹی اداروں نے اب تک ان کو کئی بار قاہره میں گرفتار کیا اور آخری دفعہ جون 2014 کو گرفتار کیا تھا لیکن چند گھنٹوں کے بعد انہیں رِہا کیا گیا۔[34] اس سے پہلے بھی 2008 میں ایکبار 14 دنوں کے لئے مصر کے جیل میں قیدی رہے ہیں اور ان کے کہنے کے مطابق مصر کے سیکیورٹی اداروں نے ان سے حوثیوں اور ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھا جاتا تھا۔ انکی گرفتاری پر بڑا ردعمل سامنے آیا اور مصر کے خلاف شدید اعتراضات ہوئے اور آخر کار مصر نے انہیں رہا کیا۔[35] اور اس سے پہلے بھی 2001 کو مصر میں گرفتار ہوا تھا۔[36]

  • شیخ احمد علی المرقب
  • شیخ علی احمد الاکوع
  • شیخ عبد الولی یحیی العکیمی
  • استاد عبد الله علی الجبلی
  • استاد عارف محمد أنیس
  • استاد عدنان یحیی الجنید
  • استاد محمد عبد الرحمن السقاف
  • شیخ محمد أحمد الردمانی

یہ نو افراد مذکوره تنظیم کے ٹرسٹی ہیں۔[37]

  • علی بن علی فارع

وہ مذکورہ تنظیم کے صدر رہ چکے ہیں اور 2013 میں القاعدہ کے اہلکاروں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔[38]

  • مبخوت ہادی کرشان؛ علاقے میں شیعہ جعفریہ کے صدر تھے جوف[39] بعض غیر رسمی منابع کا ادعا ہے کہ یمن کی حکومت نے 2010 میں انہیں ایرپورٹ پر گرفتار کیا ہے۔[40]
  • یحیی طالب الشریف

وہ بنیادی طور پر یمن جوف سے ہیں اور قم میں رہتے ہیں، 2010 میں یمن کی حکومت کے توسط سے گرفتار ہوئے اور ان کے حسین حوثی کے خلاف بعض موقف پر یمن طلبہ یونین ساکن قم نے اعتراضات بھی کئے۔[41]

تنظیمیں

  • رابطۃ الشیعۃ جعفریۃ فی الیمن

یمن میں مذہب جعفریہ کی سب سے اہم تنظیم یہی ہے جس کی بنیاد شیخ احمد عبدالله الزایدی نے رکھی لیکن اس کی ریاست کو خود نے قبول نہیں کیا اور محمد ناصر قائد البخیتی کے سپرد کیا۔[42] لیکن 2006 میں اس تنظیم نے اپنے لئے نو نفری ٹرسٹی معرفی کیا۔[43]

یہ تنظیم شیعہ اثناعشری کے حقوق کی تحفظ کے لیے وجود میں آئی اور اب تک کام کر رہی ہے۔

اس تنظیم نے شیعوں کے حقوق کی دفاع میں عملی اقدامات کے علاوہ مختلف موقعوں پر بیان جاری کر کے اس حوالے سے اقدام کیا ہے۔ بعض بیانات کے مواد مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔سلفیوں کے حملوں کے مقابلے میں شیعوں کی حمایت کیلئے حکومت سے درخواست [44]

۲۔ بعض شیعہ نشین علاقوں پر حملہ اور تخریب میں حکومت کی طرف سے اردن کی فوج استعمال کرنے کی مذمت[45]

۳۔ سلفیوں کی شیعوں کے خلاف تجاوزات کے مقابلے میں مراجع تقلید سے مدد کی درخواست [46] اور۔۔۔

اس تنظیم کا ملک سے باہر بھی ایک شعبہ ہے جس کی صدارت ڈاکٹر ابو علی الخالدی کر رہے ہیں۔ اور اس تنظیم کے بعض بیانات اس شعبے کے ذریعے سے بھی جاری ہوتے ہیں[47]

اس تنظیم نے اپنے بیانات کے ذریعے اپنے آپ کو صرف اور صرف شیعوں کے حقوق کی مدافع تنظیم کے نام سے پہچنوانے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان کا الحوثی یا ایران سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور یمن کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے شیعوں کے حقوق حاصل کر سکے۔[48] اس تنظیم کا یہ نقطہ نظر ظاہری طور پر حکومت سے سمجھوتہ شدہ دکھائی دینے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر اس تنظیم کے بعض سابقہ اعضاء کی طرف سے اس تنظیم کو یمن کے حساس اداروں سے وابستہ قرار دیا گیا جو شیعوں کے درمیان جاسوسی کے لئے بنائی گئی۔[49]

  • المجمع الاسلامی الیمنی الشیعی

اس مرکز کی بنیاد 1433ق میں بعض یمنی مستبصروں نے صوبہ تعز میں رکھی۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل اسماعیل المہیوب اور روحانی پیشوا سید حبیب الجنید ہیں۔ اس تنظیم نے اپنی اہم سرگرمیوں کو ثقافتی اور سماجی امور قرار دیا ہے۔[50]

  • مؤسسۃ دار الزهراء علیہا السلام للاعلام الثقافی

اس ادارے کے مدیر سے[http://mafh@maktoob۔com اس ایمیل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

  • مدارس الجعفریۃ فی عدن

عبدالکریم علی عبدالکریم ان مدرسوں کے مدیر ہیں جن سےاس ایمیل کے ذریعے رابطہ ممکن ہے۔

  • دار احباب اهل البیت علیهم السلام فی تعز

ابوحسین علی الشامی اس مرکز کے مدیر ہیں جن سے اس ایمیل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

  • نبأ خیریہ ادارہ

اس ادارے کے مدیر شیخ عبدالواحد کرشان ہیں جن سے اس ایمیل کے ذریعے رابطہ ممکن ہے۔

  • جمعیت عبدالله رضیع

یہ مرکز حضرت علی اصغر(ع) کی یاد منانے کے لیے بنایا گیا اور اس مرکز کے مدیر شیخ عبدالواحد حسن کرشان ہیں جن سے اس ایمیل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

زیدیہ

یمن میں زیدیوں کی طولانی حاکمیت کی وجہ سے اس ملک کے زیادہ تر شیعہ، زیدی مذہب کے پیروکار ہیں اور ان کی تعداد تقریبا یمن کی کل آبادی کے 35 فیصد ہے۔ صوبہ صعده، تعز، الجوف، صغاء اور ان کے بعد اِب، ذمار، عمران، مأرب، حجہ، محویت اور حدیدہ کے صوبے زیدیوں کی سکونت کے مراکز ہیں۔ یمن کے دو بڑے قبیلے حاشد اور بکیل، زیدی مذہب کے پیروکار ہیں۔ یمن میں جمہوری حکومت کی تشکیل کے بعد کے سالوں سے قبیلہ حاشد [51] اور بَکیل کا یمن کی سیاسی پیشرفت میں بڑا کردار تھا۔

علماء

  • السید حمود عباس المؤید(۱۳۳۶ھ ۔)

وہ اس وقت زیدیوں کا مرجع ہے اور جامع النہرین کی امامت ان کے ذمے ہے۔

حمود عباس المؤید زیدیوں کے بزرگ عالم دین
  • السید محمد بن محمد بن المنصور(۱۳۳۳ھ ۔)

وہ بعض حکومتی منصب پر بھی فائز رہا ہے۔

  • السید علی بن احمد الشہاری(۱۳۳۲ھ ۔ ۱۴۱۱ھ)
  • السید عبدالله بن یحیی الدیلمی(۱۳۳۴ھ ۔ ۱۴۲۵ھ)
  • محمد بن عبداللہ الہدار(۱۳۴۰ھ ۔ ۱۴۱۸ھ)
  • عباس احمد محمد الخطیب(۱۳۵۲ھ ۔ ۱۴۳۵ھ)

یمن کے صدر مملکت نے ان کی وفات پر تعزیتی پیغام جاری کیا۔[52]

وہ اپنی زندگی میں زیدیوں کا مرجع تھا۔[54]

بدرالدین الحوثی زیدیوں کے مراجع میں سے ہے اور انصار اللہ تحریک کا روحانی پیشوا

* بدرالدین الحوثی

تفصیلی مضمون: بدرالدین الحوثی

وہ علاقہ صعدہ میں یمن کے بزرگ عالموں میں سے تھا۔ ان کی دوسرے علماء سے جدائی کا آغا اس وقت ہوا جب بعض زیدی علماء جن میں مجد الدین المؤیدی پیش پیش تھے نے فتوا دیا کہ امامت کے لیے ہاشمی ہونا شرط نہیں ہے اگرچہ یہ شرط ماضی میں تھی اور وہ بھی تاریخی بعض وجوہات کی بنا پر تھیں اور اب ایسی شرایط نہیں ہیں اسی لئے لوگ ہر اس شخص کو اپنی حکمرانی کے لیے انتخاب کر سکتے ہیں جس میں حکومت کرنے کی لیاقت موجود ہو اگرچہ امام حسن یا امام حسین کی نسل سے نہ ہو۔ انہوں نے اس فتوی کی سخت مخالفت کی اور اسی سلسلے میں اثنی عشری مذہب کا بھی واضح الفاظ میں دفاع کیا اور یہاں تک کہ الزیدیۃ فی الیمن کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس میں زیدیہ اور امامیہ کے مشترکات اور تشابہات کو بیان کیا۔

1990 میں وہ ایران آئے اور تہران میں زندگی گزارے اور پھر دوبارہ یمن لوٹے اور ان کے بیٹے حسین الحوثی کی حکومت کے ساتھ مقابلے میں شہادت کے بعد اس تحریک کی سربراہی کو اپنے عہدے لے لیا۔[55] اور 2010 میں وفات پائے۔[56] وہ اگرچہ زیدی مذہب کے پیرو تھے لیکن شیعہ جعفریہ کے ساتھ اس کا رویہ اس مذہب کو یمن، خاص کر صعدہ میں پھیلنے میں بہت موثر تھا۔

تنظیمیں

  • بدر علمی اور ثقافتی ادارہ

سن 1991ء کو سید مرتضی محطوری نے صنعا میں اس مرکز کی بنیاد رکھی۔ اس مرکز کا اہم کام علمی دورے منعقد کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیوں اور خیراتی امور کو بھی انجام دیتا ہے۔ اس ادارے نے بہت سارے زیدی دانشوروں کی تربیت کی ہے تحریک انصاراللہ یمن کی بعض اہم شخصیات بھی اسی مرکز کے فارغ التحصیل ہیں۔[57] بدر فاونڈیشن کی کوشش ہے کہ وہ زیدیوں کی اصالت اور اصلی میراث کی ترویج میں موثر کردار ادا کرے۔[58]

  • مؤسسۃ الرسالیۃ

یہ مرکز 2009 میں تاسیس ہوا جس کی صدر آمال عبد الخالق حجر ہیں۔ اس مرکز کے اصل مخاطب خواتین ہیں اور ان کے اصلی کام بھی ثقافتی، اجتماعی اور خیراتی امور کو انجام دینا ہے اس ادارے کے دو تعلیمی مراکز بھی «مرکز الزہراء لتوعیۃ المرأۃ» اور «مرکز‌ ام المؤمنین لمحو الأمیۃ و تعلیم الکبار» کے نام سے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ خواتین کو گھر بیٹھے ملازمتوں کے کاموں کی تعلیم بھی دیتا ہے اور مستحقین کو قرض الحسنہ بھی۔[59]

  • مؤسسۃ الامام زید بن علی الثقافیۃ

یہ مرکز ثقافتی امور انجام دینے کے غرض سے بنا اور مختلف جلسے اور کتابوں کے نشر کے ذریعے سے زیدی عقیدے کو پھیلانے اور اس کے دفاع کی کوشش کی اس ادارے کا مرکزی دفتر صنعا شہر میں ہے۔[60]

  • رابطۃ علماء الیمن

اس تنظیم کے اعضاء یمن کے دینی علما ہیں اور شرایط کے حامل تمام افراد اس ممبر بن سکتے ہیں۔ اس مرکز کے اکثر کام علمی ہیں۔[61] اس تنظیم نے اکتوبر 2011 کو اپنے وجود کا اظہار کیا [62]

  • مؤسسۃ البینۃ الاجتماعیۃ الثقافیۃ

یہ مرکز سماجی اور خیراتی امور کی انجام دہی کے غرض سے 2010 کو وجود میں آئی اور یہ مرکز بھی صنعا میں ہے۔[63]

  • الحق پارٹی

یہ سیاسی پارٹی 1990 میں بنی جس کی سربراہی یمن کے بزرگ علماء میں سے ایک عالم مجدالدین مؤیدی کے ذمے رکھ دی گئی اور سید احمد شامی سیکرٹری جنرل کے عہدے کیلیے منتخب ہوئے۔ اگرچہ اس پارٹی نے اپنے آپ کو زیدی شیعوں کے حقوق کے مدافع کے حوالے سے آشنا کرایا لیکن اس پارٹی کے بعض کام جیسے امامیہ علما کی کتابوں کی نشر اور حد سے زیادہ ایرانی خبروں کو پھیلانے کی وجہ سے اس پارٹی کے بعض عہدے دار کا امامیہ ہونے کا خدشہ ظاہر ہوا۔[64] اس پارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کو [http://alhakk۔net/ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں۔

  • اتحاد القوی الشعبیہ

۱۹۶۰کو ابراہیم علی بن الوزیر نے یمن کے تمام فعال سیاسی گروہوں کی ایک مشترکہ تنظیم بنانے کی تجویز پیش کی۔ بعض گروہوں کی طرف سے اس تجویز کی موافقت ہوگئی اور 1962 کو اس نام سے پہلا بیانیہ جاری ہوا اور یہ تنظیم ہمیشہ سے یمن کی سیاست میں حاضر رہی ہے۔ شوری اس تنظیم کی مرکزی کابینہ ہے

اس تنظیم کو زیدی جوانوں نے تشکیل دیا ہے۔ سلفی اور وہابی تفکرات کے پیش نظر 1990 کو یہ تنظیم وجود میں آئی اور اس کا پہلا جنرل سیکرٹری محمد یحیی عزان تھا اور بعد میں حسین الحوثی اس عہدے پر منتخب ہوئے۔[65]

بعض رپورٹیں اس تنظیم کے تاسیس کی تاریخ کو 1996 اور حسین الحوثی کو اس کے بانی قرار دیتی ہیں۔[66] حسین الحوثی نے "الحق پارٹی" سے الگ ہونے کے بعد تنظیم الشباب المؤمن کی بنیاد رکھی۔ شروع میں حکمراں جماعت، المؤتمر الشعبی العام نے اس تنظیم کی حمایت کی تاکہ اپنی رقیب پارٹی یعنی "التجمع الیمنی للاصلاح" کی صعدہ کے علاقے میں نفوذ کے لئے مانع بنے۔ حوثیوں نے اس علاقے میں حکومت کی حمایت سے بعض مدرسے بنائے اور وہاں پر اپنے افکار کی تعلیم دینا شروع کیا۔

اگرچہ ان کے افکار کسی حد تک زیدی حدود سے نکل کر امامی تفکر کے قریب تھے، لیکن اس کے باوجود اس کی کارکردگی فکری اور ثقافتی فعالیت تک محدود تھی لیکن 2002 میں اس نے ایک نئی بات اپنی زبان پر جاری کیا اور دینی مسؤولیت اور امریکہ سے خطرے کی بات کرتا تھا؛ اور اسلام کے لیے کوئی کام انجام دینے اور امریکہ اور اسرائیل سے دور رہنے کی بات کی۔ ان باتوں کی وجہ سے صنعا اور صعدہ کی مساجد میں اس کے حامیوں نے مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے بلند کئے۔

۲۰۰۳ کو جب امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ شروع کی تو اس تنظیم کے افراد نے امریکی سفارت خانے کے سامنے جمع ہوکر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی کی۔ اس اجتماع میں اس تنظیم کے افراد اور حکومتی افراد کے درمیان لڑائی ہوئی جس کے نتیجے میں چند افراد مارے گئے۔

بعض ماہرین کے مطابق اس وقت سے یمن کی حکومت نے اس گروہ سے خطرہ اور ان کا حکومت کی سرنگونی کی خواش کا احساس کیا اور ان کو سرکوب کرنے کے لیے چند اقدامات بھی انجام دیا۔ جن میں سے ایک صعدہ میں اس تنظیم کے طرفداروں کی وسیع پیمانے پر گرفتاری تھی اس طرح کے عکس العمل کی وجہ سے الحوثی طرفداروں اور حکومت کے درمیان چپقلشیں ہوتی رہی اور 2004 کی گرمیوں میں انہی کشمکش کے نتیجے میں صعدہ کے جبال مروان کی لڑائی میں حسین الحوثی مارے گئے۔

۲۰۰۵ میں بھی یہ لڑائی جاری رہی ان لڑائیوں میں حوثی جنگجووں کی رہبری حسین الحوثی کے باپ بدر الدین الحوثی کے عہدے پر تھی۔

حکومت کا خیال تھا کہ انہیں اس تنظیم کو سرکوب کرنے میں کامیابی ملی ہے لیکن ایک بار پھر سے 2005 کے اواخر میں یہ لڑائی شروع ہوئی اور اب کی بار حسین الحوثی کے بھائی عبدالملک الحوثی کی رہبری میں شروع ہوئی تھی۔[67] ان تمام سالوں میں عبدالملک کے جنگجووں اور حکومت کے درمیان لڑائی تھی اور اب حوثی گروہ کو یمن میں حاکمیت کی سطح پر بہت طاقت ملی ہے۔

  • تنظیم الخیار الثوری
  • حزب العدالہ و الحریہ

اس پارٹی کی سربراہی ناصر الجهرانی کے ذمے ہے۔[68]

  • ملتقی التصوف الاسلامی

اس کی سربراہی شیعہ عالم دین علامہ عدنان الجنید کے ذمے ہے۔[69]

اسماعیلیہ

اسماعیلیہ فرقے کی شاخوں میں سے ایک مستعلیہ طیبی ہے۔ یہ گروہ اپنے چھبیسویں داعی، داود بن عجب شاہ کی وفات کے بعد 999 ق میں تقسیم ہوگیا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بعد داوود بن برہان الدین کے نام سے ایک شخص نے ان کا عہدہ سنبھالا اور اس کی رپورٹ یمن بھیج دیا اور دوسری طرف سلیمان بن حسن نامی ایک شخص نے بھی ادعا کیا کہ داوود بن عجب شاہ نے ان کو نص کے ذریعے بطور مطلق معین کیا ہے۔ اس کے بعد سے ان دونوں مدعیوں کے طرفدار پیدا ہو گئے ان کے اکثر طرفدار انڈیا اور پاکستان اور یمن کے بعض علاقوں میں بستے ہیں اور آج کل داوود بن برہان الدین کے طرفداروں کو داودیہ یا بُوہرہ اور سلیمان بن حسن کے پیروکاروں کو سلیمانیہ یا مکارمہ سے جانا جاتا ہے۔[70]

مکارمہ حراز کے مشرق میں بستے ہیں اور ان کا دینی مرکز نجران میں ہے۔ اس گروہ کی سربراہی شیخ عبداللہ بن محمد المکرمی کر رہا ہے جو سعودی عرب کے شہر نجران میں رہتا ہے۔[71] ان سے پہلے شیخ حسین اسماعیل المکرمی اس گروہ کے سربراہ تھے۔ وہ کئی سال سعودی عرب اور یمن کے زندانوں میں قیدی تھا اور 1426ق کو وفات گئے۔[72]


بُوہرہ صنعاء، عدن، تعز، الحدیدہ اور بعض جنوبی صوبوں میں بستے ہیں۔

یمن کے بعض شہروں میں اسماعیلیوں کی مساجد اور مخصوص تعلیمی مراکز ہیں ان مدارس میں سے مناخہ میں مدرسہ الدعوۃ، حراز میں مدرسہ بیت الدعوۃ اور صنعا میں مدرسہ البہریہ قابل ذکر ہیں۔ [73]

بُوہرہ کا آج کل سب سے بڑا داعی مطلق سلطان المفضل سیف الدین کو سمجھا جاتا ہے جو انڈیا میں رہتا ہے اور ان سے پہلے سلطان محمد برہان الدین اس گروہ کا سربراہ تھا اور 1435ق کو وفات پا گئے[74] اور یمن میں انکا نمایندہ سلمان رشید [75] ہے۔

بُوہروں کی تعداد تقریبا 12000 تک ہے۔[76] یمن میں اسماعیلیوں کی اہم عمارتوں میں سے حراز میں ضریح حاتم الحضرات ہے جس کی زیارت کے لیے اس فرقہ کے ماننے والے ہر سال دنیا کے مختلف کونوں سے یمن جاتے ہیں۔[77]

بُوہروں کے اصلی مرکز صنعا میں مقر الفیض الحاتمی کے نام سے مشہور ہے۔

شیعوں کی مشکلات

  • وہابی اور سلفیوں سے جان اور مال کے لیے خطرہ

یہ مشکل اس لئے پیش آئی کہ یمن کا سعودی عرب کے ساتھ بہت وسیع مشترکہ باڈر ہے۔ اسی وجہ سے سعودی حکومت باڈر پار رہنے والے شیعوں سے اپنے لیے خطرے کا احساس کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی بھی صورت میں شیعوں کو سرکوب کیا جائے۔ حوثی شیعہ اور مرکزی حکومت کی داخلی لڑائی میں سعودیہ نے حکومت کی حمایت کی یہاں تک کہ ملک عبداللہ لڑائی کے فرنٹ لائن پر حاضر بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ وہابی دہشتگردوں نے اب تک رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ کے صدر علی سمیت بہت سارے شیعہ بزرگوں کو شہید اور بعض دوسرے افراد جیسے علامہ عدنان الجنید کو قتل کی دھمکی بھی دی ہے۔[78]

  • حکومت کے توسط سے وسیع پیمانے پر شیعوں کی گرفتاری [79]،
  • حکومت کی سیاسی پالیسیوں کے خلاف اعتراض کرنے پر شیعوں کی پھانسی اور جلاوطنی کے احکامات صادر کرنا [80]
  • شیعہ نشین علاقوں کی تخریب؛ اس سیاست کو حکومت نے اردن سے کرائے پر لئے ہوئے فوجیوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔[81]
  • شیعہ نشین علاقوں کی نسبت حکومت کی دلچسپی نہ ہونا اور انہیں فقیر رکھنا۔ [82]

حوالہ جات

  1. طبق آمار شورای ملی جمعیت یمن
  2. یمن ڈیلی تاریخ
  3. علی عبدالله صالح؛ پدیده‌ای نادر در جهان عرب
  4. سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا
  5. آمار تلفات حملہ عربستان بہ یمن، خبرگزاری مشرق
  6. یمن: سرزمین سبا
  7. Library of Congress – Federal Research Division
  8. شیعیان یمن: فرصت‌ہا و چالش‌ہا
  9. طبری، ج۲ص ۲۵۵-۲۵۷؛ ابن هشام، ج۱ص ۷۱-۷۲؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۶۰؛ مسعودی، التنبیہ۔۔۔، ۲۵۹؛ مجمل، ۲۵۱-۲۵۲؛ مقریزی، ج۱ص۵۳۵؛ اہدلی، ۶۱
  10. تاریخ شیعہ، ترجمہ سید محمد باقر حجتی، ص۲۰۱۔
  11. تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پاینده، ج ۴، ص۱۲۶۲۔
  12. منتظر قائم، اصغر، نقش قبایل یمنی در حمایت از اهل بیت، صص ۸۶۔۹۴۔
  13. محمد جعفری، سید حسین، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمهٔ سید محمد تقی آیت اللهی، ص۱۰۶۔
  14. ابن طقطقی، محمد بن علی، تاریخ فخر در آداب ملک‌داری و دولت‌های اسلامی، ترجمهٔ محمد وحید گلپایگانی، ص۳۰۴۔
  15. نصر بن مزاحم، پیکار صفین، بہ تصحیح و شرح عبدالسلام محمد ہارون، ترجمہ پرویز اتابکی، ص۱۹۱۔
  16. نصر بن مزاحم، پیکار صفین، تصحیح و شرح عبدالسلام محمد ہارون، ترجمہ پرویز اتابکی، ص۱۹۱۔
  17. تاریخ شیعہ، ص۲۰۸۔
  18. تاریخ طبری، ج ۶، حوادث سال چہل، ص۸۱۔۸۰۔
  19. مسعودی، مروج الذہب، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، ج ۲، ص۸۔
  20. تاریخ یعقوبی، ج ۲، صص ۱۶۴ و ۱۶۵۔
  21. ابوحنیفه دینوری، اخبار الطوال، ترجمهٔ محمود مهدوی دامغانی، ص۲۹۱۔
  22. نقش قبایل یمنی در حمایت از اہل بیت، ص۲۰۰۔
  23. تشیع در مسیر تاریخ، ص۲۷۲۔
  24. تاریخ حبیب السیر خواندمیر، زیر نظر محمد دبیر سیاقی، ج ۲، ص۱۹۷۔
  25. فضل الاعتزال و طبقات المعتزلة، فواد سید، الدار التونسیة، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۴م۔
  26. الکامل فی التاریخ، ابن اثیر شیبانی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۳م۔
  27. کتاب وصل إلی الفقیه العلامة عمران بن الحسن، یوسف ین ابیالحسن جیلی، منتشر شده در أخبار أئمة الزیدیة فی طبرستان و دیلمان و جیلان۔
  28. مآثر الأبرار فی تفصیل مجملات جواهر الأخبار، محمد بن علی زحیف، مؤسسة الإمام زید بن علی الثقافیة، صنعاء، چاپ اول، ۱۴۲۳ق/۲۰۰۲م۔
  29. الحدائق الوردیة فی مناقب أئمة الزیدیة، ج۲
  30. مآثر الأبرار فی تفصیل مجملات جواهر الأخبار، ج۲
  31. معقل الزیدیة ومستعمرة عدن للتاج البریطانی
  32. بررسی وضعیت سیاسی اجتماعی شیعیان یمن (۳)
  33. شیعۃ الیمن
  34. الداعیۃ الشیخ احمد عبداللہ الزایدی فی طریقۃ الی صنعاء
  35. مصر تفرج مؤسس رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن
  36. بیان صادر عن رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن
  37. الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن تطالب بتمثیلہا فی لجنۃ الحوار وسط خلافات تعصف بہا
  38. اغتیال رئیس رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ بمدینۃ رداع
  39. حوار مع الملا مبخوت کرشان
  40. معلومات عن اعتقال أمن مطار صنعاء لزعیم الشیعۃ الجعفریۃ فی الجوف وأحد المدرسین فی قم
  41. بیان اتحاد طلاب الیمن فی قم حول یحیی طالب الشریف
  42. بیان صادر عن الرابطہ
  43. الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن تطالب بتمثیلہا فی لجنۃ الحوار وسط خلافات تعصف بہا
  44. التکفیریون بدأوا تنفیذ(حلمہم) لاجتثاث الشیعۃ الجعفریۃ من الیمن
  45. بیان رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن
  46. نداء من رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ
  47. أسماء الوجبۃ الثانیۃ من السجناء فی معتقلات علی عبد اللہ صالح
  48. أظطهاد وحرب أبادة ضد الشیعة الجعفریة فی الیمن
  49. سیف الوشلی یعلن استقالتۃ من رابطۃ الشیعۃ الجعفریۃ فی الیمن ویعتبرہا شبکۃ مخابراتیۃ اسسہا النظام
  50. المجمع الاسلامی الیمنی الشیعی
  51. حاشد القبیلۃ التی تصنع الرؤساء فی الیمن
  52. رئیس الجمهوریۃ یعزی فی وفاۃ العلامۃ عباس الخطیب
  53. عبدالرحمن حسین شایم
  54. موقع الزیدیۃ و مرجعہا الامام مجد الدین المؤیدی
  55. قصۃ الحوثیین فی الیمن
  56. وفاۃ مرجعیۃ الشیعۃ الزیدیۃ فی الیمن بدر الدین الحوثی
  57. خمینی و خامنہ ای، امامان انقلابیون یمن؛ شہید ڈاکٹر مرتضی محطوری کا انٹرویو
  58. بدر علمی اور ثقافتی ادارہ
  59. مؤسسۃ الرسالیۃ
  60. مؤسسۃ الامام زید بن علی الثقافیۃ
  61. رابطۃ علماء الیمن
  62. الإعلان عن تأسیس رابطۃ علماء الیمن
  63. مؤسسۃ البینۃ الاجتماعیۃ الثقافیۃ
  64. الحوثیون فی الیمن، الحرکات السیاسیۃ الشیعیۃ فی الیمن، ص ۶۳
  65. تنظیم الشباب المؤمن فی الیمن
  66. الشیعۃ فی الیمن
  67. الشیعۃ فی الیمن
  68. علی الحکومۃ الیمنیۃ الاعتذار لإیران کما اعتذرت للجنوب وصعدۃ
  69. ملتقی التصوف الاسلامی
  70. تاریخ فرق اسلامی ۲، ص ۱۳۶
  71. نجران تشیع الشیخ حسین المكرمی واختیار الشیخ عبدالله بن محمد خلفاً للفقید والجمالی نائباً لہ
  72. تحمیل حكومۃ السعودیۃ والیمن مسؤولیۃ اختفاء زعیم الطائفۃ الإسماعیلیۃ
  73. الحوثیون فی الیمن، الاسماعیلیہ فی الیمن النشاۃ ۔ التطور ۔ الواقع، ص ۲۳۵
  74. ماذا تعرف عن سلطان البہرہ" المفضل "
  75. مقابلۃ مع ممثل طائفۃ البہرۃ فی الیمن
  76. البہرۃ - طائفۃ وأسرار۔۔!
  77. البہرہ و طائفۃ المكارمہ فی الیمن
  78. التکفیریون بدأوا تنفیذ(حلمهم) لاجتثاث الشیعۃ الجعفریۃ من الیمن
  79. یمن کے زندان میں تقریبا 300 قیدیوں کے نام
  80. الاعدام لثلاثۃ من المتمردین الشیعۃ فی الیمن
  81. قوات اردنیۃ خاصۃ تشارک فی القتال ضد شیعۃ الیمن
  82. الشیعۃ الزیدیۃ والتمرد الحوثی فی الیمن

مآخذ

  • ابن اثیر شیبانی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ھ۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، باستان‌شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • محمد بن علی زحیف، مآثر الأبرار فی تفصیل مجملات جواهر الأخبار، صنعاء، مؤسسة الإمام زید بن علی الثقافیة، چاپ اول، ۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲ء۔