اہل کتاب
اہلِ کتاب سے مراد وہ غیر مسلم ہیں جن کے پاس آسمانی کتابیں ہیں۔ مسلمان علماء یہودیت، عیسائیت اور زرتشت کے پیروکاروں کو اہلِ کتاب شمار کرتے ہیں۔ تاریخی منابع میں پیغمبرِ اسلامؐ کے اہلِ کتاب کے ساتھ ہونے والے تعاملات اور مکالمات کا ذکر ملتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ ان کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے اور کبھی کبھار ان کے علماء سے مناظرے بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، ان کے ساتھ امن معاہدے بھی کیے جاتے تھے تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکیں۔
اسلامی فقہ میں اہلِ کتاب کے بارے میں مختلف احکام بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: اہلِ کتاب کے پاس اسلامی سرزمین پر رہنے کے دو راستے ہیں یا تو وہ اسلام قبول کریں، یا جِزیہ ادا کریں، ورنہ ان سے جہاد فرض ہے۔ مسلمان عورت کے لیے اہلِ کتاب مرد سے دائمی اور عارضی نکاح جائز نہیں ہے، اور نہ ہی مسلمان مرد کے لیے اہلِ کتاب عورت سے دائمی نکاح جائز ہے۔ اکثر فقہاء کے نزدیک اہلِ کتاب ناپاک ہیں۔ اہلِ کتاب کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں۔
اہلِ کتاب کون ہیں؟
“اہلِ کتاب” ایک شرعی اور فقہی اصطلاح ہے جو ان کافروں (غیر مسلموں) کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کے پاس آسمانی کتابیں ہوں۔[1] شیعہ فقہاء یہود، نصاریٰ اور زرتشتیوں کو اس اصطلاح کا مصداق قرار دیتے ہیں۔[2] شیخ طوسی کے مطابق، علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ کتاب کافروں کے احکام صابئین پر لاگو نہیں ہوتے اور ان کا اہلِ کتاب سے الحاق دلیل کا محتاج ہے۔[3] تاہم، آیت اللہ خوئی[4] اور آیت اللہ خامنہ ای[5] جیسے علماء انہیں بھی اہلِ کتاب مانتے ہیں۔
اہلِ کتاب کی اصطلاح کو “اہلِ قبلہ” کے بالمقابل استعمال کیا جاتا ہے، جو پیغمبرِ اسلامؐ اور قرآن کے پیروکاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[6] ایک ایرانی شیعہ محقق احمد پاکتچی کہتے ہیں کہ قرآنی استعمالات کے پیش نظر، ظہور اسلام کے وقت اہلِ کتاب کی اقلیت کو امیین کی اکثریت کے بالمقابل رکھتے تھے۔ اور امیین عام طور پر جزیرہ نمائے عرب کے ان بت پرستوں کو کہا جاتا تھا جو نہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور نہ ان کے پاس دینی کتاب ہوتی تھی۔[7]
قرآن میں اہلِ کتاب کا تذکرہ
قرآن میں اہلِ کتاب کے لیے استعمال ہونے والے کچھ عام تعبیرات یہ ہیں: “اَھْلَ الْکِتاب”، “اَلَّذِیْنَ کَفَرُوا”، “اَلَّذِیْنَ آتَیْنٰھُمُ الْکِتاب” اور “اَلَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتاب”۔[8] کہا جاتا ہے کہ قرآن نے بہت سی آیات میں اہلِ کتاب کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ ان میں سے بعض افراد کو ان کی ایمانداری، امانت داری اور سچائی جیسی صفات کی بنا پر سراہا گیا ہے، جبکہ بعض افراد کی سرزنش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ان کے کینہ توزی و دشمنی کا ذکر کیا گیا ہے۔[9] اس کے علاوہ، ان گروہوں کے گمراہی کے علل و اسباب جیسے دین کی غلط تفسیر، آسمانی کتابوں کی تحریف، حسد اور عہد شکنی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔[10]
پیغمبرِ اسلامؐ کا اہلِ کتاب کے ساتھ تعامل
بعض شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ کی مکی زندگی میں انہوں نے نہ اہلِ کتاب کے ساتھ کوئی دینی گفتگو کی ہے اور نہ ان کے ساتھ کوئی عسکری تصادم پیش آیا، کیونکہ مکہ میں اہل کتاب موجود ہی نہیں تھے۔[11] محققین نے اہلِ کتاب کے ساتھ پیغمبرِ اسلامؐ کے تعاملات کا مراحلہ وار جائزہ لیا ہے جس کے تحت ان تعاملات کا بنیادی مقصد انہیں اسلام کی دعوت دینا تھا۔[12] اس سلسلے میں، پیغمبرِ اسلامؐ نے سب سے پہلے ثقافتی طور پر حوصلہ افزا طریقوں اور مناظرات کا راستہ اپنایا ہے۔[13] اس سلسلے میں آپ ان کے علماء کے سوالات کا جواب دیتے اور ان کے غلط عقائد پر سوال اٹھاتے تھے۔ اس کے علاوہ، آپ ان کے انبیاء کی حقیقی رسالت کی تصدیق کرتے اور آپ کی دعوت کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے مشترکہ اعتقادات ہوا کرتے تھے۔[14]
پیغمبرِ اسلامؐ نے مسلمانوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی[15] اور دشمنوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے لیے[16] اہلِ کتاب کے ساتھ امن معاہدے کیے۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق اہلِ کتاب کے ساتھ جنگ صرف تین صورتوں میں پیش آتی: جب ان کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوتا، یا وہ فتنہ انگیزی پر اتر آتے یا وہ جِزیہ ادا کرنے سے انکار کرتے۔[17] احادیث کے مطابق پیغمبرِ اسلامؐ نے اپنے سپہ سالاروں کو حکم دیتے تھے کہ وہ جنگ سے پہلے اہلِ کتاب کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، اور اگر وہ قبول نہ کریں تو انہیں جِزیہ ادا کرنے اور اس کی شرائط پر عمل کرنے کی دعوت دی جائے۔[18] مورخین نے خندق اور خیبر جیسی جنگوں کے آغاز اور ان کے علل و اسباب کو یہودیوں کی سازشیں اور مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی مالی امداد قرار دیتے ہیں۔[19]
مربوطہ فقہی احکام
شیعہ فقہاء نے فقہ کے مختلف ابواب میں اہلِ کتاب سے متعلق احکام بیان کیے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- دارالاسلام میں اسلامی حکمران کی طرف سے اہلِ کتاب کو اسلام قبول کرنے یا کافر ذمی کی شرائط قبول کر کے جِزیہ ادا کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اگر وہ دونوں میں سے کوئی بھی قبول نہ کریں تو شرائط پوری ہونے پر ان سے جہاد واجب ہے۔[20]
- شیعہ فقیہ آیت اللہ خوئی کے مطابق شیعہ فقہاء کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب ناپاک ہیں، تاہم بعض قدیم فقہاء (محقق حلی سے پہلے کے فقہاء) اور بعض متاخر محققین نے اہلِ کتاب کی طہارت کا فتویٰ دیا ہے۔[21]
- امامیہ اور اہلِ سنت کے فتوے کے مطابق اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ وہ اہلِ کتاب سے ان کے اسلامی ممالک میں قیام اور دوسروں کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت سے تحفظ کے عوض جِزیہ وصول کرے۔[22] اہلِ کتاب، کافر ذمی کی شرائط اور جِزیہ کی ادائیگی کے ساتھ، باضابطہ اور قانونی طور پر اسلامی ریاست کے تابع سمجھے جاتے ہیں اور اسلامی حکومت ان کی حفاظت اور تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے اور وہ قانونی حقوق کے حامل ہوتے ہیں۔[23]
- شیعہ فقہاء اہلِ کتاب عورت سے مسلمان مرد کے عارضی اور دائمی نکاح میں فرق کے قائل ہوتے ہوئے عارضی نکاح کو جائز اور دائمی نکاح کو حرام قرار دیتے ہیں۔[24] محقق حلی اور فیض کاشانی نے اس حکم کو امامیہ کا مشہور قول قرار دیا ہے۔[25] البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قدیم زمانے کا مشہور نظریہ یہ تھا کہ اہلِ کتاب سے نکاح کلی طور پر حرام ہے۔[26] نیز شیعہ اور اہل سنت فقہ میں اس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ مسلمان عورت کا کسی بھی غیر مسلم مرد سے خواہ وہ اہلِ کتاب ہی کیوں نہ ہو، نکاح جائز نہیں ہے۔[27]
- شیخ بہائی کے مطابق اکثر شیعہ فقہاء جیسے شیخ طوسی، شیخ مفید، سید مرتضی اور شہید اول اہلِ کتاب کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام سمجھتے ہیں، اگرچہ انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا ہو۔[28] امام خمینی بھی اسی نظریے پر ہیں۔[29] شیخ بہائی کے مطابق بہت کم فقہاء اہلِ کتاب کے ذبیحے کو حلال سمجھتے ہیں۔[30]
- علامہ حلی اور صاحبِ ریاض جیسے فقہاء کے نزدیک اہلِ کتاب کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے اور علامہ کے مطابق کسی بھی مسلمان کو ان کے داخلے کی اجازت دینے کا حق نہیں ہے۔[31]
- کتابی اور غیر کتابی کافر دونوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں۔[32]
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں اہلِ کتاب
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے آرٹیکل تیرہ کے مطابق، ایران کے زرتشتی، کلیمی (یہودی) اور عیسائی وہ مذہبی اقلیتیں ہیں جو قانون کے دائرے میں اپنے انفرادی معاملات اور مذہبی رسومات پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔[33]
مونوگراف
علی سعیدی شاہرودی کی کتاب “احکام اہل الکتاب فی الاسلام” جو 1384 شمسی میں مجمع ذخائر اسلامی پبلیکیشنز سے شائع ہوئی، اس میں اہلِ کتاب کی وضاحت اور ان کے احکامات کو تین ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ منصور قاسمی نے اپنے مقالے “قرآن و حدیث کے نقطہ نظر سے اہلِ کتاب کے ساتھ تعلقات اور ان کے ساتھ سلوک کا طریقہ” میں اہلِ کتاب کے ساتھ تعلقات کے فریم ورک اور ان کے کچھ احکامات کو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کی روشنی میں بیان کیا ہے۔[34]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مؤسسة دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، موسوعة الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج19، ص106۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص228؛ عمید زنجانی، بنیادہای ملیت، 1361ش، ص108؛ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1392ش، ص470۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج4، ص318 ـ 319۔
- ↑ خویی، منہاجالصالحین، 1410ھ، ج1، ص391۔
- ↑ کاوشی در حکم فقہی صابیان۔
- ↑ کمپانی زارع، «اہل کتاب»، ص680۔
- ↑ پاکتچی، «اہل کتاب»، ص475۔
- ↑ صفائی، «اہل کتاب در قرآن»، ص139۔
- ↑ سلیمی، «تصویر اہل کتاب در قرآن»، ص74 ـ 77۔
- ↑ سلیمی، «تصویر اہل کتاب در قرآن»، ص78 و 87 و 90 ـ 91۔
- ↑ احمد نژاد، کلباسی اشتری، «نقد دیدگاہ مفسران معاصر دربارہ تعامل پیامبر با اہل کتاب در مکہ»، ص178 ـ 179۔
- ↑ عرفانی و مسترحمی، «شیوہہای دیپلماسی پیامبر در تعامل با اہل کتاب»، ص84 و 86۔
- ↑ عرفانی و مسترحمی، «شیوہہای دیپلماسی پیامبر در تعامل با اہل کتاب»، ص88 ـ 89 و 93۔
- ↑ عباسی مقدم، «روششناسی برخورد پیامبر با مشرکان و اہل کتاب»، ص179 ـ 181۔
- ↑ عرفانی و مسترحمی، «شیوہہای دیپلماسی پیامبر در تعامل با اہل کتاب»، ص98 ـ 99۔
- ↑ عباسی مقدم، «روششناسی برخورد پیامبر با مشرکان و اہل کتاب»، ص182۔
- ↑ خویی، بیان در علوم و مسائل کلی قرآن، 1382ش، ص360 ـ 361۔
- ↑ روحانی، فقہ الصادق، 1412ھ، ج13، ص53۔
- ↑ سبحانی تبریزی، فروغ ابدیت، 1371ش، ج2، ص122 و 240۔
- ↑ شہید اول، اللمعة الدمشقیہ، 1410ھ، ص81؛ روحانی، فقہ الصادق، 1435ھ، ج19، ص65۔
- ↑ خویی، موسوعة الامام الخویی، 1418ھ، ج3، ص40۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص227 ـ 228۔
- ↑ عمید زنجانی، بنیادہای ملیت، 1361ش، ص109۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص299؛ شہید اول، اللمعة الدمشقیة، 1410ھ، ص180؛ شیخ طوسی، النہایة، بیروت، 1400ھ، ص457۔
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص520؛ فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، قم، مجمع الذخائر الاسلامیة، 1401ھ، ج2، ص249۔
- ↑ برجی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، ص120۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسة، 1402ھ، ص314؛ ابنسعید حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص432؛ سید مرتضی، المسائل الناصریات، 1417ھ، ص327۔
- ↑ شیخ بہایی، حرمة ذبائح اہل الکتاب، 1410ھ، ص59 ـ 60۔
- ↑ امام خمینی، تحرير الوسيلة، 1392ش، ج2، ص156
- ↑ شیخ بہایی، حرمة ذبائح اہل الکتاب، 1410ھ، ص62۔
- ↑ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج2، ص214؛ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج8، ص55۔
- ↑ کمپانی زارع، «اہل کتاب»، ص694۔
- ↑ «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی۔
- ↑ «ارتباط با اہل کتاب و شیوہ برخورد با آنان از دیدگاہ قرآن و حدیث»، سایت حدیثنت۔
مآخذ
- ابنسعید حلی، یحیی بن احمد، الجامع للشرایع، قم، موسسہ سیدالشہداء(ع)، 1405ھ۔
- احمد نژاد، امیر و زہرا کلباسی اشتری، «نقد دیدگاہ مفسران معاصر دربارہ تعامل پیامبر با اہل کتاب در مکہ»، در پژوہشہای قرآن و حدیث، پاییز و زمستان 1393ہجری شمسی۔
- «ارتباط با اہل کتاب و شیوہ برخورد با آنان از دیدگاہ قرآن و حدیث»، سایت حدیثنت، تاریخ مشاہدہ: 2 خرداد 1404ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلة، قم، مؤسسة تنظيم و نشر آثار امام خمينی، 1392ہجری شمسی۔
- برجی، یعقوبعلی، «ازدواج با زنان اہل کتاب»، در پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ 3 و 4، پاییز و زمستان 1381ہجری شمسی۔
- پاکتچی، احمد، «اہل کتاب»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج10، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تہران، 1380ہجری شمسی۔
- حلبی، ابوالصلاح، الکافی فی الفقہ، اصفہان، مکتبة الإمام أمیر المؤمنین علیہ السلام، 1403ھ۔
- حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیة علی مذہب الامامیہ، مؤسسہ امام صادق(ع)، قم، چاپ اول، 1420ھ۔
- خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ امام، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، 1389ہجری شمسی۔
- خویی، سید ابوالقاسم، بیان در علوم و مسائل کلی قرآن، مترجم: محمدصادق نجمی، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، تہران، 1382ہجری شمسی۔
- خویی، سید ابوالقاسم، منہاجالصالحین، قم، مدینة العلم، 1410ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، قم، 1418ھ۔
- روحانی، سید صادق، فقہ الصادق(ع)، دار الکتاب، قم، چاپ اول، 1412ھ۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، 1371ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، منشور جاوید، مؤسسہ امام صادق(ع)، قم، 1390ہجری شمسی۔
- سلیمی، «تصویر اہل کتاب در قرآن»، در مجلہ پژوہشہای اسلامی، شمارہ 7، تابستان 1390ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، المسائل الناصریات، تہران، رابطة الثقافة و العلاقات الاسلامیة، 1417ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، اللمعة الدمشقیة، دار التراث، بیروت، چاپ اول، 1410ھ۔
- شیخ بہایی، محمد بن حسین، حرمة ذبائح اہل الکتاب، بیروت، موسسةالاعلمی للمطبوعات، 1410ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ اول، 1407ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایة، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ دوم، 1400ھ۔
- طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، مؤسسہ آلالبیت(ع)، قم، 1418ھ۔
- عباسی مقدم، مصطفی، «روششناسی برخورد پیامبر با مشرکان و اہل کتاب»، در مجلہ: فلسفہ دین، شمارہ6، تابستان 1389ہجری شمسی۔
- عرفانی، محمدنظیر و سید عیسی مسترحمی، «شیوہہای دیپلماسی پیامبر در تعامل با اہل کتاب»، در مطالعات حدیثپژوہی، شمارہ 6، پاییز و زمستان 1397ہجری شمسی۔
- عمید زنجانی، عباسعلی، بنیادہای ملیت، بنیاد بعثت، تہران، 1361ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، ملامحسن، مفاتیح الشرائع، قم، مجمع الذخائر الاسلامیة، 1401ھ۔
- «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: 31 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
- کاوشی در حکم فقہی صابیان، وبگاہ پرتال جامع علوم انسانی، مجلہ فقہ اہل بیت 1375 شمارہ 8۔
- کمپانی زارع، مہدی، «اہل کتاب»، در دانشنامہ امام رضا(ع)، ج2، انتشارات بینالمللی المصطفی، 1396ہجری شمسی۔
- مؤسسة دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، موسوعة الفقہ الاسلامی طبقا لمذہب اہلالبیت(ع)، مؤسسة دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، قم، 1423ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام، تہران، استقلال، 1409ھ۔
- مشکینی اردبیلی، علی، مصطلحات الفقہ، مؤسسہ دارالحدیث، قم، 1392ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسة، بیجا، بینا، 1402ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: عباس قوچانی و علی آخوندی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، چاپ ہفتم، 1404ھ۔