برکت

ویکی شیعہ سے

برکت، اللہ کی ابدی نعمتوں اور بڑھتی ہوئی نیکیوں کا نام ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں تین مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ہر بار اللہ تعالی سے منسوب ہے نیز برکت ایجاد کرنے کو اللہ تعالی ہی پر منحصر کیا گیا ہے۔ انسان کے لیے برکت کے باعث ہونے والی خصوصیات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: ایمان و تقوا، استغفار، ذکر، اللہ کی اطاعت، عدالت اور نرم مزاجی جبکہ ان کے مقابلے میں انسان کی بعض عادتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کو برکت کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں جیسے: ارتکاب گناہ اور امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک کرنا۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے بعض کو برکت کی نشانیاں قرار دی گئی ہیں۔ مثلاً بعض انبیاء جیسے حضرت نوح، صالح مومنین، قرآن کریم، بعض اوقات جیسے شب قدر، بعض مکانات، جیسے مکہ اور فطرت کے بعض جلوے جیسے بارش۔

مفہوم شناسی

خیر میں اضافہ کے معنی آنے والا برکت،[1] کا لفظ ایک نسبی لفظ جانا گیا ہے اور اسی وجہ سے ہر چیز میں خیر اس کی ظرفیت اور کام کے مطابق ہے۔ مثلا نسل میں برکت سے مراد اولاد کی تعداد کا زیادہ ہونا ہے، وقت میں برکت سے مراد انسان کے کام کسی خاص وقت میں پھیل جانے کے معنی میں ہیں۔[2] قرآن مجید میں برکات کی اصطلاح جاوید نعمتیں اور بڑھتی ہوئی نیکیوں کے لیے استعمال ہوئی ہے؛[3] اسی لیے آسمان کی برکات سے مراد بارش کی فراوانی، زمین کی برکات سے مراد نباتات اور میوہ جات کی فراوانی لیا ہے۔[4] قرآن مجید میں تبارک کا لفظ صرف اللہ تعالی کے استعمال ہوا ہے[5]جبکہ اس کے مترادف دیگر الفاظ انسان، حادثات اور خاص مقامات کے لیے مشترک استعمال ہوئے ہیں۔[6] برکت کا لفظ جمع کی شکل (برکات) میں قرآن مجید میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے[7]جس کو بعض مفسرین اللہ کی فراوان برکت کی نشانی سمجھتے ہیں۔[8] برکت کے مترادف دیگر الفاظ جیسے «بارک»،[9] «بارکنا»،[10] «بورک»،[11] «مبارک»،[12] «مبارکا»،[13] «مبارکۃ»[14] اور «تبارک»[15] 32 مرتبہ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔

«برک» سے مشتق ہونے والے الفاظ قرآن مجید میں ہمیشہ اللہ تعالی سے مستند ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برکت ایجاد کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔[16] برکت کا لفظ اہل بیتؑ کی روایات میں بھی ذکر ہوا ہے اور اسے جنود عقل میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔[17]

برکت کا مفہوم قرآن مجید اور اسلامی متون کے علاوہ اسلام سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں بھی استعمال ہوا ہے؛ اللہ تعالی کی طرف سے انبیاءؑ کو برکت عطا کرنا، انبیاء اور کاہنوں کی طرف سے دوسروں کو عطا کرنا، انہی موارد میں سے بعض ہیں۔[18] «برک یا برخ» سے مشتق ہونے والے الفاظ اور عبری لفظ «براخاہ» جو کہ برکت کے معنی میں ہے تقریباً 400 مرتبہ عہد عتیق اور متعدد بار عہد جدید میں استعمال ہوا ہے۔[19]

عوامل

اسلامی تہذیب میں برکت انسان کے کردار، رفتار اور گفتار سے وابستہ ہے؛ اسی لیے قرآن مجید اور معصومینؑ کی روایات میں ایمان، تقوا، استغفار، شکر، اطاعت، ذکر خدا،[20] عدالت،[21] سحرخیزی،[22] نرم‌ مزاجی،[23] سلام کرنا،[24] صدقہ دینا،[25] صفائی کا خیال رکھنا،[26] شادی کے اخراجات کو کم کرنا،[27] صلہ رحم،[28] خرید و فروخت میں سچائی،[29] ہمسایوں کا خیال رکھنا،[30] دینی بھائیوں سے مواسات[31] روزہ رکھنا اور سحری کھانا[32] برکت نازل ہونے کے علل و عوامل میں سے ذکر ہوئے ہیں۔

ایمان و تقوا

سورہ اعراف کی آیت 96 میں قرآن مجید نے زمینی اور آسمانی برکات کے نزول کو اہل زمین یا شہر کے اکثر لوگوں کے ایمان اور تقوا سے مشروط کیا ہے؛ لہذا تفاسیر میں جو کچھ اس آیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا ایمان اور تقوی، سب پر آسمانی برکات کے نزول کا ضامن نہیں بن سکتا ہے۔[33]

استغفار

سورہ ہود آیت 52 اور سورہ نوح آیت 10 سے 13 تک کی آیات میں اللہ تعالی کی برکتوں کا نزول؛ جیسے بارش، کو موانع اور رکاوٹیں دور کرنے پر مبتنی کی ہے اور چونکہ گناہ کو موانع میں سے ایک شمار کیا گیا ہے اسی لیے بندوں کا استغفار کرنا رحمت الہی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔[34]

لہذا قرآن مجید میں اللہ تعالی نے نعمتوں کے حصول کو شکر سے مشروط کیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کفران نعمت کو عذاب زیادہ ہونے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے۔[35] امام علیؑ نے استغفار کو روزی اور رحمت الہی کے نزول کا دائمی وسیلہ قرار دیا ہے۔[36]

موانع

اسلامی کلچر اور متون کے مطابق بعض کردار اور گفتار انسان کا اللہ کی برکتوں سے محروم ہونے کے باعث بنتے ہیں؛ گناہ کا ارتکاب، نافرمانی، امر بہ معروف و نہی از منکر کا ترک کرنا، اور اللہ کی یاد سے غافل ہونا[37] ان بعض عوامل میں سے ہیں جنکو قرآن اور روایات میں نزول برکات کے موانع میں سے قرار دیا ہے۔

گناہ کا ارتکاب اور نافرمانی

گناہ اور نافرمانی کو انسان کی عمر، مال اور زندگی سے برکت سلب ہونے کے عوامل میں سے قرار دیا گیا ہے؛ سورہ اعراف کی آیت 96 کی تفسیر میں قرآن کریم کے مفسروں نے گناہ کے مرتکب ہونے والے اور پیغمبروںؑ کو جھٹلانے والوں کی عاقبت کو عذابِ الہی کے علاوہ آسمانی اور زمینی برکات کے حصول سے بھی محرم سمجھا ہے۔[38] وہ امور جو برکات الہی سے محروم کرنے کا سبب بنتے ہیں ان میں: ترک نماز،[39] کم‌فروشی،[40] زکات نہ دینا،[41] [[فضول خرچی]،[42] خیانت،[43] چوری، شرب پینا، فحشا[44] اور معاملات میں جھوٹی قسم شامل ہیں۔[45]

امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک کرنا

امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک کرنے کو برکت کے نزول کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت کے مطابق اللہ تعالی کی برکات کا حصول صرف اور صرف امر بالمعروف اور نہی از منکر انجام دینے اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے میسر ہوتا ہے لیکن اس کو ترک کرنے سے نعمتیں اور نیکیاں ان سے روکی جائیں گی۔[46]

مصادیق اور موارد

قرآن مجید کی بعض آیات کے مطابق اللہ تعالی نے بعض مخلوقات کو برکت کی نشانی قرار دیا ہے، جیسے بعض انبیاء، مخلص مومنین، قرآن مجید، بعض اوقات، بعض مقامات اور فطری کچھ جلوے۔ ان میں سے قرآن مجید بابرکت ہونے کی دلیل[47] اس کا ہادی ہونا ہے۔[48]

انبیاء اور دوسرے لوگوں میں سے جن کو قرآن مجید میں بابرکت کہا گیا ہے ان میں کشتی نوح میں حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھی،[49] حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق،[50] حضرت موسیؑ،[51] حضرت عیسیؑ،[52] پیغمبر اکرمؐ،[53] مؤمنین اور صالحین.[54]

اسی طرح بعض مقامات اور جگہے جیسے مکہ،[55] شام،[56] بیت المقدس[57] اور وادی طور[58]، مبارک اور بابرکت شمار ہوتی ہیں۔

اوقات میں سے شب قدر، ان اوقات میں سے ایک ہے جو استجابت دعا، گناہوں کی مغفرت اور اس میں نزول قرآن ہونے کی وجہ سے[59] مبارک اور بابرکت کہا گیا ہے۔[60] اسی طرح بعض فطری حوادث اور جلوے بھی بابرکت شمار ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید میں بارش کو «مبارک پانی» قرار دیا گیا ہے۔[61]

حوالہ جات

  1. دہخدا، امثال و حکم، 1383ش، ج1، ص104، 114، 359۔
  2. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج7، ص280-281۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج4، ص697۔
  4. شیخ طوسی، التبیان، 1383ق، ج4، ص477۔
  5. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج15، 173۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج4، ص516، 596۔
  7. سورہ اعراف، آیہ 96؛ سورہ ہود، آیہ 48 و 73۔
  8. قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ ہا از سوی خداوند» ج5، ص486۔
  9. سورہ فصلت، آیہ 10۔
  10. سورہ اعراف، آیہ 137؛ سورہ اسراء، آیہ 1؛ سورہ انبیا، آیہ 71 و 81؛ سورہ سبا، آیہ 18؛ سورہ صافات، آیہ 113۔
  11. سورہ نمل، آیہ 8۔
  12. سورہ انعام، آیہ 92 و 155؛ سورہ انبیاء، آیہ 50؛ سورہ ص، آیہ 29۔
  13. سورہ آل عمران، آیہ 3؛ سورہ مریم، آیہ 31؛ سورہ مؤمنون، آیہ 29؛ سورہ ق، آیہ 9۔
  14. سورہ نور، آیہ 61 و 35؛ سورہ دخان، آیہ 3۔
  15. سورہ اعراف، آیہ 54؛ سورہ فرقان، آیہ 1 و 10 و 61؛ سورہ زخرف، آیہ 65؛ سورہ الرحمن، آیہ 78؛ سورہ ملک، آیہ 1۔
  16. قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ‌ہا از سوی خداوند» ج5، ص486۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص22۔
  18. قدمی، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ ہا از سوی خداوند» ج5، ص484۔
  19. کریمی، برکت، ج11، ص744۔
  20. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج70، ص341۔
  21. لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، 1376ش، ص188۔
  22. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خط 12۔
  23. کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص119۔
  24. صدوق، علل الشرایع، 1385ق، ج2، ص583۔
  25. سورہ بقرہ، آیہ 276؛ لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، 1376ش، ص195؛ کلینی، الکافی، 1403ق، ج4، ص2۔
  26. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج73، ص110۔
  27. ابن حنبل، مسند، 1416ق، ج6، ص82، 145۔
  28. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، ص164، خطبہ 110؛ کوفی اہوازی، الزہد، 1402ق، ص39۔
  29. ابن حنبل، مسند، 1416ق، ج3، ص402۔
  30. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص97۔
  31. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص395۔
  32. ابن حنبل، مسند، 1416ق، ج3، ص12۔
  33. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج8، ص201؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج14، ص321؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج6، ص266۔
  34. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج10، ص444؛ ج20، ص45۔
  35. سورہ ابراہیم، آیہ 7۔
  36. قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، 1368ش، ج13، ص454۔
  37. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج73، ص314۔
  38. طبرسی، مجمع البیان، 1372، ج4، ص69؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج14، ص322۔
  39. ابن طاووس، فلاح السائل، 1406ق، ص22۔
  40. صدوق، علل الشرایع، 1385ق، ج2، ص584۔
  41. کلینی، الکافی، 1407ق، ج3، ص505۔
  42. کلینی، الکافی، 1407ق، ج4، ص55۔
  43. لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، 1376ش، ص134۔
  44. علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج76، ص19، 23۔
  45. کلینی، الکافی، 1407ق، ج5، ص162۔
  46. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ق، ص808۔
  47. سورہ انعام، آیہ 92 و 155؛ سورہ انبیاء، آیہ 50؛ سورہ ص، آیہ 29۔
  48. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج7، ص387۔
  49. دیکھئے: طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، 255؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ق، ج3، ص137۔
  50. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص709؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج15، ص113؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ق، ج5، ص16؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج10، ص325۔
  51. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، 330؛ طبری، جامع البیان، 1412ق، ج19، ص82۔
  52. سورہ مریم، آیہ 31؛ طبری، جامع البیان، 1412ق، ج16، ص66؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج21، ص535؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج10، ص70۔
  53. سورہ کوثر، آیہ 1؛ شیخ طوسی، التبیان، 1385ق، ج10، 417؛ ابن عربی، تفسیر القرآن الکریم، 1978م، ج2، ص460۔
  54. سورہ بقرہ، آیہ 269؛ سورہ ہود، آیہ 48۔
  55. سورہ آل عمران، آیہ 96؛ زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج1، ص387؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص14۔
  56. سورہ اعراف، آیہ 137؛ سورہ انبیا، آیہ 71 و 81؛ سورہ سبا، آیہ 18؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج14، ص348؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج8، ص228؛ زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج2، 149؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج7، ص272؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج22، ص190-201؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج4، ص725۔
  57. سورہ اسراء، آیہ 1۔
  58. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج24، ص593۔
  59. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص93۔
  60. سورہ دخان، آیہ 3۔
  61. سورہ ق، آیہ 9۔

مآخذ

  • ابن حنبل، احمد، مسند، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1416ھ۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، 1406ھ۔
  • ابن عربی، محمد بن علی، تفسیر القرآن الکریم، تصحیح مصطفی غالب، بیروت، دار الاندلس، 1978م.
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • دہخدا، علی اکبر، امثال و حکم، تہران، امیرکبیر، 1383شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، علی بن محمد، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، 1385ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1383ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372شمسی ہجری۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • علامہ طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • قدمی، غلامرضا، «برکت: پیدایش، پایداری و فزونی خیر در پدیدہ‌ہا از سوی خداوند»، دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، 1382شمسی ہجری۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364شمسی ہجری۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تصحیح حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ و انتشار وزارت ارشاد، 1368شمسی ہجری۔
  • کریمی، محمود، «برکت»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1381شمسی ہجری۔
  • کلینی، ‌محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • کوفی اہوازی، حسین بن سعید، الزہد، تصحیح غلامرضا عرفانیان یزدی، قم، المطبعۃ العلمیۃ، 1409ھ۔
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، قم، دار الحدیث، 1376شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1371شمسی ہجری۔