ناگہانی قتل
یہ مضمون دہشت گردی کے مفھوم کے بارے میں ہے۔ خوف پیدا کرنے کے لیے منظم تشدد اور حیرت کی کارروائیوں کے بارے میں معلومات کے لیے، دہشت گردی کا اندراج دیکھیں۔
ناگہانی قتل یا خفیہ قتل (Assassination) سے مراد سیاسی یا مذہبی وجوہات کی بنا پر مخالفین کا اچانک قتل کرنا ہے، یعنی ایسا رعب و وحشت پیدا کرنا جو پُرتشدد اور اچانک کارروائیوں کے ذریعے سیاسی یا مذہبی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جائے۔ موجودہ دور میں اسلامو فوبیا کے سبب، یہ مسئلہ دنیائے اسلام میں خاص اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ دینی متون میں اس نوعیت کے اقدامات کے لیے "فَتْک"، "اِغْتِیال" اور محاربہ جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالحؑ، حضرت محمدؐ اور کچھ دیگر مؤمنین کو بھی ناگہانی یا خفیہ قاتلانہ حملوں کا سامنا رہا ہے۔ اسی طرح شیعوں کے پہلے امام حضرت علیؑ اور دوسرے امام حضرت حسن مجتبیؑ بھی خفیہ قتل کا نشانہ بنے ہیں۔
فقہی لحاظ سے کسی پر ناحق حملہ کرنا حرام ہے، مگر یہ کہ اپنے دفاع کے طور پر ہو۔ شیعہ فقہاء نے ناگہانی یا خفیہ حملوں کی مطلق حرمت کے لیے بعض روایات؛ منجملہ ابو الصباح کنانی کی امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت؛ اور جان و مال پر بلا جواز تصرف کی حرمت جیسے عقلائی اصول سے استدلال کیا ہے۔ فقہی کتب میں خفیہ حملوں کی چند مثالیں بیان کی گئی ہیں: جیسے قَطعُ الطریق کی بنیاد پر راستوں کو غیر محفوظ بنانا، لوگوں کے سماجی امن و سکون کو برباد کرنا، ان کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنا اور عوامی املاک و مقامات کو نقصان پہنچانا (محاربہ) وغیرہ۔
تاریخی مآخذ کے مطابق، ابتدائے اسلام میں، خاص طور پر فتحِ مکہ کے بعد، کچھ قتل ہوئے جنہیں بعض محققین خفیہ حملوں سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کے قتل وغیرہ نہ تو خفیہ حملوں کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی صرف کفر یا ارتداد کی بنیاد پر تھے۔ قتل کی صورت میں اس طرح کی سزائیں یا تو ان لوگوں کے پہلے کیے گئے قتل کی وجہ سے مہدور الدم ہونے کے باعث تھیں، یا ان کے جنگ میں شریک ہونے، جاسوسی کرنے، مسلمانوں کو اذیت دینے اور دوسروں کو اسلام کے خلاف اکسانے کے سبب تھیں۔ مزید یہ کہ جن لوگوں کے قتل کا حکم دیا گیا تھا، ان میں سے اکثر کو امان نامہ ملنے یا اپنے سابقہ اعمال پر توبہ کرنے کے بعد معاف کر دیا گیا۔
اہمیت اور پس منظر
ناگہانی قتل اور پرتشدد حملوں کا مسئلہ بیسویں صدی عیسوی کے آخری عشروں میں، جب عالمی سطح پر تشدد میں اضافہ اور اسلامی ممالک میں القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ سامنے آنے کے بعد اسلامی دنیا کی سیاسی لغت میں خاص اہمیت اختیار کر گیا۔[1] کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی وسیع سطح پر کوششیں کی گئیں تاکہ دنیا میں اسلام کے بارے میں خوف و ہراس (اسلامو فوبیا) پیدا ہو۔[2]
قرآن مجید کی بعض آیات کے مطابق حضرت صالحؑ،[3] پیغمبر اسلامؐ[4] اور مومنین[5] دہشت گردانہ کارروائیوں کے خطرے سے دوچار ہوئے۔[6] کہتے ہیں کہ اس نوعیت کی کاروائیاں مخالفینِ انبیاء کے اہم ہتھیاروں میں سے تھیں تاکہ وہ انبیاء کو اپنے مشن کی تکمیل سے روک سکیں۔[7]
تاریخی روایات کے مطابق پیغمبر اسلامؐ پر کئی مرتبہ قاتلانہ حملے کیے گیے؛ چنانچہ غزوہ تبوک سے واپسی پر اصحابِ عقبہ نے آپؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا؛[8] نیز یہودی قبیلہ بنو نضیر کی جانب سے آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کو اجتماعی طور پر قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی۔[9] ان کاروائیوں میں سے سب سے اہم واقعہ یہ کہ مکہ میں آپؐ کے مخالفین نے یہ منصوبہ بنایا کہ ایک ہی رات میں آپؐ کو قتل کر دیا جائے، جو "لیلۃ المبیت" کے نام سے معروف ہے۔[10]
کچھ ائمہ معصومینؑ بھی ناگہانی حملوں کا نشانہ بنے؛ امام علیؑ کو ابنِ ملجم نے شہید کیا [11] اور امام حسنؑ پر خوارج نے حملہ کیا جس میں آپؑ زخمی ہوئے۔[12]
مفہوم شناسی
ناگہانی یا خفیہ قتل کے لیے فرانسیسی زبان میں لفظ (Terreur) استعمال ہوتا ہے،[13] جس کا مطلب ہے سیاسی مخالفین کو اچانک قتل کر دینا۔[14] کہتے ہیں کہ اس قسم کی کاروائیوں کی درج ذیل خصوصیات ہوتی ہیں:
- طاقت اور پُرتشدد اقدامات کے ذریعے خوف پیدا کرنا،
- غیر قانونی اور غیر شرعی طریقے اختیار کرنا،
- سیاسی یا نظریاتی مقاصد کو ہدف بنانا،
- اور طاقت حاصل کرنے یا حاصل شدہ طاقت برقرار رکھنے کی کوشش کرنا۔[15]
اسلامی حدیثی اور فقہی متون میں پرتشدد اقدامات کا مفہوم بعض دوسرے الفاظ کے مترادف یا قریب المعنی ہے، جیسے "فَتک"، "اغتیال"، "ارہاب" اور "محاربہ" وغیرہ۔[16] تاہم بیسویں صدی عیسوی کی عربی میں "ارہاب" زیادہ تر دہشت گردی (Terrorism) کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔[17]
خفیہ قتل اور دہشت گردی میں فرق
"دہشت گردی" کی تعریف میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے؛ تاہم بعض ماہرین نے خفیہ قتل یا ناگہانی قتل اور دہشت گردی کے درمیان چند بنیادی فرق بیان کیے ہیں۔[18] ان کے مطابق خفیہ قتل زیادہ تر انفرادی، جذباتی یا ہیجانی کارروائی پر مبنی ہوتا ہے جو قلیل مدّت میں کسی خاص مقصد، جیسے دشمن یا مخالف کو اچانک قتل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، دہشت گردی ایک منظم اور گروہی عمل ہوتی ہے جو اچانک قتل سے زیادہ وسیع مقاصد رکھتی ہے۔ دہشت گردی میں کسی چھوٹے ہدف یا محدود گروہ پر حملہ کر کے پورے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے۔[19] مزید یہ کہ دہشت گردی زیادہ تر نظریاتی سطح پر جبکہ خفیہ قتل نظریہ کا عنصر مد نظر رکھے بغیر بھی واقع ہوتا ہے۔[20]
خفیہ قتل اور استشہادی کارروائی میں فرق
خفیہ قتل کو استشہادی کارروائی سے مختلف سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ خفیہ قتل ایک مجرمانہ اور پُرتشدد عمل ہے جس کا مقصد خوف اور دہشت پھیلانا اور سیاسی فائدے کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، استشہادی کارروائی دشمن کی جارحیت کے مقابلے میں اور حقوق کی بازیابی کے لیے اس وقت کی جاتی ہے جب حق لینے کا کوئی اور راستہ باقی نہ رہ جائے۔[21] فقہِ سیاسی کے ماہر داوود فیرحی کے مطابق، استشہادی کارروائی کو شیعہ فقہ میں "دفاعی جہاد" کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔[22] اس نوعیت کی کاروائی کی درستی اس وقت تسلیم کی جاتی ہے جب یہ قابض اور دشمن افواج کے خلاف ہو، نہ کہ اس میں بے گناہوں کی جان ضائع ہو۔[23]
خفیہ قتل کا حکم اور اس کی دلیل
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
«يَا أَبَا الصَّبَّاحِ ہَذَا الْفَتْكُ وَقَدْ نَہَى رَسُولُ اللَّہِ عَنِ الْفَتْكِ يَا أَبَا الصَّبَّاحِ إِنَّ الْإِسْلَامَ قَيَّدَ الْفَتْك؛[24] اے ابو الصباح! یہ خفیہ اور غافل گیرانہ قتل ہے اور رسول خداؐ نے اس نوعیت کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ اے ابو الصباح! اسلام نے خفیہ قتل کو محدود کر دیا ہے۔».[25]
شیعہ فقہ میں غیر دفاعی صورت حال میں کسی بھی شخص؛ چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم؛ پر حملہ کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔[26] شیعہ مجتہد حسین علی منتظری کے مطابق، خفیہ قتل اور غیر مہدورالدم شخص کے قتل کی حرمت ضروریات دین میں سے ہے۔[27]
فقہِ شیعہ میں ناگہانی قتل کی ممانعت کو قرآن مجید کے سورہ مائدہ آیت نمبر 32 اورسورہ اسراء آیت نمبر 33[28] اور ابوالصباح کنانی کی امام جعفر صادقؑ کی حدیث سے ثابت کیا گیا ہے۔[29] اس حدیث کے مطابق امام جعفر صادقؑ نے پیغمبرخداؐ کی ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے اپنے صحابی کو اس شخص کو قتل کرنے سے روکا جس نے امام علیؑ کو دشنام دیا تھا یعنی بدکلامی کی تھی ، امام جعفر صادقؑ نے اس ممانعت کی وجہ نبی اکرمؐ کی وہ حدیث بیان کی جس میں پیغمبر خداؐ نے ناگہانی قتل سے منع کیا ہے۔[30] یہ روایت مسلم بن عقیل سے بھی منقول ہے، جنہوں نے ہانی بن عروہ کے گھر میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے انہیں قتل کرنے کے منصوبے سے آگاہ ہونے کے باوجود، نبی مکرم اسلامؐ کی یہ حدیث یاد آنے پر ابن زیاد کو قتل کرنے سے گریز کیا۔[31]
حسین علی منتظری کے مطابق، دوسروں کے جان و مال پر عدم ولایت جیسے عقلائی اصول کی رو سے حتیٰ کہ مہدورالدم افراد کو بھی ناگہانی قتل کرنا درست عمل نہیں ہے۔[32]
فقہی کتب میں ناگہانی قتل کی مثالیں
فقہی متون میں کئی ایسے اعمال اور جرائم کو خفیہ اور ناگہانی قتل کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے جو آج کے دور میں افراد، اموال، عوامی امن اور سکون کے خلاف کیے جاتے ہیں؛ مثلاً:
- راستوں کو غیر محفوظ بنانا اور عوامی آمد و رفت کے مقامات پر حملے کرنا، جس کے مرتکب کو "قُطّاع الطریق" (راہزن) یا "لصّ" (ڈاکو) کہا جاتا ہے۔[33]
- عوام کا سکون و آرامش سلب کرنا، ان کی جان، مال اور عزت کو خطرے میں ڈالنا؛ جن ارتکاب کرنے والوں کے لیے قرآن اور احادیث میں سخت سزائیں بیان کی گئی ہیں۔[34]
صدر اسلام میں خفیہ قتل جیسے اقدامات
اہم مضامین: کعب بن اشرف کے قتل کا قصہ اور ابو آفاق اور اسماء کے قتل کا قصہ
تاریخی روایات کے مطابق، صدر اسلام میں؛ خاص طور پر فتح مکہ کے بعد؛ کچھ قتل ایسے ہوئے جو رسول اکرمؐ کے حکم سے انجام پائے۔ ان میں کعب بن اشرف،[35] عصماء بنت مروان،[36] ابو عفک شاعر،[37] ابو رافع سلام بن ابی الحقیق[38] اور عقبہ بن ابی معیط کا قتل شامل ہیں۔[39] بعض کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں ناگہانی قتل کا شبہ پایا جاتا ہے۔[40]
تاہم، شیعہ فقیہ حسین علی منتظری کے مطابق، یہ قتل نہ تو ناگہانی قتل کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی صرف کفر یا ارتداد کی بنیاد پر تھے، بلکہ ان کے پسِ پردہ وجوہات میں سنگین جرائم شامل تھے، جیسے کسی قتل میں ملوث ہونا، جنگ میں شرکت، جاسوسی، مسلمانوں کو ایذا دینا اور دوسروں کو دین اسلام کے خلاف اُکسانا۔[41] دینی علوم کے محقق علی اصغر رضوانی کے مطابق، کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کی وجہ محاربہ، معاہدہ توڑنا اور دشمنوں کو اسلام و مسلمانوں کے خلاف اُکسانا وغیرہ تھا۔[42] مزید یہ کہ یہ قتل خفیہ نہیں تھا کیونکہ ان کے قتل کا حکم علانیہ دیا گیا تھا، جبکہ ناگہانی قتل خفیہ اور اچانک کیا جاتا ہے۔[43] ابو عفک شاعرکے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا قتل رسول اکرمؐ کے حکم سے نہیں ہوا، بلکہ یہ اس کے معاہدہ توڑنے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اشعار کہنے کے نتیجے میں تھا۔[44]
عصماء بنت مروان کے قتل کی روایت بھی محلِ شک ہے؛ کیونکہ اس کا قتل نبی اکرمؐ کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ عمیر بن عوف سے منسوب ہے، جو کم بینا تھے اور تاریخی مآخذ کے مطابق اس قتل میں جو مہارت اور دقت پائی جاتی ہے وہ ایک کم بینا شخص کے لیے ممکن نظر نہیں آتی۔[45] عقبہ بن ابی معیط کو جنگ بدر میں قید ہونے کے بعد قتل کیا گیا کیونکہ اس نے جنگ بھڑکانے، قریش کے سرداروں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے اور مسلمانوں کو اذیت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اس کی رہائی مسلمانوں کے لیے خطرناک سمجھی جاتی تھی۔[46] اس کے برعکس، حسین علی منتظری کچھ ایسے موارد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے مہدورالدم قرار دیے گئے بعض افراد کو معافی بھی دی، خاص طور پر فتح مکہ کے موقع پر، جیسے عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ، عبد اللہ بن سعد، اور حویطب بن عبدالعزی وغیرہ۔[47]
حوالہ جات
- ↑ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در مذہب شیعہ»، ص123۔
- ↑ احمدزادہ و برہان، «تحلیل فقہی ترور با تأکید بر آرای فقہی و مشی سیاسی امام خمینی»، ص158؛ عبداللہینژاد و عباسپور مقدم، «ترور از دیدگاہ فقہ»، ص154۔
- ↑ سورہ نمل، آیہ 48۔
- ↑ سورہ انفال، آیہ 30۔
- ↑ سورہ قصص، آیہ 57؛ سورہ آلعمران، آیات 21 و 112؛ سورہ بقرہ، آیہ 61؛ سورہ مائدہ، آیہ 70۔
- ↑ بیگزادہ جلالی، «ترور»، ص494و495۔
- ↑ بیگزادہ جلالی، «ترور»، ص494۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج5، ص78-79۔
- ↑ طبری، جامع البیان، 1415ھ، ج6، ص198؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص463۔
- ↑ الصنعانی، المصنف، نشر المجلس العلمی، ج5، ص389؛ قمی، تفسیر قمی، 1415ھ، ج1، ص274؛ طبری، جامع البیان، 1415ھ، ج9، ص301۔
- ↑ طوسی، امالی، 1414ھ، ص365؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص9؛ جعفریان، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، 1391، ص54-55۔
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص12؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص35۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ذیل «ترور»۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ دہخدا، ذیل واژہ؛ معین، فرہنگ فارسی معین، ذیل واژہ۔
- ↑ عبداللہینژاد و عباسپور مقدم، «ترور از دیدگاہ فقہ»، ص156۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص75-84؛ برجی، پژوہشی فقہی و حقوقی دربارہ ترور و دفاع مقدس، 1386شمسی، ص28-30؛ عبداللہینژاد و عباسپور مقدم، «ترور از دیدگاہ فقہ»، ص156-161؛ حاتمی، «خوانش اسلام از ترور و تروریسم، واکاوی واژگان معادل»، ص8-10۔
- ↑ الکیالی، موسوعۃ السیاسیۃ، 1990ء، ج1، ص153۔
- ↑ بروجردی، جہاد و ترور در اسلام، 1395شمسی، ص20؛ حاتمی، «خوانش اسلام از ترور و تروریسم، واکاوی واژگان معادل»، ص3۔
- ↑ انورخامہای، شاہکشی در ایران و جہان، 1381شمسی، ص20۔
- ↑ بیگزادہ جلالی، «ترور»، ص492۔
- ↑ علویمہر، بررسی فقہی مسئلہ ترور از دیدگاہ امام خمینی(س)، 1392شمسی، ص166۔
- ↑ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادت طلبانہ در مذہب شیعہ»، ص113و 123۔
- ↑ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در مذہب شیعہ»، ص123-125۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص375۔
- ↑ بروجردی، منابع فقہ شيعہ: ترجمہ جامع أحاديث الشيعۃ، 1386ھ، ج31، ص413۔
- ↑ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در فقہ شیعہ»، ص116۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص78۔
- ↑ عبداللہینژاد و عباسپور مقدم، «ترور از دیدگاہ فقہ»، ص162-163۔
- ↑ اردبیلی، مجمع الفائدہ، 1403ھ، ج13، ص172-173؛ مجلسی، روضۃ المتقين، 1406ھ، ج10، ص309؛ منتظری، رسالہ استفتائات، ج2، ص343۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص375-376۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص77۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص82-83۔
- ↑ برجی، پژوہشی فقہی حقوق دربارہ ترور و دفاع مشروع، 1386شمسی، ص131-132۔
- ↑ برجی، پژوہشی فقہی حقوق دربارہ ترور و دفاع مشروع، 1386شمسی، ص132-133۔
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج4، ص6؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص184-193۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص172۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص174۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص70۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص114۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص88-89۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص88-89۔
- ↑ رضوانی، اسلامشناسی و پاسخ بہ شبہات، 1386، ص389۔
- ↑ رضوانی، اسلامشناسی و پاسخ بہ شبہات، 1386، ص391۔
- ↑ رضوانی، اسلامشناسی و پاسخ بہ شبہات، 1386، ص389۔
- ↑ رضوانی، اسلامشناسی و پاسخ بہ شبہات، 1386، ص390۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص90-92۔
- ↑ منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1429ھ، ص94-96۔
مآخذ
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، مصحح عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
- احمدزادہ، ابوالفضل، و مہدی برہان، «تحلیل فقہی ترور با تأکید بر آراء فقہی و مشی سیاسی حضرت امام خمینی»، در فصلنامہ تخصصی دین و قانون، شمارہ 10، 1394ہجری شمسی۔
- اردبیلی، احمد، مجمع الفائدۃ و البرہان، قم، انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
- انور خامہای، شاہکشی در ایران و جہان (جامعہشناسی و تاریخ تروریسم)، تہران، نشر چایبخش، 1381ہجری شمسی۔
- برجی، یعقوب علی، پژوہشی فقہی حقوق دربارہ ترور و دفاع مشروع، قم، نشر زمزم ہدایت، 1386ہجری شمسی۔
- بروجردی، اشرف، جہاد و ترور در اسلام: دیدگاہہای علمای شیعہ و اہل سنت، تہران، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، 1395ہجری شمسی۔
- بروجردی، حسین (و جمعی از فضلا)، منابع فقہ شيعہ(ترجمہ جامع أحاديث الشيعۃ)، تہران، نشر فرہنگ سبز، 1386ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، جمل من أنساب الأشراف، بیروت، دار الفکر، 1417ھ/ 1996ء۔
- بیگزادہ جلالی، حمید، «ترور»، در دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، قم، انصاریان، ششم، 1381ہجری شمسی۔
- حاتمی، بہادر، «خوانش اسلام از ترور و تروریسم، واکاوی واژگان معادل»، در خردنامہ، شمارہ 14، 1394ہجری شمسی۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ دہخدا، تہرانِ، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
- رضوانی، علیاصغر، اسلامشناسی و پاسخ بہ شبہات، قم، انتشارات مسجد جمکران، 1386ہجری شمسی۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- الصنعانی، عبدالرزاق، المصنف، ہند، المجلس العلمی، بی تا۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافۃ، 1414ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان، بیروت، دار احیا التراث العربی، بی تا۔
- عبداللہینژاد، عبدالکریم، و رمضان عباسپور مقدم، «ترور از دیدگاہ فقہ»، در فصلنامہ مطالعات اسلامی فقہ و اصول، شمارہ 87، 1390ہجری شمسی۔
- علوی مہر، حسین، «دفاع و عملیات استشہادی از دیدگاہ امام و دیگر فقیہان»، در کتاب ہمایش دفاع مشروع: بررسی فقہی مسئلہ ترور از دیدگاہ امام خمینی(س)، 1392ہجری شمسی۔
- فیرحی، داود، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در مذہب شیعہ»، در فصلنامہ شیعہشناسی، شمارہ 6، 1386ہجری شمسی۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، بیروت، دار السرور، 1411ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- الکیالی، عبدالوہاب، موسوعۃ السیاسہ، بیروت، موسسۃ العربیۃ للداراسات و النشر، 1990ء۔
- مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات کوشانپور، 1406ھ۔
- معین، محمد، فرہنگ فارسی، تہران، انتشارات امیرکبیر، 1388ہجری شمسی۔
- مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- منتظری، حسین علی، حکومت دینی و حقوق انسان، قم، ارغوان دانش، 1429ھ۔
- منتظری، حسین علی، رسالہ استفتائات، تہران، نشر سایہ، 1384ہجری شمسی۔
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، مصحح جونسن مارسدن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔