جہاد ابتدائی، اس جہاد کو کہا جاتا ہے جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے اسلام کو پھیلانے اور عدل و انصاف کی بالادستی کے لئے کفار اور مشرکین کے خلاف کیا جاتا ہے۔

اکثر شیعہ فقہاء نے امام معصوم کی موجودگی، جہاد کے لئے مسلمانوں کی کافی طاقت اور آغاز جنگ سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دینے کو جہاد ابتدائی کی شرائط میں سے جانا ہے لیکن بعض فقہاء جیسے شیخ مفید (336ھ یا 338ھ ـ413ھ)، آیت اللہ خوئی (1899-1992ء)، آیت اللہ خامنہ ای (پیدائش:1939ء)، حسین علی منتظری (1922-2009ء) اور آیت اللہ مؤمن (1938-2019ء) نے جہاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کی موجودگی کو شرط نہیں جانا ہے۔
بعض فقہاء اور محققین پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کے زمانے کی تمام جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہوئے جہاد ابتدائی کے منکر ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں آیت اللہ مصباح یزدی(1934-2021ء) اسلام کی تمام جنگوں کو دفاعی قرار دینے کا منشاء موجودہ دور کے تسلیم شدہ معیار اور اقدار کو صدر اسلام پر لاگو کرنا قرار دیتے ہیں۔

شیعہ علماء و مفسیرین نے جہاد ابتدائی کا عقیدے کی آزادی اور آیت «لا اکراہ فی الدین»[؟؟] کے ساتھ ضدیت کے شبہ کے جواب میں بیان کیا ہے کہ آیات جہاد کی روشنی میں کافروں اور مشرکوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جہاد ابتدائی کا مقصد مظلومین کی حمایت، ظلم و جبر کا خاتمہ اور مذہب کے آزادانہ انتخاب کے لئے زمینہ فراہم کرنا ہے۔

تعریف

جہاد ابتدائی اس جہاد کو کہتے ہیں جس کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے مشرکوں اور کافروں کو اسلاماور توحید کی طرف دعوت اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کیا جاتا ہے۔[1] حسین علی منتظری کے مطابق اسلام اور اس کی تعلیمات کو دوسری قوموں تک پہنچانا جہاد ابتدائی ہے جس کے ذریعے ظلم، ظالم کی حکمرانی کو ختم کرنا ہے اور لوگوں کے اختیار اور انتخاب سے دین الہی کےلئے زمینہ سازی کرنا ہے۔[2]

اہمیت

محمد تقی مصباح یزدی (1934-2021ء) جہاد ابتدائی کو ضروریات دین میں سے سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے شیعہ اور سنی فقہا جہاد ابتدائی جائز ہونے پر متفق القول ہیں۔[3] بعض کے کہنے کے مطابق جہاد ابتدائی مشہور فقہاء کی نظر میں واجب کفائی ہے[4] اورشیعہ اکثر علما بالخصوص پہلی صدی ہجری کے علماء کا کہنا ہے کہ کفار اور اہل کتاب (یہودی، عیسائی، زرتشت) کے ان لوگوں سے جہاد کرنا واجب ہے جو جزیہ نہیں دیتے ہیں اور اسلامی حکومت کے قوانین کو نہیں مانتے ہیں۔[5]

حسین علی منتظری،[6] ناصر مکارم شیرازی[7] اور نعمت اللہ صالحی نجف آبادی،[8] صدر اسلام کی جنگوں کو دفاعی جنگیں سمجھتے ہیں جو مظلوموں کی نجات اور اسلام کی تبلیغ کے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے لڑی جاتی تھیں۔ جبکہ مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ مسلمان دنشوروں کی طرف سے صدر اسلام کی تمام جنگوں کو دفاعی جہاد قرار دینا موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف ممالک میں قبول شدہ اور ان پر حاکم لیبرلیزم اور آزادی جیسی اقدار اور معیارات کے پیش نظر اس کی توجیہ کرنا تھا۔[9]

شرائط

مشہور علمائے شیعہ کے مطابق جہاد ابتدائی کی تین شرطیں ہیں:

  1. امام معصوم کی موجودگی: اس شرط کی بنا پر معصوم کی غیر موجودگی جیسے زمانۂ غیبت میں جہاد ابتدائی جائز نہیں ہے۔
  2. آغاز جہاد کے لئے مسلمانوں کا کافی مقدار میں طاقت و قدرت کا حامل ہونا۔
  3. آغاز جنگ سے پہلے کفار کو دعوت اسلام دینا اور اتمام حجت کرنا۔[10]

مشہور فقہائے شیعہ جیسے شیخ طوسی (385-460ھ)،[11] قاضی ابن‌براج (حدود 400 تا 481 ھ)،[12] ابن‌ادریس (حدود 543ـ598ھ)،[13] محقق حلی (602-676ھ)،[14] علامہ حلی (648-726ھ)،[15] شہید ثانی (911-955 یا 965ھ)[16] و صاحب جواہر (1202-1266ھ)،[17] کے مطابق جہاد ابتدائی کے لئےامام معصوم کا حضور اور ان کی اجازت یا ان کا نائب خاص کی اجازت[18] جہاد ابتدائی کے لئے شرط ہے۔[19] اور اس میں نائب عام(فقہا) شامل نہیں ہے۔ [20]

اس کے باوجود بعض فقہاء جیسے شیخ مفید،[21] ابوالصلاح حلبی (374-447ھ)،[22] اور سلار دیلمی (درگذشت: 448ھ)،[23] نے جہاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کے حضور کو شرط نہیں جانتے ہوئے عصر غیبت میں اسے جائز سمجھا ہے۔[24]

بعض فقہائے معاصر جیسے سید ابوالقاسم خوئی (1899-1992ء)[25] سیدعلی خامنہ‌ای (پیدائش:1939ء)،[26] حسینعلی منتظری (1922-2009ء)،[27] اور محمد مؤمن (1938-2019ء)،

نے بھی قرآن و روایات کی بنا پر حضور معصوم کی شرط کو غیر قابل اثبات جانا ہے اور ان کے خیال میں جہاد ابتدائی غیبت معصوم میں بھی تمام شرائط کے فراہم ہونے کے ساتھ واجب ہے۔[28]اور بعض کا کہنا ہے کہ روایات میں «امام عادل» سے مراد امام معصوم نہیں ہے۔[29]

عقیدے کی آزادی سے تعارض

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے جہاد ابتدائی، جبری طور پر عقیدے کو تھوپنے کا سبب ہے جو اس آیت «لاَ إِكْراہ في الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ»[؟؟][30] کہ دین میں کسی طرح کا جبر و اکراہ نہیں ہے، کے ساتھ تعارض رکھتا ہے۔[31] شیعہ مفسرین نے اس شبہہ کے جواب میں الگ الگ موقف اختیار کیا ہے جیسے:

  1. قرآن مجید کی صریح اور غیر صریح تمام آیات اس شرط پر متوقف ہیں کہ جہاد مظلومین کی مدد، برے حالات سے جنگ اور دین کو آزادی کے ساتھ انتخاب کرنے کا زمینہ فراہم کرے نہ یہ کہ دین کو جبری طور پر تھوپا جائے۔ بعض لوگوں نے اسی بنیاد پر تمام جہاد کو جہاد دفاعی قرار دیا ہے۔[32]
  2. آیات جہاد میں سے کسی ایک آیت میں بھی مسلمانوں پر واجب نہیں کیا گیا ہے کہ وہ مشرکوں سے جنگ کریں اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں اور قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل کر دیں۔[33] بلکہ آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ جبری طاقت کے بل بوتے پر تو عقائد کو پھیلانا ممکن ہی نہیں ہے۔[34]
  3. محمد تقی مصباح یزدی کے مطابق اسلام میں جہاد ابتدائی کی تشریع [35] کا مقصد معاشرے میں طاقت یا مالی اور اقتصادی منافع کا حصول نہیں بلکہ حق کی شناخت، اللہ تعالی کی بندگی اور اللہ کے دین کی حاکمیت قائم کرنا ہے؛[36] کیونکہ ساری دنیا میں اللہ کی بندگی خدا کا حق ہے اور جہاد ابتدائی کے ذریعے کفر، شرک، ظلم اور مشرکوں کے فسادات مٹ جائیں اور دنیا میں توحیدی نظام قائم ہوجائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پوری دنیا میں جبری اور طاقت کے بل بوتے پر سب کو مسلمان کیا جائے۔[37] حسین علی منتظری کے مطابق یہی معنی سورہ بقرہ کی آیت 256 کے ساتھ مناسب بھی ہے۔[38]

مونوگراف

  • جہاد ابتدایی در سنت و سیرہ نبوی، تالیف محمد مروارید، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1400شمسی۔ مولف اس کتاب میں جہاد کے معنی اور اقسام کو بیان کرتے ہیں اور جہاد ابتدائی کا جہاد دفاعی سے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ کی سیرت میں جہاد ابتدائی امنیت بحال رکھنے اور مسلمانوں کو مضبوط کرنے کی غرض سے انجام دی جاتی تھی۔[39]
  • جہاد ابتدایی در قرآن کریم تالیفمحمدجواد فاضل لنکرانی، تقریر و تدوین محمدحسن دانش، قم، انتشارات مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1397شمسی.

مؤلف اس کتاب میں فقہی اور تفسیر نقطہ نظر سے وہ آیتیں جو کافر اور مشرکوں کے ساتھ جہاد ابتدائی کرنے پر دلالت کرتی ہیں ان کی تحقیق کرتے ہوئے جہاد ابتدائی کی مشروعیت کو ثابت کرتا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے شبہے کواجتہادی اور فقہی اسلوب کے ساتھ جواب دیتے ہیں جو بعض قرآنی آیات کو جہاد ابتدائی کی مشروعیت کے ساتھ متعارض سمجھتے ہیں۔[40]

حوالہ جات

  1. صرامی، عدالت نژاد، «جہاد» 1386ش، ج11، ص434.
  2. منتظری، مجازات‌ہاى اسلامى و حقوق بشر، 1429ق، ص90.
  3. مصباح یزدی، جنگ و جہاد در قرآن، 1383ش، ص139.
  4. انصاری، الموسوعة الفقہیة المیسرہ، 1415ق، ج4، ص24؛ صرامی، عدالت نژاد، «جہاد» 1386ش، ج11، ص434.
  5. بہرامی، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، 1380ش، ص139-141.
  6. منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1387ش، ص60؛ منتظری، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، 1387ش، ص90.
  7. «جہاد ابتدایی».، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر حضرت آیت‌اللہ مکارم شیرازی.
  8. صالحی نجف‌آبادی، جہاد در اسلام، 1386ش، ص34-35.
  9. مصباح‌ یزدی، اخلاق در قرآن، 1391شمسی، ج3، ص408.
  10. عمید زنجانی، فقہ سیاسی، ج3، 1377ش، ص139۔
  11. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص8.
  12. قاضی ابن‌براج، المہذب، 1406ھ، ج1، ص296.
  13. ابن‌ادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج2، ص3.
  14. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص278.
  15. علامہ حلی، تذکرة الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص19.
  16. شہید ثانی، الروضة البہیة، 1410ھ، ج2، ص381.
  17. صاحب جواہر، جواہر الكلام، 1362ش، ج21، ص11.
  18. صرامی، عدالت نژاد، «جہاد» 1386شمسی، ج11، ص435.
  19. جاوید، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، ص129-134.
  20. صرامی، عدالت نژاد، «جہاد» 1386ش، ج11، ص435.
  21. شیخ مفید، المقنعہ، 1410ھ، ص810.
  22. ابوالصلاح حلبی، الکافی فی الفقہ، بی‌تا، ص246.
  23. سلار دیلمی، المراسم فی الفقہ الإمامی، 1404ھ، ص261.
  24. جاوید، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، ص127-129.
  25. خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص364.
  26. خامنہ‌ای، رسالہ‌ی آموزشی، 1398شمسی، ج1، ص322.
  27. منتظری، دراسات فی ولایة الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص116-119.
  28. مؤمن، «جہاد ابتدایی در عصر غیبت»، ص51۔
  29. منتظری، دراسات فی ولایة الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص118.
  30. سورہ بقرہ، آیہ 256۔
  31. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص8۔
  32. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص27۔
  33. کامیاب، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص28۔
  34. ادركنى؛ مقيمى‌حاجى، «جہاد»، ص424.
  35. مصباح‌یزدی، اخلاق در قرآن، 1391شمسی، ج3، ص408.
  36. مصباح‌یزدی، اخلاق در قرآن، 1391شمسی، ج3، ص412.
  37. مصباح‌یزدی، جنگ و جہاد در قرآن، 1383شمسی، ص152-154.
  38. منتظری، مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، ص89-90.
  39. جہاد ابتدایی در سنت و سیرہ نبوی، وبگاہ بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی.
  40. جہاد ابتدايی در قرآن کريم، وبگاہ آيت‌اللہ محمّدجواد فاضل لنکرانی.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن‌ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1410ھ۔
  • ابوالصلاح حلبی، تقی بن نجم، الکافی فی الفقہ، تحقیق رضا استادی، اصفہان، مکتبۃ الإمام اميرالمؤمنين علی(ع) العامۃ، بی‌تا.
  • ادركنى، محمدجواد؛ و ابوالقاسم مقيمى‌حاجى، «جہاد»، مقالاتی از اندیشہ‌نامہ‌ی انقلاب اسلامی، تہران، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
  • انصاری (خلیفہ شوشتری)، محمدعلی، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ، قم، مجمع الفکر الإسلامی، 1415ھ۔
  • بہرامی، قدرت‌اللہ، نظام سیاسی اجتماعی اسلام، قم، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
  • جاوید، محمدجواد، و علی محمددوست، «حقوق بشر معاصر و جہاد ابتدایی در اسلام معاصر»، در پژوہش‌نامہ حقوق اسلامی، سال یازدہم، ش2، پاییز و زمستان 1389ہجری شمسی۔
  • «جہاد ابتدایی»، سایت دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی، تاریخ اخذ: 22 تیر 1396ہجری شمسی۔
  • خامنہ‌ای، مطابق با فتاوای حضرت آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تہران، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، مدينۃ العلم، 1410ھ۔
  • سلار دیلمی، حمزہ بن عبد العزیز، المراسم فی الفقہ الإمامی، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمين، 1404ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق کلانتر، قم، مکتبۃ الداوری، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیہ، تہران، المكتبۃ المرتضويۃ لإحياء الآثار الجعفريۃ، 1387ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم،مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1410ھ۔
  • صاحب جواہر، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • صالحی نجف‌آبادی، نعمت‌اللہ، جہاد در اسلام، تہران، نشر نی، 1386ہجری شمسی۔
  • صرامی، سیف‌اللہ؛ عدالت‌نژاد، سعید، «جہاد»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسۃ آل‌البیت(ع) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
  • عمید زنجانی، عباسعلی، فقہ سیاسی، تہران، امیرکبیر، 1377ہجری شمسی۔
  • قاضی ابن‌براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1406ھ۔
  • کامیاب، حسین، و احمد قدسی، «بررسی شبہہ جہاد ابتدایی در تفسیر آیہ لا اکراہ فی الدین»، در مجلہ مطالعات تفسیری، ش11، پاییز 1391ہجری شمسی۔
  • مؤمن، محمد، «جہاد ابتدایی در عصر غیبت»، در مجلہ فقہ اہل بیت، ش26، تابستان 1380ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • مصباح‌ یزدی، محمدتقی، اخلاق در قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1391ہجری شمسی۔
  • مصباح‌ یزدی، محمدتقی، جنگ و جہاد در قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1383ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسينعلى، مجازات‌ہاى اسلامى و حقوق بشر، قم، 1429ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ارغوان دانش، 1387ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الإسلامیۃ، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، 1409ھ۔
  • جہاد ابتدایی در سنت و سیرہ نبوی، وبگاہ بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، تاریخ مشاہدہ: 29 آذر 1401ہجری شمسی۔
  • جہاد ابتدايی در قرآن کريم، وبگاہ آيت‌اللہ محمّدجواد فاضل لنکرانی، تاریخ مشاہدہ: 29 آذر 1401ہجری شمسی۔