محقق حلی

ویکی شیعہ سے
محقق حلی
کوائف
مکمل نامابو القاسم جعفر بن حسن بن یحیی بن سعید حلی
لقب/کنیتمحقق اول • محقق حلی
تاریخ ولادتسنہ 602 ھ
آبائی شہرحلہ
تاریخ وفاتسنہ 676 ھ
مدفنحلہ
علمی معلومات
اساتذہان کے والد حسن بن یحیی حلی، ابو المکارم ابن زہرہ، ابن نما حلی، فخار بن معد موسوی
شاگردعلامہ حلی، ابن داؤد حلی، ابن ربیب آدمی، سید عبدالکریم بن احمد بن طاؤس، عبدالعزیز بن سرایا حلی،حسن ابی طالب یوسفی (صاحب کشف الرموز فی شرح النافع)
تالیفاتشرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام • المختصر النافع فی فقہ الامامیۃ • النافع فی مختصر الشرائع • المعتبر فی شرح مختصر النافع • المعارج فی اصول الفقہ • نہج الوصول الی معرفۃ علم الاصول • تلخیص الفہرست
خدمات


ابو القاسم جعفر بن حسن بن یحیی بن سعید حلی محقق حلی اور محقق اول کے نام سے ساتویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ فقیہ، اصولی اور شاعر ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے فقہاء و مجتہدین کے درمیان خاص عظمت و اعتبار کے مالک تھے، یہاں تک کہ لفظ "محقق" کو ان کے لئے بغیر کسی قرینے کے استعمال کیا جاتا تھا۔

علامہ حلی، ابن داؤد حلی، سید عبد الکریم بن طاؤس اور ابن سعید حلی جیسے اکابرین ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خواجہ نصیر الدین طوسی ان کے لئے خاص احترام کے قائل تھے۔ شرائع الاسلام و المختصرالنافع فی فقہ الامامیہ ان کی اہم تالیفات میں شامل ہیں۔

پیدائش اور تعلیم

محقق حلی سنہ 602 ہجری میں عراق کے شہر حِلّہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ابتداء ہی سے اعلی ذہانت اور حیرت انگیز استعداد کے مالک تھے۔ بچپن ہی سے اپنے زمانے کے رائج علوم کے حصول میں مصروف ہوئے۔ انہوں نے عربی ادب جو ان کی مادری زبان تھی، بخوبی سیکھ لیا۔ علم ہیئت، ریاضیات اور منطق و کلام کو ضرورت کے مطابق سیکھا؛ اور پھر فقہ اور اصول کو اپنے والد حسن بن یحیی اور اپنے زمانے کے مشہور علماء ابن نما حلی اور سید فخار موسوی جو کہ نامور فقیہ ابن ادریس حلی کے شاگرد تھے، سے فیض حاصل کرتے ہوئے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

محقق حلی نے سنہ 676 ہجری، بروز جمعرات، 74 برس کی عمر میں وفات پائی اور حلہ میں مدفون ہوئے۔ ان کا مزار آج بھی شیعیان اہل بیت کی زیارت گاہ ہے۔[1]

اساتذہ

  1. ان کے والد شمس الدین حسن بن یحیی حلی۔
  2. ابو المکارم ابن زہرہ۔ البتہ محقق کا ابن زہرہ کا شاگرد ہونا محل تردید ہے۔ شہید مطہری لکھتے ہیں: محقق حلی کی وفات سنہ 676 ہجری میں ہوئی ہے۔ لہذا قطعا ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے ابن زہرہ جن کی وفات سنہ 585 ہجری میں ہو چکی ہے، انہیں درک کیا ہو۔[2]
  3. ابو حامد نجم الاسلام محمد حلبی۔
  4. ابن نما حلی، محمد بن جعفر حلی۔
  5. شمس الدین ابو علی فخار بن معد موسوی.
  6. سید مجد الدین علی بن حسن عریضی.
  7. تاج الدین حسن بن علی بن دربی۔[3]

شاگرد

محقق حلی کے شاگردوں کی تعداد ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں 400 سے زیادہ رہی ہے؛ ان کے شاگردوں میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

تالیفات

محقق کے تحریری اور فکری آثار بہت عمیق اور ان کی انشاء بہت سلیس ہے اور ان کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ صاحب ریحانۃ الادب، محمد علی مدرس تبریزی و صاحب ریاض العلماء، میرزا عبد اللہ اصفہانی افندی، نے ان میں سے 14 کتب کا تذکرہ کیا ہے۔

متذکرہ کتب کے نام کچھ یوں ہیں:

  1. شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام: یہ کتاب لفظ اور معنی کے لحاظ سے، شیعہ فقہ کی بہترین کتب میں سے ہے۔ فقہاء و مجتہدین کی خاص توجہ کا مرکز رہی ہے اور اس پر متعدد شروح اور تعلیقات لکھے گئے ہیں۔ شیخ محمد حسن نجفی کی 43 جلدوں پر مشتمل کتاب جواہر الکلام ان میں سے ایک ہے؛ جس کے تراجم دنیا کی متعدد زندہ زبانوں: فارسی، روسی، فرانسیسی، جرمن اور اردو) میں ہو چکے ہیں اور جامعات و عدالتی مراکز میں بھی اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
  2. المختصر النافع فی فقہ الامامیہ
  3. النافع فی مختصر الشرائع
  4. المعتبر فی شرح مختصر النافع
  5. المعارج فی اصول الفقہ
  6. نہج الوصول الی معرفۃ علم الاصول
  7. تلخیص الفہرست، فہرست شیخ طوسی کی تلخیص
  8. استحباب التیاسر لاہل العراق
  9. شرح نکت النہایہ (فقہ امامیہ)
  10. الکہنہ في المنطق
  11. مختصر المراسم
  12. المسائل الغریہ
  13. المسائل المصریہ
  14. المسلک فی اصول الدین
  15. نکت النہایہ۔[5]

محقق اور شعر ادب

محقق حلی شاعر فقہاء کی جماعت میں سے ہیں۔ ان کے اشعار اخلاقی، عرفانی اور حکمت آمیز نکات پر مشتمل ہیں اور انھوں اپنے اشعار مشاعروں اور والد اور دوستوں کے ساتھ مکاتبے کی صورت میں کہے ہیں۔[6]

محقق مشاہیر علماء کی نظر میں

علامہ حلی نے خاندان زہرہ کو دیئے ہوئے اپنے اجازت نامے میں ان کے بارے میں لکھا ہے:

"کان هذا الشیخ افضل اهل عصره فی الفقہ
ترجمہ: یہ بزرگ عالم فقہ میں اپنے زمانے کے بہترین فقیہ تھے۔[7]

محدث نوری ان کی یوں تعریف کرتے ہیں:

" وہ ایسے باریک اور ظریف نکات کے ساتھ حقائق شریعت کے کشف کنندہ تھے جن سے آج تک کوئی بھی انسان یا جن روشناس نہ تھا۔ وہ علماء کے رئیس، حکماء کے فقیہ، فضلاء کا تابندہ سورج، عرفاء کے لئے چودہویں شب کا چاند (بدر) تھے اور ان کا نام اور ان کی دانش، داستان جزیرہ خضرا کی بیان کرنے والی ہے جبکہ وہ معصوم پیشواؤں اور عالمین پر اللہ کی حجتوں کے علوم کے وارث ہیں۔ انھوں نے عالمین پر تحقیق کا پرچم لہرایا، خداوند متعال اپنی آشکار اور نہاں رحمتوں کی شعاعیں ان کی قبر کی نذر کردے اور جنت میں انہیں شائستہ اور مناسب مقام عطا کرے اور مقام عالی انہیں عنایت فرمائے"۔

صاحب تاسیس الشیعہ مزید کہتے ہیں:

"قلم کی انگلی عاجز ہے ان کے اوصاف گننے سے؛ وہ کتاب شرا‏ئع الاسلام کے مؤلف ہیں جو فقہ کے قرآن ک منزلت رکھتی ہے۔ ان کی مشہور کتاب النافع، المعتبر، اور ایک کتاب المعارج ہے جس کا موضوع اصول فقہ ہے اور علم کلام میں بھی ان کے بعض رسالات اور تالیفات ہیں جو مفصل کتب کی فہرستوں میں مذکور ہیں اور ان کی اعلی مجلس درس سے 400 آگاہ مجتہدین فارغ التحصیل ہوئے ہیں جن کے حالات علم رجال کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور اس طرح کی توفیقات اور کامیابیاں آج تک کسی کے نصیب میں نہیں آئی ہیں۔ وہ ماہ ربیع الاول سنہ 696 ہجری کو حلہ میں وفات پاگئے اور ان کی قبر شریف پر ایک اونچا قبہ تعمیر کیا گیا ہے جس سے آج تک محبین تبرک حاصل کرتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں"۔[8]

شہید ثانی کے بیٹے شیخ حسن صاحب معالم ان کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:

"اگر علامہ حلّی، "محقق" کو تمام اعصار و قرون کا فقیہ اور بزرگ سمجھتے تو یہ بہتر ہوتا کیونکہ محقق فقہائے شیعہ میں نمایاں اور ممتاز شخصیت کے حامل ہیں اور ان کے درمیان ان کی کوئی مثال نہیں ہے"۔[9]

ان کے شاگرد ابن داؤد حلی اپنی کتاب الرجال کے صفحہ 83 میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

"المحقق الموفق الامام العلامة واحد عصره
ترجمہ: وہ کامیاب محقق، پیشوا اور اپنے زمانے کے منفرد بزرگ ہیں۔ یگانۂ روزگار تھے اور اپنے زمانے کے گویا ترین اور منطقی ترین عالم تھے جو سریع الذہن اور حاضر دماغ تھے"۔[10]

شہید مطہری محقق حلی کی توصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"فقہ میں کسی کو ان پر مقدم نہیں سمجھا جاتا اور فقہاء کی اصطلاح میں جب بھی کسی قرینے کے بغیر"محقق" کا نام ذکر کیا جاتا ہے، ان کے مںظور نظر یہی عالم بزرگوار ہوتے ہیں۔ وہ عظیم فلسفی اور ریاضی دان تھے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے حلہ میں ان سے ملاقات کی ہے اور ان کے درس فقہ میں شریک ہوئے ہیں۔ محقق کی کتابیں بالخصوص ان کی کتاب شرائع الاسلام طلاب کے ہاں ایک درسی کتاب تھی اور ہر اور بہت سے فقہاء نے اس کتاب پر شرحیں لکھی ہیں یا ان پر حاشیہ نگاری کی ہے"۔[11]

حوالہ جات

  1. مدرس، ریحانہ الادب، ۱۳۶۹ہجری شمسی، ج۵، ص۲۳۶؛ فرطوسی، تاریخچہ آستان مطهر امام علی (ع)، ۱۳۹۳ہجری شمسی، ص۳۳۱
  2. مطہری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، ج3، ص81-82.
  3. امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج4، ص91۔
  4. افندی، عبدالله، ریاض العلما، ج1، ص104۔
  5. مدرس، محمد علی، ریحانۃ الادب، ج5، ص235
  6. امین، سید محسن، اعیان الشیعة، ج4، ص89۔
  7. امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج 4، ص 89.
  8. صدر، سید حسن، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، ص 305-306۔
  9. امین، سید محسن، اعیان الشیعة، ج4، ص89۔
  10. مجلہ مکتب اسلام، سال سوم، شماره اول، ص 64-65، مقالہ آقای دوانی۔
  11. مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، ج3، ص81-82.

مآخذ

  • افندی، عبد الله، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، قم، مطبعۃ الخیام، 1401 ھ۔
  • امین‌، سید محسن‌، اعیان‌ الشیعهہ، بیروت‌، 1403 ھ۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، قم، اسماعیلیان۔
  • صدر، سید حسن، تاسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام، تهران، اعلمی، 1375 ہجری شمسی۔
  • مجلہ مکتب اسلام، سال سوم، شماره اول، ص 64-65، نوشتہ علی دوانی.
  • مدرس، محمد علی، ریحانۃ الادب، قم، کتاب فروشی خیام، 1369 ہجری شمسی۔
  • مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، قم، انتشارات صدرا.