مندرجات کا رخ کریں

نعمت

ویکی شیعہ سے
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لا تُحْصُوہا إِنَّ اللَّہَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (ترجمہ: «اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر پاؤگے؛ بتحقیق اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ سورہ نحل آیت نمبر 18خط ثلث جلی، ترکی کے خطاط حامد الآمدی کے قلم سے

نِعمت، ان مادی اور معنوی عطاؤں کو کہا جاتا ہے جو اللہ نے انسان کو عنایت فرمائی ہیں۔ دینی متون میں نعمتوں کی فراوانی اور ان کے ناقابل شمار ہونے کے ساتھ ساتھ نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں انسان کی ناتوانی پر زور دیا گیا ہے۔

قرآن مؤمنوں کو اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھنے اور ان کی ناشکری سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ نعمت کی ناشکری جو قلبی، زبانی اور عملی پہلوؤں میں ظاہر ہو سکتی ہے اور نعمت کا زوال، آخرت کا عذاب اور دعاؤں کی عدم قبولیت جیسے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

نعمتیں دو قسم کی ہیں: دنیوی اور اُخروی۔ تخلیھ، ہدایت، خوبصورت چہرہ اور امن و امان کو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا مصداق قرار دیا جاتا ہے۔ اہل بیتؑ کی ولایت کو سب سے بڑی الٰہی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ دنیوی نعمتیں الٰہی آزمائش کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ نعمتوں کی ناشکری اور ان کا غلط استعمال اللہ کے غضب کی علامت اور انسان کی غفلت کا سبب بن سکتی ہیں۔

مفہوم شناسی

نعمت، اللہ کی طرف سے انسان کو عطا ہونے والی چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں روزی، مال اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔[1] لسان العرب میں ابن منظور کے مطابق الٰہی نعمت اس عطیہ کو کہا جاتا ہے جو صرف اللہ کی طرف سے ملتا ہے، جیسے آنکھ اور کان وغیرہ جنہیں کوئی مخلوق عطا نہیں کر سکتا۔[2]

احادیث میں نعمتوں کے ناقابل شمار ہونے[3] اور ان کا شکر ادا کرنے سے انسان کی ناتوانی اور عاجزی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[4] == اقسام اور مصادیق ==

علامہ طباطبائی نے سورۂ نحل کی آیت نمبر 18 کی بنیاد پر پورے نظام ہستی کو الٰہی نعمتوں کا مجموعہ قرار دیا ہے، جنہیں شمار کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔[5] شیخ طوسی کی کتاب الامالی میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق امام علیؑ نے زندگی، خوبصورت چہرہ، متناسب جسم، ادراک کی قوت، ہدایت، اور آسمان و زمین کا مسخر ہونے کو انسان کے لئے اللہ کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔[6]

مادی اور معنوی نعمتیں

دنیوی اور اُخروی نعمتیں

  • دنیوی نعمتیں: جیسے انسان کی تخلیھ، پودے، زمین اور آسمان۔
  • اُخروی نعمتیں: جیسے جنت کے باغات، چشمے، پھل اور نیک سیرت و خوبصورت بیویاں۔[9]

"خدا کی قسم! ہم ہی وہ نعمت ہیں جو خدا نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور نجات اور رستگاری صرف اسی کا مقدر ہے جس نے ہماری پیروی اور اطاعت کی۔"

مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج24، ص51

شکر نعمت اور کفران نعمت

قرآن میں «فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّہِ» اور «يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَيْكُمْ» جیسے جملوں کے ذریعے مؤمنوں کو اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔[10] نعمتوں کی ناشکری کو قرآن میں ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں شکرگزاری پر زور دیا گیا ہے۔[11]

شیعہ فقیہ اور مفسر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق کفران نعمت تین صورتوں ؛ دل میں اس نعمت کو اہمیت نہ دینا، زبان سے اس پر توجہ نہ دینا اور اسے غلط اور باطل راہ میں استعمال کرنے کے ذریعے تحقق پاتا ہے[12] دینی متون میں نعمت کی ناشکری کے متعدد نتائج بیان کیے گئے ہیں، جن میں: خدا کی معرفت حاصل نہ ہوا، نعمت کا زوال، ہلاکت و بربادی، آخرت کا عذاب، استدراج عذاب(یعنی تدریجی عذاب)، حسد[13]، خیر اور نیکی کے راستوں کا بند ہونا[14]، دنیا میں فوری سزا[15]، دعاؤں کی عدمت قبولیت[16] اور قبر کا عذاب[17] کا نام لیا جا سکتا ہے۔

نعمتوں کی فراوانی اور الٰہی آزمائش

سورۂ فجر کی آیت نمبر 15 کے مطابق نعمت کی کثرت لازمی طور پر اللہ کے نزدیک بندے کے مقرب ہونے کی علامت نہیں، بلکہ یہ ان کے امتحان کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔[18] علامہ مجلسی امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث کی بنیاد پر بیان کرتے ہیں کہ دین اور ایمان کا پایا جانا اللہ کی محبت اور خشنودی کی علامت ہے، لیکن مال و مقام بذات خود اللہ کی رضا اور خشنودی کا ثبوت نہیں ہو سکتے۔[19] اسی طرح قرآن کی بعض آیات کے مطابق گناہگاروں کے لیے نعمتوں کی فراوانی ایک قسم کی تدریجی عذاب (استدراج) ہو سکتی ہے۔[20] امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق یہ نعمتیں گناہگاروں کو استغفار سے غافل کر دیتی ہیں۔[21] شہید مطہری کے مطابق اگر نعمت کی کثرت اور کے ساتھ شکر گزاری اور درست استعمال ہو تو یہ اللہ کی رحمت کی علامت ہے، نہ کہ تدریجی عذاب کی۔[22]

حوالہ جات

  1. ابن‌فارس، معجم مقائیس اللغہ، 1404ھ، ج5، ص446.
  2. ابن‌منظور، لسان العرب، 1405ھ، ج12، ص580.
  3. طوسی، الأمالی، 1414ق‏، ص492.
  4. مصباح، سجادہ‌ہای سلوک، 1390ش، ج1، ص435–412.
  5. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج12، ص60.
  6. طوسی، الأمالی، 1414ق‏، ص492.
  7. مصطفوی‌زادہ، بررسی واژہ نعمت از منظر تأویل در قرآن و روایات معصومین، 1392ش، ص25.
  8. مجلسی، بحارالأنوار، 1404ھ، ج24، ص48؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1381ش، ج6، ص387.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج23، ص91.
  10. سورہ اعراف، آیہ 74؛ سورہ احزاب، آیہ 9.
  11. نگاہ کنید بہ سورہ بقرہ، آیہ 152؛ سورہ ابراہیم، آیہ 7؛ سورہ نمل، آیہ 40؛ سورہ لقمان، آیہ 12؛ سورہ سبا، آیہ 15-17؛ سورہ نحل، آیہ 112.
  12. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1387ش، ص60.
  13. مصباح الشریعہ، 1400ھ، ص104.
  14. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج47، ص33.
  15. مفید، الامالی، 1413ھ، ص237؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص450.
  16. لیثی واسطی، عیون الحکم، 1376ش، ص524.
  17. صدوق، علل الشرایع، 1385ش، ج1، ص309.
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج26، ص461.
  19. مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج65، ص202.
  20. معموری، ««بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»»، ص105.
  21. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص452.
  22. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ش، ج27، ص626.

مآخذ

  • ابن‌فارس، احمد بن فارس، معجم مقائیس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، مکتبۃ اعلام اسلامی، 1404ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، قم، نشر ادب الحوزہ، 1405ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن‏، قم، مکتبہ الانشر الاسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طوسی، محمد بن الحسن‏، الأمالی، قم‏، دار الثقافۃ، 1414ق‏.
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تصحیح حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، 1376ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • مصباح الشریعہ، منسوب بہ امام صادق علیہ‌السلام، بیروت، انتشارات اعلمی، 1400ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، سجادہ‌ہای سلوک شرح مناجات‌ہای امام سجاد(ع)، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1390ہجری شمسی۔
  • مصطفوی‌زادہ، سید محسن، بررسی واژہ نعمت از منظر تأویل در قرآن و روایات معصومین(علیہم السلام)، پایان‌نامہ کارشناسی ارشد علوم قرآن و حدیث، تہران، دانشگاہ آزاد اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، چاپ چہاردہم، 1390ہجری شمسی۔
  • معموری، علی، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، بہمن 1386، شمارہ 1.
  • مفید، محمد بن محمد، الأمالی، تصحیح حسین استاد ولی و علی‌اکبر غفاری، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، انتشارات امام علی بن ابیطالب، 1378ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1381ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہیہ و تنظیم جمعی از فضلا، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ سی‌ودوم، 1374ہجری شمسی۔