جالوت

جالوت، ایک بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل پر تسلط حاصل کیا اور آخرکار حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا۔ قرآن کریم نے طالوت اور جالوت کی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا نام صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ عہد قدیم کی مقدس کتاب میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے۔ مسلمانوں کے تفسیری اور تاریخی مصادر میں بھی طالوت اور جالوت کی جنگ سے متعلق گفتگو کی گئی ہے، جن میں جالوت پر حضرت داؤد علیہ السلام کی فتح کو اہلِ ایمان کی نصرت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
اہمیت
طبری جیسے مؤرخین کے مطابق جالوت عمالقہ کے ان بادشاہوں میں سے تھا جس نے بنی اسرائیل پر غلبہ پایا۔[1] عمالقہ ایک قدیم اور بت پرست قوم تھی، جو حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے اور شمالی حجاز کے عربوں میں سے تھی۔ یہ قوم سنہ 1703 سے 2213 قبل مسیح کے درمیان مصر پر قابض رہی ہے۔[2] قرآن سورۂ بقرہ کی آیات نمبر 249 سے 251 میں میں جالوت کا نام تین مرتبہ آیا ہے۔[3] تفسیر قمی میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد گناہوں کا ارتکاب کیا، دین خدا میں تحریف کی اور پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی۔ اس کے بعد خدا نے جالوت نامی ایک ظالم بادشاہ کو ان پر مسلط کیا، جس نے انہیں ذلیل و خوار کیا، ان کے مردوں کو قتل کیا، عورتوں کو قید کیا، انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا اور ان کے اموال کو غصب کر لیا۔[4]
قرآن میں طالوت اور جالوت کی جنگ کا واقعہ
قرآن میں طالوت اور جالوت کی جنگ کا واقعہ اختصار کے ساتھ یوں مذکور ہے: بنی اسرائیل کے وقت کے نبی (جن کا نام سموئیل بتایا گیا ہے)[5] نے خدا کے حکم سے طالوت کو فلسطینیوں کے خلاف جنگ کے لیے بادشاہ مقرر کیا۔[6] بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے اس انتخاب پر اعتراض کیا، لیکن آخرکار انہوں نے طالوت کی بادشاہت کو قبول کر لیا اور اس کی قیادت میں جالوت اور اس کے لشکر سے جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔[7] جنگ کے راستے میں، ایک دریا آیا جو ان پر خدائی آزمائش کا ذریعہ تھا، وہاں سے گزرنے کے بعد طالوت کے زیادہ تر سپاہیوں نے جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے سے عاجزی کا اظہار کیا۔[8] جب طالوت کے وفادار سپاہی جالوت اور اس کی فوج کے مد مقابل آگئے تو انہوں نے خدا سے صبر اور فتح کی دعا کی۔[9] اللہ کے حکم سے وہ غالب آئے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا۔[10]
جالوت عہد قدیم کی نگاہ میں
عہد قدیم کے مطابق جب بنی اسرائیل اور فلسطینی (جالوت کی فوج) آمنے سامنے ہوئے تو جِلیات (جالوت کا عبرانی نام)[11] نے فلسطینیوں کی صف سے آگے بڑھ کر مُبارِز طَلَبی کی، اور یہ عمل اس نے چالیس دن تک جاری رکھا۔[12] شاؤل (طالوت) جو بنی اسرائیل کے لشکر کا سردار تھا، نے جلیات(جالوت) کو قتل کرنے والے کے لئے بہت زیادہ مال و دولت دینے اور اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کا اعلان کیا۔ داؤد نامی جوان جو حال ہی میں طالوت کی فوجی چھاؤنی میں پہنچا تھا، نے اپنے کمانڈر کو راضی کرنے کے بعد جالوت سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوا۔[13]
جب جالوت نے دیکھا کہ داؤد تلوار کے بغیر، صرف لاٹھی اور پتھر کے ساتھ آیا ہے تو اس نے اس کا مذاق اڑایا اور دھمکیاں دیں، لیکن داؤد نے بھی اس کو للکارا اور فلاخن کے ذریعے ایک پتھر اس کی پیشانی پر مارا، جس سے وہ گر پڑا۔ پھر داؤد اس کے سرہانے پر آگیا اور اس کی اپنی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کیا۔ یہ فتح فلسطینیوں کی مکمل شکست اور ان کے بھاگ جانے کا سبب بنی۔[14] کتاب مقدس عہد قدیم میں جالوت کی غیر معمولی جسمانی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے، جس کے مطابق ان کا قد تقریباً تین میٹر تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں وہ بھاری بھر کم اسلحے سے لیس تھا۔[15]
جالوت تاریخی اور تفسیری منابع کی نگاہ میں
اسلامی تاریخی اور تفسیری مصادر میں جالوت کے بارے میں متعدد مطالب ملتے ہیں: دوسری صدی ہجری کے مفسر علی بن ابراہیم قمی[16] نے اسے قبطی (مصری باشندہ) [17] اور ابنخلدون[18] نے اسے کنعانی فلسطینیوں میں شمار کیا ہے۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ وہ شاید فلسطینی الاصل نہیں تھا بلکہ فلسطینی فوج کے ایک سپاہی کے عنوان سے ان کے لئے کام کر رہا تھا۔[19] طبری نے جالوت کو عمالقہ کا ایک تنومند جنگجو اور بادشاہ قرار دیا ہے۔[20] یعقوبی کے مطابق ان کا قد پانچ ذراع (ایک ذراع تقریباً نصف میٹر) تھا۔[21]
جالوت اور بنی اسرائیل کے آمنے سامنے ہونے کا واقعہ، خصوصاً حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اس کی جنگ، اسلامی مصادر میں تفصیل سے مذکور ہے۔[22] ان احادیث کو عموماً اس واقعے[23] سے متعلق یہودیوں کے قصے کہانیوں سے متأثر قرار دی جاتی ہیں جو بعض اوقات کچھ اختلاف کے ساتھ اسلامی تاریخی اور تفسیری منابع میں داخل ہو گئی ہیں۔[24]
مورخین نے جالوت اور بنی اسرائیل کی جنگ کے مقام اور جالوت کے قتل کے بارے میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں؛ مسعودی،[25] کے مطابق جالوت اردن میں بَیسان نامی مقام پر قتل ہوا، جبکہ ابنعساکر کے مطابق وہ دمشق کے نزدیک قصر اُّمِ حکیم نامی مقام پر قتل ہوا۔[26] دبّاغ نے اس مقام کو بیت لحم کے جنوب مغرب کے ایک گاؤں قرار دیا ہے۔[27] فلسطین میں ’’عین جالوت‘‘ نامی مقام کو بھی حضرت داؤد اور جالوت کی جنگ سے منسوب سمجھا جاتا ہے۔[28]
حضرت داود کی فتح، اہل ایمان کی فتح کی علامت
بعض تفاسیر میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 249 کی بنیاد پر جالوت کے مقابلے میں حضرت داؤد علیہ السلام کی معجزانہ فتح کو اس حقیقت کی یاد دہانی قرار دیا گیا ہے کہ جنگ اور مقابلے میں کامیابی اہلِ ایمان ہی کی ہوتی ہے اور خدا ان کی مدد کرتا ہے، اگرچہ بظاہر ان کی تعداد اور جنگی ساز و سامان کم ہو۔[29] اسی طرح بعض مفسرین نے جنگِ بدر میں نبی کریمؐ کے صحابہ کی تعداد کو سپاہ طالوت کی تعداد کے برابر بتایا ہے اور جنگ بدر کو طالوت اور جالوت کی جنگ سے تشبیہ دی ہے۔[30] صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری نے جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں عمرو بن عبدود کے قتل کو جالوت اور داؤد کے واقعے سے تشبیہ دی ہے۔[31]
حوالہ جات
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج1، ص467۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ دہخدا، ذیل واژہ عمالقہ؛ میبدی، تفسیر خواجہ عبداللہ انصاری، 1371ش، ج3، ص722۔
- ↑ واعظزادہ خراسانی، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن، 1388ش، ج8، ص771۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج1، ص81۔
- ↑ مرکز فرہنگ و معارف قرآن، اَعلام قرآن، 1385ش، ج3، ص192۔
- ↑ سورۂ بقرہ، آیہ 247۔
- ↑ سورۂ بقرہ، آیہ 248-248۔
- ↑ سورۂ بقرہ، آیہ 248۔
- ↑ سورۂ بقرہ، آیہ 250۔
- ↑ سورۂ بقرہ، آیہ 251۔
- ↑ شرتونی، أقرب الموارد فی فصح العربیۃ و الشوارد، 1374ش، ج1، ص448۔
- ↑ رجوع کنید بہ کتاب مقدس، کتاب اول سموئیل، باب 17، آیہ 1-10۔
- ↑ رجوع کنید بہ کتاب مقدس، کتاب اول سموئیل، باب 17، آیہ 25-42۔
- ↑ رجوع کنید بہ کتاب مقدس، کتاب اول سموئیل، باب 17، آیہ 42-52۔
- ↑ رجوع کنید بہ کتاب مقدس، کتاب اول سموئیل، باب 17، آیہ 4-7۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج1، ص81۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1374ش، ج2، ص449۔
- ↑ ابنخلدون، تاریخ ابنخلدون، 1408ھ، ج2، ص100۔
- ↑ ارجح و عباسی، «جالوت»، ج9، ص274۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج1، ص467-472۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج1، ص 49۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کنید بہ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج1، ص467-473؛ ثعلبی، قصص الأنبیاء، المکتبۃ الثقافیۃ، ص239-241۔
- ↑ ارجح و عباسی، «جالوت»، ج9، ص275۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کنید بہ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج1، ص82-83؛ عیاشی، التفسیر، 1380ھ، ج1، ص134-135۔
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج1، ص69۔
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج17، ص80۔
- ↑ دباغ، بلادنا فلسطین، 1991م، بخش 1، ص539۔
- ↑ ارجح و عباسی، «جالوت»، ج9، ص275۔
- ↑ قشیری، لطائف الاشارات، 2000م، ج1، ص194؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج3، ص255۔
- ↑ أحمد بن حنبل، المسند، 1421ھ، ج30، ص524؛ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج2، ص618۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص36؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص102۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- ابنخلدون، عبد الرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر (تاریخ ابن خلدون)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دار الفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
- ابنعساکر، ابوالقاسم علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
- احمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، محقق: شعیب الأرنؤوط، عادل مرشد، بیجا، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ اول، 1421ھ۔
- ارجح، اکرم، و عباسی، مہرداد، «جالوت»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الأنبیاء، بیروت، المکتبۃ الثقافیۃ، بیتا.
- جفری، آرتور، واژہہای دخیل در قرآن مجید، محقق: بدرہای، فریدون، تہران، نشر توس، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
- دباغ، مصطفی مراد، بلادنا فلسطین، بیجا، دار الہدی، 1991ء۔
- دہخدا، لغتنامہ، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
- شرتونی، سعید، أقرب الموارد فی فصح العربیۃ و الشوارد، تہران، ادارہ اوقاف و امور خیریہ، 1374ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ موسوی ہمدانی، سید محمد باقر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1374ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، مصحح: رسولی، ہاشم، لبنان، دار المعرفۃ، چاپ دوم، 1408ھ۔
- طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق: ابراہیم، محمد أبو الفضل، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق و مصحح: رسولی محلاتی، ہاشم، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
- قشیری، عبدالکریم بن ہوازن، لطائف الاشارات، بسیونی، ابراہیم، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ سوم، 2000ء۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
- کتاب مقدس (عہد عتیق و عہد جدید)، لندن ، 1925ء۔
- مرکز فرہنگ و معارف قرآن، اَعلام قرآن از دایرہ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
- مسعودی، ابو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: داغر، اسعد، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق و تصحیح: مؤسسۃ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- میبدی، احمد بن محمد، تفسیر خواجہ عبد اللہ انصاری، تہران، امیر کبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔
- واعظزادہ خراسانی، محمد، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن و سر بلاغتہ، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، چاپ دوم، 1388ہجری شمسی۔
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ یعقوبی، دار صادر، بیروت، چاپ اول، بیتا۔