سنت الہی
سنت الہی یا سنن الہی ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کا اطلاق کائنات میں جاری خدا کے قوانین و مقررات پر ہوتا ہے۔ مسلمان دانشوروں کے نزدیک الہی سنتوں کی مختلف خصوصیات ہیں جن میں جامعیت، ثبات اور ضابطہ مند ہونا اہمیت کا حامل ہے اور قرآن کی تعبیر میں یہ سنتیں غیر قابل تبدیل و تغییر ہیں۔
مسلمان دانشوروں کے مطابق الہی سنتوں کو ان کے ظرف تحقق کے اعتبار سے دنیوی اور اخروی جبکہ انسانی زندگی میں ان کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے مطلق اور مشروط میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ استدراجی سنت، سنت نصرت اہل ایمان اور سنت اتمام حجت منجملہ ان سنتوں میں سے ہیں جن کی طرف قرآن میں اشارہ ہوا ہے۔ بعض حضرات ظہور امام زمانہ(عج) اور مہدویت کو الہی سنتوں کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ولایت صالحین، باطل پر حق کی فتح اور مستضعفین کی خلافت اور جانشینی جیسی سنتیں اس زمانے میں محقق ہونگے۔
محققین کے مطابق الہی سنتوں سے آشنائی خدا کی معرفت اور توحیدی معاشرے کے قیام میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان محققین کے مطابق کائنات کے ثابت اور پایدار قوانین و مقررات سے آگاہی انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں واقع ہونے والے واقعات اور حوادث کو بہتر درک کرنے اور ان سے کما حقہ بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی اور سماجی قائدین نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے لئے الہی سنتوں کو مد نظر رکھنے پر تاکید نیز ان اصولوں اور سنتوں کو اپنے لئے سرلوحہ عمل قرار دئے ہیں۔
مفہوم شناسی
سنت الہی خدا کے ان قوانین و مقررات کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے خدا کائنات کے امور کو ادارہ کرتا ہے۔[1] شیعہ فیلسوف، فقیہ اور مفسر آیت اللہ جوادی آملی سنت الہی کو تخلیق اور ربوبیت کے نظم و نسق سے تعبیر کرتے ہیں جسے عقل فلسفی اور عقل تجربی کے ذریعے کھوج لگایا جا سکتا ہے۔[2]
محققین کے مطابق قرآن میں سنت الہی «امر»، «ارادہ»، «قول»، «حُکم»، «جَعل»، «کَتَبَ»، «فَرَضَ»، «قضا»، «قَدَر» وغیرہ جیسے مفاہیم کے ساتھ مرتبط ہے۔[3] محققین کے مطابق سنت الہی کا مفہوم تنوع اور عمومیت کے اعتبار سے بہت وسیع اور تمام ہستی پر محیط ہے، یہاں تک کہ کائنات میں موجود کوئی شئ ان سنتوں سے خارج نہیں ہیں اور ہر وقت ایک یا اس سے زیادہ سنتیں ان پر حاکم ہیں۔[4]
اہمیت
آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق سنت الہی کو ایک علیحدہ علم کا عنوان قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی حوالے سے معاشرے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے؛ جبکہ سیکولر علوم جس کا مبدأ اور معاد سے کوئی رابطہ نہیں، سنت الہی کی جگہ پر بیٹھ کر بعض مواقع میں انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔[5]
شیعہ فقیہ اور مفکر سید محمد باقر صدر اس بات کے معتقد ہیں کہ الہی سنتیں قرآن کے اہداف کے ساتھ تنگا تنگ رابطہ رکھتی ہیں جو انسان کی نجات اور نور کی طرف انسان کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے؛ کیونکہ ان قوانین پر عمل پیرا ہونے کے ذریعے بطور مستقیم معاشرے میں انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں مؤثر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔[6]
بعض حضرات اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ سنت الہی خدا کے افعال اور بندوں کے ساتھ خدا کے رابطے کی نوعیت کو بیان کرتی ہیں اس بنا پر یہ سنتیں خدا کے وجود اور توحید کو ثابت کرنے کے سب سے بڑے دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔ لھذا جس قدر انسان اور سماج الہی سنتوں سے آگاہ ہونگے اتنا ہی ان میں خدا کی معرفت آتی جائے گی؛[7] اسی طرح قرآن کے بقول الہی سنتوں سے روگرانی اختیار کرنا خسارے کا سبب ہے۔[8]
بعض لوگوں کے مطابق انسانی زندگی میں آنے والی تلخ اور خوشگوار واقعات کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے لئے الہی سنتوں آگاہی ضروری ہے کیونکہ کائنات پر حاکم غیر قابل تغییر قوانین و مقررات اور الہی سنتوں سے آگاہی سے انسان میں فردی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والے حوادیث اور واقعات کو ادارہ کرنے کی صلاحیت آجاتی ہے جس کے بہت سارے تربیتی آثار ہیں۔[9]
سنت الہی پر منطبق حکمرانی
اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاسی اور سماجی قیادتوں کے یہاں الہی سنتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے؛ یہاں تک کہ بعض حضرات اس بات کے معتقد ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی کی جد وجہد قرآن میں مطرح ہونے والی الہی سنتوں پر منطبق تھی[10] اور امریکہ کے خلاف ان کے .... الفاظ، یہاں تک کہ شاہ ایران کے خلاف ان کی تحریک کے شروع ہونے سے پہلے کے الفاظ اس بصیرت کی وجہ سے تھے جو انہیں الہی سنتوں پر اعتماد کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔[11]
ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای معاشرے میں اسلامی اقدار کا تحفظ، عزت، قدرت و مقاومت، معنویت، عقلانیت، عدالت، بصیرت، دشمن شناسی اور ترقی کے تحقق کو الہی سنتوں کے ساتھ منطبق ہونے سے مشروط قرار دیتے ہیں۔[12] ان کے مطابق اسلام خاص کر ایران کے خلاف ان کے دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی اور محاسباتی غلطیوں کو الہی سنتوں سے ان کی نا آشنائی قرار دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہبں کہ جہاں جہاں مسلمانوں کو سیاسی اور عسکری میدانوں میں کامیابی ملی ہے وہ الہی سنتوں میں سے کسی ایک سے ساتھ انطباق کی وجہ سے ملی ہے اور جہاں جہاں مسلمانوں شکست سے دوچار ہوئی ہیں وہاں پر بھی مختلف امور کی وجہ سے شکست سے متعلق سنت الہی حاکم ہوئی ہے۔[13]
آیت اللہ جوادی آملی بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ فرعون جیسے متکبر اور سرکش انسانوں کو ذالت کی وادی میں پہنچانے والی خدا کی سنتوں کی وجہ سے امریکہ ہر روز اپنی قدرت کے خاتمے کی طرف نزدیک ہو رہا ہے۔[14]
الہی سنتوں کا مجرای
محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں الہی سنتوں کے اجراء کو چہ بسا خود خدا کی طرف نسبت دی گئی ہے جیسے سورہ فتح آیت نمبر 23، بعض اوقات انبیاء کی طرف نسبت دی گئی ہے جیسے سورہ اسراء آیت نمبر 77 اور بعض اوقات لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جیسے سورہ حجر آیت نمبر 13۔[15]
بعض لوگوں کے مطابق الہی سنتیں ان تمام فطری اور ماورائے فطری امور میں جاری ہوتی ہیں جن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مشیت اور ارادہ الہی تعلق پکڑتا ہے۔[16]
شیعہ فیلسوف اور فقیہ محمد تقی مصباح یزدی اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا عالم ہستی میں دیگر مجاری کے توسط سے جاری ہونے والی سنتوں کو بھی اپنی طرف اس لئے نسبت دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ توحید افعالی سے آشنا کیا جا سکے۔[17]
الہی سنتوں کی خصوصیات
مسلمان دانشوروں نے قرآنی آیات کی روشنی میں الہی سنتوں کی بعض خصوصیات ذکر کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
- شمول اور جامعیت: سورہ احزاب آیت 38 کی روشنی میں الہی سنتوں سے کوئی بھی زمان، مکان اور حالت مستثنا نہیں ہے اور سب کو شامل کرتی ہیں۔
- ثبات اور ناقابل تبدیل: سورہ فاطر آیت 43 کی روشنی میں الہی سنتوں میں نہ کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ ان کی جگہ کوئی اور چیز لے سکتی ہے۔
- اجتماعی سزا (سنت عذاب الہی): سورہ انفال آیت 25 کی روشنی میں سنت عذاب میں عذاب صرف خطاکار شخص تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ خطاکار سمیت اس سلسلے میں غفلت کا شکار ہونے والے اور خاموش رہنے والے سب مبتلا ہونگے۔
- بے طرف اور ضابطہ مند: سورہ آل عمران آیت 140 کے مطابق سنت الہی سے آشنا اور اس کی پیروی کرنے والا جس لباس یا صنف سے تعلق رکھتا ہو ان سے بہرہ مند ہو سکتا ہے اسی طرح اس کی مخالفت کرنے والا بھی جو بھی ہو شکست اور ناکامی سے دوچار ہو گا؛ جیسے جنگ احد میں مسلمانوں کی مثال جو اپنے سپہ سالار کی نافرمانی اور ثابت قدم نہ رہنے کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی۔[18]
سنت الہی ناقابل تغییر ہے
قرآن میں سورہ فاطر کی آیت 140 میں سنت الہی کو ناقابل «تبدیل» اور ناقابل «تحویل» قرار دیتے ہیں۔ شیعہ مفکر اور عالم دین شہید مطہری ناقابل تبدیل سے نَسخ نہ ہونا اور کسی اور سنت کا اس کی جگہ نہ لینا جبکہ ناقابل تحویل سے اس کے اجزا میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آنا مراد لیتے ہیں۔[19]
شیعہ مفسر اور فیلسوف علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ سنت الہی میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ عافیت اور نعمت کی جگہ عذاب آئے اور تحویل سے مراد یہ ہے کہ خدا کا عذاب ایک قوم سے دوسری قوم تک منتقل ہو۔[20]
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں لفظ «سنت» کا ہر وقت لفظ «قَبل» اور «اوّلین» کے ساتھ آنا،[یادداشت 1] اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جو کچھ گذشتہ امتوں پر گزری ہیں وہ ناقبل تغییر ہیں اور وہ آنے والی اقوام پر بھی جاری ہونگے۔[21] اس بنا پر قرآن میں سورہ آل عمران آیت 137 میں لوگوں سے یہ توقع ظاہر کی جاتی ہے کہ زمین میں سیر کر کے گذشتہ اقوام کے انجام پر غور و فکر کرنے کے ذریعے الہی سنتوں کا کھوج لگایا جائے۔[22]
اقسام
بعض مسلمان دانشورں نے الہی سنتوں کو ان کے ظرف تحقق کے حوالے سے دنیوی اور اخروی میں[23] اور دنیوی سنتوں کو مطلق اور مشروط میں تقسیم کی ہیں۔ مطلق سنتوں سے ان کی مراد وہ سنتیں ہیں جو انسان کے اعمال اور رفتار کے معلول نہیں ہیں جیسے سنت ہدایت عام (سورہ نحل آیت 36، سورہ شعراء آیت 208) اور سنت امتحان، (سورہ بقرہ آیت 155 اور سورہ طہ آیت 85) کہ تمام لوگوں پر جاری ہوتی ہیں۔
جبکہ مشروط سنتوں سے ان کی مراد وہ الہی سنتیں ہیں جو مختلف انسانوں پر ان کے ذاتی اعمال اور رفتار کی وجہ سے جاری ہوتی ہیں؛ جیسے اہل ایمان کی نصرت کی سنت (سورہ روم آیت 47) اور سنت استخلاف[یادداشت 2] (سورہ مائدہ آیت 54 اور سورہ محمد آیت 38)۔[24]
بعض مسلمان محققین قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں الہی سنتوں کو تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر کے لئے بطور شاہد آیات ذکر کرتے ہیں:
- سیدھے راستے پر گامزن ہونے کے لئے سنت ہدایت (سورہ نساء آیت 26)،
- باطل سنتوں کو توڑنے والی الہی سنتیں (جسے سورہ احزاب کی آیات 37–38)،
- گذشتہ اقوام کے عذاب میں خدا کی سنت(سورہ آل عمران آیت 137، سورہ کہف آیت 55، سورہ احزاب کی آیات 60–62)۔[25]
بعض محققین ایک اور تقسیم میں سنت الہی کو شروع میں تکوینی اور تشریعی میں تقسیم کرتے ہیں اس کے بعد تشریعی سنتوں کو جو کی انسانی حیات کے نظم و نسق سے مربوط ہیں فردی اور اجتماعی سنتوں میں تقسیم کرتے ہیں۔[26]
قرآن میں سنت الہی کے نمونے
محققین اور مفسرین کے مطابق قرآن میں ذکر ہونے والی بعض الہی سنتوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- سنت اِملاء: خدا کی طرف سے ظالموں کو توبہ کرنے کے لئے دی جانے والی مہلت کو کہا جاتا ہے؛ لیکن عموما یہ سنت ظالموں کے نقصان میں جاتی ہے؛ کیونکہ اس مدت میں بھی یہ نہ فقط توبہ نہیں کرتے بلکہ ان کی گناہوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے (سورہ آل عمران آیت 178 اور سورہ قلم آیت 45)۔[27]
- سنت اِستِدراج: خدا کی طرف سے ظالموں کو دی جانے والے اس مہلت کو کہا جاتا ہے جس میں وہ خدا کی طرف سے دی گئی مادی نعمتوں میں غرق ہو کر غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ خدا کے عذاب کے قریب ہوتے جاتے ہیں ( سورہ اعراف آیات 182–183، سورہ توبہ آیت 55، سورہ توبہ آیت 85)۔[28]
- سنت نصرت مؤمنین: مؤمنانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے مؤمنین پر آسمان اور زمین برکتیں نازل ہوتی ہیں اور زندگی کے حساس ترین مواقع پر خدا کی طرف سے مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے( سورہ اعراف آیت 96، سورہ فتح آیت 4، سورہ توبہ آیت 25، سورہ توبہ آیت 40، سورہ آل عمران آیت 124)۔[29]
- سنت اتمام حجت: اس معنی میں کہ خدا کسی کو بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے اتمام حجت کے بغیر بے خبر اور اچانک ہلاک نہیں کرتا (سورہ انعام آیت 131 اور سورہ اسراء آیت 15)۔[30]
- سنت امتحان (سنت ابتلاء): خدا تمام انسانوں سے ان کی زندگی میں سختیوں اور نعمتوں کے ذریعے امتحان لیتا ہے(سورہ عنکبوت آیت 2 اور سورہ انبیاء آیت 35)۔[31]
- سنت ہدایت: خدا اپنے بندوں کی تقدیر سے لاتعلق نہیں بلکہ ان کی ہدایت کے لئے انبیاء اور اولیاء بھیجے ہیں (سورہ طہ آیت 133 و 134، سورہ یونس آیت 47، سورہ نحل آیت 16 اور سورہ فاطر آیت 24)۔[32]
- سنت عذاب: ظالم اشخاص اور سماج ان کی نافرمانی اور ناشکری کی بنا پر ایک نہ ایک دن ہلاک اور عذاب الہی میں مبتلا ہو کر رہے گا(سورہ کہف آیت 59، سورہ انبیاء آیت 11، سورہ ہود آیت 117، سورہ نحل آیت 112)۔[33]
- سنت اصلاح: خدا ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق روزی عطا کرتا ہے (سورہ شوری آیت 27)۔[34] اور اگر بعض اوقات ظالموں اور ستمگروں کو دنیا میں فراوان رزق و روزی سے نوازا گیا ہے تو یہ در حقیقت دوسری سنتوں جیسے سنت امتحان اور استدارج کی وجہ سے ہے۔[35]
- غیبی امداد کی سنت: اس معنا میں کہ خدا ہر انسان کو (چاہے مؤمن ہو یا غیرمؤمن) ان کی تلاش اور کوشش کے مطابق اپنے اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے (سورہ شوری آیت 20 اور سورہ اسراء آیت 20)۔[36]
- سنت تغییر: اس معنا میں کہ اقوام کی تقدیر میں تبدیلی یا ان کو عطا کی گئی نعمتوں میں استمرار سب کے سب ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے اور خدا اپنی طرف سے کسی امت کو دی گئی نعمتوں کو سلب نہیں کرتا ہے ( سورہ انفال آیت 53، سورہ رعد آیت 11)۔[37]
- سنت تزئین: خدا ہر قوم اور ملت کے اعمال کو ان کے سامنے پسندیدہ نمایاں کرتا ہے (سورہ انعام آیت 108)۔[38]
- سنت مداولہ: اس معنا میں کہ زمانے کی گردش انسانوں کے درمیان چکر لگاتی ہے اور ایک کے بعد دوسرا زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے جبکہ دوسرا اس سے محروم ہو جاتا ہے۔[39]
بعض دیگر الہی سنتیں یہ ہیں: اسباب و مسببات میں خدا کی سنت، سنت مکر، بندوں کی رزق و روزی کے حوالے سے خدا کی سنت، ایمان، تقوا اور عمل صالح کے بارے میں خدا کی سنتیں اور سنت ترف یا مترفین۔[40]
مہدویت الہی سنتوں کا آئینہ دار
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ مسلمانوں کی تعلمیات میں مہدویت اور سنت الہی کے درمیان تنگاتنگ رابطہ ہے اور مہدویت کا عقیدہ اپنے اندر کئی الہی سنتوں کو سمویا ہوا ہے جو درج ذیل ہیں:
- خدا کی حاکمیت کے تناظر میں صالحین کی حاکمیت (سورہ مائدہ آیت 55 اور سورہ نساء آیت 59)؛
- انسان کی خلافت اور ذمہ داری اٹھانے کی سنت (سورہ بقرہ آیت 30 اور سورہ احزاب آیت 72)؛
- باطل پر حق کی فتح اور کامیابی کی سنت (سورہ نساء آیت 16، سورہ انفال آیت 8، سورہ توبہ آیت 34)؛
- زمین پر متضعفین کی جانشینی کی سنت (سورہ قصص آیت 5)؛
- سنت نجات مؤمنین (سورہ یونس آیت 103)؛
- سنت حاکمیت صالحین (سورہ انبیاء آیت 105 اور سورہ نور آیت 55)؛
- مستقبل میں متقین کی کامیابی کی سنت (آیت 128 سورہ اعراف)؛
- اسلام کا دوسرے ادیان پر غالب آنے کی سنت (سورہ توبہ آیت 33، سورہ فتح آیت 28)۔[41]
ان کے علاوہ بعض استخلاف، امتحان، تمحیص، املاء اور استدراج جیسی سنتوں کو بھی قرآن و احادیث کی روشنی میں مہدویت، امام مہدی(عج) کی غیبت اور انتظار فرج جیسے مسائل کے ساتھ مرتبط سمجھتے ہیں۔[42]
حوالہ جات
- ↑ مصباح یزدی، جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن، 1368ہجری شمسی، ص425؛ صدر، سنتہای تاریخ در قرآن، 1393ہجری شمسی، ص162۔
- ↑ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1399ہجری شمسی، ج15، ص587۔
- ↑ نیکزاد الحسینی، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، 1392ہجری شمسی، ص45۔
- ↑ آقاجانی، ویژگیہا و انواع سنتہای الہی در تدبیر جوامع، 1393ہجری شمسی، ص34۔
- ↑ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1399ہجری شمسی، ج15، ص586۔
- ↑ صدر، سنتہای اجتماعی و فلسفہ تاریخ در مکتب قرآن، 1369ہجری شمسی، ص82۔
- ↑ دیالمہ، بررسی سنت اجتماعی مداولہ و اہداف آن در قرآن کریم، ص210۔
- ↑ ملاحظہ کریں آیت 85 سورہ غافر
- ↑ نیکزاد الحسینی، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، 1392ہجری شمسی، ص1۔
- ↑ خامنہای، بیانات در مراسم سیامین سالگرد رحلت امام خمینی (رحمہاللہ)
- ↑ خامنہای، بیانات در مراسم دانشآموختگی دانشجویان دانشگاہ امامحسین(ع)
- ↑ خیری، کارکردہای اجتماعی سنن الہی از دیدگاہ مقام معظم رہبری سیدعلی خامنہای دام عزہ، ص9۔
- ↑ خامنہای، بیانات در دیدار رئیس و مسئولان قوہ قضائیہ۔
- ↑ جوادی آملی، نگاہی «قرآنی» بہ تبعات ہجوم آمریکا بہ عراق۔
- ↑ وفا، تاریخ از دیدگاہ قرآن و نہجالبلاغہ، 1382ہجری شمسی، ص121۔
- ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، 1393ہجری شمسی، ج2، ص1221۔
- ↑ مصباح یزدی، جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن، 1391ہجری شمسی، ص426۔
- ↑ وفا، تاریخ از دیدگاہ قرآن و نہجالبلاغہ، 1382ہجری شمسی، ص121–125
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1368ہجری شمسی، ج 1، ص135۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج 17، ص58۔
- ↑ نیکزاد الحسینی، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، 1392ہجری شمسی، ص134۔
- ↑ نیکزاد الحسینی، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، 1392ہجری شمسی، ص139۔
- ↑ سلیمی، سنتہای الہی در قرآن، ص25۔
- ↑ وفا، تاریخ از دیدگاہ قرآن و نہجالبلاغہ، 1382ہجری شمسی، ص128–134۔
- ↑ نیکزاد الحسینی، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، 1392ہجری شمسی، ص134۔
- ↑ محصص، سنت الہی و قلمرو کیفر گروہی، ص249۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، معارف قرآن، 1387ہجری شمسی، ص125۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، معارف قرآن، 1387ہجری شمسی، ص125۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، معارف قرآن، 1387ہجری شمسی، ص110۔
- ↑ علامہ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج7، ص355۔
- ↑ علامہ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج16، ص99۔
- ↑ دایرۃ المعارف قرآن کریم، ج4، ص263۔
- ↑ دایرۃ المعارف قرآن کریم، ج4، ص263۔
- ↑ علامہ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج18، ص56۔
- ↑ علامہ طباطبایی، ترجمہ المیزان، 1417ھ، ج18، ص56۔
- ↑ وفا، تاریخ از دیدگاہ قرآن و نہجالبلاغہ، 1382ہجری شمسی، ص130۔
- ↑ صدری فر، تحلیل، مقایسہ و نقد دیدگاہ مفسران دربارۂ «سنّت تغییر»، ص96۔
- ↑ علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان، 1417ھ، ج7، ص355۔
- ↑ دیالمہ، بررسی سنت اجتماعی مداولہ و اہداف آن در قرآن کریم، ص211۔
- ↑ ملاحظہ کریں: خرمشاہی، بہاء الدین۔ دانشنامۂ قرآن، 1393ہجری شمسی، ج2، ص1221–1231۔
- ↑ فاضلیان، سنتہای الہی با مہدویت۔
- ↑ فرہمند، مہدویت و سنتہای الہی در قرآن، ص127–154۔
نوٹ
مآخذ
- آقاجانی، نصراللہ، ویژگیہا و انواع سنتہای الہی در تدبیر جوامع، اسلام، سال دوم، ش3، زمستان 1393ہجری شمسی۔
- ایروانی، جواد، اعجاز قرآن در سنتہای اجتماعی، قرآن و علم، دورہ 7، ش13، 1392ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، معارف قرآن، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دایرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب قم، 1382ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، نشر اسراء، 1399ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، نگاہی «قرآنی» بہ تبعات ہجوم آمریکا بہ عراق، تاریخ درج مطلب: 1388/01/27ہجری شمسی، تاریخ بازدید 18 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- خامنہای، سیدعلی، بیانات در دیدار رئیس و مسئولان قوہ قضائیہ، تاریخ درج مطلب: 1401/04/07ہجری شمسی، تاریخ بازدید 18 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- خامنہای، بیانات در مراسم دانشآموختگی دانشجویان دانشگاہ امامحسین(ع)، تاریخ درج مطلب: 1398/07/21ہجری شمسی، تاریخ بازدید 18 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- خامنہای، سیدعلی، بیانات در مراسم سیامین سالگرد رحلت امام خمینی (رحمہاللہ)، تاریخ درج مطلب: 1398/03/14ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 18 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، تہران، دوستان، 1393ہجری شمسی۔
- خیری، حسین، کارکردہای اجتماعی سنن الہی از دیدگاہ مقام معظم رہبری سیدعلی خامنہای دام عزہ، ش3، دورہ 10، سال1401ہجری شمسی۔
- دیالمہ، نیکو، بررسی سنت اجتماعی مداولہ و اہداف آن در قرآن کریم (با تأکید بر آیت 140 و141 آل عمران)، مطالعات تفسیری، ش26، 1395ہجری شمسی،
- سلیمی، مہدی، سنتہای الہی در قرآن، مجلہ رشد آموزش معارف اسلامی، ش60، 1385ہجری شمسی۔
- صدر، سید محمدباقر، سنتہای اجتماعی و فلسفہ تاریخ در مکتب قرآن، ترجمہ حسین منوچہری، تہران، رجا، 1369ہجری شمسی۔
- صدر، سید محمدباقر، سنتہای تاریخ در قرآن، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1393ہجری شمسی۔
- صدری فر، نبی اللہ، تحلیل، مقایسہ و نقد دیدگاہ مفسران دربارۂ «سنّت تغییر» (ذیل آیۂ 11 سورۂ رعد)، پژوہشنامہ معارف قرآنی، ش33، تابستان 1397ہجری شمسی۔
- علامہ طباطبایی، سیدمحمدحسین۔ المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامع ہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔
- فاضلیان، نفیسہ سادات، پیوند سنتہای الہی با مہدویت، انتظار، ش30، پاییز 1388ہجری شمسی۔
- فرہمند، مہناز، مہدویت و سنتہای الہی در قرآن، نشریہ سفینہ، ش10، 1385ہجری شمسی۔
- محصص، مرضیہ، سنت الہی و قلمرو کیفر گروہی، بینات، ش89–90، 1395ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمدتقی، جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن، قم، سازمان تبلیغات اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمد تقی، جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی۔ شرکت چاپ و نشر بینالملل، 1391ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1368 ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔
- نیکزاد الحسینی، فاطمہسادات، شبکہ معنایی سنن الہی در قرآن کریم، پایاننامہ دورہ کارشناسی ارشد، رشتہ علوم حدیث، تہران، دانشگاہ قرآن و حدیث، 1392ہجری شمسی۔
- وفا، جعفر، تاریخ از دیدگاہ قرآن و نہجالبلاغہ، تہران، ادارہ آموزشہای عقیدتی سیاسی سپاہ، 1382ہجری شمسی۔