امت وسط

ویکی شیعہ سے

اُمَّت وَسَط، اس برگزیدہ گروہ کو جاتا ہے جو لوگوں اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان واسطہ اور آخرت میں لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں جو انہوں نے دنیا میں انجام دئے ہیں۔ یہ لفظ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 میں مسلمانوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔

شیعہ اور اہل سنت تفاسیر میں اس کے مصداق کے بارے میں متعدد اقوال بیان کئے گئے ہیں۔ شیعہ مفسرین اس سے مراد ائمہ معصومینؑ جبکہ اہل سنت مفسرین اس سے تمام مسلمان، صحابہ اور اہل سنت کو اس کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہوئے اس گروہ کے لئے عصمت، عدالت اور عقلانیت جیسی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

تعریف

امت وسط کا لفظ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 میں مسلمانوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس چیز کو دوسرے ادیان پر اسلام کی برتری اور افضلیت قرار دی جاتی ہے جس کے مطابق امت محمدی دوسری تمام امتوں پر گواہ اور شاہد ہیں۔[یادداشت 1]
امت وسط کامطلب یہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو ایک ایسی امت قرار دی ہے جو افراط و تفریط سے مصون ہیں۔[1] تفاسیر میں امت وسط سے غلو اور عقیدے میں انحراف سے بچنا، مادیات اور رہبانیت میں گرفتار نہ ہونا، اپنے علوم پر جمود کا شکار نہ ہونا اور دوسروں کے علوم سے بھی استفادہ کرنا اور دیگر امتوں سے مناسب روابط برقرار کرنا یعنی دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کو مختلف ابعاد کا حامل انسان بننا وغیرہ مراد لئے گئے ہیں۔[2]
مفسرین امت وسط سے امت عادل،[3] بہترین امت‌،[4] قیادت محور اور تمام لوگوں کا سردار،[5] امت نمونہ اور عقلانیت والی امت[6] مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض مفسرین مذکورہ آیت میں امت وسط سے خود دین اسلام اور اس کے احکام میں اعتدال مراد لیتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام اعتقادات، احکام، اخلاقیات اور قوانین و مقررات میں ایک معتدل دین ہے[7] خلاصہ یہ کہ امت وسط ایک ممتاز، برگزیدہ، پیغمبرؐ اور لوگوں کے درمیان واسطہ اور دنیا اور آخرت میں تمام لوگوں کے اعمال پر گواہ اور شاہد گروہ سے تعبیر کی گئی ہے۔[8]

مصادیق

امت وسط کے مصداق کی تعیین میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام مسلمان، پیغمبر کے اصحاب، اہل سنت اور شیعہ ائمہ کو اس کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔

  • تمام مسلمان:اہل سنت بعض مفسرین ان تمام لوگوں کو جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ کی دعوت کو قبول کئے ہیں، امت وسط کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ امت محمدی کے معتدل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمان ایک طرف سے اہل کتاب اور دوسری طرف سے مشرکین اور بت‌ پرستوں کی نسبت معتدل ہیں؛ کیونکہ بعض اہل کتاب صرف روح کی تقویت پر زور دیتے ہوئے جسمانی کمالات سے صرف نظر کرتے ہیں اس کے مقابلے میں مشرکین روحانی اور معنوی فضایل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف مادی اور جسمانی لذتوں میں گرفتار ہوئے ہیں، لیکن اسلام نے روحانی ضروریات اور جسمانی ضروریات میں تعادل ایجاد کیا ہے۔[9]
  • صحابہ، تابعین اور اہل سنت: اہل سنت بعض علماء من جملہ ابن تیمیہ پہلے درجے میں پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب ان کے بعد تابعین اور تابع تابعین اور وہ لوگ جنہوں نے صحابہ کی پیروی کی ہیں کو اس آیت کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق خلفائے راشدین کے بعد امت اسلام میں تفرقہ پیدا ہوا اور بعض جیسے خوارج بدعتوں میں گرفتار ہوا اور شیعہ غلو اور فتنہ‌انگیزی اختیار کر کے میانہ روی سے خارج ہو گئے اور صرف اہل سنت صحابہ کی پیروی کرتے ہوئے راہ حق پر باقی ہیں اور امت وسط کا مصداق قرار پایا ہے۔[10]
  • شیعہ ائمہ: اکثر شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ بعض لوگوں نے اس آیت سے امت محمدی کے اجماع کی حجیت اور عدالت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں؛ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ اس امت کا ہر فرد خطا اور گناہ سے مصون ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ اس امت میں سے بعض افراد ہیں جو خدا کی طرف سے عصمت کے مقام پر فائز ہونے کی بنا پر دوسرے لوگوں پر گواہ اور شاہد بننے کی قابلیت پیدا کی ہیں اور امت محمدی کو امت وسط کہنا اس ممتاز اور برگزیدہ گروہ کی وجہ سے ہے جو امت محمدی میں موجود ہیں۔[11] اس بنا پر یہ مقام احادیث[12] اور قرآن کی دیگر آیات کی رو سے صرف شیعہ ائمہؑ سے متخص ہیں جو دنیا میں لوگوں کے اعمال کی حقیقت کو درک کر سکتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی گواہی دے سکتے ہیں۔[13]

خصوصیات

امت وسط کی کچھ خصوصیات ذکر کی گئی ہیں۔ عدالت، عصمت، علم[14] اور عقلانیت،[15] من جملہ ان خصوصیات میں سے ہیں۔

  • عصمت: شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ جو لوگ امت کے اعمال پر گواہ ہیں ان کو ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک ہونا چاہئے کیونکہ امت وسط کا تحقق حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی آرزو تھی جو انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت خدا سے طلب کئے تھے کہ خدا ان کی ذریت میں سے ایک رسول قرار دے جو لوگوں کو خدا کی آیات تلاوت کریں۔ مفسرین کے مطابق سورہ حج کی آیت نمبر 78 میں حضرت ابراہیم کی دعا کے مستجاب ہونے کے ضمن میں ایک برگزیدہ گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو خدا کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور گناہ و معصیت سے پاک و منزہ ہیں۔ ان کی دوسری دلیل شہادت اور گواہی کی ایک خاص نوعیت ہے جو صرف معصومین ہی دے سکتے ہیں۔[16]
  • عدالت: مفسرین کی ایک کثیر تعداد پیغمبر اسلامؐ سے مروز ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے عدالت کو امت وسط کی خصوصیت قرار دیتے ہیں جو ان کو افراط و تفریط سے محفوظ رکھ کی میانہ روی کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔[17]

نوٹ

  1. وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَہِيدًا... (ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک درمیانی (میانہ رو) امت بنایا ہے تاکہ تم عام لوگوں پر گواہ ہو اور پیغمبرؐ تم پر گواہ ہو۔)[؟؟]

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات، ذیل واژہ وسط۔
  2. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۳۲۰؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۸۸-۴۸۹۔
  3. سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۴۴؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۸۴۔
  4. فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۸۴-۸۵۔
  5. فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۸۴-۸۵۔
  6. طالقانی، پرتوی از قرآن،۱۳۶۲ش، ج۱، ص۳۲۴۔
  7. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۔
  8. ربانی، «امت وسط» ص۲۸۷۔
  9. سید قطب، فی ظلال القرآن، ۱۴۱۲، ج۱، ص۱۳۰-۱۳۱۔
  10. صلابی، الوسطیۃ فی القرآن، ۱۴۲۶ق، ص۳۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۳۲۱۔
  12. صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۲؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۹۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۴۴۱۔
  13. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۴۱۵؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۳۲۰-۳۲۱؛ طیب، اطیب البیان، ۱۳۷۸، ج۲، ص۲۲۹؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۲۱؛
  14. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۲۱۔
  15. طالقانی، پرتوی از قرآن، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۲۔
  16. ربانی، «امت وسط» ص۲۸۸-۲۸۹۔
  17. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۴۴؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۸۴۔

مآخذ

  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، لبنان - سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ھ۔
  • ربانی، سید جعفر، «امت وسط»، در دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم،‌ بوستان کتاب، ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
  • سید قطب، فی ظلال القرآن، بیروت - قاہرہ،‌ دار الشروق، ۱۴۱۲ھ۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر الماثور، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی اللہ علیہم، محسن بن عباس علی کوچہ‌باغی، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ھ۔
  • صلابی، محمد، الوسطیۃ فی القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۲۶ھ۔
  • طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، تہران، شرکت سہامی انتشار، ۱۳۶۲شمسی ہجری۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلام، ۱۳۶۹شمسی ہجری۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۳شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب العلمیہ، ۱۳۷۱شمسی ہجری۔