ابابیل

ویکی شیعہ سے

اَبابیل، غول غول اور گروہ‌ گروہ کے معنی میں ان پرندوں کی خصوصیات میں سے ہے جنہوں نے اصحاب فیل پر کنکریاں برسائے تھے۔ ان پرندوں نے اپنے چونچ اور پنجوں کے ذریعے ابرہہ کے سپاہیوں پر کنکریاں برسائے جو خانہ کعبہ کو مسمار کرنے آئے تھے۔ قرآن مجید میں ان کنکریوں کو سِجِّیل نام دیا گیا ہے۔

تعریف و اہمیت

ابابیل کا لفظ قرآن میں ایک دفعہ آیا ہے۔[1] مفسرین کے مطابق ابابیل کا لفظ قرآن میں بعض پرندوں کی خصوصیات کے طور پر آیا ہے اور کسی پرندے کا نام نہیں۔ اس بنا پر قرآن کی آیت وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْہِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ[؟؟][2] میں طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ[؟؟] سے مراد ایسے پرندے ہیں جو گروہوں کی شکل میں ہر طرف سے ظاہر ہوئے اور اصحاب فیل یعنی ابرہہ کے سپاہیوں پر کنکریاں برسائے۔[3] لغت میں لفظ ابابیل دستہ‌ دستہ اور پراکندہ گروہ‌ گروہ‌ کے معنی میں آتا ہے۔ البتہ فارسی یا اردو زبان میں عام محاورات میں خود ان پروندوں کو ابابیل کہا جاتا ہے نہ ان کی صفات کے طور پر۔[4]

اصحاب فیل پر کنکریاں برسانے والے پرندوں کی نوعیت، شکل و صورت اور دیگر تفصیلات کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اکثر مفسرین ان کو پرستو یا ان کی شبیہ[5] اور بعض مفسرین انہیں چمگاڈر قرار دیتے ہیں۔[6] محمد بن جریر طبری کے مطابق ان پرندوں کا رنگ سفید یا سیاہ یا سبز تھا ان کے چونچ زرد اور پنجے کتوں کے پنجوں کی طرح تھے۔[7] اسی طرح امام باقرؑ سے منقول ہے کہ ان کے سر اور پنجے درندوں کی طرح تھے جو نہ اس سے پہلے دکھائی دئے تھے اور نہ اس کے بعد۔[8] اسی طرح ان پرندوں کی شکل شہد کی مکھیوں جیسی، سر سیاہ‌، لمبی گردن اور سرخ چونج کے ساتھ توصیف کی گئی ہے۔[9]

فخر رازی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ پرندے گروہوں کی شکل میں تھے اور شاید ان میں سے ہر گروہ مخصوص شکل و صورت کے حامل تھے اور ہر شخص نے جس طرح اس نے دیکھا ہے اسی طرح ان کی توصیف کی ہے۔[10]

ابرہہ کے سپاہیوں پر کنکریوں کی بارش

تفصیلی مضمون: اصحاب فیل

جب ابرہہ اور اس کے سپاہی خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کی قصد سے آئے تو ہر طرف سے پرندے ظاہر ہوئے جو اپنے چونچ اور پنجوں میں کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے؛ قرآن میں ان کنکریوں کو سِجّیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔[11] کہا جاتا ہے کہ یہ پرندے دریا کی طرف سے آئے تھے[12] اور احادیث کے مطابق ان میں سے ہر پرندہ اپنے چونچ میں ایک اور پنجوں میں دو کنکریاں اٹھائے ہوئے تھے[13] اور ان میں سے ہر ایک کنکریوں پر اصحاب فیل میں سے ہر سپاہی کا نام لکھا ہوا تھا۔[14] یہ پرندے جب کنکریاں پھینکتے تو سب کے سب مطلوبہ ہدف پر لگ جاتی تھی اور اصحاب فیل کے سپاہیوں کے بدن کو سوراخ کرتے ہوئے دوسری طرف سے نکل جاتی تھی۔[15] طبری کی نقل کے مطابق یہ کنکریاں جس جس پر لگتی اس کے بدن کو خارش آنے لگتا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلی بار عربوں میں اسی سال چیچک کی بیماری پھیلی۔[16] ان تمام باتوں کے باوجود مستشرقین ابرہہ کے سپاہیوں کی شکست کی علت وبا ذکر کرتے ہیں۔[17] لیکن بعض محققین نے اس نظریے کو رد کیا ہے۔[18]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سورہ فیل، آیہ۳۔
  2. سورہ فیل، آیہ۳
  3. نمونہ کے لئے رجوع کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲۰، ص۳۶۲؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۳۶-۳۳۷؛ فخررازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۲۹۳۔
  4. دہخدا، لغت‌نامہ۔
  5. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۳۷؛ سبزواری نجفی، الجدید، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۱۸۔
  6. آلوسی، روح المعانی، بیروت، ج۳۰، ص۲۳۶۔
  7. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۳۰، ص۱۹۳۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۸۴۔
  9. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۲۰، ص۴۱۰۔
  10. فخررازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۲، ص۲۹۳۔
  11. سورہ فیل، آیہ ۴۔
  12. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۳۷؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۳۰، ص۱۹۳۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۸۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۳۰، ص۱۹۳۔
  14. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۲۰، ص۴۱۰۔
  15. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۹ق، ج۵، ص۵۴۲؛‌ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۲۰، ص۴۱۰۔
  16. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۳۰، ص۱۹۳۔
  17. کارادووو، ۱۹۲۳م، III، ص۳۹۸؛ بلاشر، ۱۹۴۹م، I، ص۱۱۵۔
  18. آذرتاش، ابابیل، ج۲، ص۲۹۸-۲۹۹۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود، روح المعانی، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمد جعفر یاحقی، محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق۔
  • سبزواری نجفی، محمد بن حبیب ‌اللہ، الجدید فی تفسیر القرآن المجید، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ۱۳۷۹ق۔
  • طبری، محمد، جامع البیان فی تفسیر القرآن، دار المعرفۃ، بیروت، ۱۴۱۲ق۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۴ش۔
  • Blachère,R,Le Coran,Traduction, Paris,1949۔
  • Carra de Vaux,B.,Les penseurs de l'Islam,Paris,1923۔