تأویل
تأویل، علوم قرآن کی ایک اصطلاح ہے، جو قرآنی آیات کے باطنی اور پوشیدہ معانی تک رسائی اور انہیں دریافت کرنے کے معنٰی میں آتی ہے۔ قرآنی محققین کے مطابق عقلی اور نقلی دلائل کے اعتبار سے قرآن کی تأویل ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان صفات کی نسبت نہ دی جائیں جو ذات پروردگار کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
علامہ طباطبائی قرآن کی تمام آیات خواہ محکم ہوں یا متشابہ میں تأویل کے قائل ہیں، جبکہ بعض مفسرین جیسے شیخ طوسی اور سید محمد باقر صدر صرف متشابہ آیات کو تأویل پذیر مانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے ہی سے قرآنی آیات کی تأویل پر توجہ دیتی چلی آرہی ہے اور خوارج وہ اولین گروہ تھے جنہوں نے قرآن کی تأویل کی، ان کے بعد معتزلہ، اشاعرہ، صوفیہ اور پھر غالیوں، باطنیوں اور فلاسفہ نے اس طریقے کو اپنایا۔ علامہ طباطبائی کے مطابق انحرافی افکار اور غلط تأویلاتی رجحانات کا ایک سبب متشابہ آیات کی غلط تأویل ہے۔
بعض مفسرین نے تأویل کو تفسیر کا مترادف قرار دیا ہے، تاہم مختلف منابع میں تأویل کو آیات کے پوشیدہ اور احتمالی معانی تک رسائی کا ذریعہ جبکہ تفسیر کو الفاظ کے ظاہری معنی کی تشریح کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ علامہ طباطبائی بھی تأویل کو ایک فکری و استنباطی عمل جبکہ تفسیر کو ایک عملی اقدام قرار دیتے ہیں۔ محققین نے تأویل کو صحیح اور غلط دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ غلط اور نادرست تأویل وہ ہے جو کسی معتبر دلیل کے بغیر یا لفظ کی وسعت اور ظرفیت کے برخلاف ہو، جبکہ صحیح تأویل وہ ہے جس کی پشت پر کسی معتبر دلیل کا سہارا موجود ہو۔
مسلمان علما نے صحیح تأویل کے لیے کچھ ایسے معیار متعین کیے ہیں جن میں دین کے ظواہر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کی دیگر آیات سے متصادقم نہ ہونا بنیادی شرائط میں سے ہیں۔
تعریف اور اہمیت
تأویل لفظ "أ-و-ل" سے ماخوذ ہے[1] اور کسی کلام یا عبارت کے حقیقی اور پوشیدہ معانی کے انکشاف اور بیان کے معنٰی میں آتی ہے۔[2]
علوم قرآن میں تأویل کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں: علامہ طباطبائی (متوفی: 1360ہجری شمسی) کے نزدیک تأویل قرآن کے معانی کی حقیقت کو دقیق اور علمی استدلال کے ساتھ دریافت کرنے کا نام ہے۔[3] سید محمد باقر حکیم (متوفی: 1382ہجری شمسی) کے نزدیک تأویل کلام کے معنی کی تفسیر ہے، نہ کہ الفاظ کی۔[4]اہل سنت محدث ابن اثیر کے مطابق تأویل کسی لفظ کے ظاہری معنی کو دلیل کی بنیاد پر کسی اور معنی کی طرف پلٹانے کو کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بغیر دلیل کے کسی لفط کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔[5]
آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ عارف سید حیدر آملی قرآن کی تأویل کو ضروری مانتے ہیں اور اسے عقل و نقل کے لحاظ سے واجب قرار دیتے ہیں۔[6] ان کے مطابق قرآن کے ظاہر پر اکتفا کرنے سے خدا کی ذات کی طرف ایسے صفات کی نسبت دینا لازم آتا ہے جو ذات خداوندی کے لائق اور سزاوار نہیں، لہٰذا خدا کو ان صفات سے منزہ ثابت کرنے کے لیے تأویل ناگزیر ہے۔[7] علامہ طباطبائی تأویل کو لفظی مفاہیم سے ماورا اور عینی حقائق سے مربوط امر قرار دیتے ہیں جو قرآن کی تمام آیات، چاہے محکم ہوں یا متشابہ کو شامل کرتا ہے۔ اکثر مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کے ہر حصے کی تأویل ممکن ہے،[8] لیکن بعض مفسرین جیسے شیخ طوسی (متوفی: 460ھ)[9] اور سید محمد باقر صدر (متوفی: 1359ہجری شمسی)[10] کا ماننا ہے کہ تأویل صرف متشابہات سے مختص ہے اور محکمات میں تأویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اہمیت اور پس منظر
لفظ تأویل اور اس کے مشتقات قرآن کی پندرہ(15) آیات اور سات(7) سورتوں میں سترہ(17) بار آیا ہے، جن میں سے تین مقامات پر[11] اس سے مراد قرآن کی تأویل ہے۔[12]
محمد ہادی معرفت (متوفی: 1385شمسی) کے مطابق قرآن میں تأویل کے تین معنٰی ہیں: آیاتِ متشابہ کی توجیہ، تعبیر خواب، اور کسی کام کا انجام اور نتیجہ۔[13] بعض مفسرین نے اپنی تفسیری کتب کے دیباچے[14] یا بعض متعلقہ آیات کی تفسیر بالخصوص سورۂ آل عمران آیت نمبر 7 کی تفسیر میں تأویل پر بحث کی ہے۔[15] قرآنی محققین کے مطابق "تأویل" کا لفظ بعض احادیث میں تفسیر کے معنٰی میں[16] اور بعض دوسری احادیث میں تفسیر کے مد مقابل کے طور پر آیا ہے۔[17] اسی طرح بعض احادیث میں تأویل کو تنزیل کے مقابلے میں بھی لایا گیا ہے۔[18]
کہا جاتا ہے کہ خوارج وہ پہلے گروہ تھے جنہوں نے قرآن کے نصوص کی تأویل کی، ان کے بعد معتزلہ، اشاعرہ، صوفیہ اور پھر غالیوں، باطنیوں اور فلاسفہ نے اس طریقے کو اپنایا۔[19] علامہ طباطبائی کے مطابق آیاتِ متشابہ کی غلط تأویل ہی انحرافی نظریات اور غلط تأویلاتی رجحانات کا بنیادی سبب ہیں۔[20]
تأویل اور تفسیر میں فرق
اگرچہ شیخ طوسی (385–460ھ) اور فخر رازی (متوفی: 544ھ) تأویل کو تفسیر کے مترادف مانتے ہیں۔[21] مگر التحقیق فی کلمات القرآن الکریم کے مصنف کے مطابق تفسیر الفاظ کے ظاہری معنی کی تشریح ہے جبکہ تأویل الفاظ کے حقیقی اور باطنی معنی کی تعیین اور تبیین ہے، جس کی تشخیص الفاظ کے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے گہری بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔[22] علامہ طباطبائی کے مطابق تفسیر کسی لفظ یا عبارت کے ایک یقینی اور معین معنی کو بیان کرنے کا نام ہے، جبکہ تأویل متعدد احتمالات میں سے کسی ایک کو دلیل کی بنیاد پر اختیار کرنے کا نام ہے جو ہمیشہ یقینی نہیں ہوا کرتا۔[23]
محمد ہادی معرفت کے مطابق تفسیر کا مطلب مبہم الفاظ کے معانی کو روشن اور واضح کرنا ہے، جبکہ تأویل کا مطلب کسی لفظ کے پوشیدہ اور حقیقی معانی کو دریافت کرنا ہے جن کی تشخیص الفاظ کے ظاہر سے نہیں ہوتی بلکہ انہیں مخصوص دلائل اور اصولوں کی مدد سے ہی سمج سکتے ہیں۔[24] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابو الفتوح رازی کے مطابق محکم آیات کی شرح "تفسیر" اور متشابہ آیات کی تشریح اور ان کے مختلف احتمالات کے بیان کو "تأویل" کہلاتی ہے۔[25] نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت شافعی مذہب کے عالم دین سیوطی (متوفی: 911ھ) اپنی کتاب الاتقان میں نقل کرتے ہیں کہ بعض مفسرین نے احادیث کے ذریعے آیات کی تفہیم کو تفسیر جبکہ عقل اور غور و فکر کے ذریعے آیات کی تفہیم کو تأویل کا نام دیا ہے۔[26]
تأویل کے اقسام
محققین نے تأویل کو صحیح اور غلط تأویل میں تقسیم کیا ہے۔[27] غلط تأویل وہ ہے جو کسی معتبر دلیل بغیر ہو[28] یا لفظ میں اس معنی کو تحمل کرنے کی ظرفیت اور وسعت موجود نہ ہو۔[29] اس کے مقابلے میں صحیح تأویل وہ ہے جس کے پشت پر کسی معتبر دلیل کا سہارا موجود ہو، صحیح تأویل خود دو قسموں میں تقسم ہوتی ہے:[30]
- تأویل قریب: ایسی تأویل جو مخاطب کے ذہن کے قریب ہو اور کسی معمولی دلیل کے ذریعے بھی قابل قبول ہو،[31] جیسے "واسئل القریۃ" کو "واسئل اہل القریۃ" کی طرف تأویل کرنا۔[32]
- تأویل بعید: ایسی تأویل جسے قبول کرنے کے لیے قوی اور محکم دلیل کی ضرورت ہو اور جو آسانی سے ذہن نشین نہ ہو۔[33] کہا جاتا ہے کہ حنفیوں کی طرف سے کفارہ قسم کی تأویل اس قسم کی تأویل میں سے ہے جس میں حنفی فقہا نے سورہ مائدہ آیت نمبر 89 میں کفارہ قسم کی یوں تأویل کی ہے کہ ایک دن میں دس فقیروں کو کھانا کھلانے کے بجائے ایک فقیر کو دس دن کھانا کھلایا جا سکتا ہے، کیونکہ مقصد حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے نہ یہ کہ ایک معین وقت میں مشخص تعداد کو پوری کرنا ضروری ہو، چاہے ایک دن میں دس فقیروں کو کھانا کھایا جائے یا ایک ہی فقیر کو دس دن کھانا کھلایا جائے۔[34]
تأویل کا معیار
مسلمان علما نے صحیح تأویل کے لیے کچھ معیار اور اصول بیان کیے ہیں:
1. دین کے ظاہری تعلیمات کے خلاف نہ ہو: شیعہ فقیہ اور مفسر آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق تأویل صرف اس وقت معتبر ہے جب وہ احادیث کی تائید یا قرآنی شواہد یا عقلی نکات کے ساتھ پر ہو اور دین کے ظاہری اصولوں اور دلائل کے خلاف نہ ہو، بصورت دیگر اس تأویل کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔[35]
2. عقل کے خلاف نہ ہو: شیخ طوسی کے مطابق تأویل معتبر عقلی اور شرعی دلائل پر مبنی ہو اور اجماع یا نقل متواتر سے ثابت ہو، محض خبر واحد اس کے لیے کافی نہیں۔[36] اسی طرح تأویل کو قرآن و احادیث کے ساتھ سازگار ہونا بھی ضروری ہے۔[37]
3. قرآن کی دیگر آیات کے خلاف نہ ہو: قرآنی محقق محمدکاظم شاکر کے مطابق صحیح تأویل وہ ہے جو ایک طرف قرآنی مستندات پر مشتمل ہو اور دوسری طرف قرآن کی دیگر آیات سے متعارض بھی نہ ہو۔ اس سلسلے میں جہاں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث کے ساتھ ساتھ قرآن کی قرآن سے تفسیر کے اصول اور قوانین کی رعایت بھی کی گئی ہو۔[38]
4. تفسیر سے متصادم نہ ہو: صدر الدین شیرازی (متوفی: 1050ھ) کے مطابق تأویل، معتبر اور متعارف تفسیر کے ساتھ سازگار ہو، ورنہ ناقابلِ قبول ہے۔[39]
نظریات
قرآن کی تأویل کی حقیقت کے بارے میں مسلمان علما کے درمیان مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- تفسیر اور کلام کے معانی کا بیان: کہا گیا ہے کہ متقدم مفسرین کے یہاں تأویل تفسیر کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق قرآن کی تمام آیات میں تأویل پائی جاتی ہے۔[40] مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے مطابق تفسیر طبری کے مصنف محمد بن حریر طبری نے اپنی تفسیر میں بارہا "تفسیر" کے بجائے "تأویل" استعمال کیا۔[41] لیکن آٹھویں اور نویں صدی ہجری کے اہل سنت سیرت نگار شمس الدین ذہبی مختلف نظریات کو نقل کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ دو الفاظ یا عام و خاص ہیں[42] یا ایک دوسرے کے مخالف۔[43]
- اشارہ اور علامتی انداز میں معانی کا بیان: بعض عرفا،[44] صوفیہ[45] اور باطنیہ[46] آیات کے پسِ پردہ علامتی معانی کے قائل ہیں جو عام قواعد کے ذریعے سمجھ میں نہیں آتے، ان کے مطابق ان معانی کے انکشاف اور دریافت کو تأویل کہتے ہیں۔[47]

- الفاظ اور ظاہری معانی سے ماورا حقیقت: علامہ طباطبائی کے مطابق قرآن کی تأویل ایک عینی حقیقت ہے جس پر قرآن کے تمام بیانات (حکم، موعظہ، حکمت) قائم ہیں، اور یہ قرآن کی تمام آیات چاہے محکم ہوں یا متشابہ میں موجود ہیں۔ یہ محض لفظی مفہوم نہیں ہے جس پر الفاظ دلالت کرتی ہیں بلکہ ایک حقیقی اور عینی امر ہے جو الفاظ کے دائرے سے باہر ہیں جنیں اللہ نے انسانی ذہن کے قریب لانے کے لیے الفاظ کے ڈھانچے میں محدود کیا ہے۔[48] علامہ طباطبائی قرآن میں حضرت خضر و حضرت موسیٰ اور حضرت یوسف کی داستانوں میں "تأویل" کے استعمال کو اس امر کی دلیل قرار دیتے ہیں۔[49]
مونوگرافی
کتاب روشہای تأویل قرآن؛ محمد کاظم شاکر کی تصنیف ہے، جو تأویلِ قرآن کے معانی اور طریقے کو دینی معرفت کے تین پہلوؤں میں مورد بحث و بررسی قرار دی گئی ہے۔ یہ تین پہلو اسلامی متون (آیات و روایات)، باطنی مکاتب اور فقہ و اصول ہیں۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا ایڈیشن 1376ہجری شمسی میں مؤسسۂ بوستان کتاب سے شائع ہوا۔
حوالہ جات
- ↑ ابنفارس، معجم مقاییس اللغۃ، 1404ھ، ذیل مادہ «أول»۔
- ↑ الزُّرقانی، مناہل العرفان، 1943م، ج2، ص4؛ محمدی ریشہری، شناختنامہ قرآن، 1391ش، ج4، ص43؛ مؤدب، مبانی تفسیر قرآن، 1390ش، ص34-33۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص53-42۔
- ↑ حکیم، علوم القرآن، 1417ھ، ص230۔
- ↑ ابناثیر، النہایۃ، 1399ھ، ذیل مادہ «أول»۔
- ↑ آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج1، ص293۔
- ↑ آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج1، ص294۔
- ↑ آملی، تفسیر المحیط الأعظم، 1428ھ، ج1، ص303-294؛ امام خمینی، شرح دعای سحر، 1391ش، ص60؛ معرفت، علوم قرآنی، 1381ش، ص274؛ جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج13، ص160؛ سبحانی، تفسیر صحیح آیات مشکلہ قرآن، 1391ش، ص298-295۔
- ↑ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، 1413ھ، ج1، ص11۔
- ↑ صدر، بحوث فی علم الاصول، 1417ھ، ج9، ص355-350۔
- ↑ سورہ آلعمران، آیہ 7؛ سورہ أعراف، آیہ 53؛ سورہ یونس، آیہ 39۔
- ↑ معرفت، دانشنامہ علوم قرآن، 1402ش، ج4، ص117۔
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج1، ص25-24۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص15-13؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج1، ص30-26؛ عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ھ، ج1، ص17-14۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ۔ ج2، ص698-699۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1363ش، ج3، ص261۔
- ↑ عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ھ، ج2، ص56۔
- ↑ معرفت، دانشنامہ علوم قرآن، 1402ش، ج4، ص117۔
- ↑ شاکر، روشہای تأویل قرآن، 1388ش، ص63۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص41۔
- ↑ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، 1413ھ، ج2، ص399؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1425ھ، ج3، ص164۔
- ↑ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم ، 1385ش، ج1، ص192-190۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص46۔
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج1، ص23۔
- ↑ ابوالفتح رازی، روض الجنان، 1376ش، ج4، ص179۔
- ↑ سیوطی، الإتقان فی علوم القرآن، 1394ھ، ج4، ص192۔
- ↑ شوکانی، ارشاد الفحول، 1424ھ، ج2، ص35؛ شنقیطی، مذکرۃ فی اصول الفقہ، 2001م، ص212؛ ہیتو، الوجیز فی اصول التشریع الاسلامی، 1421ھ، ص231۔
- ↑ شاکر، روشہای تأویل قرآن، 1388ش، ص295۔
- ↑ شوکانی، ارشاد الفحول، 1424ھ، ج2، ص35۔
- ↑ شوکانی، ارشاد الفحول، 1424ھ، ج2، ص35۔
- ↑ شوکانی، ارشاد الفحول، 1424ھ، ج2، ص35۔
- ↑ شاکر، روشہای تأویل قرآن، 1388ش، ص291۔
- ↑ ہیتو، الوجیز فی اصول التشریع الاسلامی، 1421ھ، ص231۔
- ↑ درینی، المناہج الاصولیۃ، 1434ھ، ص184۔
- ↑ جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج13، ص176۔
- ↑ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، 1413ھ، ج1، ص7-6۔
- ↑ صدرالدین شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ش، ج2، ص157۔
- ↑ شاکر، روشہای تأویل قرآن، 1388ش، ص69-67۔
- ↑ صدرالدین شیرازی، سہ رسالہ فلسفی، 1378ش، ص282۔
- ↑ علامہ طباطبایی، القرآن فی الإسلام، سازمان تبلیغات اسلامی، 56-54.؛ ابنتیمیہ، الکلیل فی المتشابہ و التأویل، دار الایمان، ص23؛ الزُّرقانی، مناہل العرفان، 1943م، ج2، ص5۔
- ↑ ابنتیمیہ، الکلیل فی المتشابہ و التأویل، دار الایمان، ص28۔
- ↑ طوفی، الاکسیر فی علم التفسیر، 2002م، ص11؛ حاجیخلیفہ، کشف الظنون، 1941م، ج1، ص334۔
- ↑ ذہبی، التفسیر و المفسرون، مکتبۃ وہبۃ، ج1، ص17۔
- ↑ الزُّرقانی، مناہل العرفان، 1943م، ج2، ص86۔
- ↑ تستری، تفسیر القرآن العظیم، دار الکتب العربیۃ، ص1127۔
- ↑ غزالی، فضائح الباطنیۃ، 1422ھ، ص25-21۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص10-7؛ ناصرخسرو، وجہ دین، 1384ش، ص180-178۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص49۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص49-44۔
مآخذ
- آملی، سید حیدر بن علی، تفسیر المحیط الأعظم والبحر الخضم فی تأویل کتاب اللہ العزیز المحکم، تحقیق محسن موسوی تبریزی، قم، نشر نور علی نور، 1428ھ۔
- ابوالفتح رازی، حسین بن علی، روض الجنان وروح الجنان فی تفسیر القرآن، تصحیح محمدمہدی ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
- ابناثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر، تحقیق طاہر احمد الزاوی و محمود محمد الطناحی، بیروت، المکتبۃ العلمیۃ، 1399ھ۔
- ابنتیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، الاکلیل فی المتشابہ والتأویل، اسکندریہ، دار الایمان، بیتا۔
- ابنفارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1404ھ۔
- الزُّرقانی، محمد عبدالعظیم، مناہل العرفان فی علوم القرآن، قاہرہ، مطبعۃ عیسی البابی الحلبی وشرکاہ، چاپ سوم، 1943ء۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، شرح دعای سحر، ترجمہ احمد فہری زنجانی، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ سوم، 1391ہجری شمسی۔
- تستری، سہل بن عبداللہ، تفسیر القرآن العظیم، قاہرہ، دار الکتب العربیۃ، بیتا۔
- جلیند، محمد سید، الامام ابن تیمیۃ و قضیۃ التأویل: دراسۃ لمنہج ابن تیمیۃ فی الالہیات وموقفہ من المتکلمین والفلاسفۃ والصوفیۃ، قاہرہ، دار قباء، 2000ء۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، نشر اسراء، 1389ہجری شمسی۔
- حاجیخلیفہ، مصطفی بن عبداللہ، کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، بغداد، مکتبۃ المثنی، 1941ء۔
- حکیم، سید محمدباقر، علوم القرآن، قم، مؤسسۃ الہادی(ع)، 1417ھ۔
- درینی، فتحی، المناہج الأصولیۃ فی الاجتہاد بالرای فی التشریع الاسلامی، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1434ھ۔
- ذہبی، محمدحسین، التفسیر والمفسرون، قاہرہ، مکتبۃ وہبۃ، بیتا۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، تفسیر صحیح آیات مشکلہ قرآن، تقریر سید ہادی خسروشاہی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1391ہجری شمسی۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1394ھ۔
- شاکر، محمدکاظم، روشہای تأویل قرآن، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، 1388ہجری شمسی۔
- شنقیطی، محمدامین، مذکرۃ فی اصول الفقہ، مدینہ، مکتبۃ العلوم و الحکم، چاپ پنجم، 2001ء۔
- شوکانی، محمد، ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول، بیروت، دار الکتب العربی، 1424ھ۔
- شیخ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی و دیگران، بیروت، دار المعرفۃ، 1408ھ۔
- صدر، سید محمدباقر، بحوث فی علم الاصول، بیروت، الدار الاسلامیۃ، 1417ھ۔
- صدرالدین شیرازی، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، تصحیح محمد خواجوی، قم، نشر بیدار، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
- صدرالدین شیرازی، محمد بن ابراہیم، سہ رسالہ فلسفی: متشابہات القرآن، المسائل القدسیۃ، أجوبۃ المسائل، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1387ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ، 1412ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ اول، 1413ھ۔
- طوفی، سلیمان بن عبدالقوی، الإکسیر فی علم التفسیر، قاہرہ، مکتبۃ الاداب، 2002ء۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، القرآن فی الإسلام، قم، سازمان تبلیغات اسلامی، بیتا۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، چاپخانہ علمیہ، 1380ھ۔
- غزالی، محمد بن محمد، فضائح الباطنیۃ، تحقیق محمدعلی قطب، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1422ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، نشر دار الفکر، چاپ اول، 1425ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی جزائری، قم، نشر دار الکتاب، 1404ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
- مؤدب، سید رضا، مبانی تفسیر قرآن، قم، دانشگاہ قم، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
- محمدی ریشہری، محمد، و جمعی از پژوہشگران، شناختنامہ قرآن بر پایہ قرآن و حدیث، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1391ہجری شمسی۔
- مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، نشر آثار علامہ مصطفوی، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، تفسیر و مفسران، قم، مؤسسہ فرہنگی التمہید، 1379ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، دانشنامہ علوم قرآن، جلد 4: تفسیر؛ مبانی و منطق فہم، قم، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ دوم، 1402ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، علوم قرآنی، قم، مؤسسہ فرہنگی التمہید، 1381ہجری شمسی۔
- ناصرخسرو، وجہ دین، تہران، نشر اساطیر، 1384ہجری شمسی۔
- ہیتو، محمدحسن، الوجیز فی اصول التشریع الاسلامی، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1421ھ۔