لوح محو و اثبات
لوحِ مَحْو و اِثْبات، اس لوح کو کہا جاتا هے جس میں کائنات کے تمام واقعات درج ہوتے ہیں لیکن اس میں تبدیلی کا امکان پایا جاتا ہے۔ مفسرین سورہ رعد کی آیت نمبر 39 سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کے تمام واقعات لوح مَحْفوظ میں یقینی طور پر اور لوح محو و اثبات میں موقتی طور پر درج ہوتے ہیں۔ لوح محو و اثبات علم الہی کا ایک مرتبہ ہے جس کی حقیقت ہمارے لئے واضح نہیں، لیکن انبیاء اور ائمہ معصومینؑ اس سے آگاہ ہیں۔ بعض فلاسفر لوح محو و اثبات کو نفس حیوانی یا عالم نفسی پر تطبیق کرتے ہیں۔
لوح محو و اثبات میں آنے والی تبدیلی علم الہی میں پہلے سے موجود ہوتی ہے؛ اس بنا پر لوح محو و اثبات میں آنے والی تبدیلی علم الہی میں تبدلی کا موجب نہی بتنی۔ اس سلسلے میں احادیث میں جو مطالب نقل ہوئے ہیں ان کے مطابق انسان کے بعض اعمال جیسے صدقہ، صِلہ رَحِمی اور دعا وغیرہ کی وجہ سے لوح محو و اثبات میں تبدیلی آتی ہے۔ محققین کے مطابق لوح محو و اثبات اور اس میں آنے والی تبدیلی میں کچھ فوائد پائے جاتے ہیں منجملہ ان میں تقدیر میں تبدیلی لانے یا مؤمنین کے لئے ایک سخت امتحان کے لئے تیاری کرنے کا موقع فراہم ہونا ہے۔
اسلامی تعلمیات میں اس کی اہمیت
لوح محو و اثبات کو علم الہی کے مراتب میں سے ایک مرتبہ قرار دیا جاتا ہے۔[1] تفسیری منابع میں آیت «يَمْحُو اللَّہُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَہُ أُمُّ الْكِتَاب»[2] سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کے واقعات اور حوادث دو لوح میں جداگانہ طور پر درج ہوتے ہیں جن میں سے ایک لوح مَحْفوظ اور دوسری لوح محو و اثبات ہے۔[3]لوح محو و اثبات میں درج شدہ واقعات میں تبدیلی کی گنجائش ہوتی ہے لیکن لوح محفوظ میں موجود واقعات میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی؛ کیونکہ لوح محو و اثبات میں درج شدہ واقعات علت ناقصہ(غیر یقینی علت) جبکہ لوح محفوظ میں درج شدہ واقعات علت تامہ (یقینی علت) کی طرح ہوتے ہیں۔[4]
کتاب بِحارُالاَنوار کے مصنف علامہ مجلسی لوح محو و اثبات کو آیات و روایات سے مأخوذ ایک اصطلاح قرار دیتے ہیں۔[5] جبکہ ان کے مقابلے میں بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ لوح محو و اثبات کی اصطلاح کے لئے کوئی قرآنی اور حدیثی تائیدیہ موجود نہیں ہے، بلکہ اس اصطلاح کا پہلا موجود خود علامہ مجلسی ہی ہیں۔[6]اس نظریے کے مطابق خداوندعالم نے لوح محو و اثبات کے نام سے کوئی الگ لوح قرار نہیں دیا بلکہ محو و اثبات اسی لوح محفوظ (امّ الکتاب) میں ہی موجود ہوتی ہے۔[7]
لوح محو و اثبات کو خدا کی قدرتِ مُطلقہ کا مَظہر قرار دیا جاتا ہے۔[8] بعض متکلمین اس بات کے معتقد ہیں کہ فرشتے، انبیاء اور ائمہ معصومینؑ صرف لوح محو و اثبات جو کہ قابل تغییر ہے کے ذریعے آئندہ کے واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں، لیکن ان ہستیوں کو لوح محفوظ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہوتی ہے۔[9]محققین کے مطابق لوح محو و اثبات کی حقیقت ہمارے لئے واضح نہیں ہے اس بنا پر اسے عام کاغذ اور کتابوں کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔[10] تفسیر الصافی کے مصنف محمد محسن فیض کاشانی لوح محفوظ اور لوح محو و اثبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مرتبہ اجمالی طور پر لوح قَضا میں اور دوسری مرتبہ تفصلی طور پر لوح قَدَر میں درج ہوتے ہیں کہ پہلی لوح کو لوح محفوظ جبکہ دوسری لوح کو لوح محو و اثبات کہا جاتا ہے۔[11]
لوح محو و اثبات میں تبدیلی کا علم خدا کے ساتھ منافات نہ ہونا
مسلمان محققین لوح محو و اثبات میں آنے والی تبدیلی کو علم الہی میں تبدیلی کا موجب قرار نہیں دیتے۔[12] بعض محققین لوح محو و اثبات میں آنے والی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ممکن ہے اس تبدیلی کو کائنات میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں خدا کو یقینی طور پر علم نہ ہونے سے تعبیر کیا جائے۔[13] اس اعتراض کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ لوح محو و اثبات میں جو تبدیلی آتی ہے وہ خدا کے علم میں پہلے سے ہی موجود تھی[14] اور خدا ان تبدیلوں کو صرف ان امور میں آشکار کرتا ہے جن میں خدا نے یقینی صورتحال کو پہلے بیان نہ کیا ہو۔[15]
بعض محققین کے مطابق علم کلام میں بداء (لوگوں کے توقع کے برخلاف خدا کی طرف سے کسی چیز کا آشکار ہونا) کے مسئلے میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ ایک سطحی اختلاف ہے؛ کیونکہ اہل سنت خود بھی شیعوں کی طرح لوح محو و اثبات کو قبول کرتے ہیں، جبکہ بداء پر عقیدہ رکھنا وہی لوح محو و اثبات پر عقیدہ رکھنا ہی ہے اور بداء شیعہ عقائد میں سے ایک ہے جو صرف لوح محو و اثبات میں واقع ہوتا ہے۔[16]
فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے
فلسفیانہ مکتب حِکْمَت مُتَعالِیہ کے بانی مُلّاصَدْرا انسان کامل کو اس کے نفس ناطقہ کے اعتبار سے لوح محفوظ جبکہ نفس حیوانی (قوہ خیال) کے اعتبار سے لوح محو و اثبات قرار دیتے ہیں۔[17] محمد محسن فیض کاشانی جو کہ ملاصدرا کے شاگردوں میں سے ایک ہے، بھی لوح محفوظ کو عالم عقل اور لوح محو و اثبات کو عالم نفس پر تطبیق کرتے ہیں۔[18] ملا صدرا مُحیِی الدین بن عربی کی متابعت کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ لوح محو و اثبات شریعتوں اور آسمانی کتابوں کا سرچشمہ ہے اسی بنا پر شریعتیں اور ان کے احکام نسخ ہوتے ہیں۔[19] ان تمام باتوں کے باوجود بعض محققین مفاہیم عقلی کو لوح محو و اثبات پر تطبیق کرنے کو صحیح نہیں مانتے ہیں۔[20]
لوح محو و اثبات میں تبدیلی لانے والے عوامل
ہر مثبت یا منفی عمل لوح محو و اثبات میں تبدیلی کا عامل بن سکتا ہے۔[21] قرآن اور احادیث میں بعض اعمال کی طرف اشارہ ہوا ہے جو لوح محو و اثبات میں تبدیلی لانے میں سب سے زیادہ مؤثر واقع ہوتے ہیں ان میں دعا، صدقہ اور صِلہ رَحِمی کی تأکید ہوئی ہے۔[22]بعض احادیث کے مطابق دعا محکم شدہ واقعات کو بھی تبدیل کر سکتی ہے۔[23]اسی طرح احادیث میں ناگہانی موت کو ٹالنے، عمر میں اضافے اور فقر و تنگدستی کے خاتمے میں صدقہ کے کردار کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔[24]پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں صلہ رحمی کو رزق و و روزی اور عمر میں اضافہ کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[25]
لوح محو و اثبات کا فائدہ
بعض محققین لوح محو و اثبات (بداء) کے فوائد کو یوں ذکر کرتے ہیں:
- مؤمنین کے دلوں میں خوف و امید پیدا ہونا؛[26]
- انبیاء اور معصومینؑ کی زبانی مؤمنین کا اچھے اور برے اعمال کے اثرات سے واقفیت؛[27]
- خالق اور مخلوق کے علم میں فرق کا آشکار ہونا؛[28]
- مؤمنین کے لئے سخت امتحان اور آزمائش کا سامان فراہم ہونا اور اس کے مقابلے میں عظیم اجر و ثواب سے بہرہ مند ہونا؛[29]
- تقدیر کو تبدیل کرنے میں انسان کی کوشش۔[30]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مصباح یزدی، خداشناسی، 1396ہجری شمسی، ص485۔
- ↑ سورہ رعد، آیہ39۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج7، ص9؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج10، ص241۔
- ↑ طباطبایی، المیران، 1417ھ، ج7، ص9؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج10، ص241-242۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص132۔
- ↑ وطندوست، و دیگران، «بررسی و بازخوانی نظریہ لوح محو و اثبات»، ص137۔
- ↑ وطندوست، و دیگران، «بررسی و بازخوانی نظریہ لوح محو و اثبات»، ص143۔
- ↑ یعقوبی، «بحثی دربارہ لوح محفوظ و لوح محو و اثبات»، ص89۔
- ↑ معرفت، التفسیر و المفسرون، 1425ھ، ج1، ص513؛ برنجکار، «بداء»، ص39۔
- ↑ یعقوبی، «بحثی دربارہ لوح محفوظ و لوح محو و اثبات»، ص92۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص105۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص381؛ خویی، البیان، مؤسسۃ احیاء آثار الاِمام الخوئی(رہ)، ص390۔
- ↑ خویی، البیان، مؤسسۃ احیاء آثار الاِمام الخوئی(رہ)، ص390۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص381۔
- ↑ خویی، البیان، مؤسسۃ احیاء آثار الاِمام الخوئی(رہ)، ص387-389۔
- ↑ حسینیزادہ، «بداء یا محو و اثبات از منظر قرآن و حدیث»، ص138۔
- ↑ ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیہ، 1981م، ج6، ص296۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص75۔
- ↑ ملا صدرا، الحکمۃ المتعالیہ، 1981م، ج7، ص47-50۔
- ↑ یعقوبی، «بحثی دربارہ لوح محفوظ و لوح محو و اثبات»، ص92۔
- ↑ برنجکار، «بداء»، ص41۔
- ↑ برنجکار، «بداء»، ص41۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص469-470۔
- ↑ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص66۔
- ↑ ابنحیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج2، ص331۔
- ↑ حسینیزادہ، «بداء یا محو و اثبات از منظر قرآن و حدیث»، ص138۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص132۔
- ↑ حسینیزادہ، «بداء یا محو و اثبات از منظر قرآن و حدیث»، ص138۔
- ↑ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج2، ص132۔
- ↑ حسینیزادہ، «بداء یا محو و اثبات از منظر قرآن و حدیث»، ص138۔
مآخذ
- ابنحیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسہ آلالبیت(ع)، 1385ھ۔
- برنجکار، رضا، «بداء»، در مجلہ ماہنامہ موعود، شمارہ 96، بہمن 1387ہجری شمسی۔
- حسینیزادہ، سید عبدالرسول، «بداء یا محو و اثبات از منظر قرآن و حدیث»، در مجلہ معرفت، شمارہ 173، اردیبہشت 1391ہجری شمسی۔
- خویی، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ احیاء آثار الاِمام الخوئی(رہ)، بیتا۔
- شیخ صدوھ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
- فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تہران، ناصرخسرو، 1415ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول(ص)، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1404ھ۔
- مصباح یزدی، محمدتقی، خداشناسی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1396ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہا القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، 1425ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، الحکمۃ المتعالیۃ فی الأسفار العقلیۃ الأربعہ، تعلیقہ: محمدحسین طباطبایی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1981ء۔
- وطندوست، محمدعلی، و دیگران، «بررسی و بازخوانی نظریہ لوح محو و اثبات»، در مجلہ فلسفہ و کلام، شمارہ 100، بہار و تابستان 1397ہجری شمسی۔
- یعقوبی، «بحثی دربارہ لوح محفوظ و لوح محو و اثبات»، در مجلہ کلام اسلامی، شمارہ 34، تابستان 1379ہجری شمسی۔