مندرجات کا رخ کریں

مذہبی اقلیتوں کے حقوق

ویکی شیعہ سے

مذہبی اقلیتوں کے حقوق، ان حقوق اور آزادیوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو ایک اسلامی معاشرے میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے لیے فراہم کیے جانے چاہئیں۔ ان میں عقیدے کی آزادی اور شہری حقوق شامل ہیں۔ مؤرخین کے مطابق اسلام نے ابتدا سے ہی اقلیتوں کے حقوق کو "عہدِ ذمّی" کے تحت تسلیم کیا ہے۔ شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت، جزیہ کے بدلے جو وہ اقلیتوں سے "عہدِ ذمّی" کے تحت وصول کرتی ہے، ان کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہے، انہیں جنگ میں شرکت سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے اور ان کے عقیدے کی آزادی، عبادات کی ادائیگی، شہری حقوق اور معاشی حقوق کو تسلیم کرتی ہے۔

تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ عملی طور پر بھی اسلامی حکومتیں مجموعی طور پر ان حقوق کی پابند رہی ہیں، اگرچہ بعض مواقع پر اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے نمونے بھی مختلف اسلامی حکومتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تیرہویں صدی شمسی سے اسلامی ممالک میں تدریجاً جزیہ کا خاتمہ ہوا اور ان ممالک کے قوانین میں مذہبی اقلیتوں کے لئے مزید حقوق دیے گئے؛ لیکن اس کے باوجود اسلامی حکومتی پر کلیدی عہدوں پر اقلیتوں کو فائز ہونے کی ممانعت جیسے بعض اعتراضات اب بھی باقی ہیں۔ چودہویں صدی کے بعض فقہاء اور روشن فکر مفکرین کا خیال ہے کہ اسلامی قوانین کو برقرار رکھتے ہوئے بھی انسانی کرامت اور وقار کی بنیاد پر اقلیتوں کے حقوق کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا مطلب

پیغمبر اکرمؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ میثاق

جان، مال، سرزمین اور عقائد ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہیں گے... ان کے خاندان، عبادت گاہیں اور املاک محفوظ ہوں گی۔ کوئی بھی پادری یا راہب کلیسا سے بےدخل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی پادری کو اس کے روحانی منصب سے برطرف کیا جائے گا، اور ان پر کسی قسم کی زبردستی یا توہین نہیں کی جائے گی۔[1]

مذہبی اقلیتوں کے حقوق، ان حقوق اور آزادیوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو ایک اسلامی معاشرے میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے لیے فراہم کیے جانے چاہئیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کی دفعہ 18 کے مطابق دینی اقلیتوں کو عقیدے کی آزادی، عبادات کی آزادی اور شہری حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ اگرچہ ان حقوق پر بعض قیود اور شرائط عائد کی جا سکتی ہے، لیکن کسی فرد کو محض اس بنیاد پر ان حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا مذہب سرکاری مذہب سے مختلف ہے۔ [2]

اسلامی مفکرین کے مطابق جو شخص آزادانہ طور پر حضرت محمدؐ کی نبوت پر ایمان لاتا ہے، وہ اس کی نسل، قومیت یا جنس سے قطع نظر، اسلامی معاشرے کا رکن شمار ہوگا۔[3] فقہاء انسانی کرامت، سماجی عدالت اور نفی سبیل جیسے اصول و قواعد کے تحت ان غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بھی بعض حقوق تسلیم کرتے ہیں جو اسلامی معاشرے کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے ساتھ رہتے، جو انہیں "عہدِ ذمّی" معاہدے کے تحت دیے جاتے ہیں۔[4]

اہل ذمہ کے معاہدے میں اقلیتوں کے حقوق

فارس اور بحرین کے گورنروں کے نام امام علیؑ کا خط

تمہارے شہر کے زعما اور عمائدین پر مشتمل ایک گروہ تمہاری سخت‌ گیری، بے رحمی، تحقیر اور بدسلوکی کی شکایت لے کر آیا تھا۔ میں نے ان کے بارے میں غور و فکر کیا تو نہ ان کو قربت کے لائق پایا، کیونکہ وہ مشرک ہیں، اور نہ ہی انہیں دور رکھنے اور بدسلوکی کے قابل سمجھا، کیونکہ ہم نے ان کے ساتھ عہدِ ذمّی باندھا ہے۔ پس، تم ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، جس میں کچھ سختی بھی شامل ہو، اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اپناؤ جو سختی اور نرمی کے درمیان ہو۔[5]

فقہی اصولوں کی بنیاد پر، اسلامی حکومت غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ "ذمہ" کا معاہدہ کرتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت، حکومت اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ اپنے زیرِ قلمرو غیر مسلم باشندوں (جنہیں "ذمی" کہا جاتا ہے) کی حفاظت کرے، بشرطیکہ وہ ایک مخصوص مالیہ، جسے جزیہ کہا جاتا ہے، ادا کریں۔[6] اکثر شیعہ فقہا "ذمی" کی تعریف کو اہلِ کتاب (یہودیوں، عیسائیوں اور زرتشتیوں) تک محدود سمجھتے ہیں۔[7] جزیہ کی ادائیگی صرف بالغ، آزاد مردوں پر واجب ہے، جبکہ خواتین اور بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔[8] تاہم، بعض محققین کا ماننا ہے کہ اسلامی حکومتوں نے تاریخی طور پر اس معاہدے کو صرف اہلِ کتاب تک محدود نہیں رکھا۔[9] نیز، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدرِ اسلام میں مشرکین کے ساتھ بھی عہد ذمہ باندھا جاتا تھا۔[10]

کیا جزیہ اقلیتوں کے فطری حقوق کی خلاف ورزی ہے؟

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ جزیہ لینا دینی اقلیتوں کی انسانی کرامت اور وقار کے منافی ہے۔ لیکن اکثر مسلم فقہاء اور مفکرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔[11] شیعہ مفکر اور مصنف شہید مطہری کے بقول، جزیہ در اصل ٹیکس کی طرح ایک مالی معاہدہ ہے، جو معاشرے کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے۔ مزید برآں، غیر مسلموں کے لئے جزیہ دینے کے بعد مسلمانوں کے برخلاف عسکری خدمات انجام دینے کی ضرروت نہیں ہوتی، اور اگر وہ اسلامی فوج میں دفاعی خدمات انجام دیں، تو انہیں جزیہ سے مستثنیٰ قرار دئے جاتے ہیں۔[12] اسی طرح احادیث میں غیر مسلم عورتوں اور بچوں کو جزیہ دینے سے مستثنی قرار دینے کو اس بات کی دلیل سمجھا گیا ہے کہ یہ ٹیکس انصاف پر مبنی ہے۔[13]

شیعہ فقہ میں غیر مسلموں کے حقوق

شیعہ فقہاء نے غیر مسلموں کے لیے جو حقوق متعین کیے ہیں، انہیں بطور خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

بنیادی حقوق

عہدِ ذمّہ کے تحت، اسلامی حکومت اقلیتوں کے حقِ حیات کو تسلیم کرتی ہے اور اسلامی حکومت مسلمان شہریوں کی طرح ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔[14] فقہی احکام کے مطابق اگر حکومت اسلامی ان حقوق کی ضمانت نہ دے سکے تو اسے ذمّیوں سے لیا گیا جزیہ واپس کرنا ہوگا۔[15]

عدالتی حقوق

شیعہ فقہ میں غیر مسلموں کو منصفانہ عدالتی کاروائی کا حق حاصل ہے۔[16] فقہاء کے مطابق اقلیتوں کے باہمی تنازعات کو ان کی اپنی مذہبی عدالتوں میں نمٹائے جا سکتے ہیں،[17] اور صرف اس وقت اسلامی عدالت میں لایا جاتا ہے جب فریقین میں سے ایک مسلمان ہو۔[18] اسی طرح اگر کسی ذمّی شہری سے غیر ارادی طور پر کسی مسلمان کا قتل ہو جائے اور وہ دِیَت ادا کرنے سے قاصر ہو، تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ وہ بیت المال سے دیہ ادا کرے۔[19]

عقیدے کی آزادی

شیعہ فقہاء کے مطابق کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔[20] اگر کوئی کافرِ حربی محض اسلام کو سمجھنے کے لیے اسلامی سرزمین میں داخل ہو اور قبول اسلام پر قانع نہ ہو، تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اسے واپس اس کے ملک بھیج دیں۔[21]

رسومات کی آزادی

شیعہ فقہی اصولوں کے مطابق غیر مسلموں کو اپنے مذہبی رسومات فردی اور اجتماعی طور پر ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ جو عبادت گاہیں عہدِ ذمّہ سے قبل موجود ہوں، انہیں تحفظ حاصل ہوگا۔ نئے عبادت گاہوں کی تعمیر کا معاملہ عہدِ ذمّہ کے معاہدے پر منحصر ہے۔ تاہم، بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ نئے عبادت گاہوں کی تعمیر جائز نہیں ہے۔[22]

شہری حقوق

شیعہ فقہاء کے مطابق غیر مسلموں کو اپنی رہائش گاہ انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہے۔[23] اسی طرح وہ کسی بھی ایسے پیشے میں کام کر سکتے ہیں جو اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہو۔[24]

اقتصادی حقوق

شیعہ فقہ غیر مسلموں کے حق ملکیت اور آزادانہ تجارت کو تسلیم کرتا ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر کسی قانونی جواز کے ان کے مال اور کاروبار میں دخل اندازی کرے۔[25] اگر کوئی مسلمان، غیر مسلموں کے ایسے اموال پر حملہ کرے جو مسلمانوں کے لئے حرام ہیں، لیکن ان کے لیے حلال سمجھے جاتے ہیں (مثلاً شراب یا خنزیر)، تو مسلمان کو ان کی مالی نقصان کی تلافی کرنی ہوگی۔[26] اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی چیز کو غیر مسلموں کے فائدے کے لیے وقف کریں، تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس موقوفہ کی حفاظت کرے۔[27]

اہلِ سنت فقہ میں غیر مسلموں کے حقوق

اہلِ سنت محققین کے مطابق سنی فقہاء بھی قانونِ ذمّہ کے تحت غیر مسلموں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔[28] اہلِ سنت اور شیعہ فقہ میں اہم فرق یہ ہے کہ بعض سنی فقہاء تمام غیر مسلموں کو، بشمول مشرکین، عہدِ ذمّہ کے اہل سمجھتے ہیں۔[29] مثال کے طور پر، ہندوستان کے سنی فقہاء نے عہدِ ذمّہ کے تصور کو ہندو مذاہب تک توسیع دی ہے۔[30]

کیا اسلامی حکومتوں نے اقلیتوں کے حقوق کا احترام کیا ہے؟

"رسالۃ الحقوق" میں امام سجادؑ کی زبانی
اہلِ ذمّہ کے حقوق

"اور اہلِ ذمّہ کا حق یہ ہے کہ تم ان سے وہی کچھ قبول کرو جو خدا نے ان کے لیے قبول کیا ہے، اور ان سے کیے گئے عہد و پیمان کی پاسداری کرو، کیونکہ یہ خدا کا طے شدہ عہد ہے۔ انہیں مجبور نہ کرو اور ان پر کوئی ظلم نہ کرو، کیونکہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں اور اللہ و رسول کے وعدے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔"[31]

اقلیتوں کے ساتھ تعامل کی تاریخ میں محققین غیر اسلامی حکومتوں کے مقابلے میں،[32] اسلامی حکومتوں کے روئے کو مثبت قرار دیتے ہیں۔[33] تاریخی حوالوں کے مطابق وہ مسلمان حکمران جو عہدِ ذمّہ کے شرعی معاہدے پر کاربند رہے، انہوں نے غیر مسلموں کو قابلِ ذکر حقوق دیے۔[34] تاہم، بہت سے اسلامی حکومتوں پر (خاص کر تیرہویں صدی سے پہلے تک) غیر مسلموں کے ساتھ مختلف حوالے سے امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام ہے، جن میں مخصوص لباس پہننے، گھوڑے یا دیگر مخصوص سواریوں کے استعمال اور بلند و بالا مکانات کی تعمیر وغیرہ پر پابندی شامل ہیں۔[35]

صدر اسلام

تاریخی حوالوں کے مطابق نبی اکرمؐ نے مسیحیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں ان کے مذہبی و ثقافتی حقوق کو محفوظ رکھا گیا تھا۔[36] اہلِ ذمّہ پر اسلامی قوانین کے بعض احکام، جیسے حجاب، لاگو نہیں کیے گئے۔[37] نبی اکرمؐ نے اہلِ ذمّہ کے تحفظ پر اتنا زور دیا کہ خوارج جیسے انتہا پسند گروہ مسلمان قیدیوں کو قتل کرتے تھے، لیکن مسیحی قیدیوں کا احترام کرتے تھے۔[38] امام علیؑ نے اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کی تاکید کی، کیونکہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔[39]

دوسری صدی سے بارہویں صدی تک

مورخین کے مطابق اندلس کے یہودی مسلمان فاتحین کو آزادی بخش قوتوں کے طور پر خوش آمدید کہتے تھے،[40] کیونکہ وہاں انہیں یورپی مسیحی حکومتوں کی بنسبت زیادہ آزادی حاصل تھی۔[41] یہودی اندلس میں وزارت کے عہدوں تک پہنچے[42] اور اس زمانے میں ان کا علمی اور ادبی عہد ترقی کی اعلی منازل تک پہنچا۔[43] انطاکیہ کے مسیحی رہنما نے مسلمانوں کے ہاتھوں شام کی فتح کو رومیوں کے ظلم سے نجات قرار دیا۔[44] مورخین کے مطابق شیعہ فاطمی حکومت میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل تھا، اور الحاکم بامر اللہ کے دور کے سوا باقی ادوار میں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر زندگی گزارتے تھے۔[45] کئی مسیحی افراد فاطمی حکومت میں وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔[46] مورخین کے مطابق فاطمی دور کو "مصر میں مسیحیوں کا سنہری دور" کہا جاتا ہے۔[47] صفوی دور میں بھی اقلیتوں کے ساتھ مثبت رویوں کے شواہد پائے جاتے ہیں،[48] تاہم بعض اوقات صفوی دور میں مذہبی شدت پسندی کے سبب مظالم کی خبریں بھی آئی ہیں۔[49]

تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی تک

تیرہویں صدی کے بعد، اسلامی ممالک میں جزیہ آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا۔[50] ان ملکوں کے آئینی قوانین میں اہلِ کتاب کے حقوق کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔[51] تاہم، بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے عملی نتائج محدود رہے۔[52] اس کے باوجود اس دور میں بھی اسلامی حکومتوں پر غیر مسلموں کے قتل کی صورت میں مسلمان قاتل پر قصاص نافذ نہ ہونا اور غیر مسلموں کو اعلیٰ حکومتی مناصب پر فائز نہ ہونے دینا جیسے اعتراضات کئے گئے ہیں۔[53]

اسلامی ممالک کے آئین میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق

محققین کے مطابق مصر کے آئین کے آرٹیکل 46 مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے، جبکہ عراق کا آئین تمام عراقی شہریوں کے لیے آزادیٔ عقیدہ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کی ضمانت دیتا ہے۔[54] عراق کی پارلیمنٹ میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے چھ نشستیں مختص ہیں۔[55]

جمہوری اسلامی ایران کے آئین میں، گرچہ تشیع کو سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اہلِ کتاب کے حقوق کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔[56] ایرانی پارلیمنٹ میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے چار نشستیں مخصوص ہیں۔[57] جزیہ کی معافی، اقلیتوں کے لیے علیحدہ بجٹ،[58] دیت میں مسلمان اور غیر مسلموں کی برابری[59] جیسے قوانین کو ایران کے آئین کی مثبت پہلوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین ایران کے قانونی نظام پر کچھ اعترضات بھی کرتے ہیں جن میں عملی طور پر مذہبی رواداری کا فقدان، مذہب تبدیل کرنے کی ممانعت، اہلِ کتاب کے علاوہ دیگر مذاہب کو آئینی طور پر تسلیم نہ کرنا شامل ہیں۔[60]

اسلامی قوانین میں اقلیتوں کے حقوق پر نظرثانی کا نظریہ

بعض قانونی ماہرین اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کو معاہداتی بنیاد پر تسلیم کرنے سے عدل و انصاف کا قیام ممکن ہوسکتا ہے۔[61] لیکن، شیعہ مفکرین کے مطابق اسلام میں انسانی کرامت ایک فطری اور بنیادی اصول ہے، جسے کسی بھی انسان، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، سے سلب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی معاہدے کے ذریعے عطا کیا جا سکتا ہے۔[62] شیعہ مفسر اور فلسفی علامہ طباطبائی کے مطابق قرآن کی آیات انسانی کرامت کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے برابر تسلیم کرتی ہیں۔[63] شیعہ فقیہ یوسف صانعی نے اسی بنیاد پر، مسلمان اور غیرمسلمان کے لئے دیت و قصاص میں برابری کا نظریہ پیش کیا ہے۔[64] کچھ اسلامی دانشوروں کا ماننا ہے کہ اسلامی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے، مخصوص قوانین میں تبدیلی اور اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔[65]

حوالہ جات

  1. ابن سعد، طبقات‌الکبری، بیروت، ج1، ص266
  2. Religion; Minority Rights Group۔
  3. عمید زنجانی، حقوق اقلیتہا، 1363شمسی، ص24۔
  4. شریعتی، «حقوق اقلیتہا»، ص671-672۔
  5. نہج‌البلاغہ، 1414ھ، ص376۔
  6. مکارم شیرایزی، پیام امیرالمومنین، 1386شمسی، ج9، ص243؛ مشکینی، مصطلحات‌الفقہ، 1392شمسی، ص470؛ معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص100۔
  7. معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص95؛ خمینی، تحریر الوسیلہ، ص531۔
  8. عمید زنجانی، حقوق اقلیت‌ہا، 1362شمسی، ص70؛ نوری، مستدرک الوسائل، بیروت، ج11، ص121-123۔
  9. معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص99۔
  10. مکارم شیرایزی، پیام امیرالمومنین، 1386شمسی، ج9، ص239؛ عمید زنجانی، حقوق اقلیتہا، 1362شمسی، ص70۔
  11. امینی، «نگرشی نو بہ نظام جزیہ در فقہ اسلامی» ص76-77؛ برگزیدہ تفسیر نمونہ، 1382شمسی، ج2، ص194؛ نجفی، جواہرالکلام، 1981م، ج21، ص227۔
  12. مطہری، مجموعہ آثار، 1388شمسی، ج20، ص262؛ مستدرک الوسائل، بیروت، ج11 ، ص123۔
  13. آخوندی، نظام دفاعی اسلام؛ 1381شمسی، ص153۔
  14. رجبی و باقری، «حقوق شہروندیِ اقلیت‌ہای دینی...»، ص42؛ معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص90۔
  15. عمید زنجانی، حقوق اقلیتہا، 1363شمسی، ص93۔
  16. باطنی، «واکاوی حقوقی استقلال قضایی اہل‌کتاب»، ص90۔
  17. عزیزان، «حقوق و تکالیف شہروندان غیر مسلمان در جامعہ اسلامی»، ص174-175۔
  18. معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص90؛ عزیزان، «حقوق و تکالیف شہروندان غیر مسلمان در جامعہ اسلامی»، ص174-175۔
  19. ابوصلاح حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص395۔
  20. مکارم شیرازی، «حقوق اقلیت‌ہای دینی در اسلام»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  21. نصیری، «حق آزادی عقیدہ...»، ص89۔
  22. رجبی و باقری، «حقوق شہروندیِ اقلیت‌ہای دینی...»، ص45۔
  23. معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص90۔
  24. مکارم شیرازی، «حقوق اقلیت‌ہای دینی در اسلام»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  25. معین‌فر و سیدی بنابی، «بررسی حقوق عمومی اقیلت‌ہای دینی»، ص90۔
  26. محقق حلی، مختصر النافع، 1418ھ، ج2، ص256؛رجبی و باقری، «حقوق شہروندیِ اقلیت‌ہای دینی...»، ص42۔
  27. خمینی، کتاب البیع، 1392شمسی، ص181۔
  28. امینی، «حقوق فردی شہروندان غیرمسلمان در جامعہ اسلامی»، ص145-164؛
  29. عمید زنجانی، حقوق اقلیتہا، 1363شمسی، ص70۔
  30. Hodgson, The Venture of Islam, Vol.2, p.278۔
  31. مجلسی، بحارالانوار، 1368شمسی، ج71، ص10۔
  32. Arsuaga, Urban Development and Muslim Minorities..., HASMA; Lynch, Spain under the Habsburgs; Lynch, Spain under the Habsburgs, Vol.2, p.46-47; Metcalfe, The Muslims of Medieval Italy ,pp.200-207۔
  33. کدیور، «حقوق غیرمسلمانان در اسلام معاصر»، ص69۔
  34. Jackson, Islam and the Blackamerican , pp.144-145; Cohen, Under Crescent and Cross, p.74۔
  35. طبری، تاریخ طبری، بیروت، ج9، ص171-196؛ عزیزی و محمدی‌زادہ؛ «حقوق اقلیت‌ہا از منظر حقوق بشر معاصر و فقہ اسلامی»، ص150۔
  36. منتظری، اسلام دین فطرت، 1385شمسی، ص623؛ مقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی، دارالکتب العلمیہ، ج14، ص70۔
  37. مطہری، مسئلۀ حجاب، 1379شمسی، 179-180ش۔
  38. مکارم شیرازی، پیام امیرالمومنین، 1386شمسی، ج5، ص232۔
  39. نہج‌البلاغہ، 1414ھ، ص426؛ مکارم شیرازی، پیام امیرالمومنین، 1386شمسی، ج9، ص237۔
  40. Stillman, Aspects of Jewish Life in Islamic Spain, p.53
  41. Hill et al, A History of the Islamic World, p.73; Cohen, Under Crescent and Cross pp.163-169۔
  42. Assis, The Jews of Spain..., pp.13 & 47.۔
  43. Raphael, The Sephardi Story: A Celebration of Jewish History, p.71; Sarna, "Hebrew and Bible Studies in Medieval Spain", Vol.1, p.327۔
  44. Runciman, The Reign of Antichrist, p.20–37۔
  45. Runciman, The Reign of Antichrist, p.51۔
  46. Samir, The Role of Christians in the Fatimid Government, p.178۔
  47. Samir, The Role of Christians in the Fatimid Government, pp.177-178۔
  48. جعفرپور و ترکی دستگردی، «روابط دولت صفویہ با اقلیت ہای دینی». ص61-62۔
  49. جعفرپور و ترکی دستگردی، «روابط دولت صفویہ با اقلیت ہای دینی». ص61-64۔
  50. میرحسینی، «روند بہبود امور زردشتیان ایران»، ص105؛ Yılgür, the 1858 Tax Reform and the Other Nomads in Ottoman Asia ,Middle Eastern Studies
  51. «حقوق عام اقلیت‌ہای دینی در قوانین اساسی ایران، مصر و عراق»، ص150-157۔
  52. فریدون آدمیت، امیرکبیر و ایران،1354شمسی، ج1، ص311 و 734،
  53. غوث و دیگران، «تحوّل‌پذیریِ قرارداد ذمّہ»، ص98۔
  54. ابراہیمیان، «حقوق عام اقلیتہای دینی در قوانین ایران، عرلق و مصر»، ص155-156۔
  55. «مصوبۀ دادگاہ عالی فدرال عراق»، ایرنا۔
  56. شورای نگہبان، قانون اساسی ایران، 1397شمسی، ص17؛ ابراہیمیان،
  57. شورای نگہبان، قانون اساسی ایران، 1397شمسی، ص29۔
  58. ہنرجو، «حقوق اقلیت ہای دینی در قانون اساسی جمہوری اسلامی»، ص269-271۔
  59. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، 453؛ «قانون الحاق یک تبصرہ بہ مادہ (297) قانون مجازات اسلامی مصوب 1370»، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی؛ عزیزان، «حقوق و تکالیف شہروندان غیر مسلمان در جامعہ اسلامی»، ص177۔
  60. «گزارش دیدبان حقوق بشر: ایران 2022»، Human Rights Watch۔
  61. عمیدزنجانی، «مقایسہ حقوق اقلیت ہا در ایران و جہان»، ص19۔
  62. ایازی، اصل کرامت انسان، 1400شمسی، ص74۔
  63. طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155۔
  64. صانعی، رویکردی بہ حقوق زنان، 1397شمسی، ص212۔
  65. سروشمسی،«حکومت دموکراتیک دینی»، 1380شمسی، ص341۔

مآخذ

  • نہج البلاغۃ، قم، مؤسسۃ دارالہجرۃ، 1414ھ۔
  • آخوندی، مصطفی، نظام دفاعی اسلام، قم، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • آدمیت، فریدون، امیرکبیر و ایران، تہران، خوارزمی، 1354ہجری شمسی۔
  • ابراہیمیان، حجت‌الہ، «حقوق عام اقلیت‌ہای دینی در قوانین اساسی ایران، مصر و عراق»، شمارہ9، اسفند 1390ہجری شمسی۔
  • ابن سعد، محمد، طبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بیتا۔
  • ابوالصلاح حلبی، تقی‌الدین بن نجم‌الدین، الکافی فی الفقہ، اصفہان، مکتبۃ الإمام أمیرالمؤمنین (ع)، 1403ھ۔
  • امیدی، علی و رضایی، فاطمہ، «نسل کشی یا تراژدی بزرگ ارامنہ در سال 1333ق/ 1915م»، پژوہش‌ہای، تاریخی، شمارہ 19، پاییز 1392ہجری شمسی۔
  • امینی، محمدامین، «نگرشی نو بہ نظام جزیہ در فقہ اسلامی»، دو فصلنامہ مطالعات تطبیقی فقہ و اصول مذاہب، سال پنجم، شمارہ دوم، پاییز و زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • ایازی، سید محمدعلی، اصل کرامت انسان بہ مثابہ قاعدہ‌ای فقہی، تہران، سرایی، 1400ہجری شمسی۔
  • باطنی، ابراہیم، «واکاوی حقوقی استقلال قضایی اہل‌کتاب»، حقوق اسلامی، شمارہ44، فروردین 1394ہجری شمسی۔
  • جعفرپور، علی؛ ترکی دستگردی، اسماعیل، «روابط دولت صفویہ با اقلیت‌ہای دینی (یہودیان و زردشتیان)»، مسکویہ، شمارہ 9، 1387ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب البیع، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب الحدود، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • خمینی، سیدروح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • رجبی، حسین؛ باقری، محمد رضا، «حقوق شہروندی اقلیت‌ہای دینی از منظر فقہ امامیہ»، سیاست متعالیہ، شمارہ 10، پاییز 1394ہجری شمسی۔
  • سروشمسی، عبدالکریم، «حکومت دموکراتیک دینی»، در حقوق بشر از منظر اندیشمندان، تألیف محمد بستانکار، تہران، شرکت سہامی انتشار، 1380ہجری شمسی۔
  • شریعتی، روح‌اللہ «حقوق اقلیتہا»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج13، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، 1399ہجری شمسی۔
  • شورای نگہبان، قانون اساسی ایران، تہران، پژوہشگاہ شورای نگہبان، 1397ہجری شمسی۔
  • صانعی، یوسف، رویکردی بہ حقوق زنان، قم، فقہ‌الثقلین، 1397ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1393ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک،بیروت، بی‌نا، بی‌تا۔
  • عزیزی، ناصر و محمدی‌زادہ، نادیا، «حقوق اقلیت‌ہا از منظر حقوق بشر معاصر و فقہ اسلامی»، فصلنامہ فقہ و حقوق نوین، شمارہ 11، 1401ہجری شمسی۔
  • عمید زنجانی، عباس‌علی، حقوق اقلیتہا: بر اساس قراداد قانون ذمہ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
  • عمید زنجانی، عباس‌علی «مقایسہ حقوق اقلیت ہا در ایران و جہان» چشم انداز ارتباطات فرہنگی، پیش شمارہ، فروردین 1382ہجری شمسی۔
  • غوث، حسن و ناصری مقدم، حسین؛ مہریزی ثانی، مہدی، «تحوّل پذیریِ قرارداد ذمّہ با پیدایش حقوق شہروندی مُدرن»، فقہ و اصول، دورہ48، شمارہ105، 2016م.
  • «قانون الحاق یک تبصرہ بہ مادہ (297) قانون مجازات اسلامی مصوب 1370»، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: 25 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • کدیور، محسن، «حقوق غیرمسلمانان در اسلام معاصر»، آیین، شمارہ 6، اسفند 1385ہجری شمسی۔
  • گزارش دیدبان حقوق بشر: ایران 2022»، Human Rights Watch، تاریخ مشاہدہ: 3 دی 1402ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، بیروت، در احیاء التراث العربی، 1368ش/1983-1992ء۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المختصر النافع فی فقہ الإمامیۃ، قم، مطبوعات دينی، 1376ش/1418ھ۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • «مصوبۀ دادگاہ عالی فدرال عراق»، سایت ایرنا، تاریخ درج مطلب: 4 اسفند 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1388ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مسئلۀ حجاب، تہران، صدرا، 1379ہجری شمسی۔
  • معین‌فر، عبداللہ؛ سیدی بنابی، سیدباقر؛ «بررسی حقوق عمومی اقلیّت‌ہای دینی اہل کتاب در فقہ امامیہ و اسناد بین‌المللی»، فقہ و مبانی حقوق اسلامی تابستان، شمارہ 4، 1389ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، «وقف برای غیر مسلمان»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی، تاریخ مشاہدہ: 25 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، «حقوق اقلیت‌ہای دینی در اسلام»، سایت دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی، تاریخ مشاہدہ: 25 آذر 1402.
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسۃ الإمام علی بن أبی طالب(ع)، 1427ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1382ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امیرالمومنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، اسلام دین فطرت، تہران، نشر سایہ، 1385ہجری شمسی۔
  • میرحسینی، محمدحسن، «روند بہبود امور زردشتیان ایران و حذف جزیہ از ایشان در دورہ ناصرالدین شاہ (با تکیہ بر اسناد نویافتہ در یزد»، پژوہشہای علوم تاریخی، شمارہ1، 1388ہجری شمسی۔
  • میلانی، امیرمہاجر، «حرمت جان کافر بی‌طرف با تأکید برآیات قرآن»، آموزہ‌ہای فقہ مدنی، دورہ 8، شمارہ 14، مہر 1395ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن بن باقر، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ش/1981ء۔
  • نصیری، علی، «حق آزادی عقیدہ و نقد شبہہ ی تنافی حکم ارتداد با آن»، سیاست متعالیہ، شمارہ 12، بہار 1395ہجری شمسی۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل، بیروت، دار الإحیاء التراث، 1408-1429ق/1987-2008ء۔
  • مقریزی، تقی‌الدین، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1999ء۔
  • ہنرجو، مہدی، «حقوق اقلیت ہای دینی در قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران از تئوری تا عمل (با تاکید بر اقلیت دین زرتشت)»، مطالعات راہبردی علوم انسانی و اسلامی، شمارہ 31، پاییز 1399ہجری شمسی۔
  • Arsuaga, Ana E. Urban Development and Muslim Minorities..., HASMA.
  • Assis, Yom Tov. The Jews of Spain: From Settlement to Expulsion, Jerusalem: The Hebrew University of Jerusalem, 1988.
  • Cohen, Mark. Under Crescent and Cross: The Jews in the Middle Ages. Princeton University Press, 2008.
  • Hodgson, Marshall. The Venture of Islam Conscience and History in a World Civilization, Vol 2. University of Chicago, 1958.
  • Jackson, Sherman. Islam and the Blackamerican: Looking Toward the Third Resurrection, London, Oxford University Press, 2005.
  • Lynch, John. Spain under the Habsburgs, England, Alden Mowbray Ltd, 1969.
  • Religion; Minority Rights Group.
  • Raphael, Chaim. The Sephardi Story: A Celebration of Jewish History, London: Valentine Mitchell & Co. Ltd., 1991.
  • Runciman, Steven. The Reign of Antichrist, Vol 1, England, Cambridge University Press, 1987.
  • Samir Khalil Samir. . The Role of Christians in the Fatimid Government Services of Egypt To the Reign of Al-Hafiz. Medieval Encounters, vol.2, E3, 1996.
  • Sarna, Nahum M, Hebrew and Bible Studies in Medieval Spain, Vol. 1 ed. R. D. Barnett, New York: Ktav Publishing House, Inc., 1971.
  • Stillman, Norman, Aspects of Jewish Life in Islamic Spain in Aspects of Jewish Culture in the Middle Ages, ed. Paul E. Szarmach, Albany: State University of New York Press, 1979.
  • Yılgür, Egemen. the 1858 Tax Reform and the Other Nomads in Ottoman Asia ,Middle Eastern Studies|pages.