مندرجات کا رخ کریں

مہجوریت قرآن

ویکی شیعہ سے

مہجوریتِ قرآن سے مراد وہ مفہوم ہے جسے سورہ فرقان کی آیت 30 سے اخذ کیا گیا ہے، جس میں نبی اکرمؐ درگاہ الہی میں امت کی طرف سے قرآن کی بنسبت بے توجہی کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ مفہوم شیعہ روایات میں بھی تاکید کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ مہجوریت کا مطلب قرآن کو مختلف پہلوؤں سے ترک کرنا ہے؛ جیسے: قرآن کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنا، اس پر عمل نہ کرنا اور صرف ظاہری تلاوت پر اکتفا کرنا وغیرہ۔ قرآن کے مفسرین نے اس اصطلاح کی مختلف توضیحات بیان کی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں: قرآن کو ظاہری طور پر چھوڑ دینا، اس کے احکام کی نافرمانی کرنا اور قرآن کو اہل بیتؑ سے جدا کرنا، جبکہ اہل بیتؑ قرآن کے اصلی مفسر ہیں۔ امام خمینی نے قرآن کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر زور دیا ہے اور غفلت کو قرآن سے دوری وجہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک، یہی غفلت امت مسلمہ کے زوال کا باعث ہے۔

مہجوریت قرآن اور قرآن سے دوری کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے، جیسے: قرآن کی تلاوت نہ کرنا، قرآن کو سننے میں دلچسپی نہ لینا، اسے حفظ نہ کرنا، اس میں غور و فکر (تدبر) نہ کرنا، اس کی صحیح تفسیر سے غفلت برتنا اور قرآن پر عمل نہ کرنا۔ اس کے علاوہ، قرآن کو صرف رسمی اور ظاہری حد تک محدود کرنا یا اپنی مرضی کے مطابق (تفسیر بالرأی) اس کی تاویلات پیش کرنا بھی مہجوریت کی صورتیں شمار کی جاتی ہیں۔ قرآن سے دوری کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں: قرآن کو اہل بیتؑ سے جدا کر دینا، سطحی سوچ اور ظاہری نگاہ کا غالب آجانا، اجتہاد چھوڑ کردین کو سیاست سے الگ سمجھے جانے والے تصور(سیکولرازم) کی سوچ کو فروغ دینا۔

فرقہ بندی اور تفرقہ بازی، پسماندگی اور ترقی کی راہوں کا بند ہو جانا، خرافات کا فروغ، غربت و افلاس کا عام ہونا، جابرانہ حکمرانی کا رواج اور روحانیت و معنویت سے فاصلہ مہجوریتِ قرآن کے نقصانات اور نتائج میں سے ہیں۔ کچھ اسلامی شخصیات نے قرآن کو مسلمانوں کی فکری اور عملی زندگی کا مرکز بنانے کے سلسلے میں جدوجہد کی ہے، علامہ سید محمد حسین طباطبائی، امام خمینی اور سید جمال الدین اسد آبادی قرآن کے بارے میں اصلاحی تحریک کے علمبرداروں میں سے ہیں۔

مفہوم شناسی اور اہمیت

مہجوریتِ قرآن ایک ایسی اصطلاح ہے جو سورہ فرقان کی آیت 30 سے اخذ کی گئی ہے۔ اس آیت میں رسول خداؐ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں اپنی امت کی قرآن سے بے رُخی کی شکایت کرتے ہیں۔[1] شیعہ روایات میں بھی مہجوریت قرآن کے سلسلے میں بار بار خبردار کیا گیا ہے؛ مثلاً سید رضی نے نہج البلاغہ میں[2] اور محمد بن یعقوب کلینی نے اصول کافی میں[3] ائمہ اطہارؑ سے اس حوالے سے احادیث نقل کی ہیں۔

مجموعی طور پر مہجوریت قرآن کا مطلب ہے قرآن کی اہمیت اور مقام کو صحیح طور پر نہ سمجھنا، اس کی تعلیمات کو ترک کرنا، غفلت کی وجہ سے قرآن سے بےرُخی برتنا اور صرف اس کے ظاہری یا رسم و رواج والے پہلوؤں پر اکتفا کرنا۔[4] شیعہ قرآنی محقق سید محمد علی ایازی کی تعبیر کے مطابق قرآن کو عملی زندگی سے الگ کر دینا اور اسے حقیقی معنوں میں نہ جاننا ہی اس کی مہجوریت کی مثالیں ہیں۔[5]

قرآنی محققین نے سورہ فرقان آیت نمبر 30 میں مذکور مہجوریت کے مفہوم کی مختلف تشریحات کی پیش کی ہیں:

  • مہجور کرنا: یعنی قرآن کو سننا چھوڑ دینا، اس سے منہ موڑ لینا، ظاہری طور پر ترک کر دینا[6] یا اس پر ایمان نہ لانا۔[7]
  • مہجور سمجھنا: آیت میں لفظ "اتخذوا" کی بنیاد پر بعض نے کہا کہ لوگ قرآن پڑھتے تو ہیں، مگر صحیح طور پر نہیں سمجھتے، اس کی اہم باتوں کو نظر انداز کرتے اور اس کی تعلیمات کے برخلاف عمل کرتے ہیں؛ در حقیقت مسلمانوں نے اسے ترک کردیا ہے اور اس سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔[8] اسی بنیاد پر حسن مصطفوی نے اپنی کتاب التحقیق فی کلمات القرآن میں کہا ہے کہ مہجوریت کا مطلب ہے قرآن کو ترک کرنا، اگرچہ اس سے ظاہری تعلق باقی ہو۔[9]
  • قرآن کو اہل بیتؑ سے جدا کرنا: جیسا کہ حدیث ثقلین میں آیا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ لازم و ملزوم ہیں لیکن خلیفہ دوم نے کہا: حسبنا کتاب اللہ(ہمارے لیے قرآن کافی ہے)، تو اس سے قرآن کے سلسلے میں کج فہمی عام ہوئی اور اہل بیتؑ کو نظرانداز کیا گیا۔[10]

شیعہ مرجع تقلید امام خمینیؒ کا قرآن کے بارے میں سیاسی اور سماجی زاویہ نگاہ دوسرے محققین سے مختلف ہے چنانچہ وہ قرآن کے سیاسی و سماجی پہلو پر زور دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں سیاسی و معاشرتی احکام عبادات سے کہیں زیادہ ہیں،[11] یہی وجہ ہے کہ امام خمینی کے نزدیک مہجوریتِ قرآن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اجتماعی و سیاسی احکام کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور صرف عبادات پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، آج اُمتِ مسلمہ کے مسائل کی جڑ قرآن پر صحیح عمل نہ کرنا ہے۔[12]

مہجوریت کے مختلف پہلو

قرآن شناس محققین نے قرآن کی مہجوریت کو مختلف زاویوں سے بیان کرتے ہوئے اس کے مختلف مصادیق بیان کیے ہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں: قرآن کی تلاوت نہ کرنا، اس کو غور سے نہ سننا، اسے حفظ نہ کرنا، تدبر (غور و فکر) نہ کرنا، تفسیر سے نابلد ہونا اور قرآن پر عمل نہ کرنا۔[13] شیعہ مفسرین میں سے ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، قرآن کو صرف رسمی یا تبرکاتی انداز میں استعمال کرنا(جیسے صرف مریضوں کی شفایابی، قرآن خوانی، یا مسجدوں کی دیواروں پر زینت کے لیے استعمال کرنا وغیرہ)، مغربی نظریات کو قرآن پر ترجیح دینا اور تفسیر بالرائے جیسے امور مہجوریت کی بعض صورتیں ہیں۔[14]

دیگر مفسرین بھی قرآن کی تلاوت، سننے، حفظ کرنے، تدبر کرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے سلسلے میں توجہ نہ کرنے کو قرآن کی مہجوریت کی علامات میں شمار کرتے ہیں۔[15] امام خمینی کی نظر میں قرآن کے بنیادی پیغام سے غفلت اور اس پر عمل کا فقدان مہجوریت کی نشانی ہے۔[16] امام خمینی کا عقیدہ ہے کہ صرف تجوید، لغت، ادب یا اعجازِ قرآن پر بحثیں کرنا، قرآن کی مہجوریت کو ختم نہیں کرتا؛ بلکہ ضروری ہے کہ قرآن کے بنیادی پیغام پر عمل کیا جائے۔[17]

اسباب

قرآن کی مہجوریت اور اس سے دوری کے مختلف اسباب اور عوامل ذکر کیے گئے ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: قرآن کو اہل بیتؑ سے جدا کرنے کی کوششیں، جو اس کے اصل شارحین و مفسرین ہیں۔[18] اسی طرح مفسرین کا صرف قرآن کے ظاہری پہلوؤں میں مصروف رہنا، سلیقہ کی بنیاد پر تفسیر کا رواج، عقل سے دوری، جمود، اجتہاد کو ترک کر دینا، اخباری طرزِ فکر کا پھیلاؤ، بعض مسلمانوں کی دنیا پرستی، قرآن کو ناکارآمد یا صرف عبادات تک محدود سمجھنا اور قرآن کی سیاسی و معاشرتی تعلیمات کی مخالفت کرنا مہجوریت قرآن کے دیگر اسباب میں سے ہیں۔[19]

امام خمینی کے مطابق صرف مفسرین کو قرآن سمجھنے کا حق دینا اور عمومی طور پر تدبر سے روک دینا قرآن سے دوری کے دیگر عوامل میں سے ہیں۔[20] نیز، دین اور سیاست کو الگ کرنے کی فکر بھی مہجوریت کا اہم سبب ہے؛ کیونکہ اس سے قرآن کے سماجی و سیاسی احکام کو نظرانداز کیا جاتا ہے، تاکہ عالمی طاقتیں مسلم ممالک پر اپنی گرفت قائم رکھ سکیں۔[21]

شعبہ تاریخ کے محقق رسول جعفریان کے مطابق صفوی دور سے شیعہ فکر میں دینی معارف کے سرچشمے صرف احادیث اور روایتی تفاسیر بن گئے، جس کی وجہ سے قرآن سے فاصلہ پیدا ہوا۔[22]

مزید برآں، اخباری سوچ، تصوف کے غلبے اور بعض حکومتی پالیسیوں کو بھی مہجوریت قرآن کا سبب قرار دیا گیا ہے؛ اس مطلب کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ اکثر حکومتیں، جو مخصوص مذہبی نظریات کی حامل ہوتی تھیں، قرآن کو سماج میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتی تھیں اور اس لیے قرآن کو معاشرے سے دور رکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔[23]

نتائج

قرآن سے دوری کے مختلف نتائج اور منفی اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

  • فرقہ واریت اور مسلمانوں کے درمیان انتشار؛[24]
  • خرافاتی اسلام اور جعلی احادیث کا رواج؛[25]
  • مسلمانوں کی عزت، طاقت اور قیادت کا زوال[26] اور ترقی کا فقدان؛
  • معاشرے میں معنویت و روحانیت کی کمی اور انسانی و اخلاقی انحطاط؛[27]
  • نااہل اور بدکردار افراد کی قیادت اور غربت و محرومی کا پھیلاؤ؛[28]
  • ظالم حکمرانوں کی استبدادی حکومتیں اور عوام کی سیاسی و سماجی امور سے دوری؛[29]
  • عذاب الٰہی کا نزول۔[30]

قرآن کی مہجوریت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے سرخیل افراد

سید محمد علی ایازی کا کہنا ہے کہ علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان اور امام خمینی نے اسلامی حکومت نامی کتاب تحریر اور قرآن کے سیاسی و اجتماعی پہلوؤں کو اجاگر کر کے مہجوریت قرآن کے خاتمے اور قرآنی مفاہیم کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔[31] نیز، سید جمال‌ الدین اسدآبادی (وفات: 1314ھ) بھی قرآن کی طرف بازگشت کی تحریک کے بانیوں میں سے تھے، جنہوں نے پندرہویں صدی ہجری میں اصلاحی تحریکوں کو اس پیغام سے متاثر کیا۔[32]

حوالہ جات

  1. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج15، ص205؛ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج8، ص423۔
  2. نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 147، ص204؛ نامہ 47، ص422۔
  3. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص613؛ ج8، ص28۔
  4. اشرفی امین، «مہجوریت آموزہ‌ہای دینی و قرآنی از دیدگاہ علامہ شیخ محمد عبدہ»، ص281؛ فقہی‌زادہ و اشرفی امین، «عوامل و زمینہ‌ہای مہجوریت قرآن در بعد سیاسی و اجتماعی در اندیشہ امام خمینی»، ص58۔
  5. ایازی، «در جامعہ ای کہ قرآن مہجور است افراد ناشایستہ، بی‌خاصیت و ناسالم بر سر کار می‌آیند»، در سایت مجمع مدرسین و محققین حوزہ علمیہ قم۔
  6. طوسی، التبیان، ج7، ص486؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج7، ص263؛ زمخشری، الکشاف، ج3، ص277۔
  7. فیض کاشانی، الصافی، 1415ھ، ج4، ص11؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج24، ص455۔
  8. غفاری، «مہجوریت قرآن»، ص89-90؛ مؤمنی، «درآمدی بر مہجوریت قرآن کریم»، ص60-61۔
  9. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، 1369شمسی، ج11، ص240۔
  10. اخوان مقدم، «نگاہی نو بہ معنای مہجوریت قرآن در آیہ 30 سورہ فرقان، بر اساس واژہ‌ہای ہمنشین و سیاق»، ص23-28۔
  11. امام خمینی، صحیفہ امام، 1385شمسی، ج2، ص255؛ ج5، ص188۔
  12. امام خمینی، صحیفہ امام، 1385شمسی، ج16، ص34؛ فقہی‌ زادہ و اشرفی امین، «عوامل و زمینہ‌ہای مہجوریت قرآن در بعد سیاسی و اجتماعی در اندیشہ امام خمینی»، ص58-59۔
  13. مؤمنی، «درآمدی بر مہجوریت قرآن کریم»، ص61-73۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج15، ص77۔
  15. موسوی، «مہجوریت قرآن، اسباب و نشانہ‏‌ہا»، ص14-16۔
  16. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج16، ص34۔
  17. امام خمینی، آداب الصلاۃ، 1378شمسی، ص198۔
  18. مؤمنی، «رابطہ مہجوریت قرآن و مہجوریت اہل بیت(ع)»۔
  19. اشرفی امین، «مہجوریت آموزہ‌ہای دینی و قرآنی از دیدگاہ علامہ شیخ محمد عبدہ»، ص282-283؛ فقہی‌زادہ و اشرفی امین، «عوامل و زمینہ‌ہای مہجوریت قرآن در بعد سیاسی و اجتماعی در اندیشہ امام خمینی»، ص60۔
  20. امام خمینی، آداب الصلاۃ، 1378شمسی، ص199۔
  21. فقہی‌زادہ و اشرفی امین، «عوامل و زمینہ‌ہای مہجوریت قرآن در بعد سیاسی و اجتماعی در اندیشہ امام خمینی»، ص65-67۔
  22. جعفریان، «نہضت بازگشت بہ قرآن برای احیای عظمت از دست رفتہ بود»، مصاحبہ با نشریہ مہرنامہ۔
  23. نباتی، «تثلیث مہجوریت قرآن در جامعہ ایرانی»، مندرج در سایت ایکنا۔
  24. نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 147، ص205؛ اشرفی امین، «وحدت مسلمانان و رابطہ آن با مہجوریت قرآن از دیدگاہ مصلحان دینی»، ص6۔
  25. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص274۔
  26. امام خمینی، صحیفہ امام، 1385شمسی، ج16، ص38–39۔
  27. امام خمینی، صحیفہ امام، 1385شمسی، ج10، ص530-533۔
  28. ایازی، «در جامعہ ای کہ قرآن مہجور است افراد نا شایستہ، بی خاصیت و ناسالم بر سرکار می آیند»، مندرج در سایت مجمع مدرسین و محققین حوزہ علمیہ قم۔
  29. اشرفی امین، «مہجوریت آموزہ‌ہای دینی و قرآنی از دیدگاہ علامہ شیخ محمد عبدہ»، ص284۔
  30. صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 1406ھ، ص286۔
  31. ایازی، «مہجوریت قرآن»، ص634۔
  32. ایازی، «مہجوریت قرآن»، ص633۔

مآخذ