مندرجات کا رخ کریں

جہاد ذبی کا نظریہ

ویکی شیعہ سے
کتاب جہاد ذبی: بقلم محمد جواد فاضل لنکرانی

جہادِ ذَبّی کا نظریہ یا اسلام کے دفاع کا جہادی تصور؛ جہاد کے باب میں ایک فقہی نظریہ ہے جو اسلام اور دینی اقداروں کے دفاع اور تحفظ کے معنی میں ہے۔[1] اس نظریے کے مطابق، جہادِ ذبّی کا تصور صرف اسلام کی حفاظت اور بقا کے لئے ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی ظالم کی طرف سے اسلام کی نابودی کا خطرہ لاحق ہو تو اسلام کا دفاع تمام مسلمانوں کا عینی فریضہ (واجبِ عینی) ہے۔[2]

جہاد ذبی کا نظریہ، حوزہ علمیہ قم ایران میں درس خارج کے استاد محمد جواد فاضل لنکرانی کی جانب سے پیش کیا گیا۔ فاضل لنکرانی نے جہادِ ذبّی کوفقہا کے اقوال اور ان کی گفتگو سے اخذ کیا ہے[3] اور اسے جہادِ ابتدائی اور جہادِ دفاعی کے مقابل، مستقل جہاد کی ایک قسم شمار کیا ہے۔[4] جہادِ ابتدائی اور جہادِ دفاعی کے برخلاف، جہادِ ذبّی کے لئے کسی قسم کی کوئی شرط نہیں ہے اور اس کے موثر اور نتیجہ بخش ہونے پر یقین بھی لازم و ضروری نہیں ہے، لہذا انسان کی جان و مال یا عزت و آبرو کے ضیاع کا خوف بھی اس کے وجوب میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ چنانچہ اس راہ میں قتل ہونے والا شہید شمار کیا جائے گا اور اس پر شہید کے باقی احکام لاگو ہوںن گے۔[5]

فاضل لنکرانی کے نزدیک، قرآن،[یادداشت 1] روایات،[6][یادداشت 2] اجماع،[7] عقل[8] اور امور حسبیہ (دین کے ضروری اور اجتماعی امور) کو چھوڑنے پر شارع کا راضی نہ ہونا، [9] جہادِ ذبّی کے دلائل ہیں۔

فاضل لنکرانی کے عقیدے کے مطابق، امام حسینؑ کے قیام کی اصل وجہ اور بنیاد بھی اسلامی بنیادوں کے دفاع تھا، نہ کہ جہاد ابتدائی یا دفاعی؛ کیونکہ امامؑ خود اپنی مرضی سے مکہ سے کوفہ کی طرف نکلے تھے ۔[10] فاضل لنکرانی کے مطابق، امام حسینؑ کا قیام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنیاد پر بھی نہیں تھا کیونکہ اس وقت اس کی شرائط کا فقدان تھا، جیسے قیام کے مؤثر ہونے کا یقین ہونا یا جان و مال کا محفوظ ہونا وغیرہ ، اس تحریک میں موجود نہ تھا۔ امامؑ کا اصل مقصد خود دینِ اسلام کو بچانا تھا کیونکہ دین کی بقا سے بڑھکر کوئی بھی چیز امربالمعروف نہیں ہے اوردین کو مٹنے سے بڑھکر کوئی بھی چیز نہی عن المنکر کا حصہ نہیں ہے ۔[11]

جواد فاضل لنکرانی نے فلسطینیوں اور حزب‌ اللہ لبنان کی اسرائیل اور داعش کے خلاف جنگ کو جہادِ ذبّی کے مصادیق میں سے قرار دیا ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص7۔
  2. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص32۔
  3. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص30۔
  4. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص52۔
  5. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص15۔
  6. حمیری قمی، قرب الاسناد، 1413ھ، ص345۔
  7. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج22، ص24-26۔
  8. سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج15، ص101۔
  9. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص25۔
  10. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص12۔
  11. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص13۔
  12. فاضل لنکرانی، جہاد ذبی، 1401ھ، ص51۔

نوٹ

  1. آیہ 39 و 40 سورہ حج؛ آیہ 123 سورہ توبہ؛ آیہ 193 سورہ بقرہ؛ آیہ 75 و 76 سورہ نساء
  2. فَقَالَ لَہُ الرِّضَا عَلَيْہِ السَّلَامُ: «... لَكِنْ يُقَاتِلُ عَنْ بَيْضَةِ الْإِسْلَامِ، فَإِنَّ فِي ذَہَابِ بَيْضَةِ الْإِسْلَامِ دُرُوسَ ذِكْرِ مُحَمَّدٍ عَلَيْہِ السَّلَامُ».

مآخذ

  • حمیری قمی، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، بیروت، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1413ھ۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام فی بیان حلال و الحرام، قم، دار التفسیر، بی‌تا۔
  • فاضل لنکرانی، محمدجواد، جہاد ذَبّی (جہد و دفاع از کیان اسلام)، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، 1401ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جَواہر الکلام فی شرحِ شرائعِ الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دارُ اِحیاء التُّراثِ العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔