تطائر کتب

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


تَطایرِ کُتُب قیامت کے ان مقامات میں سے ہے جہاں انسان اپنے اعمال نامے کو دیکھے گا ۔یہ اسلامی اعتقادات میں سے ہے کہ جس کی صحیح احادیث میں تصریح ہوئی ہے ۔

مفسرین نے معصومین کی احادیث سے اس اصطلاح کو اخذ کیا ہے اور اسے سورہ اسراء کی آیات ۱۳ اور ۱۴ سے اخذ شدہ سمجھتے ہیں جبکہ فقہا اسکے متعلق اجمالی اعتقاد رکھنے کو واجب سمجھتے ہیں ۔

لغت

تطایر لغت میں اڑنا، پراکنده اور منتشر ہونے کے معنا میں ہے .[1]

اگرچہ تطایر کتب کی اصطلاح قرآن میں ذکر نہیں ہوئی لیکن مفسرین اسے رسول خداؐ اور ائمہ علیہم السلام کی احادیث سے اور سورہ اسراء کی تیرھویں اور چودھویں آیت سے اخذ شدہ سمجھتے ہیں کہ جس کے مطابق ہر انسان کے نیک و بد کردار طوق کی مانند اسکی گردن میں ہونگے ۔ اَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فی عُنُقِهِ ترجمہ: اور ہم نے ہر انسان کا (نامہ) عمل اس کی گردن میں ڈال دیا ہے۔

تفسیر

مفسرین نے اس آیت میں دو وجہ ذکر کی ہیں :

پہلی وجہ

طائر کو طیر سے لیا گیا ہے . عرب جس کام کے انجام دہی کا قصد رکھتے تھے وہ اسکے نیک و بد کی شناخت کیلئے پرندوں کو اڑا کر الہام لیتے تھے اور اس عمل کے کثرت تکرار کی وجہ سے خود نیک و بد کو طائر کہا جانے لگا اور یہ کسی چیز کا اسکے لازم اسم کے ساتھ نام رکھنے کے باب سے ہے ۔

دوسری وجہ

ابو عُبَیده کے قول کے مطابق طائر اَعراب کی مراد نصیب ہے کہ جسے فارسی اور اردو میں بخت کہتے ہیں ۔[2] اس آیت کے ذیل میں مزید آیا ہے کہ خداوند خبر دے رہا ہے کہ قیامت کے دن یہی طائر بندگان خدا کے اعمال نامے کو باہر نکالیں گے اور اسکے سامنے کھولیں گے کہ جنہیں اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہو گا [3] یہی وہ مؤقف ہے کہ جسے روایات میں تطایر کتب یا تطایر صحف سے تعبیر کیا گیا ہے ۔[4] عائشہ کی پیامبر(ص) سے منقول حدیث میں آیا ہے کہ آدمی تین مقامات: میزان، تطایر صحف یا تطایر کتب اور صراط پر کسی کو نہیں پہچانے گا اور نہ ہی کسی کو یاد رکھے گا ۔ [5]

امام باقر علیہ السلام سے اس آیت کی توضیح میں طائر اس خیر اور شر سے تعبیر ہے کہ جو ہمیشہ انسان کے ہمراہ ہے یہانتک کہ قیامت کے روز اس کا نامۂ اعمال اسکے ہاتھ میں دیا جائے گا ۔[6]

اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ مأموران الہی دنیا میں انسانوں کے نیک و بد کردار کو ضبط و ثبت کرتے ہیں ۔[7] اور قیامت کے روز تطایر کتب کے مقام پر یہ تمام مطالب ایک نامے یا کتاب کی صورت میں انکے سامنے کھولے جائیں گے ۔

متکلمین اور فقہا امکان عقلی اور قرآن کے خبر دینے کی بنا پر اسکے متعلق روزِ قیامت کے مقامات میں سے ایک مقام کے طور پر اجمالی عقیدہ رکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں ۔[8] اسی وجہ سے اس کے حق ہونے کو ان مطالب میں سے قرار دیتے ہیں کہ جن کی دفن کے وقت میت کو تلقین کی جاتی ہے ۔[9]

حوالہ جات

  1. جوہری، ذیل طیر؛ زوزنی، ج۲، ص۶۱۳؛ ابن منظور، ذیل طیر؛ فیروزآبادی، ج۲، ص۸۰
  2. نک: طوسی، التبیان؛ فخررازی، ذیل آیت
  3. فخررازی، ذیل آیت
  4. نک: مجلسی، ج۷، ص۳۰۶ـ۳۲۵، ج۹۴، ص۵۳
  5. قرطبی، ص۱۸۲
  6. قمی، ج۲، ص۱۷
  7. نک: انفطار: ۱۰ـ۱۲؛ ق: ۱۷ـ۱۸
  8. نک: مفید، ص۴۶ـ۴۷؛ طوسی، الرسائل، ص۹۹؛ علامہ حلّی، انوار الملکوت، ص۱۸۰؛ علامہ حلی، کشف المراد، ص۴۲۵؛ جرجانی، ج‌۸، ص۳۲۰؛ محقق کرکی، ج۱، ص۶۳
  9. نک: حکیم، ج‌۴، ص‌۲۵۸؛ غروی تبریزی، ج‌۹، ص‌۱۹۹؛ امام خمینی، ص‌۸۵

بیرونی لنکس

مآخذ

  • قرآن.
  • ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، ناشر: دار صادر، بیروت، ۱۴۱۴ق.
  • علی بن محمد جرجانی، شرح المواقف، چاپ محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر ۱۳۲۵/۱۹۰۷، چاپ افست قم، ۱۳۷۰ش.
  • اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح: تاج اللغہ و صحاح العربیہ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، بیروت، بی تا، چاپ افست تہران، ۱۳۶۸ش.
  • محسن حکیم، مستمسک العروة الوثقی، چاپ افست قم، ۱۴۰۴ق.
  • روح اللّہ خمینی، رہبر انقلاب و بنیانگذار جمہوری اسلامی ایران، رسالہ توضیح المسائل، تہران ۱۳۷۲ش.
  • حسین بن احمد زوزنی، کتاب المصادر، چاپ تقی بینش ، مشہد، ۱۳۴۰ـ۱۳۴۵ش.
  • محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت: داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • محمد بن حسن طوسی، الرسائل العشر، چاپ محمد واعظ زاده خراسانی: رسالۃ مسائل کلامیہ، قم، ۱۴۰۴ق.
  • حسن بن یوسف علامہ حلی، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، چاپ محمد نجمی زنجانی، قم، ۱۳۶۳ش.
  • حسن بن یوسف علامہ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، چاپ حسن حسن زاده آملی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • علی غروی تبریزی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، تقریرات درس آیت اللّہ خوئی، ج۹، قم، ۱۴۱۴ق.
  • محمد بن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاہره، بی تا، چاپ افست تہران، بی‌تا.
  • محمدبن یعقوب فیروزآبادی، القاموس المحیط، دارالعلم، بیروت، بی‌تا.
  • محمد بن احمد قرطبی، یوم الفزع الاکبر: مشاہد یوم القیامہ و اہوالہا، چاپ محمد ابراہیم سلیم، قاہره، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۴م.
  • علی بن ابراہیم قمی، تفسیر قمی، چاپ طیب موسوی جزائری، قم، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسۃ الوفاء بیروت - لبنان، ۱۴۰۴ق.
  • علی بن حسین محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، چاپ محمد حسون، ج۱: الرسالۃ النجمیۃ، قم، ۱۴۰۹ق.
  • محمد بن محمد مفید، النکت الاعتقادیہ، قم، ۱۴۱۳ق.