کفر

ویکی شیعہ سے
(کافروں سے رجوع مکرر)

کُفْر دین حق کو قبول نہ کرنا اور دین اسلام کے تین بنیادی اعتقادات یعنی توحید، نبوت اور معاد پر اعتقاد نہ رکھنے کو کہا جاتا ہے جو عذاب الہی کا موجب بنتا ہے۔ کفر کی کئی اقسام ہیں ان میں سے کفر انکاری، جحود، عناد اور نفاق ہیں۔ اسی طرح کفر کے مراتب ہیں جیسے کفر قالب، کفر نفس و کفر قلب۔

لغوی معنا

عربی زبان میں کفر پنہان کرنے اور چھپانے کے معنا میں آتا ہے۔ تاریک رات کو کافر کہتے ہیں۔ کیونکہ اپنی تاریکی کی وجہ سے ہر چیز کو چھپا لیتی ہے۔ پس اس بنا پر جو شخص نعمت الہی کو چھپا لے اور مخفی کرے اسے کافر کہتے ہیں۔ وہ بھی کافر ہے کیونکہ وہ بیج کو زمین میں چھپاتا ہے۔[1] لغت کی بعض کتابوں میں ایمان کی ضد کفر ذکر ہوئی ہے۔ کفّار اور کَفَر اسکی جمع مذکور ہے۔ اسی طرح نعمت کے انکار کو کفر کہا ہے جو شکر کی ضد ہو گا۔ بعض معتقد ہیں کہ کفر ایمان کی ضد اور انعام خداوندی کا انکار ہے۔ رات، بڑا سمندر، کالے بادل، وسیع زمین، زرہ وغیرہ بھی اسی کے معنی آتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک چیز کسی چیز سے چھپائے اور ڈھانپے ہوتی ہے۔[2]

اصطلاحی معنا

سید مرتضیٰ اسکے متعلق کہتے ہیں:

وہ چیز ہے جو دائمی عقاب کا باعث ہو اگرچہ دنیا میں بھی اس پر مخصوص احکام مترتب ہوتے ہیں۔ہماری عقل اس بات کی قدرت نہیں رکھتی ہے کہ کون سی چیز ابدی عذاب کا باعث ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم شارع مقدس سے پوچھیں۔پس کفر کی حد و مرز دلائل سمعی کی محتاج ہے۔ہم شرعی اور سمعی دلائل ک چھان بین سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ توحید و عدل و رسالت پیامبر اسلام(ص) کی معرفت میں کوتاہی کفر ہے ۔اب یہ کوتاہی جہل کی وجہ سے یا شک کی وجہ سے ہو یا ایسے اعتقادات کی وجہ سے ہو جن کے ہوتے ہوئے مذکورہ چیزوں کی معرفت ممکن نہیں ہوتی ہے اگرچہ آخری چیز مستقیم طور پر معارف سے تعلق نہیں رکھتی ہے لیکن وہ واجب الوجود کی معرفت میں رکاوٹ ہے ۔مثلا اصحاب بدعت معتقد ہیں کہ خدا اور رسول کی درست معرفت رکاوٹ کو ایجاد کرتی ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ کفر جوارحی افعال میں سے نہیں بلکہ قلبی افعال میں سے ہے جس طرح ہم ایمان کو قلبی افعال سے سمجھتے ہیں۔ [3]

بالکل اسی عبارت کو بزرگ شیعہ متکلم شیخ طوسی نے قبول کیا ہے ۔[4]

اسباب کفر

کفر کے معنی کے پیش نظر متکلمین کی اصطلاح میں تین چیزوں کو اسباب کفر کہہ سکتے ہیں۔[5]:

  • جس چیز کا تفصیلی ایمان رکھنا ضروری ہو اس کا انکار کرنا جیسے توحید، نبوت ور قیامت کا انکار کرنا.
  • ایسی چیز کا انکار کرنا جو جزو اسلام ہو خواہ وہ چیز دین میں ضروری ہو ہو یا نہ ہو یا وہ چیز عقیدے سے متعلق ہو یا حکم شرعی ہو کیونکہ ایسی چیز کا انکار کرنا رسالت کا انکار کرنا ہے۔
  • ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرنا۔ یعنی شخص تفصیلی طور پر جانتا ہو کہ فلاں چیز ضروریات دین میں سے ہے لیکن پھر اسکے باوجود اس کا انکار کرے ۔یہ بھی موجب کفر ہے کیونکہ یہ رسالت پیغمبر کے انکار کی طرف لوٹتی ہے۔

اگر قرائن سے واضح ہو کہ وہ شخص رسالت کے انکار کے در پے نہیں ہے بلکہ اپنی فکری جہالت اور ضعف ناتوانی کی وجہ سے انکار کر رہا ہے تو ایسے شخص کو کافر یا مرتد نہیں کہیں گے۔

توجہ رکھنی چاہئے کہ رسالت پیغمبر کے انکار اور ایسی چیز سے انکار جو رسالت کے انکار کی مستلزم ہو ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔ جو شخص نبی اکرم کی رسالت کا انکار کرتا ہے اسے کافر کہا جائے گا۔ اس میں جاہل قاصر، جاہل مقصر نیز معذور اور غیر معذور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ضروریات دین کی نسبت ایمان تفصیلی واجب نہیں ہے کیونکہ تفصیلی طور پر ضروریات دین پر ایمان لانا حقیقت میں رسالت نبی اکرم پر ایمان لانے کے زمرے میں ہی آتا ہے ۔ضروریات دین کا انکار کرنا مستقل کفر کا سبب نہیں ہے بلکہ ان کے انکار کی بازگشت رسالت نبی اکرم ؐ کے انکار کی طرف ہے۔

پس ان دونوں کے درمیان تفاوت کی وجہ سے یہ دونوں برابر نہیں ہیں پس ضروری دین کا منکر اس وقت کافر کہلائے گا جب ضروری دین کے انکار اور رسالت نبی کے انکار کے درمیان ملازمہ پایا جائے۔ لہذا اگر دونوں کے درمیان ملازمے کو درک نہ کرے اور جہل یا ضعف فکری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو اسے کافر شمار نہیں کریں گے۔[6]

اقسام کفر

علمائے متکلمین نے کفر کی مختلف اقسام ذکر کی ہیں ۔ اس کا ایک نمونہ درج ذیل ہے :[7]

  • کفر انکار: دل و زبان سے انسان خدا یا پیغمبر گرامی کا نکار کرے۔
  • کفر جحود: دل سے ایمان رکھتا ہو لیکن زبان سے انکار کرے۔
وَ جَحَدُوا بِها وَ اسْتَیقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ ظُلْماً وَ عُلُوًّا فَانْظُرْ کیفَ کانَ عاقِبَةُ الْمُفْسِدینَ[8]
انہوں نے ظلم و سرکشی کی وجہ سے انکار کیا ہے حالانکہ انہیں دلی طور پر یقین تھا پس تم تباہ کاروں میں غور و فکر کرووہ کیسے تھے؟
  • کفر عناد: اس قسم میں دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرتا ہے لیکن ہٹ دھرمی اور ضد یا حسد کی وجہ سے اپنی تصدیق اور اقرار پر ایمان نہیں لاتا ہے۔ جیسا کہ ولید بن مغیره کے بارے میں آیا ہے کہ جب آیات قرآن کو رسول اللہ کی زبان سے سنتا تو جانتا تھا کہ یہ شعر اور خطابہ نہیں ہے بلکہمعجزه ہے لیکن پھر بھی انہیں کہتا کہ تم کہو کہ کلام محمد سحر ہے۔[9]
  • کفر نفاق: اس قسم میں زبان سے اقرار کرتا ہے لیکن منافق اپنے اقرار کی نسبت اعتقاد نہیں رکھتا ہے۔

بعض متکلمین نے اپنے آثار میں کفر استخفافی کے نام سے ایک کفر کی قسم مزید ذکر کی ہے۔ دلائل ظاہری کے مقابلے میں اپنی رائے اور فہم کو ترجیح دیتے ہوئے ایک اعتقاد رکھنا مثلا کوئی شخص اپنی رائے اور کج سلیقی کی وجہ سے اعتقاد رکھتا ہے کہ نماز دین کے ضروریات اور رکن میں سے نہیں ہے۔ اسی عقیدے کی وجہ سے وہ نماز کو ترک کرتا ہے۔ پس ایسا شخص اپنی نادرست فہم کی وجہ سے ایسا اعتقاد رکھتا ہے کہ جس کی بازگشت اپنی رائے کی جانب ہے چنانچہ بعض معتقد ہیں کہ شیطان کا کفر اسی باب سے ہے۔[10]

قرآن اور روایات کی روشنی میں اقسام کفر

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کفر کی پانچ اقسام منقول ہیں[11]:

اقسام کفر قرآنی آیات
علم کی بنا پر کفر جحودی وَ لَمَّا جاءَهُمْ کتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ وَ کانُوا مِنْ قَبْلُ یسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذینَ کفَرُوا فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَی الْکافِرینَ (بقرہ89)

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس والی کتاب (توراۃ) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعہ سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (کتاب) ان کے پاس آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو اس کا انکار کر دیا۔ پس کافروں (منکروں) پر اللہ کی لعنت ہو۔)

علم کے بغیر کفر جحودی وَ قالُوا ما هِی إِلاَّ حَیاتُنَا الدُّنْیا نَمُوتُ وَ نَحْیا وَ ما یهْلِکنا إِلاَّ الدَّهْرُ وَ ما لَهُمْ بِذلِک مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلاَّ یظُنُّون(جاثیہ 24)

اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس یہی دنیٰوی زندگی ہے۔ یہیں ہم مرتے ہیں اور یہیں جیتے ہیں اور ہمیں صرف گردشِ زمانہ ہلاک کرتی ہے حالانکہ انہیں اس (حقیقت) کا کوئی علم نہیں ہے وہ محض گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں

کفر برات وَ قالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّـهِ أَوْثاناً مَوَدَّةَ بَینِکمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا ثُمَّ یوْمَ الْقِیامَةِ یکفُرُ بَعْضُکمْ بِبَعْضٍ وَ یلْعَنُ بَعْضُکمْ بَعْضاً وَ مَأْواکمُ النَّارُ وَ ما لَکمْ مِنْ ناصِرین.(عنکبوت25)

اور ابراہیم نے (اپنی قوم سے) کہا کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر زندگانی دنیا میں باہمی محبت کا ذریعہ سمجھ کر ان بتوں کو اختیار کر رکھا ہے پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کروگے اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔

اوامر الہی کے ترک کا کفر فیهِ آیاتٌ بَیناتٌ مَقامُ إِبْراهیمَ وَ مَنْ دَخَلَهُ کانَ آمِناً وَ للَّـهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَیهِ سَبیلاً وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِی عَنِ الْعالَمین(آل عمران 97)

اس گھر میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں (منجملہ ان کے ایک) مقام ابراہیم ہے۔ اور جو اس میں داخل ہوا اسے امن مل گیا۔ اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے اس گھر کا حج کریں جو اس کی استطاعت (قدرت) رکھتے ہیں اور جو (باوجود قدرت) کفر کرے (انکار کرے) تو بے شک خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔

ترک شکر کا کفر قالَ هذا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیبْلُوَنی أَ أَشْکرُ أَمْ أَکفُرُ وَ مَنْ شَکرَ فَإِنَّما یشْکرُ لِنَفْسِهِ وَ مَنْ کفَرَ فَإِنَّ رَبِّی غَنِی کریمٌ(نمل40)

...اس نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے فائدے کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو وہ (اپنا نقصان کرتا ہے) میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے۔

مراتب کفر

بزرگ شیعہ فلسفی صدر المتألہین نے اپنے فلسفیانہ نظریے کی روشنی میں کفر کی یوں تعریف کی ہے: کفر پردے میں چھپ جانا ہے اور حق سے چھپ جانا ہے جس طرح

  1. الصحاح تاج اللغہ و صحاح العربیہ، ذیل واژه.
  2. قاموس المحیط، ج ۲، ماده کفر.
  3. الذخیرة فی علم الکلام، ص ۵۳۴.
  4. الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص ۲۲۷؛ و تمہید الاصول، ص ۶۳۵.
  5. الایمان والکفر فی الکتاب و السنہ، ص۵۳-۴۹
  6. الایمان والکفر فی الکتاب و السنہ، ص۵۴-۵۳
  7. الایمان والکفر فی الکتاب و السنہ، ص ۵۵.
  8. نمل/۱۴
  9. المیزان، ج ۲۰، ص ۹۲.
  10. مشکلات العلوم، ص ۳۵۹.
  11. الکافی، ج۲، ص۳۸۹