یوم التغابن
یوم التغابن (نقصان آشکار ہونے والا دن) قرآن مجید میں قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے۔ قیامت کو یوم التغابن اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن معلوم ہوتا ہے کہ کون گھاٹے میں ہے اور کون فائدے میں۔ ایک روایت کے مطابق بعض مومن بھی اس دن گھاٹے کا احساس کریں گے کہ کیوں نیک اعمال زیادہ انجام نہیں دیا۔
یومالتغابن، قیامت کا ایک نام
«یَوْمُالتَّغابُن» کا لفظ سورہ تغابن کی نویں آیت میں ذکر ہوا ہے اور اسی سبب اس سورت کا نام بھی تَغابُن پڑ گیا ہے۔[1]
یومالتغابن روز قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے[2]اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس دن معلوم ہوگا کہ دنیا کی تجارت میں کس کو نقصان ہوا ہے۔[3]
تغابن کی مختلف تفاسیر
فضل بن حسن طبرسی کی نظر میں تغابن کے معنی غلط چیز کو انتخاب کرنے اور صحیح چیز کو ترک کرنے یا اس کے برعکس کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کافر کو اس لئے مغبون (شکست خوردہ) کہا جاتا ہے کہ وہ اخروی فائدے کو چھوڑ کر دنیوی منفعت حاصل کی ہے۔ اسی طرح مومن کو غابِن (جیتنے والا) کہا گیا ہے؛ کیونکہ دنیوی منفعت کو چھوڑ کر آخرت کے فائدے کو حاصل کیا ہے۔[4]
طبرسی نے یوم التغابن کو وہ دن قرار دیا ہے کہ جس دن معلوم ہوتا ہے کہ کون غابن(فائدے میں) اور کون مغبون (خسارے میں) ہے۔[5]وہ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ بعض مومنین جنت میں داخل ہونگے تو (گناہ کرنے کی صورت میں) جہنم میں اپنی جگہ دیکھ کر اللہ کا شکر کریں گے۔ اسی طرح اہل جہنم بہشت میں اپنی جگہ (گناہ نہ کرتے تو) دیکھ کر کف افسوس مَلتے رہیں گے۔[6]
علامہ طباطبائی اور شہید مطہری تغابن کے ایک اور معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: بعض معاملوں میں دونوں طرف والے نقصان اٹھاتے ہیں مثال کے طور پر، اگر کوئی کسی ظالم شخص کی پیروی کرے، اور اس کی اطاعت کرے اور اس کے مقابلے میں نفع حاصل کرے۔ اس صورت میں قیامت کے دن کہ جو اس آیت میں جمع کا دن ہے، دونوں متوجہ ہوں گے کہ اس معاملہ میں دونوں نے نقصان اٹھایا ہے۔[7]
تغابن کسی کو نقصان پہنچانے کے معنی میں ہو، معاملے میں فریفتہ ہونا یا نقصان اٹھانے اور افسوس کرنے کے معنی میں آیا ہے۔[8] اور آیہ مجیدہ «يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ...»[؟–؟][9] میں غبن کو گھاٹے کا آشکار ہونا[10] یا افسوس کرنے[11] سے معنی کیا ہے۔
بہشتیوں کو گھاٹے کا احساس
بعض تفاسیر کے مطابق قیامت کے دن بعض مومنین کو گھاٹے اور نقصان کا احساس ہوگا کہ دنیا میں ان کے نیک اعمال اور مشکلات کم کیوں ہیں۔ کیونکہ قیامت کے دن اس کا نتیجہ دیکھیں گے اور ہاتھ سے نکل جانے والی فرصت پر حسرت کھائیں گے۔[12]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۶.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۴، ص۱۹۴.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۴، ص۱۹۴.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۱۰، ص۴۵۰.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۱۰، ص۴۵۰.
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۱۰، ص۴۵۰.
- ↑ مطہری، آشنایی با قرآن، انتشارات صدرا، ج۷،ص۱۵۰؛ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ھ، ج۱۹، ص۳۰۱.
- ↑ فرہنگ معین، «غبن» کا لفظ
- ↑ سورہ تغابن، آیہ ۹.
- ↑ حسینی ہمدانی، انوار درخشان، ۱۴۰۴ھ، ج۱۶، ص۳۹۹-۴۰۰.
- ↑ فولادوند، ترجمہ قرآن کریم، ذیل آیہ ۹ سورہ تغابن.
- ↑ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۹، ص۳۲۸؛ طیب، أطیب البیان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۸ش، ج۱۳، ص۴۰.
مآخذ
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ہجری۔
- حسینی ہمدانی، سید محمدحسین، انوار درخشان، تحقیق: محمدباقر بہبودی، تہران، کتابفروشی لطفی، ۱۴۰۴ہجری۔
- دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷شمسی ہجری
- طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، ۱۴۱۷ہجری۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری
- طیب، سید عبد الحسین، أطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلام، ۱۳۷۸شمسی ہجری
- مطہری، مرتضی، آشنایی با قرآن، قم، انتشارات صدرا، ۱۳۸۴شمسی ہجری
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴شمسی ہجری
- معین، محمد، فرہنگ معین.