شہید اول
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | شمس الدین محمد بن مکی بن محمد شامی عاملی |
لقب/کنیت | "ابن مکی"، "امام الفقیہ"، "شہید" یا "شہید اول"،"شیخ شہید" |
نسب | محمد بن جمال الدین مکی بن شمس الدین محمد بن حامد |
آبائی شہر | جزّین، جبل عامل |
تاریخ وفات | 786ھ |
مدفن | شہادت کے بعد ان کی میت کو جلایا گیا۔ |
نامور اقرباء | شہید ثانی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | فخر المحققین بن علامہ حلی، اسد الدین صائغ جزینی، عبد الحمید بن فخار موسوی، نجم الدین جعفر بن نما حلی، سید مہنا بن سنا مدنی، سید عمید الدین بن عبد المطلب حلی، سید ضیاء الدین عبداللہ حلی، سید تاج الدین بن زہرہ حسینی، سید علاء الدین بن زہرہ حسینی، شیخ علی بن طران مطارآبادی، شیخ رضی الدین علی بن احمد مزیدی، شیخ جلال الدین محمد حارثی، ابن المشہدی اور شیخ قطب الدین محمد بویہی رازی۔ |
شاگرد | شہید کے تین فرزند "شیخ محمد، شیخ على اور شیخ حسن"، زوجہ "ام على" اور بیٹی "ست المشائخ"، سید ابو طالب احمد بن قاسم بن زہرہ حسینی، شیخ عبد الرحمن عتائقی، فاضل مقداد، ابن نجدہ، شیخ حسن بن سلیمان حلی، سید بدر الدین حسن بن ایوب، على بن خازن حائرى۔ |
تالیفات | اللمعۃ الدمشقیۃ، الدروس، الذکری، النفلیہ، البیان، الاربعون حدیثا، مسائل ابن مکی، العقیدۃ الاسلامیہ، اختصار الجعفریات، جواز ابداع السفر فی شہر رمضان، جامع البین من فوائد الشرحین، غایۃ المراد، القواعد الکلیۃ فی الأصول و الفروع، حاشیۂ شرح ارشاد، حاشیۂ قواعد علامہ، خلاصۃ الاعتبار فی الحج و الاعتمار، المزار، الدرۃ الباہرہ۔ |
خدمات |
ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن مکی بن محمد شامی عاملی جزینی (734۔786 ھ)، شہید اول یا شیخ شہید کے نام سے مشہور آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقہاء میں سے ہیں۔ وہ مذاہب اہل سنت کی فقہ میں بھی استاد مسلّم تھے اور انہوں نے مختلف اسلامی سرزمینوں کا سفر اختیار کرکے متعدد اجازے حاصل کئے تھے۔ وہ کتاب لمعہ دمشقیہ کے مصنف ہیں۔ وہ 786 ہجری میں تشیع کے مخالفین کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
تعارف
ولادت اور نسب
شہید اول سنہ 734 ہجری لبنان کے علاقے جبل عامل کے ایک قریہ "جزین" میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد کا نام جمال الدین مکی بن شمس الدین محمد بن حامد تھا۔[1]
القاب
مآخذ و مصادر کے مطابق وہ ابن مکی، امام الفقیہ، شہید یا شہید اول[2] اور شیخ شہید جیسے القاب سے پہچانے جاتے ہیں۔
خاندان
شہید اول کے افراد خاندان سب اہل علم و فضل اور اپنے زمانے کے علماء میں سے تھے۔ شہید کے تینوں بیٹے "شیخ رضی الدین"، "شیخ ضیاء الدین" اور "شیخ جمال الدین" علماء اور فقہاء کے زمرے میں آتے ہیں۔[3] شہید اول کی زوجہ مکرمہ بھی خود فقہاء اور معارف و تعلیمات اہل بیت کے مروجین و مبلغین میں سے تھیں۔[4] شہید اول کی بیٹی "امّ حسن" ـ جن کا نام "فاطمہ" تھا، جبل عامل کے علماء میں شمار ہوتی تھیں جنہیں "ست المشائخ" کا لقب دیا گیا ہے۔[5]
علمی شخصیت
شہید اول علامہ حلی کے فرزند فخر المحققین کے شاگرد تھے۔
فقہ میں ان کی معروف کتب میں سے ایک کا نام لمعہ دمشقیہ (کتاب) ہے جو انھوں نے بہت مختصر مدت میں تصنیف کی ہے۔ کتاب کی تالیف کے دو صدیاں بعد ایک مشہور اور عظیم شیعہ فقیہ نے اس پر شرح لکھی اور وہ بھی شہید اول کے انجام سے دوچار ہوکر شہید ہوئے اور شہید ثانی کہلائے۔
شہید اول کی تمام کتابیں گراں قدر فقہی تالیفات میں شمار ہوتی ہیں۔ محقق حلی، علامہ حلی وغیرہ جیسے فقہاء اور علماء کی کاوشوں کی طرح، شہید اول کی کتابوں پر مختلف اداوار کے علماء اور فقہاء نے شرحیں اور حاشیے لکھنے کا اہتمام کیا ہے۔
ساتویں آٹھویں صدی ہجری کے محقق حلی، ان کے بھانجے علامہ حلی نیز شہید اول کی فقہی کتب شیعہ فقہاء کے درمیان فقہی متون کی صورت اختیار کر گئی ہیں اور بعد کے علماء نے ان پر شروح اور حواشی لکھے ہیں اور یہ موضوع اس زمانے تک بے مثل تھا اور صرف حالیہ ایک صدی کے دوران شیخ مرتضی انصاری (جو تقریبا 140 سال قبل دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) کی دو کتابوں فرائد الاصول اور مکاسب کی حالت یہی رہی ہے۔
مشاہیر کے کلام میں
علامہ امینی انہیں شیعیان اہل بیت کا ملجا اور شریعت کا پرچمدار قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: ان کے علمی اور فقہی نظریات علماء کی فقہی آراء کا سرچشمہ اور ان کے عقائد کا نقطہ استناد ہے اور فقہ و اصول میں ان کی شہرت نیز علوم کی ترقی میں ان کا کردار، اس سے کہیں زیادہ روشن و آشکار ہے کہ اس کے لئے شرح و بیان کی ضرورت ہو۔[6]
محمد باقر خوانساری کہتے ہیں: فقہ اور قواعد احکام میں شہید اول کا مقام و مرتبہ نقل احادیث اہل بیت میں شیخ صدوق جیسا اور اصول عقائد اور کلام اور مباحثے اور مناظرے نیز انحرافی افکار پر تنقید میں شیخ مفید اور سید مرتضی کی مانند ہے جبکہ نامی گرامی شاگردوں کی کثرت کے لحاظ سے شیخ طوسی کی طرح اور فقہی مباحث کی تشریح و توضیح میں ابن ادریس حلی جیسا، اور شرعی اسرار و آداب کی ترویج اور انحرافی تفکرات، اوہام اور خرافات کے خاتمے میں علامہ مجلسی اور وحید بہبہانی کی مانند ہیں۔[7]
شیعہ علم رجال کے ماہر مصطفی بن حسین تفرشی لکھتے ہیں: محمد بن مکی بن حامد عاملی معروف بنام شہید اول، اہل تشیع کے شیخ، استاد، اپنے زمانے کے علامہ فہامہ اور صاحب تحقیق و تدقیق تھے۔ وہ مذہب امامیہ کے عالی رتبہ علماء اور ان کے موثقین اور معتمدین میں سے ہیں اور ان کی تالیفات پاکیزہ اور تصنیفات عمدہ ہيں۔[8]
اساتذہ
شہید اول نے متعدد اکابرین سے فیض حاصل کیا ہے جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
- فخر المحققین ابن علامہ حلی
- اسد الدین صائغ جزینی
- عبد الحمید بن فخار موسوی
- جعفر بن نما حلی
- سید مہنا بن سنا مدنی
- سید عمید الدین بن عبد المطلب حلی
- سید ضیاء الدین عبداللہ حلی
- سید تاج الدین بن زہرہ حسینی
- سید علاء الدین بن زہرہ حسینی
- شیخ علی بن طران مطار آبادی
- شیخ رضی الدین علی بن احمد مزیدی
- شیخ جلال الدین محمد حارثی
- شیخ محمد بن جعفر مشہدی المعروف بہ ابن المشہدی
- شیخ قطب الدین محمد بویہی رازی، شارح شمسیہ۔[9]
شاگرد
شہید اول کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے مكتب علم و اجتہاد کے پرورش یافتگان کی تعداد کثیر ہے جن میں سے صرف بعض کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں کیا جا سکتا ہے:
- شہید کے تین فرزند شیخ محمد، شیخ على اور شیخ حسن
- زوجہ ام على اور بیٹی ست المشائخ
- سید ابو طالب احمد بن قاسم بن زہرہ حسینی
- شیخ عبد الرحمن عتائقی
- شیخ شرف الدین ابو عبداللہ مقداد المعروف بہ فاضل مقداد
- شیخ محمد بن تاج الدین عبد علی المعروف بہ ابن نجدہ
- صاحب کتاب مختصر بصائر الدرجات شیخ حسن بن سلیمان حلی
- سید بدر الدین حسن بن ایوب
- شیخ زین الدین على بن خازن حائرى۔[10]
تألیفات
- اللمعۃ الدمشقیۃ
- الدروس
- الذکری
- النفلیہ
- البیان
- الاربعون حدیثا
- مسائل ابن مکی
- العقیدۃ الاسلامیہ
- اختصار الجعفریات؛
- جواز ابداع السفر فی شہر رمضان
- جامع البین من فوائد الشرحین
- غایۃ المراد
- القواعد الکلیۃ فی الأصول و الفروع
- حاشیۂ شرح ارشاد
- حاشیۂ قواعد علامہ؛
- خلاصۃ الاعتبار فی الحج و الاعتمار
- المزار
- الدرۃ الباہرہ جو شہید اول سے منسوب ہے۔[11]
شہادت
شہید اول کو 9 جمادی الاول بروز پنج شنبہ سنہ 786 ہجری میں برقوق کی بادشاہت کے دور میں قاضی برہان الدین مالکی اور عباد بن جماعہ شافعی کے فتوے کے تحت قلعۂ شام کے قید خانے میں ایک سال تک قید و بند کی صعوبتوں کے بعد شہید کیا گیا۔[12] شیخ حر عاملی ان کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں: شہید اول کو تلوار سے وار کرکے شہید کیا گیا، پھر پھانسی پر لٹکایا گیا، پھر سنگسار کیا گیا اور ان کی میت کو نذر آتش کیا گیا۔[13]
حوالہ جات
- ↑ شهید اول، الالفیہ والنفلیہ، ص23۔
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج2، ص273۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص134 و 179۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ، ج1، ص193۔
- ↑ شہید اول، الدروس الشرعیہ، ج1، ص140۔
- ↑ امینی، شهیدان راه فضیلت، ص154۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج7، ص4۔
- ↑ تفرشی، نقدالرجال، ج4، ص329۔
- ↑ شہید اول، الالفیہ والنفلیہ، ص25۔
- ↑ شہید اول، الالفیہ والنفلیہ، ص25۔
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج10، ص62۔
- ↑ شہید اول، اللمعہ الدمشقیہ، ص6۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص182۔
مآخذ
- امینی نجفی، عبد الحسین صاحب الغدیر، شہیدان راہ فضیلت، ناشر: نجف، 1355 ہجری/1936عیسوی
- تفرشی، مصطفی بن حسین، نقد الرجال، محقق و ناشر: مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، قم، 1418 ہجری
- شہید اول، محمد، الالفیہ والنفلیہ، مکتب الإعلام الإسلامی، 1408 ہجری
- شہید اول، محمد، اللمعہ الدمشقیہ، قم، دار الفکر، 1411 ہجری
- شہید اول، محمد، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، جامعہ مدرسین
- امین عاملی، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف
- خوانساری، محمد باقر بن زین العابدین، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان
- حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بغداد، مکتبہ الأندلس