غسلین

ویکی شیعہ سے

غِسْلین قرآن کریم کے مطابق وہ کھانا ہے جو، اہل جہنّم کو کھلایا جائے گا۔ یہ لفظ 'پیپ' کے معنی میں ہے اور صرف ایک بار قرآن کریم میں آیا ہے۔ سورہ حاقہ کی 36ویں آیت میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس سورہ میں آیا ہے کہ اہل جہنم کے پاس غسلین کے علاوہ کھانے کی کوئی دوسری چیز نہیں ہوگی۔ امام حسین ؑ کی زیارتوں میں سے ایک زیارت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ جہنم میں پیغمبر اسلام ؐ اور اہل بیت ؑ کے دشمنوں کی غذا غسلین ہے۔

معنی

راغب اصفہانی، غسلین کو چرکاب بدن‌ یعنی جسم کا پیپ بتاتے ہیں جو کہ جہنم میں کفار کی غذا ہوگی۔[1] مفسرین قرآن نے اسکو پیپ اور گندہ خون کے معنی میں لیا ہے جو کہ اہل جہنّم کے بدن سے رس رس کے بہے گا۔[2]

قرآن کریم میں غسلین کا ذکر

غسلین کا تذکرہ صرف ایک بار اہل دوزخ کی غذا کے عنوان سے قرآن کریم میں آیا ہے۔ قرآن کریم کےسورہ حاقہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ جہنم میں گنہگاروں اور مجرموں کو غسلین کے علاوہ کچھ کھانے کو نہیں ملے گا: «وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِینٍ۔ لَا یأْکلُہ إِلَّا الْخَاطِؤُونَ»[؟؟] (پیپ کے علاوہ ان کی کوئی غذا نہیں ہے اسکو صرف گنگار کھائیں گے)۔[3]

جہنّمیوں کی غذا

سورہ غاشیہ کی آیہ 6 میں جہنّمیوں کی غذا کے متعلق آیا ہے: «لَیسَ لَہمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِیعٍ»[؟؟] یعنی: ان کا کھانا سوکھے ہوئے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شیعہ مفسرین اس سوال کے جواب میں مختلف جوابات دیتے ہیں۔ ان کی تمام باتوں سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ جہنّم کے مختلف طبقے ہیں اور ان طبقوں میں سے ہر طبقہ کے لئے ان کی الگ الگ مخصوص غذا ہے۔[4]

احادیث میں میں غسلین کا ذکر

دوزخ کےفرشتے، جہنّمیوں کے بدن سے رسنے والے گندے خون اور پیپ کو جمع کریں گے اور گنہکار جہنّمیوں کو کھلائیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ اگر غسلین کی ایک بالٹی عالم شرق میں انڈیل دی جائے تو اس کے اثر سے عالم مغرب کے لوگوں کی کھوپڑی ابل پڑے گی۔[5] تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں ہے کہ حقوق آل محمد (علیہم السلام) کے غاصبوں کا شمار ان جہنّمیوں میں ہوتا ہے جن کی غذا غسلین ہوگی۔[6] حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی ایک زیارت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کی غذا جہنّم میں غسلین ہوگی۔[7]

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ھ، ذیل واژہ غسل، ص۶۰۷۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۳ش، ج۲۴، ص۴۷۱۔
  3. سورہ حاقہ، آیہ ۳۷ و ۳۸۔
  4. مکارم، تفسیر نمونہ، ج۲۴ ص۴۷۴
  5. شیخ طوسی، أمالی، ۱۴۱۴ھ، ص۵۳۳، ح۱۱۶۲۔
  6. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۰۴ ھ، ج۲ ص۳۸۴۔
  7. شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۵۷۔

مآخذ

  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان الداودی، بیروت،‌دار القلم، ۱۴۱۲ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ‌، تہران، ‌دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۳ش۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب، ۱۴۰۷ھ۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی، قم، دارالثقافہ، ۱۴۱۴ھ۔
  • قمی،علی بن ابراہیم, تفسیر القمی, قم دارالکتاب،۱۴۰۴ھ۔